سیدہ نقوی زندگی ہار گئی

تحریر :سہیل دانش

وہ ایک نجی ہسپتال میں موت سے لڑتی رہی ۔لیکن بالاآ خر ہار گئی ۔ظاہر ہے اس کی سانسیں مکمل ہو گئی تھیں ۔برین ہیمرج کے بعد بس یہی امید رہ جاتی ہے کہ شاید کوئی معجزہ ہو جائے۔ بہر طور قدرت کو یہی منظور تھا ۔وہ آ نا “فانا ” رخصت ہو گئی ۔ہر وقت اور ہر حال میں خوش، مسرور اور قہقہے لگانے والی سید نقوی کو اچانک چپ لگ گئی ۔اس نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لیں ۔ وہ ایک ایسی انسان تھی جس نے آخری وقت تک اپنے اندر زندگی کی خواہش کو مرنے نہیں دیا ۔وہ اس طرح زندہ رہی کہ اس کی زندگی کی تازگی ،کچھ نیا کرنے کی امنگ اور خود کو منوانے کا جذبہ اسے آگے بڑھنے پر اکساتا رہا ۔اسی لیے وہ بہت اچھا لکھتی تھی ۔بہت اچھا بولتی تھی ۔الفاظ کی ادائیگی اس کا اسلوب ،اتار چڑھاؤ اور پھر قدرت کی عطا کردہ آ واز جس نے اسے لا تعداد محفلوں کا ہر دل عزیز میزبان بنا دیا تھا ۔ریڈیو اور ٹی وی پر اس نے اپنی آواز کا جادو جگایا ۔وہ روزنامہ نوائے وقت میں ہمارے ساتھی رہی ۔کئی سال تک نظروں کے سامنے رہی ۔صحافت ابلاغ عامہ اور دیگر عناصر ترکیبی میں وقت کے ساتھ ساتھ لوگ آ تے جاتے رہتے ہیں لیکن وہ اس قحط الرجال کے دور میں چمکتی رہی ۔اس کی گفتگو کے شرارے پھوٹتے رہے ۔میں نے ہمیشہ اسے سیکھتے، لکھتے پڑھتے اور خوبصورت گفتگو کرتے دیکھا ۔اس کی گفتگو ،استدلال اور نشست و برخاست کے دوران حوصلہ ،سلیقہ اور وضعداری مثالی تھی ۔
ہمارے ساتھ کام کرتے ہوئے اسے متعدد پریس کانفرنسوں میں ساتھ لے جانے کا اتفاق ہوا ۔سیدہ نقوی کی طرف سے ایسے نوکیلے اور چبھتے سوالات کہ سب داد بھری نظروں اور حیرانگی سے اسے دیکھتے ۔اگر میں یہ کہوں کہ وہ پرتجسس اور بے قرار صحافی تھی تو بے جانا ہوگا ۔میں نے دوسرا ادارہ جوائن کیا تو سید نقوی سے طویل عرصے تک ملاقات نہیں رہی لیکن پھر عجیب اتفاق رہا ۔گزشتہ تین چار ماہ کے دوران مختلف تقریبات میں اس سے متعدد بار ملا قات رہی اپنے سے بڑی عمر کے احباب سے حد در جہ ادب اس کی زندگی کا خاصہ تھا ۔اس کی یہ خوبی تھی کہ وہ امید بھری نظروں سے مستقبل میں جھانکتی رہتی تھی ۔ابھی ایک ماہ قبل ہی اس سے ملا قات ہوئی تو آئندہ جلد ہی تفصیلی گپ شپ کا وعدہ کیا ۔یہ تو سوچا بھی نہیں تھا کہ آئندہ اس کھلکھلاتی ،پر جوش اور زندہ دل سیدہ نقوی سے ملا قات اس انداز میں ہوگی کہ کفن کی سفید چادر اوڑھے تنہا اس سفر پر جا رہی ہوگی کہ جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا ۔وہ اپنے خاندان کے لئے لازم وہ ملزوم تھی ۔یہ ان کے لئے سانحہ عظیم ہے اور سچی بات تو یہ ہے کہ وہ اپنے حلقہ احباب کو بھی حد درجہ افسردہ کر گئی ۔اب سب اسے تلاش کرتے رہیں گے لیکن وہ تو اپنی زندگی کی مسافت طے کر گئی ۔اللّه رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ایسی ہنس مکھ اور خوش اخلاق سیدہ نقوی کے ساتھ اپنے رحم و کرم کا معاملہ فر ما ے ۔آمین
========================

https://www.youtube.com/watch?v=ak0DHASC