پنجاب کو مریم نواز دو۔

ن والقم۔۔۔مدثر قدیر

میرا تعلق این اے 130سے ہے جو قائد محترم میاں محمد نواز شریف کا آبائی حلقہ تصور کیا جاتا ہے اور میرا پولنگ بوتھ کرشنا گلی کے پرائمری اسکول میں بنا جس کے نزدیک میاں محمد نواز شریف کبھی رہائش پزیر تھے اور میرے گھر گروارجن نگر کے ساتھ والے گھر میں پروفیسر نواب دین کے پاس پڑھنے آتھے تھے یہ بات مجھے میرے والد نے بتائی جو ان دنوں اپنا ادبی مجلہ فانوس نکالتے تھے اور ان کے بقول دونوں بھائی یعنی میاں محمد نواز شریف اور میاں محمد شہباز شریف اپنے ڈرائیور کے انتظار میں ان کے پاس اکثر بیٹھ جاتے تھے یہ باتیں گو اب پرانی ہوچکی ہیں مگر آج بھی این اے 130پاکستان مسلم لیگ ن کا گڑھ سمجھا جاتا ہے اور یہاں پر میرے سمیت دیگر بھی میاں محمد نواز شریف کی سیاسی بصیرت اور ان کی عوامی سیاسی خدمت کے معترف ہیں ۔2024میں ہونے والے الیکشن میں اس مرتبہ لاہور کے تیسرے حلقہ یعنی این اے 119 اور پنجاب اسمبلی کے حلقہ 159 سے مریم نواز بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئیں ہیں یہ حلقہ بھی شہری آبادی پر مشتمل ہے جہاں کی سیاست ملکی تاریخ میں اپنا کردار ادا کرتی ہے اور ماضی میں بھی ان حلقوں سے پاکستان مسلم لیگ ن کے امیدوار ہی کامیاب ہوتے رہے ہیں ۔مریم نواز 28 اکتوبر 1973ء کو پیدا ہوئیں اور انھوں نے انگریزی ادب میں جامعہ پنجاب سے ڈگری لی، ابتدائی طور پر 2012ء میں خاندان کے رفاہی ونگ میں کام کا آغاز کیاجس کے بعد پاکستان مسلم لیگ نے ان کو عام انتخابات 2013ء کے دوران ضلع لاہور کی انتخابی مہم کا منتظم مقرر کیا اور 22 نومبر 2013ء کو وزیراعظم یوتھ پروگرام کی چئیرپرسن مقرر ہوئیں اور تاریخ اپنے آپ کو یوں دہرانے جارہی ہے کہ مریم نواز آنے والے دنوں میں صوبے کی پہلی خاتون وزیر اعلی بنیں گی اور یہ اعزاز بھی ان کو حاصل ہے کہ وہ کسی بھی صوبے کی پہلی خاتون وزیر اعلی ہوں گی جیسے کسی دور میں شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے ملک کی پہلی وزیر اعظم کی حثیت سے حلف اٹھایا تھا ۔مریم نواز کے وزیر اعلی بننے کے بعد پنجاب کی باگ ڈور مسلم لیگ(ن) کے ہاتھوں میں واپس آنے والی ہے جس سے ایسی سیاست کا آغاز ہوگا جو پرانی ہونے کے باوجود نئی ہو سکتی ہےکیونکہ اُن کے والد نواز شریف ہی اُن کے آئیڈیل ہیں،اُن ہی کے زیر نگرانی اُن کی سیاست پروان چڑھی ہےاُنہیں اسمبلی کے اندر اور باہر ایک مضبوط اپوزیشن کا سامنا ہو گا جس کو ان کی سیاسی تدابیر ہی زیر کرسکتی ہے۔گزشتہ دنوں سوشل میڈیا ویب سائٹ پر ایک صارف کے سوال کہ ا آپ اپنی کارکردگی کی بنیاد پر ہی میاں محمد نواز شریف جیسا وزیر اعظم واپس لوٹا سکتی ہیں جس پر مریم نواز نے صارف کی بات سے اتفاق کیا اور لکھا کہ میرے کندھوں پر بھی یہی ذمہ داری ہےجو ان کی ملک کی یوتھ سے قریبی ہم آہنگی کا ثبوت ہےگو نواز شریف اب وزیر اعظم نہیں ہوں گے لیکن دوسری جانب سب سے بڑی بات یہ ہے کہ مریم نواز شریف اپنی 6 سالہ عملی جدوجہد کا انعام حاصل کرنے جارہی ہیں ، قوم جانتی ہے کہ نواز شریف کی قیادت میں ن لیگ نے جتنی کامیابیاں سمیٹیں انکی مثال ڈھونڈنا ناممکن ہے۔،قائد محترم نواز شریف کہہ چکے تھے کہ سادہ اکثریت ملی تو ہی چوتھی بار وزیر اعظم بنوں گا ورنہ نہیں اور انھوں نے اپنا قول نبھایا اور اسی وجہ سے اب میدان سیاست میں نواز شریف کا قد ہمیشہ بلند ترین رہیگا اور وہ ہمیشہ ایک برانڈ ہی تصور کیے جائیں گے۔ جیسے ہی وزیر اعلیٰ پنجاب کے طور پر مریم نواز کی نامزدگی کا اعلان ہوا تو حسب معمول کمزور عورت والا بیانیہ پھیلانا شروع کردیا کہ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی ہلیری کلنٹن کو اعلیٰ عہدہ نہیں ملا۔