پونچھ ایک شہزادی، جو محبت پر قربان ہو گئی۔

سچ تو یہ ہے،

بشیر سدوزئی،
===============
مجھے بہت سارے دوستوں اور ساتھیوں کے پیغامات اور فون آتے ہیں جو میری پہلی کتاب ” پونچھ جہاں سروں کی فصل کٹی” کے بارے میں معلومات لیتے ہیں۔ اس میں سے اپنی پسند کے مضامین بھجنے کا تقاضا کرتے ہیں۔ یہ کتاب 1996ء میں شائع ہوئی تھی، اسے کثیر تعداد میں لوگوں نے پسند اور ناپسند کیا۔ غالبا میرا تجزیہ درست ہے تو اس پسند ناپسند کی وجہ پہلی مرتبہ اس علاقے کی تاریخ جیسے خشک مضمون کو ادبی رنگت میں لکھا گیا، جو عام لوگوں کو پڑھنے اور سمجھنے میں سہل لگا۔ لگ بھگ 30 سال ہوئے لیکن نوجوان جو اس وقت پیدا ہوئے تو وہ بھی اور جو آج 80 سال کے ہو گئے ہیں وہ بھی اس کتاب کو یکساں پسند یا ناپسند کرتے ہیں پسند کرنے والوں کا تقاضا ہے کہ اس کی دوسری اشاعت ممکن بنائی جائے۔ ناپسند کرنے والے اسے غائب کرنا چاتے ہیں۔ اسی کتاب کا ایک باب ہے ” پونچھ ایک شہزادی” یہ باب اتنا زبان زد عام ہوا کہ پاکستان کے سب سے بڑے اخبار روزنامہ “ڈان” نے اپنی اشاعت میں اس کا انگریزی ترجمہ شائع کیا۔ میرے قارئین کے بے حد اصرار پر اس ادب پارے کو دوبارہ شائع کیا جا رہا ہے۔ ملاحظہ ہو۔
“پونچھ ایک شہزادی”
کشمیر کے ایک پونچھ ضلع( آج چھ اضلاع پر مشتمل ہے، دو مقبوضہ کشمیر میں ہیں)کی ایک وجہ تسمیہ بکر وال قبیلے کی ایک لڑکی سے منسوب کی جاتی ہے۔ سینہ گزٹ، روایات اور بڑے بوڑھوں کے مطابق صدیوں پہلے بکروال قبیلے کا ایک خاندان ضلع پونجھ کے مرکزی شہر پونچھ کے مقام پر دریا کے کنارے اپنے ریوڑ کے ساتھ پہاڑوں کی طرف رواں دواں تھا کہ راجہ کشمیر کا ادھر سے گزر ہوا۔ بکروال خاندان کی ایک خوبصورت لڑکی کا نام پونچھ تھا، جس کو دیکھ کر راجہ کشمیر فریفتہ اور گرویدہ ہو گیا۔ عاشق مزاج شہزادے نے خاندان کے سربراہ سے درخواست کی کہ وہ اس لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ چونکہ پہلے ہی اس لڑکی کی خاندان کے ایک لڑکے سے منگنی ہو چکی تھی لہذا انہوں نے انکار کر دیا۔ راجہ نے لشکر روک کر وہاں ہی پڑاو ڈالا اور پونچھ کے حصول کے لیے حیلہ حجت کرنے لگا۔ اس کے بدلے اس روایتی قبیلے کو ہر سہولت اور ان کی ہر فرماش پوری کرنے کے لیے تیار تھا۔ ادھر بکروالوں کے لیے مشکل تھا کہ وہ حکم وقت کا حکم ٹالیں۔ چنانچہ بکروال قبیلے نے اجتماعی طور پر فیصلہ کیا کہ راجہ کے سامنے ایسے مطالبات رکھے جائیں جو وہ پورے کرنے سے قاصر ہو، اس طرح حاکم وقت سے جان چھڑانے میں آسانی ہو گی، ہماری اور لڑکی کی جان بھی چھوٹے گی۔ چنان چہ قبیلے نے راجہ سے کہا کہ دریائے کے کنارے میدانی علاقے میں ایسی جگہ پر ہمارے لیے مکانات تعمیر کروائے جائیں تاکہ ہمیں سردیوں کی رہائش آسانی سے میسر ہو۔ راجہ کے لیے یہ کیا مسئلہ تھا۔ اس نے نہ صرف مکانات تعمیر کروا بلکہ پورا شہر آباد کر دیا، جس کا نام اسی خوب صورت لڑکی کے نام سے منسوب “پونچھ” رکھا کیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ دریا سمیت اطراف کے تمام علاقوں جو ایک طرف جموں اور دوسری جانب کشمیر سے ملتے ہیں پونچھ ہی سے مشہور ہوئے اور ایک ریاست قائم ہوئی۔ پونجھ طویل عرصہ تک با اختیار، خود مختیار ریاست اور ایک بڑی جاگیر کے طور پر قائم رہی۔ بکروال خاندان کی خوب صورت لڑکی کے نام پر شہر پونچھ آباد ہوا اور خود پونجھ راجہ کے ساتھ بیا کر سری نگر چلی گئی۔ بکروال قبیلے کو سردیوں کے لیے دریا کنارے پونچھ شہر کی صورت میں رہائش اور گرمیوں کے لیے پورے کشمیر کی چراگاہوں اور مرگوں پر گھومنے کی آزادی حاصل ہوئی۔ لیکن سارا نزلہ پونجھ کے منگیتر پر گرا جو یہ صدمہ برداشت نہ کر سکا۔ خوب صورت اور گھبرو جوان تھا جو پونچھ کی جدائی میں پاگل ہو کر حالت دیوانگی میں چلا گیا۔ ننگا یا نیم عریاں ،پونچھ، پونچھ پکارتا، پونچھ کے نام سے آباد ہونے والے شہر کی گلیوں میں گھومنے لگا۔ پونچھ، پونچھ میں تھی کہاں جو دیوانے کی پکار سنتی وہ تو سری نگر کے راج محل میں تھی۔ پونچھ ، کی محبت میں پونچھ کی گلی کوچوں میں گھومتے دیوانے کو لوگ پاگل، سڑی کہتے اور شرارتی بچے اس پر سنگزنی کرتے۔ وہ اس کے جواب میں پونچھ کے گیت گنگناتا۔ دیوانہ پونجھ، پونجھ شہر کی گلی کوچوں میں گھومتے گھومتے ایک دن اچانک غائب ہو گیا۔ ایک رات پونجھ شہزادی اپنے محل میں سو رہی تھی، خواب میں دیکھتی ہے کہ اس کے سابق منگیتر جو اسے پکارتا ہے اور لوگ اسے پتھر مار رہے ہیں، وہ خاموش کڑا ہے۔ شہزادی اسے چھڑانے کے لیے بھاگتی،دوڑتی ہے، شور کرتی ہے، اس کو نہ مارو، نہ مارو، مگر لوگ اس پر بڑی تیزی سے سنگزنی کرتے ہیں۔ ایک پتھر پونچھ شہزادی کو بھی لگتا ہے۔ وہ گر جاتی ہے اور اس کی پیشانی سے خون بہنے لگتا ہے۔ دیوانہ جو خاموشی سے دریا کے کنارے کھڑا درجنوں سیکڑوں پتھر سہتا تھا۔ شہزادی کی پیشانی میں لگتا ایک پتھر بھی اس سے برداشت نہ ہوا۔ وہ تیزی سے شہزادی کو اٹھانے کے لیے لپکتا ہے اس کا پاؤں پھسلتا ہے، دریا میں گرتا ہے اور غائب ہو جاتا ہے۔ خواب میں یہ منظر دیکھ کر پونجھ شہزادی زوردار چیخ مار کر اٹھ بیٹھی۔ راجہ اس منظر سے خوفزدہ ہو گیا۔ شہزادی سے پوچھا کہ ڈرنے کی کیا وجہ بنی، شہزادی نے کوئی وجہ بتائے بغیر اپنے میکے پونجھ جانے کی خواہش ظاہر کی راجہ نے سوچا کہ شہزادی کو ماں باپ یاد آگئے ہیں۔ دوسرے روز شہزادی پونچھ اپنے آبائی گاؤں پہنچی۔ اپنے پرانے منگیتر کے بارے میں معلوم کیا تو لوگوں نے بتایا کہ جس دن تمہاری شادی ہوئی تھی اس دن سے ہی وہ دیوانہ وار، سردی ہو یا گرمی برف ہو یا بارش نیم عریاں دیوانہ وار تجھے پکارتا، گلیوں میں گھومتا رہتا۔ قبیلے کے بچے اسے پتھر مارتے اور ستاتے مگر وہ ان کو کچھ نہ کہتا۔ چند دن ہوئے غائب ہے۔ شہزادی نے خواب میں جو جگہ دیکھی تھی وہاں پہنچی جو دریا کے کنارے ایک اونچا ٹیلہ تھا۔ اس کو صاف نظر آیا کہ دریا کے کنارے مٹی میں ایک شخص کی لاش پڑی ہے۔ وہ سمجھ گئی کہ یہ اس کے اسی عاشق کی لائش ہے جو اس کے نام پر پتھر سہتا رہا بلآخر انتظار طویل ہو گئی تو سفر آخرت چلا گیا۔ شہزادی نے یہ سوچا کر کہ اس کے سچے عاشق سے دنیا میں اس کی ملاقات نہیں ہوئی، تو کیوں نہ عالم ارواح میں اس سے ملاقات کریں، جسم نہ سہی روح تو ملیں گے۔ اس نے بھی اسی مقام سے دریا میں چھلانگ لگا دی، جہاں سے خواب میں عاشق کو گرتے دیکھا تھا۔ تیسرے روز مقامی آبادی دریا پونچھ سے دونوں لاشیں ایک ساتھ ایک ہی جگہ سے نکال رہی تھی جہاں آج پونجھ شہر ہے۔ لوگوں کا خیال ہے کہ دونوں روح
بیساکھ میں پہاڑوں پر آتی ہے بکروال قبیلے کے لوگ جہاں جہاں اپنا ریوڑ لے جاتے ہیں وہاں پونچھ اور اس کے منگیتر کی روح ساتھ چلتی ہے۔ بلند و بالا پہاڑوں پر تنگ کے درختوں کے نوکیلے جھومروں سے جو تیز ہوائیں ٹکراتی شور مچاتے ہوئے گزرتی ہیں، ایک درخت سے دوسرے درخت کے ساتھ ٹکرا ٹکرا کر جو آوازیں نکالتی ہیں اس کو لوگ پونچھ اور اس کے منگیتر کے روح کی آپس میں گفتگو سے تشبیہ دیتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ پونجھ کے یہ قدیم عاشق جن کی وجہ سے یہ شہر بسایا گیا، ان کی روح اس موسم میں ڈھوک آئے ہوئے ہیں، اور محبت بھری گفتگو کر رہے ہوتے ہیں، یہ آوازیں اتنی بلند اور تیز ہیں کہ پونچھ کے جنگل جنگل گونج رہی ہے۔ اس داستان کا کوئی تاریخی یا تحریری حوالہ نہیں ایک لوک داستان یا کہانی ہے۔ ایسے ہی جیسے ہیر رانجھا، یا سسی پنو جو بڑے بوڑھے سناتے ہیں جن کے پاس اس کہانی کی صداقت میں کوئی دلیل نہیں لیکن زبان زیادہ عام ہے. اس لیے تحریر میں لایا گیا مگر اس کے کوئی تاریخی شواہد نہیں ہیں اس کے سوائے کے “تاریخ پونچھ” کے مصنف سید محمود آزاد کے مطابق “پونچھ کی وجہ تسمیہ کے بارے میں کوئی حتمی رائے تحریری صورت میں موجود نہیں البتہ یہاں کے باشندوں میں ایک کہانی مشہور ہے کہتے ہیں کہ جہاں پونچھ کا موجودہ شہر آباد ہے یہاں پہلے زمانے میں گڈریوں کی ایک بہت بڑی بستی تھی جہاں کہ گڈریے گرمیوں کے موسم میں بھیڑ بکریاں لے کر کشمیر کے پہاڑی علاقوں کی طرف چلا جایا کرتے تھے اور سردیوں میں واپس چلے آتے تھے ایک مرتبہ جب ان کا قافلہ پہاڑوں کی طرف روانہ ہوا تو آگے راجہ کشمیر کی سواری آ رہی تھی ان گڈریوں کی ایک لڑکی بے حد حسین تھی جب راجہ کشمیر کے نگا اس پر پڑی تو وہ فریفتہ ہو گیا لیکن یہ اپنی لڑکی کی شادی راجہ کشمیر کے ساتھ کرانے کے لیے تیار نہ تھے راجہ کشمیر نے دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنی سواری روک لی کہیں دن تک سلسلہ جاری رہا۔ بلآخر گڈریے اس بات پر رضامند ہو گئے کہ اس لڑکی کی یادگار کے طور پر ایک شہر آباد کیا جائے اور اس شہر کا نام پونچھ رکھا جائے۔ چنانچہ جب راجہ کشمیر نے گڈریوں کی لڑکی سے شادی کی تو اس نے نالہ بتیاڑ کے کنارے ایک عظیم الشان شہر کا سنگ بنیاد رکھا اور حکم دیا کہ یہ شہر ان گڈریوں کی ملکیت ہوگا اور اس کا نام پونچھ ہوگا اس کہانی کا ایک پہلو یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ اس علاقے کے گڈریے موسم گرما میں جب کشمیر کے قریبی پہاڑوں میں خیمہ زن ہوتے تھے تو گروہ در گروہ کشمیر کی وادی میں اتر کر چوری ڈاکے زنی اور قتل و وارداتیں کرتے تھے یہ لوگ اس قدر وحشی اور جنگجو تھے کہ ان کے دست درازیوں پر قابو پانا آسان نہ تھا۔ ان شر انگیزوں کے باعث والی کشمیر نے یہ تدبیر اختیار کی کہ ان کی ایک خوب صورت لڑکی سے شادی کی جس کا نام پونچھ تھا اور گڈریوں کو ممنوع آسان کرنے کے لیے دریا کے کنارے ایک شہر آباد کر دیا تاکہ یہ جنگ جو لوگ خوش رہیں رشتہ داری کے باعث سلطنت کشمیر پر دست درازی نہ کر سکیں”
پونچھ نامی کوئی خوب صورت لڑکی گڈریوں میں تھی کہ نہیں جس کی شادی راجہ کشمیر کے ساتھ ہوئی یہ الگ بحث ہے لیکن یہ کہانی اہل پونجھ کی زبان زد عام ہے اگر اس میں صداقت نہیں بھی تو مقامی آبادی کو قائل کرنا اس لیے بھی مشکل ہے کہ پونچھ کی تاریخ کے بارے میں واضح ثبوت نہیں البتہ ایسی داستانوں اور کہانیوں سے لوگوں کے سینے بھرے پڑے ہیں سردار شمس علی خان اور راج ولی خان کے بارے میں بڑی بوڑھی عورتیں گیت گاتی ہیں جس میں ان کی بہادر اور ظالموں سے ٹکرانے کے قصے ہیں۔ پونجھ کے سردار بہادر علی خان کی داستان بھی کم مشہور نہیں جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے کس طرح لوگوں کو ڈوگرا کے خلاف بغاوت پر تیار کیا۔ کرنل خان محمد خان کے بارے میں گیت اور داستانیں کہ انہوں نے کس طرح لوگوں کو برائیوں سے منع کیا اور اچھائی کی طرف راغب کیا۔ یہ لوک کہانیاں لوگ بڑے فخر سے سناتے ہیں اور سنتے بھی ہیں۔کہانیاں سنانے کا یہی موسم ہے جو آئندہ دو ماہ بعد “کالیاں راتیں” ختم ہونے کے بعد شروع ہو گا۔ لوگ ڈھوکیں چڑھ رہے ہوں گے۔ جہاں گھنے سایہ دار درختوں کے سائے میں بیٹھ کر ایسی ہی داستانوں کا تذکرہ ہوگا تو پھر موسم کا لطف بھی آئے گا۔ تولی پیر کے گھنے جنگلات میں جہاں پونچھ کے خاندان والے چڑھ آتے ہیں وہاں مقامی آبادی بھی چڑھنے کی تیاری کر رہی ہوتی ہے۔ وہ ہر سال کی طرح اس سال بھی ڈھوگ جائیں گے اور گرمیوں کے موسم کا مزہ دوبالا کریں گے داستان گوئی ہو گی۔ پونجھ شہزادی تھی یا نہیں مگر پونچھ ہمارا مرکزی شہر ہے جہاں ہمارے ابو اجداد آنے جانے کے قصہ کہانیاں بڑے اہتمام سے سنایا کرتے تھے، اب وہ بھی ایک ایک کر کے چلے گئے اپنے رب کی طرف۔ پوبچھ تولی پیر کے دامن میں آباد بازار عباس پور سے چند میل کے فاصلے پر ایک عظیم شہر ہے اگر موسم صاف ہو تو ایک جھلک دوربین سے دیکھی جا سکتی ہے،مگر ہم سے بہت دور کہ سوائے قصے کہانیوں میں اس خوب صورت شہر کو یاد کرنے کے ہمارے پاس اسے دیکھنے کا کوئی چارا کار نہیں۔ ایٹمی قوت ہمارے اور اس کے بیچ میں کھڑی روکتی ہے نہ اس طرف جاو اور نہ اس طرف سے کوئی آئے۔ واہ ارے واہ، پوبچھ کے غازیوں، مجاہدو، شہدو۔ پونچھ تجھے تولی پیر کے جنگلات میں پکارتی ہے، میرے محبوب کو پتھر نہ مارو۔
============================

https://www.youtube.com/watch?v=ak0DHASC