کیا ہورہا ہے ؟

دل مضمحل ہے اس لیے نہیں کے من پسند امیدوار منتخب نہیں ہوا یا ہوا تو مطلوبہ اکثریت نہیں ملی یا اگر ملی تو حق کو تسلیم نہیں کیا جارہا یا زیادتیاں ہو رہیں ہیں اور لوگ خاموش ہیں ۔۔۔نہیں اس وقت سب سے مشکل اور تکلیف میں پاکستان ہے جو 77 سال سے اس پر سوار حکمرانوں, امروں, سیاست دانوں, بیورو کریسی, مقننہ,عدلیہ اور صحافت کے دیے دیے ہوے کچوکوں سے ادھ موا ہوچکا ہے, مگر ہم اج بھی اپنی انا اور ضد کے خول میں بند اپنے اقتدار کی ہوس میں غلطاں ہیں نہ کے پاکستان کے اجتماعی مفاد کو پیش نظر رکھتے۔

ماضی کو فلحال ایک طرف رکھتے ہوے موجودہ بعد از وقت انتخابی عمل سیاسی حالات کا تجزیہ کیا جاے تو عجیب و غریب قسم کے حالات و واقعات کے مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں مثلا”
نواز شریف کو لایا گیا ائینی اور عدالتی ریلیف دیا گیا الیکشن لڑوایا گیا مگر کھل کھیلنے کے راستے مسدود کیے گیے, نون لیگ میں شہباز شریف کو شیروانی پہننے کی اتنی جلدی ہے کے ایک بار پھر بلی کا بکرا بننے کو تیار بیٹھے ہیں دوسری طرف مریم نواز ہیں جو نواز شریف کے جاتے جاتے اپنے لیے معاملات کو فیور میں کروانا چاہتیں ہیں۔جبکے اس وقت نون لیگ کو صبر کرنے اور تیل کی دھار دیکھنے کی ضرورت تھی مگر وہ تو اپنے اپ کو پاکستان کا ماما چاچا سمجھتے ہیں بھلے اسکے لیے کوی بھی خراج ادا کرنا پڑے فلحال اسکا ادراک کرنے سے قاصر نظر اتے ہیں۔

پی پی کو انکی اوقات اور جوڑ توڑ کی سیاست کی حد تک کھیلنے کا موقع فراہم کیا گیا کے جہاں وہ صاف چھپتے نہیں اور سامنے اتے نہیں کے مصداق مصروف عمل رہیں اس وقت انکا سب سے بڑا مقصد اور مطمح نظر بلاول کو وزیر اعظم بنوانا اور اصفہ بھٹو کو مستقبل کے لیے تیار کرنا ہے, پی پی نے بظاہر غیر مشروط حکومتی تعاون کا عندیہ تو دے دیا مگر پس پردہ کمزور حکومت کی شکل میں کب وہ پینترا بدل جایں اسکا راستہ بھی کھلا چھوڑ رکھا ہے۔ اور بلاول کو وزیر اعظم بنوانے کے لیے وہ تین رخی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں۔۔امریکہ اپنا اثرو رسوخ استعمال کرے, مولانا فضل الرحمن کو استعمال کیا جاے کے پہلے وہ پی ٹی ای کے ساتھ پینگیں بڑھایں اور پھر پی پی کے ساتھ الحاق کروا کر حکومت سازی میں مدد کریں اور پی ٹی ای فضل الرحمن کے درمیان اتحاد وحدت المسلمین کے مقابلے میں زیادہ فطری اور خاص کے پی کے لوگوں کے قابل قبول ہوگا اور ساتھ مدرسے کی ڈنڈا بردار فورس کی سپورٹ الگ میسر ہوگی۔اس وقت پی پی اور پی ٹی ای دونوں ایک دوسرے کو مخاطب اور پہل کرنے میں تزبزب کا شکار نظر اتے ہیں اور اس کام کے لیے مولانا فضل الرحمن کا انتخاب کیا گیا ہے اور پس پردہ اس سارے کھیل میں فاننشل سپورٹ کے لیے ریاض ملک کا ساتھ ہے جو نہ صرف میڈیا کو مینیج کررہے ہیں بلکے پی پی اور پی ٹی ای اتحاد خالصتا” انکے 190 ملین پاونڈ , القادر ٹرسٹ اور ساکھ کے لیے بہت اہم ہے شاید یہ سپورٹ وہ نون لیگ سے حاصل نہ کرسکیں۔

