بھارت کے ساتھ تجارت میں جلدی۔ آزاد کشمیر ہمارا ہے۔ راج ناتھ


سچ تو یہ ہے،

بشیر سدوزئی،

اسلام آباد میں اک طرفہ تماشا ہے، حکمرانوں کو سمجھ ہی نہیں آرہی کہاں سے شروع کریں اور کہاں ختم کریں۔ اوٹ پٹانگ بیانات دے کر اپنی بھی بے عزتی کراتے ہیں اور ملک کی بھی جگ ہنسائی۔ ان کے بیانات ہی ان کی بوکھلاہٹ کی چغلی کھاتے ہیں۔ اپنی ہی نہیں ملک کی عزت کا بھی جنازہ نکال رہے ہیں۔ ایک اخبار کی سرخی کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف صاحب کہتے ہیں “کشکول لے کر نہ بھی جائیں، پھر بھی لوگ شک کرتے ہیں کہ کشکول ان کے بغل میں ہو گا ” وزیر اعظم کو سچا ہونا چاہئے لیکن اتنا بھی نہیں کہ قوم کی عزت نفس ہی داو پر لگا دیں یا جس سے معاشرے میں فتور پھیلے۔ اگر واقعی یہ سچ ہی ہے اور بولنے میں ملک اور قوم کی کچھ بھلائی مقصود ہے، تو پھر یہ سوال اٹھتا ہے کہ یہ سچ کس کو سنایا جا رہا ہے۔ ملک کی یہ حالت کس نے بنائی ۔ 5 جولائی 1975ء کے بعد انہی کی حکومت چلی آ رہی ہے جو آج سسٹم میں شامل ہیں۔ کبھی ایک حکومت میں رہا، کبھی دوسرا اور کبھی تیسرا، اب سارے مجتمع ہیں، لیکن حکومت اور ملک اب بھی نہیں چل رہا۔ البتہ ان کا کاروبار زندگی پہلے کی طرح اب بھی چمک رہا ہے۔ اسٹیل مل، پی آئی اے، پاکستان ریلوے اور بلدیاتی اداروں سمیت سرکار میں نااہل ملازمین اور بغیر میرٹ کے افسران بھرتی کر کے ان اداروں کا بیڑا کس نے غرق کیا۔ بڑے قومی اداروں میں ریٹائرڈ افسران کو کون تعینات کرتا رہا۔ جنہوں نے منافہ بخش اداروں کو ہی کنگال کر لیا۔ ادارے غریب اور حکمران امیر کا کھیل کب شروع ہوا اور کب سے جاری ہے، یہ تو بلیک اینڈ وائٹ میں موجود ہے۔ اس میں رونا دھونا کیا۔ اس سب صورت حال میں شکایت کس سے کی جا رہی ہے اور شکایت کا انداز کیسا ہے،
“آپ ہی اپنی اداوں پر ذرا غور کریں،
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی”
سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ کیوں کہہ رہے ہیں، کس سے کہہ رہے ہیں اور کس وقت کہہ رہے ہیں، قوم یہ سننے کے لیے تیار نہیں بلکہ قوم یہ سننے چا رہی ہے کہ دنیا نہیں مانتی تھی کہ ہم نے کشکول چھوڑ دیا، دنیا سے منوانے کے لیے ہم نے کشکول توڑ دیا۔ آج جب آپ کی حکومت ہے اور حکومت بھی آپ نے زبردستی میں حاصل کی، اس حکومت میں جو حال حوال آپ قوم کو بتا رہے ہیں اس میں بھی آپ نے پرانی روش جاری رکھی ہوئی ہے۔ علیم خان کو پارک ویو ہاؤسنگ سوسائٹی کے لیے 11 ہزار ایکڑ سونے جیسے زمین فی سبیل اللہ کس نے الائٹ کی۔ ایک وزیر کے بچوں کی خاطر ملک کے نامور تعلیمی ادارے ایچی سن کو کون تباہ کر رہا ہے۔ مریم بی بی کے داماد کے بجلی گھر کی تکمیل کی خاطر ملک کی عزت کا جنازہ نکال کر اور کشمیریوں کے خون کا سودا کر کے بھارت سے تجارت کی بحالی کی کس کو جلدی ہے۔ یہ سب اقدامات وہی ہیں جو ہم 1977 سے دیکھتے آئے ہیں۔ ملک نیچے جا رہا ہے اور حکمران اوپر، لیکن اقدامات وہی ہو رہے ہیں تو پھر باقی کیا بچے گا۔ مودی کابینہ کے اہم ترین رکن راج ناتھ سنگھ تو آزاد کشمیر کے حوالے سے دوچار روز بعد بیان دیتے ہی رہتے ہیں لیکن ان کا تازہ بیان خطرے کی گھنٹی ہے جس میں اس نے آزاد کشمیر پر اطمینان کا اظہار کیا کہ بھارت کو وہاں حملہ کرنے کی ضرورت نہیں پاکستان ہی ایسے اقدامات کر رہا ہے کہ عوام ہمیں خود دعوت دے گی۔ انہی کالموں میں گزشتہ کئی برسوں سے لکھا جا رہا ہے کہ آزاد کشمیر میں را سرگرم ہے۔ ان سرگرمیوں کی نشان دہی بھی کی گئی۔ لیکن کسی نے کوئی توجہ نہیں دی۔ اب پاکستانی حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں کے باعث حالات بلوچستان اور فاٹا کے حالات کی طرح ہونے کے خطرات پیدا ہو رہے ہیں۔ 76 سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی بین الاقوامی فورم پر آزاد جموں و کشمیر کے مسائل پر گفتگو ہوئی جس میں پاکستان کو ہدف بنایا گیا۔ یہ شروعات ہیں اگر یہ جاری رہتی ہیں تو پاکستانی سفارت کار اس کا موثر جواب نہیں دے سکیں گے۔ڈایسپورہ میں کشمیری تین طرح کی سوچ پر متحرک ہیں(1) مقبوضہ کشمیر میں بنیادی حقوق کی پامالی کے خلاف سرگرم گروپس جنہیں پاکستان کی سرپرستی حاصل ہے۔ لیکن ان کے درمیان یکجہتی نہیں اور وہ بہت زیادہ موثر بھی نہیں اس کی بڑی وجہ یہ کہ وہ اسلام آباد کی انتظار میں رہتے ہیں کہ کیا حکم آتا ہے جس کو آگئیں کرنا ہے۔ ان کا کام ڈاک خانہ سے زیادہ نہیں اور نہ وہ مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کو موثر طریقہ سے اٹھاتے ہیں ۔ اسلام آباد میں موجود حریت کانفرنس کی بھی یہی صورت حال ہے۔ اسلام آباد میں کشمیر پر پالیسیوں میں بدلتے موسم کی طرح تبدیلی آتی ہے۔ لہذا اس گروپ کا بین الاقوامی اداروں میں خاص اثر نہیں۔(2 ) یہ دوسرا گروپ ریاست کی آزادی اور یکجہتی کے لئے سرگرم ہے لیکن اس کا برا حال ہے جس کے پاس تھوڑے سے وسائل اور بولنا آ گیا اس نے ایک خود مختاری گروپ قائم کر لیا جس کی وجہ سے اس گروپ کے کارکن مخلص ہونے کے باوجود کوئی قیادت نہیں اور اسی باعث آج تک موثر آواز نہیں پیدا ہو سکی۔ (3) تیسرا گروپ انڈیا کی سرپرستی میں کام کرنے والے مختلف گروہوں کا ہے جس میں اب آزاد کشمیر کے نوجوان کثیر تعداد میں شامل ہو چکے۔ اس تعداد میں مذید اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ لوگ بین الاقوامی اداروں میں صرف آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے مسائل کو اجاگر کر کے پاکستان کے خلاف مہم چلاتے ہیں دریا بچاؤ تحریک اور حالیہ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی تحریک کے دوران بھارتی لابی نے اس سے خوب فائدہ اٹھایا۔ جی بھر کر پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ کیا اس میں کچھ باتیں ایسی بھی ہیں کہ عام افراد کو اثر کرتی ہیں۔
لیکن پاکستان اور آزادکشمیر کے حکمرانوں نے اس پر سنجیدگی نہیں دیکھائی۔میری ذاتی رائے ہے کہ راج ناتھ سنگھ کے بیان پر توجہ دیں تو یہ باتھ سمجھ آتی ہے کہ پاکستان کے غیر سنجیدہ حکمران اور بدعنوان اشرافیہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی صورت حال کو وہاں تک لے گئے کہ اب اسلام اور پاکستان کی محبت کے نعروں میں لپیٹنا ممکن نہیں ہو گا اور دن بدن حالات خراب سے خراب تر ہوتے رہیں گے۔ اس صورت حال میں وزیر خارجہ اسحاق ڈار کو بھارت کے ساتھ تجارت کی کیا جلدی ہے بالکل سمجھ آنے والی بات ہے کہ بی بی مریم کے داماد کی ہاؤسنگ سوسائٹی کے لیے بجلی گھر مکمل کرنا ہے۔ لیکن پہلے حکومت کو تو مستحکم کرتے۔ اور بھارت کے ساتھ مذاکرات شروع کرتے۔ پاکستان کے نام پر جو لوگ 35 اور 36 برسوں سے تہاڑ جیل میں ہیں ان کا کیا بنے گا۔ ان کو وہاں چھوڑ کر آپ تجارت شروع کر کے اپنے منافع بخش کاروبار کریں اور لوگ آپ کو معاف کر دیں یہ کیسے ممکن ہے۔ پاکستانی حکمرانوں کے لیے المیہ ہے کہ عین اسی موقع پر جب پاکستان کے کشمیری نزاد وزیر خارجہ اسحاق ڈار کہہ رہے تھے کہ پاکستانی تاجروں کا دباؤ ہے کہ بھارت کے ساتھ تجارت بحال کی جائے، راج ناتھ سنگھ کہہ رہا تھا ” ہم تعلقات برقرار تو رکھنا چاتے ہیں لیکن ہندوستان کی عزت نفس کی قیمت پر نہیں اور جنیوا میں بھارتی مندوب کہہ رہا تھا دہشت گردوں کے ساتھ بات چیت نہیں ہو سکتی۔ گویا راج ناتھ سنگھ کا واضح پیغام تھا کہ آپ کی درخواست مشروط قبول کی جا سکتی ہے۔ اسی نشست میں راج ناتھ سنگھ نے یہ بھی کہا کہ “ہندوستان کو پاک مقبوضہ کشمیر سے متعلق کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جس طرح سے پاکستان حکومت اس کو نظر انداز کر رہی ہے، اس سے خود بخود ایسا ماحول بنتا جا رہا ہے کہ وہ ہندوستان کے ساتھ ضم ہو جائے گے پاک مقبوضہ کشمیر ہماراتھا، ہمارا ہے اور ہمارا رہے گا”۔