بارہویں انتخابات بھی…


ڈاکٹر توصیف احمد خان
===================

ملک میں گزشتہ ہفتہ منعقد ہونے والے بارہویں انتخابات بھی بدانتظانی اور غیر شفافیت کے الزامات کے ساتھ مکمل ہوگئے مگر یہ پہلے انتخابات ہیں جن میں اسٹیبلشمنٹ کے زیر عتاب جماعت کے کارکن بھی بھاری تعداد میں منتخب ہوگئے۔

سندھ کے مختلف علاقوں سے ووٹنگ دیر سے شروع ہونے، غیرتربیت یافتہ عملہ کی تعیناتی اور انتخابی نتائج چوبیس گھنٹے بعد تک نہ ملنے سے کئی سازشی تھیوریوں کے سچ ثابت ہونے کا گمان تقویت پاگیا۔

کراچی میں گرومندر سے منسلک پٹیل پاڑہ کا علاقہ، صدر میں قائم صوبائی الیکشن کمیشن کے دفتر سے 10کلومیٹر کے قریب ہے مگر پٹیل پاڑہ سے صوبائی اسمبلی کے حلقہ 102 پی ایس 1 میں پولنگ کا عملہ ڈیوٹی پر نہیں پہنچا۔ الیکشن کمیشن کے حکام سارا دن متبادل عملہ کو تلاش کرتے رہے۔ جب پورے ملک میں شام 5 بجے پولنگ کا وقت ختم ہورہاتھا تو پولنگ کا آغاز ہوسکا اور پولنگ کا وقت رات 10 بجے تک بڑھادیا گیا۔

پولنگ کا وقت بڑھانے کا فیصلہ تمام امیدواروں کے نمایندوں کی مرضی سے کیا گیا۔ اس پولنگ اسٹیشن کے ادگرد کوڑے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں، یوں ووٹروں کو شدید بدبو اور گندگی کے ڈھیر کے گرد طویل عرصہ تک قطاروں میں کھڑا رہنا پڑا۔ کراچی میں ہی قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں فرائض انجام دینے والے افسروں نے بعض پولنگ ایجنٹوں کو فارم 45 نہیں دیے۔ جب کچھ پولنگ ایجنٹوں نے احتجاج کیا تو ڈرا دھمکا کر اپنے دفتر سے نکال دیا گیا، یوں شفافیت کا سوال گہرا ہوگیا۔

اسی طرح الیکشن کمیشن نے ہدایات جاری کی تھیں کہ تمام ریٹرننگ افسران رات 12 بجے تک نتائج جمع کرائیںمگر یہ ہدایت بھی کارگر ثابت نہ ہوئی اور انتخابی نتائج تیزی سے جاری نہیں ہوئے۔

یونیورسٹی کے ایک افسر جس نے گلستانِ جوہر کے ایک پولنگ اسٹیشن میں پریزائیڈنگ افسر کے فرائض انجام دیے نے ایک ملاقات نے بتایا کہ ان کے پولنگ اسٹیشن میں کسی آزاد امیدوار نے اپنا پولنگ ایجنٹ نہیں بھیجا تھا مگر اکثر ووٹروں نے سابقہ تحریک انصاف کے امیدواروں کو ووٹ دیے ۔ جب یہ پریزائیڈنگ افسران اپنے آر او افسر کے دفتر گئے تاکہ حتمی نتائج جمع کیے جائیں تو ان افسروں کو ایک کمرے میں بند کرکے ایک خالی فارم 45پر دستخط کرنے پر مجبور کیا گیا۔

اس دفعہ پھر الیکشن کمیشن کا فوری نتائج فراہم کرنے والا نظام الیکشن مینجمنٹ سسٹم مکمل طور پر ناکام ہوگیا۔ ایک ٹی وی چینل کے ایک اینکرپرسن نے 8فروری کی رات کو بتایا کہ انٹرنیٹ سسٹم بیٹھ گیا ہے، یوں انتخابی نتائج میں اسی طرح تاخیر ہوئی جیسے 2018 میں آر ٹی ایس نظام کے بند ہونے سے ہوئی تھی۔

اس دفعہ پھر ملک کے بڑے شہروں کراچی، لاہور اور اسلام آباد وغیرہ میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابی نتائج 24 گھنٹے بعد مہیا کیے گئے۔ صوبائی دارالحکومتوں میں قائم الیکشن کمیشن کے دفاتر میں رات 10بجے کے بعد بڑی اسکرین پر انتخابی نتائج دکھانے کا انتظام کیا گیا تھا مگر بغیر کسی اعلان کے یہ پروگرام ملتوی ہوگیا، موبائل سروس بند ہونے سے اطلاعات کی فراہمی کا عمل مکمل طور پر رک گیا۔ یوں انتخابات کے شفاف ہونے پر کئی سوالات پھر اہمیت اختیار کرگئے ۔