میں سوچ پر حیران ہوں کہ اس ضمن میں برطانیہ کی وزیراعظم مارگریٹ تھیچر ، جرمنی کی چانسلر انجلا مرکل، بھارت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی، بنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ واجد اور وزیر اعظم خالدہ ضیا کا نام لینا کیوں بھول جاتے ہیں ۔ پارٹی فیصلے کے مطابق رواں ماہ مریم نواز شریف صوبہ پنجاب کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ کا حلف اٹھائیں گی، وہ شریف خاندان سے چوتھی وزیر اعلیٰ بن کر خدمت کا ایک نیا سفر شروع کریں گی۔مریم نواز کی بطور وزیر اعلیٰ نامزدگی کے بعد پارٹی کی جانب سے زبردست حمایت اور خوشی کا اظہار کیا جارہا ہے اور ایسا کیوں نہ ہو، ترقی حاصل کرنے کی تمام خصوصیات رکھنے والی مریم نواز نے ہر سطح پراپنی قابلیت اور بہادری ثابت کی ہے۔مریم نواز نے کبھی بے معنی، بے مقصد، فضول اور سیاق و سباق سے محروم تقاریر نہیں کیں۔انہوں نے نواز شریف کی عدم موجودگی میں جس طرح تن تنہا پارٹی کو جوڑ کر رکھاوہ قابل تحسین ہے۔ 2024 کی انتخابی مہم میں بھی مریم نواز نے اپنے قائد میاں نواز شریف، شہباز شریف اور دیگر رہنمائوں کے ہمراہ جس جاں فشانی سے انتخابی مہم چلائی اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔مریم نواز کا سیاسی سفر 2018 میں اس وقت شروع ہوا ، جب جج محمد بشیر نے نواز شریف کو 10 سال، مریم نواز کو 7 سال اور کیپٹن (ر) محمد صفدر کو ایک سال قید بامشقت کی سزا سنائی، اس وقت مریم نواز نے ایک دلیرانہ ٹویٹ کیا کہ ڈٹ جانیکی یہ سزا بہت چھوٹی ہے، آج ظلم کے خلاف لڑنے کا حوصلہ اور بلند ہو گیا۔وہ جانتی ہیں کہ انھیں نوازشریف کی دی گئی شناخت نہ صرف برقرار رکھنی ہے بلکہ پارٹی کی مقبولیت میں بھی اضافہ کرنا ہے۔ اس ضمن میں ان کو اپنی ٹیم جو چننی ہے اس میں ان لیڈروں کو ضرور جگہ دینی ہوگی جو پاکستان مسلم لیگ ن اور خصوصی طور پر میاں محمد نواز شریف سے وفا میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ان میں اول خواجہ عمران نذیر جنہوں نے مریم نواز کی چھتر چھایا میں صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑا اور بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے اور دوئم خواجہ سلمان رفیق ہیں بلکہ خواجہ سلمان رفیق نے گزشتہ ادورا میں میاں محمد نواز شریف کے حلقہ انتخاب سے صوبائی اسمبلی کا الیکشن بھی لڑ ا اور ہر بار کامیابی سمیٹی ۔ مریم نواز مکمل آگاہ ہیں کہ انھیں اپنی ایسی ٹیم بنانی ہے جو محنت ، قابلیت ، سچائی ، ایمانداری اور وفاداری میں بے مثال ہو۔ انھیں مردانہ معاشرے کی روایتی مخالفت سے بھی لڑنا ہے ، انھیں نہ صرف سینئر ساتھیوں اور تمام ا سٹیک ہولڈرز کا اعتماد جیتنا ہے بلکہ پنجاب کو ترقی کے نئے مدارج طے کروانے کیلئے دن رات ایک کرنا ہے۔ مریم نواز شریف عملیت پسند ہیں اور ہر چھوٹی بڑی بات پر والد سے مشورہ کرتی ہیں۔مریم نواز کو بطور وزیر اعلی ایک طرف تو انہیں اپنے والد اور چچا کے ترقیاتی ماڈل کا مقابلہ کرناہو گا دوسری طرف نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی نے سپیڈ کے جو ریکارڈ قائم کئے ہیں ان سے تقابل کرنا ہوگا اور ان کا سب سے بڑا چیلنج پنجاب کی مڈل اور اربن کلاس کو ، جو روایتی طور پر نون کی ووٹر تھی لیکن اب پی ٹی آئی کی حامی ہو چکی ہے، واپس نون کی طرف لانا ہوگا۔اس لیے میں تو کہتا ہوں کہ ملکی سطح پرنواز شریف کو تو نوازا نہیں جاسکا مگر نواز شریف نے پنجاب کی ترقی اور نوجوانوں کی خدمت کے لیے مریم نواز کو نواز دیا۔