کوش آداسی میں حضرت مریم کا گھر اور اصحاب کیف کی قبریں ہیں ۔(74) “اسلامبول سے استنبول” سے انتساب

کوش آداسی کے ساحل بہت صاف اور خوب صورت ہیں۔ میونسپلٹی نے اس علاقے کو بہت خوب صورت صاف ستھرا اور شفاف بنا رکھا ہے۔ لگتا ہے صفائی کا انتظام دنوں کا نہیں گھنٹوں کا کام ہے۔ ہر ایک دو گھٹنے بعد صفائی کی جاتی ہے، تب ہی اتنی صفائی ہے ورنہ جتنے لوگ یہاں آتے ہیں ان کا پھلایا ہوا کچرا اٹھانا آسان کام نہیں۔ یہاں لوگ کچرا باہر کھلی جگہ پر نہیں پھنکتے، مجھے تو کوئی ایک فرد کچرا پھنکتے نظر نہیں آیا، حتی کہ پاکستانی بھی کچرا سڑکوں پر ڈالتے ہیں نہ پان کی پیک دیواروں پر۔ کوش آداسی ہی نہیں پورے ترکیہ کی دیواروں پر ایک لفظ لکھا ہوا نظر نہیں آتا اور نہ کوئی اسٹیکر چپکا ہوا ملتا ہے۔ کراچی کے عوام اس آزردگی میں جو سر دھنتے ہیں، اس پر کیا لکھوں سوائے اس کے،
“جو چپ لگاؤں تو صحرا کی خامشی جاگے۔۔۔۔۔
جو مسکراؤں تو آزردگی بھی شرمائے”

دیوار کا تقدس اور پس دیوار کا تحفظ اب دائمی اور یکتا نہیں رہا۔ “غریب کی جورو سب کی بھابھی ” کے مصداق میرے شہر کراچی کی دیواریں سب کی دست رس میں ہیں۔ ایک دیوار سے مختلف افراد فیض تو پا رہے ہیں لیکن چار دیواری غیر محفوظ اور لا تقدس ہو چکی۔ کوئی دیواروں پر خطاطی کرتا ہے، تو کسی کو دیواروں پر پوسٹر چپکانا اچھا لگتا ہے، بینرز ٹانگنے کے لیے بھی یہ بہترین جگہ سمجھی جانے لگی ہے۔ کسی کو پان کی پچکاری کے لیے دیواروں سے بہتر جگہ نہیں ملتی۔ اللہ پناہ دے پان کھانے والوں سے کہ کراچی میں کوئی دیوار اور کونہ نہیں بچا جو پان، گھٹکے کی پیکوں سے سرخ نہ ہو۔ خاص طور پر سرکاری دفاتر کی دیواریں ان پان خوروں کے خاص نشانے پر ہیں۔ وہی ان سفید دیواروں کو رنگین کرتے ہیں دیوار جن کے لیے لازم و ملزوم ہے۔ اہلیان کراچی دیواروں سے وہ کام لیتے ہیں جس کے بارے میں باہر کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا۔ مثلا کوئی رفع حاجت کے لیے دیوار کے سائے میں کھڑا اور کھر سے نکلتے بابو کچرے کا بیگ دیوار کے سائے میں چھوڑتے نظر آتا ہے۔ پتھر دل محبوب آپ کے قدموں میں، مردانہ کمزوری کا مکمل خاتمہ اور کافر کون ہے۔ اس فتوی کے باعث اب تک کون سا فرقہ کافر قرار دیا جا چکا، یہ سب نادر اور مذہبی معلومات آپ کو کراچی کی دیواروں پر باآسانی دستیاب ہونے کے بعد ہی اندازہ ہو سکتا ہے کہ مسلمانوں کی تعداد کس تیزی سے گھٹ رہی ہے۔۔امّت کے گھٹنے کی روک کے لیے بڑے حکیم جی کا اشتہار بھی نمایا ہوتا ہے، جس میں جلی حروف میں لکھا ہوتا ہے 80 کا بوڑھا بھی 18 سال کی جوانی پائے، جب بڑے حکیم جی کا ایک ہی نسخہ کھائے۔ کوش آداسی کے ساحل پر سیاحوں کو رات گزاری کی جگہ بھی مل جاتی ہے اور اس کے بعد کے لوازمات یا رفع حاجت کی بھی فکر نہیں ہونی چاہئے۔ ترکیہ میں بڑے بڑے عوامی حمام مسافروں اور سیاحوں کو نہانے دھونے اور کپڑے بدلنے سمیت اس سے منسلک ہر سہولت مہیا کرتے ہیں۔ عوامی حمام تو ترکیہ کی قدیم روایت اور ہیریٹج ہے۔ حمام بھی ایسے کہ منہ دیکھنے کے لیے شیشے کی بھی ضرورت نہیں۔ معروف سیاح ابن بطوطہ نے قسطنطنیہ کی فتح سے لگ بھگ ایک سو برس قبل ترکیہ کی سیر کی تھی۔ تب انہوں نے اپنے سفرنامے میں ترکیہ کے حماموں کا بڑے دل چسپ انداز میں تذکرہ کیا اور ان حماموں میں مسلمانوں کو لونڈیوں کی سہولت سے خوب فائدہ اٹھانے کے قصے بھی لکھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ” امام دیکھتے ہیں جہاں مرد اپنی لونڈیوں کو لے کر گھس جاتے تھے اور بغیر کسی ستر کے غسل کیا کرتے تھے۔ کسی بھی باحیا انسان کی طرح انہیں یہ بہت سخت ناگوار گزری اور انہوں نے قاضی شہر سے کہہ کر اس رسم کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ اس شہر کے لوگ برائی کو نہیں روکتے، یہی معاملہ اس ملک کے اکثر افراد کا ہے۔ یہ لوگ روم کی خوبصورت عورتوں کو خریدتے اور لونڈیاں بنا لیتے ہیں۔ انہیں فساد پھیلانے یعنی عصمت فروشی کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ میں نے تو یہاں تک سنا ہے کہ لونڈیاں مردوں کے ساتھ حمام میں چلی جاتی ہیں جو شخص فساد کا یہ کام حمام کے اندر کرنا چاہے اسے کوئی نہیں روکتا۔ مجھے یہ بھی بتایا گیا کہ اس شہر کے قاضی نے بھی اسی طریقے سے لونڈیاں رکھی ہوئی ہیں”۔۔ ابن بطوطہ کی اس تحریر سے اندازہ ہوتا ہے کہ عوامی حمام ترکیہ معاشرے کی بہت پرانی روایت ہے۔ جس کو عثمانیوں نے بھی جاری رکھا اور جدید ترکیہ میں بھی اس نظام سے نہیں چھیڑا گیا۔ البتہ موجودہ دور میں دیگر کی طرح اس کاروبار میں بھی جدت آئی اور لوگوں کو راغب کرنے کے لیے ٹورسٹ بروشر میں حمام کا بہت شد و مد سے ذکر کیا گیا لونڈیوں کا رواج تو عمومی طور پر ختم ہی ہو چکا، معلوم نہیں خالی جگہ کیسے پوری کی جاتی ہے۔ آج کل حمام کے ساتھ سٹیم اور سونا بات کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔ مساج کرانے کے بعد شاکنگ شاور کو بھی بڑی اہمیت دی جاتی ہے۔ مبینہ طور پر معلوم ہوا کہ اگر چاہیں تو ان حماموں میں مرد اور خواتین اکٹھے غسل کر سکتے ہیں۔ اس اطلاع کے بعد مجھے یہ جرائت نہ ہو سکی کہ کسی عوامی حمام میں داخلے کا تصور کر سکو اس طرح حماموں کا عملی تجربہ تو نہیں ہو سکا البتہ مبینہ طور پر حاصل معلومات یہی ہے۔ یہ حمام سیر و تفریح کے لیے آنے والوں اور مقامی لوگوں کے لیے یکساں خوشی اور راحت کا باعث ہیں۔ یہ صرف غسل خانے ہی نہیں، ان میں اس سے زیادہ کچھ ہے۔ یعنی بھاپ، پانی اور مالش کے امتزاج سے جسمانی سکون حاصل کرنا۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق ایک وقت میں استنبول کی سڑکوں اور گلیوں میں 230 عوامی حمام تھے، لیکن اب ان میں سے صرف 60 کے قریب ہی زیر استعمال ہیں۔