بجلی اور گیس کی قیمتوں پر نواز شریف کی تشویش اور شتر مرغ۔۔

سچ تو یہ ہے،

بشیر سدوزئی،

اس میں کیا غیرقانونی اور غیراخلاقی ہوا کہ یار لوگوں نے طوفان سر پر کھڑا کر دیا۔ سوشل میڈیا میں منفی پروپیگنڈہ اور مہم ہی کیا کم تھی کہ کچھ لوگ اخباری تراشے لے کر عدالت پہنچ گئے کہ نواز شریف مریم نواز کے ساتھ بیٹھ کر سرکاری اجلاسوں سے خطاب کیوں کر رہے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ متعلقہ اجلاس کابینہ اجلاس نہیں تھا اور نہ کسی قانون ساز ادارے کا انتہائی خفیہ اجلاس تھا، یہاں خطرہ پیدا ہو سکتا ہو کہ غیر حلف یافتہ شخص خفیہ راز فاش کر سکتا ہے۔ وہ تو محض، ٹرانسپورٹ اور کسانوں کو سستی انرجی فراہم کرنے کی غرض سے سولر پینل مہیا کرنے کی حکمت عملی پر غور کرنے کے لیے بلایا گیا اجلاس تھا۔ حالاں کہ وزیر اعظم یا وزیر اعلٰی کا یہ صوابدیدی اختیار ہے کہ وہ کابینہ کے اجلاسوں میں بھی کسی ماہر تجربہ کار شخص کو شرکت اور خطاب کی دعوت دے سکتے ہیں۔ ملکی امور کے حوالے سے اس وقت پاکستان میں میاں نواز شریف صاحب کے مقابلے میں کس کا تجربہ اور مہارت زیادہ ہے جو تین بار اس ملک کے وزیر اعظم رہے اور چوتھی بار کی وزارت عظمی قریب سے گھسک گئی۔ اس قدر ماہر طبیب کو بیمار انتظامیہ اور معیشت کو ٹھیک کرنے کے لیے مدعو کرنا اور مشورہ لینا کیا غیر قانونی اور غیر اخلاقی ہو گیا جو اس قدر شور کیا جا رہا ہے۔ مریم بی بی ظاہر ہے وزیر اعلی ہیں لیکن سعادت مند بیٹی بھی تو ہیں۔ گزشتہ دور میں والد کی سیاست اور وقار کی بحالی کے لیے ان کی جدوجہد مثالی رہی۔ اب جب کہ خان دان شریفیہ پر اچھے دن آئے تو سارا خان دان کام دھندے پر لگ گیا۔ خان دانی ایمپائر کھڑی کرنے والا تن تنہا جاتی عمرہ کے وسیع و عریض محلات کی اونچی نیچی دیواروں، اور ان دیواروں کی نوشتہ پینٹنگ دیکھتا رہے مریم بی بی کو یہ کیسے گوارہ ہوتا، بلا لیا ایک چھوٹی سی میٹنگ میں تو کیا قیامت آ گئی۔ حالاں کہ حمزہ شہباز بھی گم نام اور غم زدہ ہیں لیکن کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ان کے راز عیاں ہوں گے کہ پولٹری فارم کی ککڑیوں میں کتنی جدت اور ترقی ہوئی اور کتنے بلین کی سرمایہ کاری کی گئی۔ وقت نے کس قدر پلٹی لی کے مسلم لیگ ن بنانے والے میاں نواز شریف کس قدر غیر اہم اور اپنے ہی نظام میں غیر پسندیدہ ہو گئے۔ مخالفین کو یہ بھی گوارہ نہیں کہ وہ کسی سرکاری اجلاس میں بیٹھ کر کوئی رائے بھی دے سکیں، چاہیے وہ اجلاس غیر اہم ہی کیوں نہ ہو۔ خود میاں صاحب پر کیا گزرتی ہو گی جب یہ سوچتے ہوں گے کہ ایک زمانے میں، میں اس ملک کے سب سے طاقتور عہدیدار کو یک جنبش قلم برخاست کر لیا کرتا تھا اور اب اپنی پارٹی اور خان دان شریفیہ کی حکومت میں بھی کسی غیر اہم یا غیر روایتی اجلاس میں لب کشائی کی بھی اجازت نہیں۔ ایسی صورت حال صحت مند انسان کو بھی بیمار کر دیتی ہے میاں صاحب تو سرٹیفائیڈ بیمار ہیں اور ناساز طبیعت کئی مرتبہ رضاکارانہ اور جبری جلاوطنی کاٹ چکے۔ لہٰذا سیانے تو یہی مشورہ دے رہے ہیں کہ اس سے پہلے کے یہ دکھ جھیل، جھیل کر میاں صاحب کا حال بھی پاکستانی معیشت جیسا ہو جائے۔ فوری طور پر اسی ڈاکٹر کے اطار سے رابطہ کریں جو لندن میں ہے۔ وہ اطار میاں صاحب کے لیے ہر حال میں موافق ہے۔ صحت کے لحاظ سے تو ہے ہی لیکن معیشت کے لحاظ سے بھی اچھا طبیب ہے۔پاکستان میاں شہباز شریف صاحب اور پہنجاب بی بی مریم صاحبہ خود ہی دیکھ لیں گی اور اس شور و غوغا کا بھی یہی مقصد اور پیغام ہے کہ فارم 47 کے خالق یہ نہیں چاتے کہ میاں صاحب کا حلقہ بھی کھلے اور فارم 45 کا نتیجہ اوپر آ جائے۔ فارم 45 اور 47 ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں کسی بھی وقت ٹاسک ہو سکتا ہے اور مطلوبہ رخ اوپر آ سکتا ہے جو نظام کو بہتر اور مضبوط کرنے کے لیے ضروری سمجھا جائے گا۔ لہذا نواز شریف جیسے جاندیدہ شخص کو صورت حال کا ادراک ہونا چاہیے کہ گرتی معیشت کے اس دور میں دو فارم کو ڈھنکے کی چوٹ پر نمایاں کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔ پی ٹی آئی والوں کی قسمت میں رونا لکھا گیا ہے، حالات جیسے بھی ہوں انہوں نے رونا ہے۔ اب ان کو رونا کا نیا موضوع مل گیا دھاندلی ہو گئی دھاندلی ہو گئی۔ اگر دھاندلی کرنا مقصد ہوتا تو فارم45 جاری کرنے کی کیا ضرورت تھی ان کو تو یہی مشورہ ہے کہ ابھی بھی آپ ایک رخ پر ہو دائرے پر آتے ہو تو 45 کا رخ اوپر آنے میں کتنی دیر لگے گی۔ اب تو میثاق جمہوریت بھی جواب دے گیا اور نظام یہاں تک پہنچا کہ ہم دیکھ لیں گے تم چنتا نہ کرو، جیسا کہا گیا ہے ویسے ہی کرتے رہو۔ واقعی میں بڑے میاں صاحب کو اب آرام ہی کرنا چاہیے، آپ،کچھ نہ دیکھیں یہی زمانے کی ضرورت ہے تین دفعہ کے دیکھنے سے کچھ فرق پڑا نہیں اب کیا فرق پڑھنا ہے۔ لیکن مسلم لیگ ن کی خوبیوں کی شہباز شریف صاحب کی خوب واہ واہ ہو گی اور خرابیوں کی ذمہ داری بڑے میاں صاحب سر پر اٹھانے کے لیے تیار رہیں کیوں کہ چھوٹے میاں صاحب کہہ جو چکے کے وفاق اور پہنجاب میں حکومت نواز شریف کی ہے، وفادار بھائی جو ٹھہرے۔ مجھے تو یوں لگتا ہے کہ میاں محمد نواز شریف کی اجلاس میں شرکت سے زیادہ وہاں کی گئی گفتگو پر اعتراض ہوا جہاں ان کی جانب سے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ میاں صاحب کا یہ بیان شہباز شریف کے اس بیان کی نفی بھی تھا جو انہوں نےکہا تھا، کہ وفاق اور پہنجاب میں میاں نواز شریف کی حکومت ہے۔ بظاہر تو دونوں بھائیوں میں کوئی اختلاف نہیں لیکن دونوں بیانات میں تضاد سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسلم لیگ ن کی حکومت میں میاں محمد نواز شریف کے لیے کوئی گنجائش نہیں ۔ تاہم اپنے اس بیان کے لیے میاں نواز شریف نے مریم نواز کے دفتر کا انتخاب کیوں کیا یہ غور طلب بات ہے۔ کیا مریم نواز نے بھی پہنجاب حکومت میاں نواز شریف کی مرضی یا پالیسی کے برخلاف لی ہے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ضد اور ہٹ دھرمی میں عمران خان کے ہم پلہ ہیں تب ہی عمران خان کو زیر کرنے میں کامیاب ہوئی۔ اگر انہوں نے والد کے سامنے پہنجاب کی وزارت اعلی کی ضد کر دی ہو تو پھر تو میاں صاحب کو بادل نخواستہ ماننا ہی تھا۔ وزیر اعلی پنجاب صاحبزادی مریم نواز کے برابر میں بیٹھ کر میاں صاحب نے بڑی سادگی اور معصومیت سے پوچھا کہ آئی ایم ایف کے کہنے پر بجلی اور گیس مزید کتنی مہنگی ہوگی؟ عوام کے صبر کو کب تک آزمائیں گے؟ ۔ واقف کار بتاتے ہیں کہ یہ سوال برائے راست شہباز شریف سے تھا کہ ہمیں اور کتنا رسوا کراو گے۔ اس سے تو بہتر تھا کہ شاید خاقان عباسی کی سن لیتا، کم از کم اس رسوائی سے بھی بچا ہوتا اور اپنی مرضی کے بیان بھی داغ رہا ہوتا۔ جیل میں بیٹھے قیدی نمبر 804 کا بیان اتنا وئرل نہیں ہوا جتنا نواز شریف کا ہوا جس پر جاوید چوہدری جیسے بندے کو میاں صاحب کی مخالفت میں وی لاگ کرنا پڑھا۔ جاوید چوہدری اس وقت ایران میں تھا اور اتنے زیادہ اشوز کو چھوڑ کر اس نے میاں صاحب کی اس میٹنگ کو ہی کیوں اہم سمجھا کہ راستے میں رک کر وی لاگ ریکارڈ اور فوری ریلیز کرنا پڑا، میاں صاحب کو اسی دن سمجھ جانا چاہیے تھا کہ اب پاکستان بہت تبدیل ہو چکا کہ ریٹارنگ افسر کچھ نتائج دیتے ہیں اور الیکشن کمیشن دوسرا جاری کرتا ہے۔ اور یہ فخریہ کہتا بھی ہے کہ یہ میری صوابدید ہے کہ بتاوں کہ عوام نے کس کو منتخب کیا مجال ہے کوئی مجھ سے یہ سوال کرے کہ ایسا کیوں کر ہو سکتا ہے۔ چاہئے بین الاقوامی میڈیا اور سول سوسائٹی کچھ کہے یا امریکن کانگریس سوال اٹھائے ہو گا وہی جو الیکشن کمیشن فیصلہ دے گا۔ ایسے پاکستان میں نواز شریف کا اپنے سکے اور بظاہر وفا دار بھائی بیٹی اور اپنی جماعت کے حکمرانوں سے کوئی سوال بنتا نہیں ہے وہ بھی اس وقت جب والڈ بنک اسلام آباد میں بیٹھ کر ڈو مور کا مطالبہ کر رہا ہو۔ کچھ یار لوگ تو یہ پوچھتے ہیں کہ میاں صاحب کو لندن سے ڈیل کر کے آنے کا کیا فائدہ ہوا، کیا یہی کافی نہیں کہ ان پر غداری کا مقدمہ نہیں بنا کہ آپ کے اس بیان سے والڈ بنک ناراض ہو سکتا ہے جس سے ملک کو نقصان ہونے کا خطرہ ہے۔ اس لیے یہ بیان تو سیدھی سادی غداری کے زمرے میں آتا ہے۔ اسی طرح کے کئی مقدمات عمران خان پر بھی ہیں۔ لیکن جس عمران خان کو لوگ بے وقوف سمجھتے ہیں وہ ان سب سے سیانا نکلا۔ تتر بتر ہونے والی پارٹی کو ملک کی سب سے بڑی پارٹی بھی بنا لیا اور حکمرانوں کے لیے خوف کی علامت بھی ہے۔ مجرموں کو جیلوں میں سزا کے طور پر بند کیا جاتا ہے عمران خان پر روز بروز روپ چڑھ رہا ہے۔ طاقت اور جوانی کیوں نہ چڑھے، جیل میں چھ ماہ کے دوران 35 لاکھ سے زیادہ کا جو کھانا کھا چکا۔ یہ تو کراچی کے بھکاری سے بھی زیادہ مہنگا کھانا ہوا جس کو فٹ پاتھ دستر خواں پر شتر مرغ کی کڑائی ملتی ہے۔ کراچی والے بھی مختلف سوچ اور محبت میں منفرد ہیں۔ ہر فٹ پاتھ کھانے پینے کے مال و متاع سے بھرے ہوئے ہیں، گاڑیاں روک روک کر التجائیں کرتے ہیں کہ اب کہ بار ان کا افطاری کا ڈبہ لے جائیں۔ میں یہ بات دعوی سے کہتا ہوں کہ اس رمضان میں کوئی جاندار بھوکا نہیں سویا ہو گا، ہاں اس بات کا اندیشہ ہے کہ کچھ لوگوں کو بدہضمی ہوئی ہو گی۔ گزشتہ دنوں جے ڈی سی کی شتر مرغ کی کڑائی خاص موضوع گفتگو رہی لیکن جے ڈی سی اور کراچی کے سیٹھوں نے اپنا کام پھر بھی جاری رکھا اور کہا کہ امیر کا بچے شتر مرغ کھا سکتے ہیں تو ہم غریب کے بچے کو کیوں نہ کھلائیں۔ واہ کیا ہندوستان تھا اور کیا ہندوستان کے لوگ 1947ء میں ہندوستان کے مختلف علاقوں سے آنے والوں کی تیسری، چوتھی نسل چل رہی ہے نہ دینے میں ان کا ہاتھ رکا اور نہ اللہ نے ان کا رزق روکا۔ دونوں جانب سے فراوانی ہے۔ ملکی معیشت بشیر فاروقی، ظفر عباس، ڈاکٹر ادیب رضوی، فیصل ایدھی، چھیپا سمیت کراچی کے چند دیگر رضا کاروں کے حوالے کر دی جائے تو سارے قرض ختم ہونے میں محدود وقت لگے گا