نگراں وزیر داخلہ نے موبائل فروس بند ہونے کے کئی فوائد بیان کیے مگر وہ انتخابات کی ساکھ پر اٹھنے والے سوالات کے نقصانات کی اہمیت کو ایڈریس نہ کرسکے۔ ایک طرف تو انتخابی عمل کی تکنیکی خرابیوں سے عوام کا اعتماد مجروح ہوا مگر ان انتخابات میں بھاری تعداد میں آزاد اراکین کی کامیابیوں سے یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت کے باوجود بھی انتخابات میں کامیابی ممکن ہے۔ 100 کے قریب منتخب آزاد اراکین کی اکثریت کا تعلق تحریک انصاف سے ہے۔

سپریم کورٹ کے تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دینے کے فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف سے ’’بلا‘‘ کا انتخابی نشان واپس لے لیا تھا، یوں یہ اراکین آزاد اراکین کی تعریف میں شامل ہوگئے۔ جب 15ماہ قبل سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی قرارداد پیش کی گئی تھی تو سابق وزیر اعظم عمران خان نے ووٹنگ سے پہلے عدم اعتماد کی قرارداد اپنے اسپیکر کے ذریعہ مسترد کراکر ایک غیرجمہوری اقدام کیا تھا مگر تحریک انصاف کے اراکین قومی اسمبلی نے استعفے دیدیے تھے۔

اگر یہ اراکین استعفے نہیں دیتے تو پی ڈی ایم کی حکومت کو بھی عدم اعتماد کی تحریک کا خطرہ رہتا۔ جب پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت نے عام انتخابات کے انعقاد پر غور کرنا شروع کیا تو بانی تحریک انصاف نے اسلام آباد میں دھرنا دینے کی حکمت عملی اختیار کی جس کی بناء پر مخلوط حکومت نے انتخابات کا خیال ملتوی کیا۔

بانی تحریک انصاف کی جنگجو تقریروں کے ساتھ حالات بہتر نہ ہوسکے تھے جس کے نتیجے میں 9مئی کو پرتشدد واقعات ہوئے اور ایک غیر اعلانیہ آپریشن شروع ہوگیا تھا، مگر تحریک انصاف کی نئی قیادت نے جو بیرسٹر گوہر خان ، حامد خان اور رؤف حسن وغیرہ پر مشتمل ہے نے شدید مشکلات میں وقت کے مطابق فیصلے کیے اور انتخابات کے بائیکاٹ اور دھرنوں کو اپنے بیانیے سے خارج کیا۔

سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے باوجود ان رہنماؤں نے مکمل غیر جذباتی رویہ اختیار کیا جس کے خاطرخواہ نتائج سامنے آئے اور بہت سے آزاد امیدوار کامیاب ہوئے۔ یہ منتخب اراکین عوام کے حقیقی نمایندے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ ان اراکین کے خلاف آپریشن ختم کیا جائے اور جیلوں میں بند سیاسی قیدیوں کو رہا ہونا چاہیے۔ اسٹیبلشمنٹ اور نگراں حکومت کو اس گروہ سے مذاکرات کرنے چاہئیں تاکہ صورتحال معمول پر آئے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے انٹرنیٹ اور موبائل سروس بند ہونے کو انسانی حقوق کی ناگفتہ بے صورتحال سے منسوب کیا ہے۔

ایچ آر سی پی نے بھی انتخابی نتائج کے اعلان میں تاخیر کو دھاندلی کے مترادف قرار دیا ہے۔ ایچ آر سی پی کے بیانیہ میں کہا گیا ہے کہ سندھ ہائی کورٹ نے نگراں حکومت کو پولنگ کے دن بلاتعطل موبائل اور انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے کی ہدایت جاری کی تھی مگر انٹرنیٹ سروس میں مسلسل خلل پیدا ہوگیا۔ موبائل اور ڈیٹا سروس کی بندش کی وجہ سے ووٹروں کے معلومات کے حق اور ممکنہ طور پر نتائج کی ترسیل متاثر ہوئی۔ ایچ آر سی پی نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ جن لوگوں نے انٹرنیٹ اور موبائل سروس بند کرنے کا فیصلہ کیا ان کی شناخت ہونی چاہیے۔

امریکا، برطانیہ اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے بھی انتخابات کی شفافیت کے معیار پر سوال اٹھایا ہے۔ غیر سرکاری تنظیم فافن کے سروے میں انتخابات میں عدم شفافیت کے کئی واقعات کی نشاندہی کی گئی ہے۔

تجزیہ نگار عزیز سنگھور نے لکھا ہے کہ عام انتخابات کے نتائج سے یہ بات واضح ہورہی ہے کہ عوام میں انقلابی سوچ پیدا ہورہی ہے، اس سوچ کو چرایا نہیں جاسکتا۔ بہرحال یہ تجزیے درست ثابت ہورہے ہیں کہ ایک مخلوط حکومت بنے گی اور آزاد اراکین کی منڈی لگے گی، یوں ملک میں ہونے والے بارہویں انتخابات بھی شکوک و شبہات کا شکار ہوگئے۔

https://www.express.pk/story/2604669/268/