اب اتے ہیں پریشر گروپس کی طرف جماعت اسلامی انتخابی عمل میں ناکامی کے بعد اور پی ٹی ای کے الہ کار بننے کے عمل سے معزوری کے بعد سایڈ پکڑ چکی ہے ,باوجود اسکے ان تمام پریشر گروپس جیسے کے تحریک لبیک ,جی ڈے اے اور بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں کو اپنی سیاسی حیثیت کا بخوبی علم ہے مگر اس وقت الیکشن میں دھاندلی, عمران خان کی مقبولیت اور عوامی شعور کے بیانیہ کے نام پر یہ پریشر گروپ اخلاقیات اور اصولیات کا رونا روتے نظر اتے ہیں لیکن جلد یا بدیر یہ خاموش کروا دیے جایں گے۔اپنی وفاداریوں کے عوض اس سارے کھیل میں سب سے زیادہ فایدہ ایم کیو ایم نے 17 سیٹس بٹور کر اٹھایا اور مزے میں رہے۔

اب کچھ ذکر ایسٹبلشمینٹ کا جو شاید کمزور سہی پر نون لیگ کو حکومت میں لاکر صرف ای ایم ایف ہی نہیں بلکے مڈل ایسٹ , سعودیہ اور چاینہ کی مدد سے ڈوبتی ہوی پاکستانی معیشت کو سہارا دینا چاہتی ہے کیونکے بغیر معیشت کنٹرول پر گرفت کمزور ہوتی جاے گی اگر ڈوبتی ہوی معیشت کا خوف نہ ہوتا تو موجودہ نگراں حکومت کا تسلسل اگلے 3 برس بھی جاری رہ سکتا تھا اور الیکشن کی نوبت ہی نہ اتی , دوسری طرف امریکہ چاینہ کا اثرورسوخ روکنے کے لیے پی پی۔پی ٹی ای آتحادی حکومت چاہے گا جو ریاض ملک بھی چاہیں گے کے نواز شریف کو روک کر یا ناکام بنا کر اور پی پی/پی ٹی ای حکومت بنوا کر نہ صرف ریلیف لیا جاسکے بلکے کلین چٹ لی جاسکے , مولانا فضل الرحمن صدارت , گورنری بشمول بلوچستان حکومت کے عوض یہ چاہیں گے کے پی پی۔۔ پی ٹی ای اتحاد حکومت تشکیل دے اور پی ٹی ای کا مفاد خان صاحب کو ائینی اور عدالتی ریلیف مہیا کرکے جیل سے باہر لایے جانے میں ہے۔۔۔خان صاحب اور انکے سپورٹرز کا تو کوی نہ دین نہ ایمان انکو بیانیہ بنانے اور جھوٹ گھڑنے میں ویسے ہی ملکہ حاصل ہے پہلے غلامی نا منظور کہتے رہے اب مداخلت کی درخواستیں کررہے ہیں , پہلے فضلو ڈیزل کہ کر بلاتے تھے اب مفتی خطیب آعظم کی اوازیں لگا رہے ہیں , پہلے زرداری ڈاکو چور اب زرداری عمران بھای بھای کی اوازیں سننے کو مل سکتی ہیں ,پہلے میر جعفر میر صادق اب شاید اگے سننا پڑے کے اج تک اس سے بڑا ایمان مفصل اور ایمان مجمل ارمی چیف پاکستان کی تاریخ میں نہیں ایا ۔۔۔۔۔کمال ہے, مگر سوال یہ ہے اس ہوس اقتدار کی جنگ میں پاکستان کا مستقبل کیا ہوگا ؟؟؟؟؟

رضوان آحمد صدیقی
16 فروری 2024
===============================
==============================

نوازنا ہے تو نواز دو!
