سیاسی اشرافیہ کی جوڑ توڑ تقسیم کشمیر کو مضبوط کرتی ہے۔

سچ تو یہ ہے،

بشیر سدوزئی
=============

duzai
ریاست جموں و کشمیر کی قسمت میں اگر تقسیم ہی لکھا تھا، تو پونی صدی تک انتظار اور کشمیریوں کو زخمی کر کے ہی کیوں؟۔ اس کا فائدہ کس کو ہو گا اور خسارے میں کون جائے گا یہ اس وقت بہت بہتر معلوم ہو گا جب دریا جہلم اور کشن گنگا سوکھ جائیں گے۔ لیکن کشمیریوں کے لیے یہ بہت مہنگا کام ہو گا۔ ان کی نوجوان نسل گئی، عزتیں، عصمتیں گئیں، وقار و اختیار گیا۔ کچھ بھی نہیں بچا جس پر کشمیریوں کو ناز ہو۔ اب تو علی ہمدانی کا سرامکس اور پیرزادہ غلام احمد مجہور کی زبان بھی چھینی جا رہی ہے۔ پھیرن اور کانگڑی پر پابندی ہے۔ سری نگر میں گوشتہ باہ ناپید اور بمبئی بریانی اور دہلی کی حلیم کی فراوانی ہوا کرے گی۔ کشمیریوں کا اب کچھ بھی اپنا نہیں رہا، ہر گھر میں ایک کنن پوش پورہ ہے جو سوال کرتا ہے اگر کرنا تھا تو یہی کام 1947ء میں ہی کر لیا ہوتا۔ 1989ء میں نوجوانوں کو اکسانے کی کیا ضرورت تھی جو 30 برسوں میں چھوٹی سی قوم کی تین نسلیں ختم کرا دیں اور آپ پیچھے ہٹ گئے۔ ہم کنن پوش پورہ کے داغ کو کیسے دھوئیں۔ یہ تو اب ہمارے ساتھ چلے گا نسل در نسل۔ یہ ایسا زخم ہے کہ بھرنے والا نہیں، جب کوئی کریدے گا، خون رسے گا۔ دختر کشمیر معروف صحافی نعیمہ احمد مجہور پانچ سال بعد آبائی وطن کشمیر پہنچی تو سب کچھ بدلا پایا۔2020ء میں بھی ایک کالم میں کشمیر کی اس بیٹی نے لکھا تھا کہ “مودی کا تجربہ کشمیر میں ناکام رہا” لیکن اب کے بار یہ تجربہ اسے کامیاب لگا۔ وہ 5 اگست 2019ء کے بعد کشمیر سے نکلی تھی اور 9 اپریل 2024ء کو سری نگر اتری۔ 12 اپریل کو ان کا کالم انڈی پنڈنٹ اردو میں شائع ہوا۔ اگر کسی کے جسم میں دل ہے اور دل کے کسی کونے میں کشمیر کا درد ہے تو وہ یہ کالم ضرور پڑھے، لگ پتہ جائے گا کہ پانچ سال میں کیا سے کیا ہو گیا۔ کہاں 1990ء کہ یوم آزادی پر ترنگا لہرانے کے لیے سرکاری تقریب سنگینوں کے پہرے میں ہوتی تھی اور کہاں آج کہ ہر گھر اور ہر دوکان پر ترنگا لہرانا تحفظ کی علامت ہے۔ مودی نے کشمیر میں یہ طاقت مستقل تقسیم پر رضامندی یا اس کی مکمل حمایت کے بعد ہی پکڑی۔ مودی کو یہ حمایت کس نے دی یہ اب کوئی پوشیدہ راز نہیں رہا، پاکستان کے کئی معروف صحافی بتا چکے۔ یہ تو اٹل حقیقت ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر سے اب آزادی کی کسی تحریک کو کھڑا ہونا ممکن نہیں رہا، سوائے اس کے کہ کوئی موجزا ہو جائے۔ اگر آزاد کشمیر کو بیس کیمپ کے طور پر استعمال کیا جاتا جیسا کہ کے ایچ خورشید نے نظریہ پیش کیا تھا تو آج بھارت کشمیر پر قبضہ کرنے کی پوزیشن میں ہر گز نہ ہوتا۔ آزاد جموں و کشمیر کی سیاسی قیادت ساری دنیا میں اسے رسوا کرتی۔ آزاد کشمیر کے ساست دان ابھی بھی مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پر بیان بازی کرنے کی جرات کرتے ہیں۔ تاہم، سچائی واضح ہے کہ خودہی بولتےاور خود ہی پڑھتےہیں۔ ان کا بیان، آزاد کشمیر کے اخبارات میں ہی شائع ہوتا ہے جو دریا جہلم کے اس پار ہی پڑھے جاتے ہیں۔ بین الاقوامی کیا پاکستانی میڈیا کو بھی اس سچ کا علم ہے کہ آزاد کشمیر کی پوری سیاسی اشرافیہ، تینوں پاکستانی سیاسی جماعتوں اور مقامی چھوٹے چھوٹے دھڑوں پر مشتمل ہے جن کے پاس کشمیری عوام کی وکالت کا اختیار نہیں یا وہ یہ ذمہ داری اٹھانا نہیں چاتے۔ مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام کی وکالت کی ذمہ داری وہ کشمیری بھی نہیں لینا چاتے جو وہاں سے ہجرت کرکے آج پاکستان یا دنیا بھر میں ارب پتی بن چکے۔ کشمیریوں کی وکالت کی ذمہ داری پاکستانی حکومت نے لے رکھی ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان کے وزیر خارجہ کو کشمیریوں کے دکھ درد کی فکر مندی سے زیادہ بھارت کے ساتھ آلو پیاز کی تجارت میں بھلا نظر آتا ہے۔ آزاد کشمیر کے سیاست دانوں نے ریاست کی ایک چھوٹی سی پٹی کو مقامی اتھارٹی کے طور پر برقرار رکھا۔ ان حالات میں یہ بھی غنیمت ہے اور کچھ امید باقی رہتی ہے کہ کبھی کسی کو خیال آ جائے، تو حالات پھر موافق ہو جائیں۔ اس کے لیے غزہ کی پٹی کی طرح یہ پٹی ہی کام آئے گی لیکن وہ وقت کب آئے گا بس ایک خواب سا رہ گیا ہے جس کی تعبیر کی کوئی امید نہیں رہی۔ کشمیر کے سیاست دانوں کا بین الاقوامی سطح پر کشمیریوں کی بات کرنے کے اختیار سے انکار کا یہ موقف 5 اگست 2019 کو کشمیر کے بھارت کے زبردستی الحاق کے دوران بھی برقرار رہا، جس نے اس کی خصوصی حیثیت اور آرٹیکل 35A کو منسوخ کر دیا۔ خصوصی حیثیت کے خاتمے کی کوئی زیادہ اہمیت نہیں، لیکن 35A سے بڑا نقصان ہوا، اور اسی نقصان کو نعیمہ احمد مجہور نے دیکھا اور پہلی مرتبہ بدلا ہوا کشمیر پایا۔ اس قانون سازی سے ہی بھارت نے آبادیاتی تبدیلیوں کو آسان بنایا۔،اور اب تک 40 لاکھ غیر کشمیری ہندوتوا کے کارندوں کو آباد کر چکا۔ نعیمہ احمد مجہور کو سری نگر ائرپورٹ کے باہر ہجوم میں بھی کشمیریت نظر نہیں آئی اور نہ سری نگر کے مصروف بازاروں میں۔ وہ کہتی ہیں کہ اکثریت ہندی یا اردو بولتے سنی گئی۔ حتی کہ کوئی کشمیری بھی، اس سے کشمیری میں بات کریں تو مسکراتا ہے۔ نعیمہ سارا رستہ 1990ء کی دہائی کے سری نگر کو تلاش کرتی رہی جہاں درو دیواروں پر مین اسٹریم قیادت کے علاوہ حریت کانفرنس کی قیادت کی قدآور تصاویر آویزاں اور نعرے درج ہوتے تھے بالکل صاف ہیں ۔ ترنگا جب سرکاری عمارتوں پر نظر آتا تھا اب گھروں پر پھڑپھڑاتا ہے۔ وادی میں مسلم آبادی کو اقلیت میں تبدیل کرنے کا عمل شروع ہو چکا، بھارت جس انداز میں باہر سے لائے ہوئےنان اسٹیٹ ایکڑ ہندوتوا کو ولیج تحفظ کمیٹی کے نام پر مسلح کر رہا ہے، یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ جموں ریجن کی طرح کسی بھی وقت ہندوؤں مسلم فسادات کرا کر مسلمانوں کی نسل کشی شروع کی جا سکتی ہے۔ جمو ں میں 69 فی صد مسلم آبادی تھی، جس کو چند مہینوں میں ہی اقلیت میں تبدیل کردیا گیا۔ روزنامہ دی ٹائمز، لندن کی 10؍اگست 1948ء کی ایک رپورٹ کے مطابق: ’’ان فسادات میں چند ماہ کے اندر 2 لاکھ 38 ہزار افراد ہلاک ہوئے‘‘۔ وادی کشمیر کے مسلمان دس لاکھ فوجیوں سمیت پیرا ملٹری فورسز، کشمیر پولیس اور ہندوتوا مسلح ولیج تحفظ کمیٹوں کے غنڈوں کے محاصرے میں ہیں جس کی مجموعی تعداد 15 لاکھ سے زائد ہے۔ گھروں پر بڑے پیمانے پر حملے، بچوں اور نوجوانوں کے اغوا، خواتین کے اجتماعی آبروریزی، اور نسل کشی کے بڑھتے ہوئے خطرے کے ساتھ ان سے مزید کسی انقلابی تحریک کی توقع رکھنا ہی غلط سوچ ہے۔ ان حالات میں مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کی نظریں اور توقعات آزاد کشمیر کے عوام پر لگی ہوئی ہیں۔ لیکن آزاد کشمیر کی سیاسی اشرافیہ نے بین الاقوامی سطح پر مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کے لیے بولنے سے انکار کو بڑے احتیاط سے ترتیب دیا ہے۔ انہوں نے کشمیریوں کو مکمل اندھیرے میں رکھتے ہوئے کشمیر کی تقسیم کو پہلے ہی قبول کر دیا تھا جب کشمیر کے سرحدی علاقے گلگت بلتستان کو اس سے کاٹا گیا۔ اسی کا تسلسل تھا کہ 5 اگست 2019ء کے بعد آزاد کشمیر کی سیاسی اشرافیہ نے اپنی دھن ہی بدل لی ہے۔ حتی کہ اس مشکل موقع پر وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر خان سیرسپاٹے پر بیرون ممالک چلے گئے یا بھیج دیئے گئے تھے۔ اب یہ اشرافیہ کشمیر کاز کو پکار تو ضرور رہی ہے ، لیکن اس کے عوام کی آزادی اور زندگی کو آسان بنانے کے لیے نہیں، بلکہ اپنے سیاسی مفادات کے لیے۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کی تشویش کشمیر میں ضائع ہونے والی جانوں کے گرد کم اور جمود کو برقرار رکھنے کے بارے میں زیادہ ہے۔ ان کے لیے، کشمیر میں خونریزی سیاسی تقویت کا کام کرتی ہے، جو ان کے سیاسی ایجنڈوں کو ہوا دیتی ہے۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ مہاجرین مقبوضہ کشمیر کے نام پر منتخب ہونے والے 12 نمائندوں سمیت آزاد کشمیر کی سیاسی اشرافیہ حقیقی طور پر مقبوضہ کشمیر کی نمائندگی نہیں کرتے۔ تاہم، یہ تسلیم کرنا بہت ضروری ہے کہ اس منافقانہ طرز عمل کے کوئی مثبت نتائج برآمد نہیں ہوں گے ۔ بلکہ یہ منافقانہ عمل کشمیر کے دو حصوں کے درمیان تقسیم کو مزید گہرا کرتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے عوام آزاد کشمیر کے سیاست دانوں کے خود غرضانہ محرکات سے بخوبی واقف ہو چکے، جنہوں نے ہر دور میں انہیں دھوکہ ہی دیا بلکہ ان کے نام پر مال متاع جمع کرتے رہے۔ آزاد کشمیر کی سیاسی اشرافیہ کی طرف سے یہ جوڑ توڑ بداعتمادی کو گہرا کرتا ہے اور کشمیریوں کے درمیان خلیج مذید پختہ اور تقسیم کشمیر کے عمل کو مضبوط کرتا ہے۔ قوم ڈائس پورا میں پھیلے کشمیریوں سے توقع کرتی ہے کہ وہ منظم ہو کر سکھوں کی طرز پر کسی سیاسی تحریک کو منظم کریں گے جس کی دنیا بھر میں ممبر شپ کی رجسٹریشن کے بعد از خود رائے شماری یا ریفرنڈم کی کارروائی مکمل کی جائے اور اسی کو اقوام متحدہ میں پیش کیا جائے۔ بین الاقوامی سطح پر کوئی مضبوط سیاسی تحریک ہی بھارت کو مجبور کر سکتی ہے میز پر آنے کے لیے، لیکن مختلف گروہوں اور منتشر خیال کشمیریوں کے لیے اس طرح کے پلیٹ فارم پر جمع ہونا فی الحال عبث ہے۔ جس قوم کی قیادت اپنی نہ ہو، کیا تحریک اور کیا آزادی۔