استاد کا قتل

ڈاکٹر توصیف احمد خان
=============

نصیر آباد کے پرائمری اسکول کے استاد 56 سالہ ہدایت اللہ لوہار تبدیلی اور تبدیلی کے خواب دیکھتے تھے۔ وہ اپنے آدرش کا بغیرکسی خوف کے اظہار کرتے تھے، انھیں نصیرآباد کے قریب نامعلوم افراد نے گولیاں مار کر ہلا ک کیا۔ ہدایت لوہار نے اپنی بیٹیوں سسی لوہار اور سورتھ لوہارکو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا تھا اور انھیں جدوجہد کا درس دیا تھا۔

سسی لوہار اور سورتھ لوہار اپنے والد کے قتل پر خاموش نہیں بیٹھیں۔ انھوں نے اپنے والد کا جنازہ اٹھایا اور تھانے جا کر ان افراد کے خلاف اپنے والد کے قتل میں ملوث ہونے کی بنیاد پر ایف آئی آر درج کرانے کی کوشش کی۔

پاکستان کے آئین اور پولیس ایکٹ کے تحت وارثوں کا جن افراد پر شک ہو ایف آئی آر درج کرانے کا حق دیا گیا ہے مگر پولیس نے ایف آئی آر درج کرنے سے انکارکیا جس پر سول سوسائٹی نے احتجاج شروع کیا اور دھرنا دینے کا سلسلہ شروع ہوا، مگر سندھ کی نگران حکومت نے ایک اسکول کے استاد اور سماجی کارکن کے قتل کو اہمیت نہیں دی۔ سندھ کے دیگر شہروں میں بھی احتجاجی مظاہرے ہوئے۔

سول سوسائٹی کے اراکین نے کراچی پریس کلب کے سامنے بھی دھرنا دیا۔ اس دھرنا سے خطاب کرتے ہوئے انسانی حقوق کی تنظیم ایچ آر سی پی کے چیئرمین اسد اقبال بٹ نے کہا کہ ہدایت لوہار کو ماورا عدالت قتل کیا گیا ہے۔ ہدایت لوہار کے قاتلوں کی گرفتاری قانون کی بالادستی کے لیے ضروری ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیم انسانی حقوق کمیشن HRCP کی ایک ٹیم ہدایت لوہار کے قتل کے حقائق جاننے کے لیے نصیرآبادگئی۔

اس ٹیم نے اس قتل کے بارے میں تمام حقائق جمع کیے۔ عینی شاہدین کے بیانات ریکارڈکیے اور نصیر آباد تھانے کے اعلیٰ افسران کا موقف بھی حاصل کیا۔ ایچ آر سی پی کی ٹیم نے ایک جامع رپورٹ تحریرکی۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہدایت لوہارکی بیٹی سسی لوہارکا کہنا ہے کہ ہدایت لوہار 5 فروری کو اپنے اسکول روانہ ہوئے۔

دو افراد جو 125 سی سی موٹر سائیکل پر سوار تھے کہیں سے اچانک نمودار ہوئے اور ہدایت لوہارکو راستے میں روکا ۔ پھر ان میں سے ایک فرد نے اپنے اسمارٹ فون سے کہیں وڈیوکال کی اور ہدایت لوہارکا چہرہ موبائل پر کسی فرد کو دکھایا۔ شاید اس شخص نے ہدایت کی تصدیق کر دی۔ ان میں سے ایک شخص نے ہدایت کے چہرے پرگولیاں چلائیں ۔ ہدایت کے چہرے پر تین گولیاں ماری گئیں اور ایک گولی اس کی گردن پر لگی۔

پھر یہ قاتل اطمینان سے اپنا ہدف حاصل کرکے کہیں چلے گئے اور ہدایت لوہار نے موقع پر ہی دم توڑ دیا۔ ہدایت لوہار کے بیٹے عنایت لوہار اور دونوں لڑکیوں نے ہدایت کا پوسٹ مارٹم کرایا۔ بہت سے افراد نے جن میں ہدایت کے شاگرد بڑی تعداد میں شامل تھے، انڈس ہائی وے پر قاتلوں کی گرفتاری کے لیے کئی دن تک دھرنا دیا۔

ہدایت لوہار کے لواحقین کا کہنا ہے کہ اس قتل کی وڈیو فوٹیج بھی مل گئی تھی۔ اس وڈیو میں موٹر سائیکل نمبر پلیٹ اور ہدایت پر فائرنگ کرنے والے شخص کا چہرہ نظر آرہا ہے مگر پولیس نے اس فوٹیج پر توجہ نہیں دی۔ لوہار کی بیٹیوں کا کہنا ہے کہ ان کے والد تعلیم عام کرنے اور سیاسی و سماجی تبدیلی کے لیے جدوجہد میں مصروف تھے۔ ان کی کسی بھی فرد یا گروہ سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں تھی۔

ایچ آر سی پی کی ٹیم نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ قاتلوں نے ہدایت لوہار کو ان کے گھر کے قریب جس جگہ روکا وہاں مرکزی راستہ تین علیحدہ علیحدہ راستوں میں تقسیم ہوجاتا ہے۔

ایچ آر سی پی کی کمیٹی کے رکن علی اوسط کا کہنا ہے کہ ٹیم کے اراکین پہلے تھانے گئے اور پولیس سے کہا کہ جہاں ہدایت کا قتل ہوا ہے وہ کرائم سین دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس لیے کسی پولیس اہلکارکو ان کے ساتھ بھیجا جائے۔