عطاء الحق قاسمی
16 فروری ، 2024FacebookTwitterWhatsapp
میں آج اپنی زندگی کے ان مشکل کالموں جیسا کالم لکھنے کی کوشش کر رہا ہوں جس کے لکھنے کے دوران ہر جملے سے اجازت لینا پڑتی تھی۔ لکھوں کہ نا لکھوں؟ موضوع حالیہ انتخابات ہیں۔جن میں کسی بھی پارٹی کو اتنے ووٹ نہیں ملے کہ وہ تنہا اپنی حکومت بنا سکے، تاہم مسلم لیگ (ن) کو باقی جماعتوں سے زیادہ ووٹ ملے ہیں مگر اسے بھی پیپلز پارٹی سے مفاہمت کی ضرورت ہے، اس حوالے سے پی پی پی نے جو شرائط پیش کی ہیں وہ میرے لئے ثانوی حیثیت رکھتی ہیں۔ ناقابل فہم بات یہ ہے کہ قائد مسلم لیگ نواز شریف نے اپنی جگہ شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کیلئے نامزد کیا ہے اور اب اگر اس حوالے سے سارے مراحل طے ہوگئے تو پاکستان کے وزیراعظم نواز نہیں شہباز ہوں گے۔میرے لئے یہ خبر زیادہ چونکا دینے والی نہیں ہے کہ میرے بہت سے صحافی دوست یہ بات کہتے تھے کہ میاں صاحب پر جھوٹے مقدمات بنائے گئے تھے ان کی اوقات عوام کے سامنے آ جائے گی، لیکن یہ جو کہا جا رہا ہے کہ نواز شریف چوتھی بار وزیر اعظم بنیں تو ایسا نہیں ہوگا کیونکہ نواز شریف کا بیانیہ مقتدرہ کو پسند نہیں ہے۔ اس لئے انہیں ہر بار عوا م کے منتخب کردہ اس وزیر اعظم کو وزارتِ عظمیٰ سے الگ کرکے کبھی جیل کے عقوبت خانوں اور کبھی صحرائوں میں ہجرت پر مجبور کیا گیا۔ بہرحال یہ چند دوستوں کا خیال تھا کہ جب میاں نواز شریف واپس پاکستان پہنچے تو کافی دنوں کے بعد انہوں نے چند عوامی جلسوں سے خطاب کیا جہاں عوام نے ان کا پرجوش استقبال کیا کہ جس شخص کو وہ اپنا نجات دہندہ سمجھتے تھے وہ ایک بار پھر ان کے درمیان ہے، عوام کو بار بار یقین دہانی بھی کرائی گئی کہ اب ان کے وزیر اعظم نواز شریف ہوںگے۔ اخبارات میں جو اشتہارات دیئے گئے ان کا سلوگن بھی یہ تھا کہ ’’پاکستان کو نواز دو‘‘ میرے سمیت پاکستانی عوام کو جھٹکا اس بات پر لگا ہے کہ اب ’’نوا ز دو‘‘ کی جگہ ’’شہباز لو‘‘ کی بات کیوں کی جا رہی ہے،اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ لوگوں نے ووٹ صرف اور صرف نواز شریف کو دیئے تھے، اب اس امانت میں خیانت کیوں کی جا رہی ہے؟
ایسا نہیں کہ شہباز شریف کی وزارت عظمیٰ پر اعتراض کیا جارہا ہے کہ اپنے اور غیر سب شہباز شریف کی اس اعلیٰ کارکردگی کے گواہ ہی نہیں بلکہ معتقد ہو چکے ہیں اور بجا طور پر سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی تاریخ میں پنجاب کو شہباز شریف ایسا وزیر اعلیٰ نہیں ملا جو خود کو وزیر اعلیٰ نہیںبلکہ خادم پنجاب کہلانا پسند کرتا تھا، اس شخص کونہ دن کو چین تھا نہ رات کو۔ لگتا تھا اس کے جسم میں کسی جن کی روح حلول کرگئی ہے اور وہ بغیر کسی تھکاوٹ کے تعمیراتی منصوبوں کی تکمیل میں لگا ہوا ہے، صرف یہ نہیں بلکہ اربو ں روپوں کے ان منصوبوں میںکسی قسم کی کرپشن کا الزام بھی نہیں لگا، ان تمام باتوں کے باوجود بطور وزیراعظم ان کی کارکردگی عوام سے ہضم نہیں ہو رہی کہ ان کی سولہ ماہ کی وزارت عظمیٰ کے دوران وہ شہباز شریف عوام کی امیدوں پر پورا نہیں اتر سکا جو بجا طور پر ان سے وابستہ کی گئی تھیں۔ مجھے یہ سب کچھ لکھتے ہوئے اچھا نہیں لگ رہا کہ میںنے جدہ اور امریکہ میں ان کی جلا وطنی اور اس دوران ان سے ملاقاتوں نیز پنجاب میں وزارت اعلیٰ کے دوران پاکستان سے عشق کرتے دیکھا اور ہر وقت یہ سوچ کر پریشان پایا کہ پاکستان کو ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں کیسے لایا جا سکتا ہے، چنانچہ مجھے یقین ہے کہ اگر نواز شریف وزیر اعظم بنتے ہیں تو ایک وژنری لیڈر اور ایک بے مثال ایڈمنسٹریٹر ،پاکستان کو خوشحالی اور ترقی کی اس منزل تک ضرور لے جائیں گے جو برسوں سے پاکستانی عوام اپنے اس خواب کی تعبیر دیکھنے کے خواہشمند ہیں۔
مجھے یہ کالم لکھنے میں دشواری پیش آ رہی تھی کہ میں نظریاتی طور پر نواز شریف کو اپنا لیڈر سمجھتا ہوں اور ذاتی طور پر انکی ذاتی خوبیوں کا مداح بھی ہوں۔ اس طرح شہباز شریف سے بھی میرے دیرینہ تعلقات ہیں مگر اب میں اس دشواری سے نکل گیا ہوں کہ سمجھتا ہوں کہ جس سے محبت ہو اس کی خفگی کی پروا کئے بغیر سچی بات کہنا چاہئے کہ خوشامدیوں کا ٹولہ ان تک عوام کے جذبات پہنچنے ہی نہیں دیتا، سو میں نے ابھی تک جو لکھا ہے وہ عوام کے جذبات میاں برادران تک پہنچانے کی کوشش کی ہے، مسلم لیگ سے جو اعلان نواز شریف کی منظوری کے ساتھ سامنے آیا ہے اس میں مریم نواز کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کیلئے نامزد کیا گیا ہے اور یہ پہلی بار ہوا ہے کہ کوئی خاتون پنجاب ایسے بڑے صوبے کی وزارتِ اعلیٰ کے منصب پر فائز ہو۔ مجھے اس فیصلے سے خوشی ہوئی کہ مریم نواز کی تربیت نواز شریف نے کی ہے اور اس نے جیل کی صعوبتیں بھی برداشت کی ہیں، عوام کے جلسے اور جلوسوں کے علاوہ ذاتی ملاقاتوں میں بھی ان کے مسائل سے آگاہی حاصل کرچکی ہیں،اس کے علاوہ پرویز رشید سے بھی انہوںنے بہت کچھ سیکھا ہوگاچنانچہ عوام نے مریم نواز سے ابھی سے بہت سی توقعات وابستہ کرلی ہیں، خدا کرے وہ ان پر پورا اتریں۔