سلطانوں نے اپنے لیے بھی ایک محل کے باہر پرتعیش حمام تعمیر کرایا وہ ملکہ حوریم سلطان کے نام سے منسوب کیا گیا۔ اس حمام کی ڈیزائینگ شاہی معمار سنان نے کی تھی۔ ملکہ حوریم کے نام سے تعمیر ہونے والا حمام جس کی ڈیزائینگ سنان کرے تو سلطنت میں اس کام کی کتنی اہمیت ہوئی ہو گی، اس پر مذید رائے کی ضرورت نہیں۔ تاہم اس کاروبار میں کمال اتاترک سے طیب اردوان تک کسی بھی حکمران نے رکاوٹ نہیں ڈالی۔ لہذا ترکیہ کے سیاحوں کو یاد رہے کہ آپ ہوٹل میں رہ کر رقم ضائع نہیں کرنا چاتے تو سستی رہائش اور حمام بھی موجود ہیں اور ہر شہر میں آسانی سے ملتے بھی ہیں۔ کوش آداسی میں اس کی سہولت کثیر ہے۔ اس شہر میں سمندری ٹرانسپورٹ سے آمدورفت بہت زیادہ ہے۔ یورپ سے بہت لوگ آتے جاتے ہیں۔ جب ہم کوش آداسی شہر میں گھوم رہے تھے تو ساحل پر ایک دیو ھیگل بحری جہاز کھڑا تھا جس میں دس ہزار افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔ یہ جہاز گریس جا رہا ہے۔ روزانہ اتنے ہی بڑے دو سے تین جہاز یورپ کے مختلف علاقوں میں آتے جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ سب سے زیادہ آمدورفت کوش آداسی اور گریس کے درمیان ہے، جہاں سے لوگ یورپ کے دیگر ملکوں میں جاتے ہیں۔ کوش آداسی میں سیاحوں کا جو ہجوم ہے یہ ایک دو سال کی نہیں بلکہ گزشتہ 40 سال کی محنت کا نتیجہ ہے۔ اس پر مسلسل کام ہوا تو اب یہ شہر سیاحت کا مرکز بنا۔ دنیا بھر سے لوگ یہاں آتے ہیں جن کی زیادہ تعداد بحری جہازوں پر سفر کرتی ہے۔ کوش آداسی کے ساحل بچوں اور خواتین کے کھلنے کے لیے بے مثال ہیں۔ 500 سو میٹر تک پانی گہرا نہیں لہذا لہریں نہیں بنتی اور ڈوبنے کا بھی خطرہ نہیں، بچے اور خواتین ساحل پر پانی میں خوب کھلتے کودتے ہیں اور سمندر میں دور تک جاتے ہیں۔ دوپہر کو سخت گرمی کے باوجود سمندر میں ہجوم لگا رہتا ہے۔ کوش آداسی کے بندرگاہ سے سیکڑوں ایکڑ جنگلات پر مبنی نیشنل پارک اور ایک خوب صورت جزیرے کے لیے بوٹ جاتی ہے۔ نیشنل پارک میں قدرتی ماحول میں وائلڈ لائف سے ملاقات ہو سکتی ہے جب کہ جزیرے کی اپنی تاریخ ہے۔ رومیوں نے اس جزیرے کو بحری قذاقوں کو روکنے کے لیے آرمی کا مرکز قائم کیا۔ 1826 میں عثمانیوں نے تعمیر نو کی اور بہت خوبصورت کر کے پبلک کے لیے کھولا۔ جدید ترکیہ نے اس جزیرے کو مذید ترقی دے کر بحری جہازوں کے ذریعے کوش آداسی سے ملا دیا۔ اب 50 لیرا کرایہ کی ادائیگی پر ہر کوئی یہاں جا سکتا ہے، سیاحت کر سکتا ہے۔ اب یہاں سیاحوں کا رش لگا رہتا ہے۔ کوش آداسی سے 50 کلو میٹر کے فاصلے پر 3 ہزار سال قبل قائم ہونے والے آفیسس شہر کے آثار ہیں۔ اس شہر نے یونانی، رومن، سلجوک، عثمانی اور جدید ترکیہ کا اقتدار اعلی دیکھا۔ یہاں حضرت مریم کا گھر اور اصحاب کیف کی قبروں ہیں۔
===============================

https://www.youtube.com/watch?v=ak0DHASC