پولیس نے ایک سادہ لباس میں ملبوس سپاہی کو ان کے ساتھ بھیج دیا۔ اس سپاہی نے ٹیم کے اراکین کو وہ جگہ دکھائی اور بتایا کہ اس جگہ پر ہدایت کا خون گرا اورگولیوں کے خالی خول ملے تھے۔ مگر جب ٹیم کے اراکین نے اس سے پوچھا کہ کرائم سین کو محفوظ کیا گیا تو پولیس اہلکار نے جواب نہیں دیا جس سے ثابت ہوا کہ پولیس نے سنجیدگی سے اس قتل کی تحقیقات پر توجہ نہیں دی۔ ہدایت لوہار کی بیٹی سسی لوہار اپنے والد کے قتل کی عینی شاہد ہیں۔

سسی لوہار اپنے والد کے قتل کا حال یوں بیان کرتی ہیں کہ ان کے والد صبح ساڑھے آٹھ بجے اسکول جانے کے لیے روانہ ہوئے، میں بھی اپنی ڈیوٹی پر جانے کے لیے گھر سے نکلی تھی۔ جب رائس ملز جو مقامی مارکیٹ کے پیچھے ہے پر پہنچے تو میں ان سے 150قدم پیچھے تھی۔ اس وقت میرا بھائی سارنگ سبزی خریدنے کے لیے مارکیٹ آیا تھا۔ ہم دونوں نے دیکھا کہ موٹر سائیکل سے اترکر ایک شخص نے بابا پر گولیاں چلائیں، بابا گر گئے۔

انھیں اسپتال لے جایا گیا مگر ان کی جان نہیں بچائی جاسکی، پوسٹ مارٹم کے بعد بابا کی تدفین عمل میں آئی۔ ایچ آر سی پی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تمام حقائق کے جائزے سے ثابت ہوتا ہے کہ پولیس پر دباؤ تھا۔ اس بناء پر پولیس نے سنجیدگی سے ہدایت لوہارکے قتل کی تحقیقات نہیں کیں اور بااثر ملزمان کو بچانے کے لیے درست ایف آئی آر درج نہیں کی جا رہی۔ کوشش ہے کہ ایک کمزور ایف آئی آر میں چند کمزور حیثیت والے افرادکوگرفتار کر کے معاملے کو سرد خانہ کے سپرد کیا جائے۔

ایس آر سی پی کی اس رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ ہدایت لوہار کے ورثاء کے بیان کے مطابق ایف آئی آر درج کی جائے اور پولیس غیر جانبدارانہ تحقیقات کرے، اگر بااثر افراد اس قتل کی واردات میں ملوث پائے جائیں تو ان افراد کو قانون کے مطابق گرفتارکر کے سخت سزائیں دی جائیں۔ رپورٹ میں نگران صوبائی حکومت پر بھی زور دیا گیا ہے کہ ہدایت لوہار کے قتل میں ملوث ملزمان کو گرفتار کرکے سخت سزا دی جائے۔ انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے جدوجہد کرنے والے وکلاء ہدایت لوہار کے قتل کو ماورا عدالتی قتل قرار دے رہے ہیں۔

سندھ سے متصل صوبہ بلوچستان میں تو اس طرح کی ٹارگٹ کلنگ عام سی بات بن گئی ہے۔ گزشتہ دو عشروں کے دوران سیکڑوں افراد اس طرح کی ٹارگٹ کلنگ میں ہلاک ہوئے۔ اس کے ساتھ سیاسی کارکنوں کو لاپتہ کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ بہت سے سیاسی کارکنوں کو لاپتہ ہوئے 23سال گزرچکے ہیں۔

چاروں صوبوں کی ہائی کورٹس اور سپریم کورٹس میں لاپتہ افراد کی بازیابی اور ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہونے والے افراد کے مقدمات کے حوالے سے سیکڑوں مقدمات التواء کا شکار ہیں، مگر صوبہ سندھ میں سماجی اور سیاسی کارکنوں کو ہراساں کرنے کا سلسلہ دراز ہوچکا ہے۔ اس کے ساتھ ہی سیاسی کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ کی وارداتیں بڑھ گئی ہیں۔ اس بارے میں شایع ہونے والی رپورٹوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ گزشتہ سال 778 افرا دکی ٹارگٹ کلنگ کی گئی۔

پولیس ان کے قاتلوں کو تلاش نہیں کرپائی۔ کراچی سمیت اندرون سندھ میں ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہونے والے افراد کی تعداد 154 ہے جب کہ صرف کراچی میں گزشتہ سال 90افراد جاں بحق ہوئے۔ ہدایت لوہار کے قتل کے خلاف صرف سندھ بھر میں ہی نہیں بلکہ یورپ اور امریکا میں بھی احتجاج ہو رہا ہے۔

ہدایت لوہار کی ہلاکت اس وقت ہوئی جب عام انتخابات منعقد ہونے والے تھے اور اب نئی حکومتیں قائم ہو رہی ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری ایک نئے دورکا آغازکرنا چاہ رہے ہیں، یہ نیا دور انسانی حقوق کی بالادستی سے شروع ہوسکتا ہے۔ انھیں فوری طور پر ہدایت لوہار کے قاتلوں کی گرفتاری پر توجہ دینی چاہیے۔

https://www.express.pk/story/2612282/268/