اور آخر میں ’’آخری بات‘‘ پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ سے ’’الحاق‘‘ کی جو شرائط پیش کی ہیں انہیں قبول کرنے سے بہتر ہے کہ یا تو مسلم لیگ وزارت عظمیٰ کی دوڑ سے باہر ہو جائے یا پی پی پی سے کہے کہ تم اپنا وزیر اعظم بنائو ہمیں صرف وہ آئینی عہدے دے دو جو تم ہم سے طلب کر رہے ہو، یہ چوسنی دینے میں کوئی حرج نہیں کہ پی پی پی والے کبھی یہ گھاٹے کا سودا نہیں کریں گے، آنے والے دنوں میںآئی ایم ایف سے ازسر نو معاہدہ کرنا ہے اور اس کے بعد قیامت نما مہنگائی آئے گی جسے روکنا نوجوان قیادت کے بس میں نہیں ہوگا، اس کیلئے پاکستان کے سب سے زیادہ عرصہ سیاست میں رہنے والے، گرم و سرد زمانہ دیکھنے والے اور عوام کے دلوں کی دھڑکن سننے والے لیڈر نواز شریف ہی کو آواز دینا پڑے گی۔ آخر میں ایک دفعہ پھر یہ کہ اگر مسلم لیگ نے حکومت لینا ہی ہے تو وہ اس کیلئے اپنا یہ نعرہ بلند آواز میں لگائے ’’پاکستان کو نواز دو!‘‘اس نعرے سے مکرنا عوام کی امانت میں خیانت کے مترادف ہوگا؟۔
========================

’’وہ ‘‘روٹھ گیا ہے ؟
سہیل وڑائچ
16 فروری ، 2024FacebookTwitterWhatsapp
ایسا لگتا ہے کہ ن کا سیاسی چہرہ،نونی ووٹ بینک کا اصل مرکز اور برسوں سے پنجاب کی بزنس کلاس کا پسندیدہ لیڈر روٹھ گیا ہے۔ اسے کمزور حکومت کا چیلنج قبول کرکے خود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھنا چاہئے تھا مگر اس نے سٹیئرنگ اپنے منیجر بھائی کے حوالے کر دیا ،ہو سکتا ہے کہ وہ اب بھی بیک ڈرائیونگ کرے لیکن جب وہ خود ڈرائیو کرتا تھا تو ساتھ ساتھ سیاست بھی کرتا تھا چھوٹے بھائی کا زیادہ فوکس مینجمنٹ پر ہے سیاست پر نہیں ۔
وہ سوچتا تو ہو گا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا اور کس نے یہ کیا ؟اسے بڑے شوق سے واپس لایا گیا مقدمات ختم ہوئے لیول پلینگ فیلڈ کا بندوبست ہوا، مخالف جیلوں میں ڈالے گئے بہترین امیدوار تھے ان میں سے بھی چن چن کر کھڑے کئے گئے، مقتدرہ بھی مہربان تھی بس کمی تھی تو بیانیے کی، مظلوم کارڈ مخالف پارٹی کے پاس چلا گیا تھا، معیشت کا نعرہ اس لئے کامیاب نہ ہوا کہ پی ڈی ایم حکومت کی معاشی کارکردگی بہت خراب تھی۔عدلیہ کے خلاف بیانیہ بنانے کی کوشش کی گئی لیکن وہ اس لئے نہ چل سکا کہ موجودہ عدلیہ تو مہربان تھی، اسی لئے تضاد کو سمجھنا اور سمجھانا مشکل تھا۔ماضی کی مقتدرہ کے خلاف بھی کھل کر بولنے میں کئی امر مانع تھے وہ بھی نہ بول سکے ،کچھ ذاتی مسائل بھی آڑےآتے رہے ،وہ کبھی بہت زیادہ نہیں بولتا کئی لوگ پیار سے اسے گونگا پہلوان بھی کہتے ہیں۔ پاکستان آنے کے بعد سے نہ وہ میڈیا سے ملا نہ ہی عام لوگوں سے ،مخصوص لوگوں کے گھیرے نے اسے زمینی حقائق سے بہت دور رکھا اور جب نتائج سامنے آئے تو اسے محسوس ہوا ہو گا کہ جس نے بھی یہ سب کیا ہے اس کے ساتھ ہاتھ ہوگیا ہے۔ اس کا اقتدار سے پیچھے ہٹنا اس کےروٹھنے کی نشانی ہے جس سے نون کے ووٹر کا دل ضرور ٹوٹا ہو گا۔
