آنے والی حکومت کو معیشت اور صحت کے شعبے کو مضبوط بنانے کے لیے انسانوں، جانوروں اور پرندوں کے لیے ویکسین کی مقامی پیداوار کو فروغ دینا چاہیے

وفاقی وزیر فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ پروفیسر کوثر عبداللہ ملک نے کہا ہے کہ آنے والی حکومت کو معیشت اور صحت کے شعبے کو مضبوط بنانے کے لیے انسانوں، جانوروں اور پرندوں کے لیے ویکسین کی مقامی پیداوار کو فروغ دینا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں متعدی بیماریوں کے علاج کے لیے دیسی ویکسین تیار کرنے کے لیے مزید تحقیقی کام ضروری ہے۔ان خیالات کا انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سنٹر آف ایکسیلینس ان مالیکیولر بائیولوجی (کیمب)کے زیر اہتمام ’ویکسین کی تحقیق میں موجودہ رجحانات،پہلو اور مواقع‘پر دوروزہ بین الاقوامی کانفرنس کی افتتاحی تقریب سے شیخ ریاض الدین آڈیٹوریم،کیمب میں خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پروائس چانسلرپنجاب یونیورسٹی پروفیسرڈاکٹر خالد محمود، وائس چانسلر یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز ڈاکٹر احسن وحیدراٹھور، ڈائریکٹر کیمب پروفیسر معاذالرحمان، عالمی شہرت یافتہ سائنسدان پروفیسر ڈاکٹر شیخ ریاض الدین،سائنسدان اورمحققین نے شرکت کی۔اپنے خطاب میں پروفیسر کوثر عبداللہ ملک نے کہا کہ 2005ء کے زلزلے میں ہمسایہ ملک نے تشنج کی ویکسین دینے سے انکار کر دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ اگر باہر سے ویکسین آنا بند ہوجائے تو کیا ہوگا؟ انہوں نے کہا کہ حکومت آئی پی پیز کی طرح ویکسین خریدنے کے لیے گارنٹی دے۔ انہوں نے کہا کہ درآمد شدہ ویکسین کے زیادہ موثر ہونے کی ضمانت نہیں ہے کیونکہ ان کا مقامی جینز پر تجربہ نہیں کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ پولٹری انڈسٹری پاکستان کی دوسری بڑی صنعت ہے جسے بائیو سیفٹی رولز کے ذریعے تحفظ فراہم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پولٹری انڈسٹری کو متاثر کرنے والی بیماری پر قابو پایا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ سویابین پر پابندی پولٹری انڈسٹری کے لیے ایک دھچکا ثابت ہوئی اور ہم اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے سویابین کے حوالے سے بائیو سیفٹی ریگولیشنز پر عملدرآمد کو یقینی بنا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں 80 فیصد ویکسین اب بھی درآمد کی جا رہی ہیں۔ دوسری جانب حکومت اور نجی شعبے کے تعاون سے مقامی سطح پر ویکسین کی بڑے پیمانے پر پیداوار ممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریگولیٹرز کی جانب سے ویکسین کی منظوری سے متعلق مشکلات ہیں اور اس عمل کو ہموار کیا جانا چاہیے۔ پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود نے کہا کہ پاکستان میں بائیو ٹیکنالوجسٹس زراعت اور صحت کے شعبے میں ایجادات و اختراعات متعارف کروا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انسانوں، جانوروں اور پرندوں کی صحت کے لئے مختلف اقسام کی ویکسین اہمیت اختیار کر چکی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پرندوں اور جانوروں کی ویکسینیشن معیشت کی مضبوطی میں بھی کردار ادا کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے تمام سینئر بائیو ٹیکنالوجسٹس کانفرنس میں شرکت کر رہے ہیں، جو خوش آئند ہے۔پروفیسر ڈاکٹر احسن وحید نے کہا کہ ویکسین پر تحقیق کے لئے تمام سہولیات کی فراہمی ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ سائنسدان ملک میں انسانوں اور جانوروں کی ویکسین کی تیاری سے متعلق تجاویز دیں۔ انہوں نے کہا کہ انسانوں اور جانوروں کو جان لیوا بیماریوں سے بچانے کے لئے ویکسین کا استعمال ضروری ہے۔ پروفیسرڈاکٹر ریاض الدین نے کہاکہ ہمیشہ اس تحقیق کو فروغ دیا جو ملکی معیشت کی مضبوطی میں کردار ادا کرے۔ ڈاکٹر معاذ الرحمان نے کہا کہ پاکستان انسانی صحت سے متعلق ہر قسم کی ویکسین امپورٹ کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مرغیوں اور دیگرجانوروں کے لئے کچھ ویکسین پاکستان میں بھی تیار ہو رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انسانوں کے لئے بہت سی ویکسین پاکستان میں بھی تیار کی جا سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ویکسین کی مقامی پروڈکشن سے پاکستان کو اربوں روپے کا فائدہ ہو گا۔ا نہوں نے کہا کہ ویکسین انڈسٹری ملٹی ٹریلین ڈالر انڈسٹری ہے۔ انہوں نے کہا کہ 12 بین الاقوامی محققین کانفرنس میں شرکت کر رہے ہیں جبکہ انڈسٹری و اکیڈیما سے منسلک 7 رکنی چائنیز وفد بھی کانفرنس میں شرکت کر رہا ہے۔