الیکشن سے چند دن پہلے مقتدرہ اسے مضبوط حکومت دینے پر آمادہ تھی، معیشت کی ترقی کیلئے بنگلہ دیش ماڈل بنا کر مقتدرہ اور عدلیہ کی مکمل حمایت اسے دینا تھی مگر مقتدرہ کے منصوبے اور اندازے دونوں ناکام ہوئے، اصل وجہ مقتدرہ کایک جان نہ ہونا اور بار بار منصوبے بدلنا تھی کبھی آزاد امیدواروں کا میلہ لگانے کی منصوبہ بندی کی گئی تو کبھی ہنگ پارلیمنٹ کی، کبھی نون کوسب کچھ دینے کی بات کی جاتی اور کبھی کہا جاتا کہ دوائی زیادہ ڈل گئی تو نون کو روکیں گے کیسے ؟کبھی کہا جاتا کہ وہ تو ماضی میں کبھی مقتدرہ سے لڑتا رہا ہے اس بار بھی لڑے گا اس لئے بندوبست پہلے سے کر لینا چاہئے۔مقتدرہ کے دو بڑے تو چاہتے تھے کہ وہ آئے اور مضبوط حکومت چلائے لیکن دو بڑوں کے نیچے والے اس حکمت عملی سے متفق نہیں تھے وہ چیک اینڈ بیلنس کے زیادہ حامی تھے۔ مقتدرہ کے بدلتے ہوئے فیصلوں نے اسے لازماً مایوس کیا ہو گا اسی لئے وہ روٹھ کے بیٹھ گیا ہے۔
اس نے چار دہائیوں سے بھی طویل اپنے سیاسی کیریئر میں کئی اتار چڑھائو دیکھے ہیں ،وہ مقتدرہ کے لاڈلے کی حیثیت سے سیاست میں وارد ہوا اس ضیائی زمانے میں پیپلز پارٹی سوتیلی تھی اس کے مخالف لاڈلے ہوا کرتے تھے ، صوبائی وزیرخزانہ بنا پھر وزیر اعلیٰ پنجاب کا عہدہ حاصل کیا، اس زمانے میں لاہور اور پنجاب پیپلز پارٹی کا لاڑکانہ ہوا کرتا تھا۔ اس نے ترقی ، معیشت اور روزگار جیسے حربے اختیار کرکے اپنی سیاسی گنجائش نکالی اور پھر کبھی خوف اور کبھی ترغیب و تحریص سے آہستہ آہستہ پیپلز پارٹی کو کمزورکیا۔ ساتھ ہی ساتھ وہ پنجاب کی مڈل کلاس بالخصوص پنجاب کی بزنس کلاس کی آنکھوں کا تارا بن گیا۔پی پی پی مخالف محاذ آرائی کا چمپئن ہونے، دائیں بازو کے واحد بڑے لیڈر ہونے اور اپنے مذہبی تشخص سے اس نے جماعت اسلامی اور مذہبی جماعتوں کا ووٹ بینک بھی اپنی طرف کھینچ لیا ۔پیپلز پارٹی پنجاب میں اسکی سیاست کا مقابلہ نہ کر سکی اور آہستہ آہستہ اس کا ووٹ بینک بالکل ہی ختم ہوگیا ۔دوسری طرف لاڈلا بھی آزمائشوں میں مبتلا ہو گیا مقتدرہ سے بگڑی تو سوتیلا ہوگیا مگر سمجھ دار بہت تھا ہمیشہ پچھلا دروازہ کھلا رکھتا۔لڑائی کے ساتھ ساتھ مذاکرات بھی کرتا رہتا، چار بار مقتدرہ سے لڑا اور پھر صلح کرتا رہا ۔آج کل پھر مقتدرہ کا لاڈلا تھا مگر سازشوں کا مقابلہ نہ کرسکا ،پہلی بار موثر بیانیہ نہ بنا سکا لاڈلے اور سوتیلے میں فرق کو بیان نہ کر سکا۔ خان کے مسئلے کا سیاسی حل تلاش نہ کر سکا ،انتخابات میں سب سے اہم سوال یہ تھا کہ خان کا کیا کرنا ہے ؟ وہ جواب دیتا تھا مقتدرہ سے پوچھو حالانکہ جواب ہونا چاہئے تھا کہ اس مسئلےکوحل میں کرونگا۔لوگ اسے بھولا سمجھتے ہیں لیکن وہ بہت سیانا ہے مگر اس بار غصے کی وجہ سے مار کھا گیا، غصے میں کئے گئے فیصلے درست نہیں ہوتے ،مصالحت کی بات کرتا تو تحریک انصاف غیر متعلق ہو جاتی معافی نہ دیکر اس نے پی ٹی آئی کو زندہ رکھنے میں مدد دی، اب وہ مریم اور شہباز کی سیاست میں سرپرستی کرے گا ۔قومی اسمبلی میں نمائندگی کرے گا لیکن اصل توجہ پنجاب پر دے گا تاکہ مریم کو مستقبل کا سیاسی چہرہ بنا سکے۔ میری رائے میں جس طرح انسان کی زندگی کے مختلف مراحل ہوتےہیں بچپن، جوانی ،بڑھاپا اور موت اسی طرح سیاسی جماعتوں پر بھی مختلف مراحل گزرتے رہتے ہیں ۔نون لیگ بھی بچپن سے جوانی میں آئی اور اب بڑھاپے کی طرف جا رہی ہے، اسے چوتھی بار مرکز میں اقتد ارمل رہا ہے بڑھاپے کی نشانی یہ ہوتی ہےکہ اس جماعت میں نئے لوگ بالخصوص نوجوان آنا بند ہو جاتے ہیں، بدقسمتی سے یہی بیماری پیپلز پارٹی کو بھی لاحق ہے۔بلاول بھٹو نوجوان ہونے کے باوجود پنجاب کی یوتھ کیلئے کشش نہیں بن سکے ۔دوسری طرف مسلم لیگ نون کی قیادت عرصہ دراز سے پرانے چہروں کےساتھ سیاست کر رہی ہے نوجوان قیادت کی طرف توجہ نہیں دی جا رہی نیا ووٹ نون کی طرف نہیں آ رہا ۔خان بھی بوڑھا ہے مگر یوتھ اسی کی طرف مائل ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ اگر تو نون اور پیپلز پارٹی نے زندہ رہنا ہے تو نوجوانوں کو اپنی جماعتوں میں شامل کریں۔برطانیہ میں ینگ کنزرویٹو اور ینگ لیبر بڑے متحرک ونگ ہیں انکو مثال بنا کر پاکستان کی سیاسی جماعتیں یوتھ ونگز کو متحرک کریں ۔
وہ بے شک جاتی عمرا میں بیٹھ کر سیاست ہی کرے گا مگر وہ لاکھوں لوگ جو اسے اپنا لیڈر مانتے تھے مایوس ہو گئے ہیں۔ اسے چاہئے کہ جاتے جاتے کچھ ایسا کرے کہ پارٹی میں جان پڑ جائے اب تو اسکی کوئی مجبوری بھی نہیں اقتدار خود تو لینا نہیں اب سچ بولے، پارٹی مفادات سےاوپر اٹھ کر قومی مفادات کی بات کرے ،نفرت کو سلانے کی خاطر خان سے بھی بات چیت کرنے کا راستہ ہموار کرے، وہ پاکستان میں اس وقت سب سےزیادہ تجربہ کار سیاست دان ہے، اپنے تجربے کا جادو چلاکر سیاست میں مفاہمت کی بنیاد رکھ جائے۔
https://e.jang.com.pk/detail/630803