ماں کا عالمی دن، 23 ہزار بیواؤں، 12 ہزار ریپ زدہ ماوں کو سلام۔

سچ تو یہ ہے،

بشیر سدوزئی۔
=========

کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے کہ آج کی دنیا میں حکمران ہونے کے لیے دوغلہ، مکار، دغا باز، رذیل، دورخا، مخلوط النسل، اور دھوکہ باز ہونا ضروری ہے یا لوگ اقتدار میں آ کر ایسے ہو جاتے ہیں۔ عالمی سطح پر جہاں، جہاں طاقت کا سرچشمہ ہے، یہ سارے القاب ان کے لیے کم پڑھ رہے ہیں۔ یہ دنیا کو دھوکہ اور رذیل نہیں تو اور کیا ہے کہ آج ماوں کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس کی خوب تشہر کی جا رہی ہے، سیمینار اور جلسے جلوس ہو رہے ہیں اور یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ اقوام متحدہ عالمی سطح پر ماں کے احترام یا عورت کی عزت و عصمت کی حفاظت اور توقیری کے لیے کوشاں ہے۔ اس روز بچے اپنی ماوں کو پھول اور گلدستے پیش کر رہے ہیں، انواح و اقسام کے کھانے کھلا رہے ہیں اور پورا دن ان کے ساتھ گزار رہے ہیں۔ جب کہ اسی دنیا میں ہزاروں مائیں ایسی ہیں جو مصیبت میں مبتلا ہیں اور ہزاروں لاکھوں ایسی ہیں جو انہی عالمی حکمرانوں کے دوغلے پن سے متاثر ہیں ان کی سسکیاں اور آئیں آسمان بھی ہلا رہی ہوں گی لیکن ان عالمی حکمرانوں تک نہیں پہنچ رہی، یا انہوں نے کان میں روئی ٹھونس رکھی ہے۔ فلسطین کی ماں ہو یا مقبوضہ جموں و کشمیر کی یا کسی دوسرے محکوم و مظلوم خطے کی، تڑپ رہی ہے رو رہی ہے، اسے پھول کیا کوئی اس کے ساتھ یا اس کے لیے پھول جیسی بات بھی نہیں کر رہا۔ بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر میں 12000 خواتین بھارتی فوج کے ہاتھوں جنسی زیادتی کا شکار اور لگ بھگ 23000 بیوہ اور آدھی بیوہ ہو چکی ہیں۔ ان ماوں کو کون پھول دے، کون دلاسہ دے، نہ کوئی اپنا ہے نہ پرایا ۔ مجال ہے عالمی فرعون ٹس سے مس ہوں، ان کی مشکلات دیکھ کر ریاستی تشدد دیکھ کر ۔ ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق بھارتی فوج کشمیری خواتین کے ساتھ اجتماعی زیادتی کو خوف پھلانے اور اجتماعی سزا یا جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ ایشیاء واچ کی رپورٹ میں کہا گیا کہ کشمیر میں صرف ایک ہفتے میں 44 ماورائے عدالت قتل اور 15 خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات رپورٹ ہوئے تاہم 75 سال گزرنے کے باوجود کشمیر میں جنسی زیادتی میں ملوث کسی اہلکار کو سز انہیں دی گئی۔ ریسرچ سوسائٹی آف انٹر نیشنل لاء کی رپورٹ کے مطابق بھارتی فورسز نے 11 سے 60 سال تک کی خواتین کو بھی نہ بخشا، بھارتی حکومت کی طرف سے اس گھناؤنے جرم میں کھلی چھوٹ کے نتیجے میں بھارتی افواج بلا خوف و خطرہ کشمیر میں جنسی زیادتی کے جرائم میں ملوث ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کی ایک اور رپورٹ میں بتایا گیا کہ بھارتی فوج ریپ کو تحریک آزادی کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کر رہی ہے، 2005 کی ایک رپورٹ کے مطابق کشمیری خواتین کے خلاف جنسی زیادتی کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ “دی گارڈین” کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ 1979 سے 2020 تک کشمیر میں میجر کے رینک کے 150 سے زائد بھارتی فوجی افسران منظم انداز میں جنسی زیادتی میں ملوث پائے گئے اس صورت حال میں ان کے ماتحت نفری کا کیا عالم ہوا ہو گا۔۔سوشل ڈویلپمنٹ کونسل کینیڈا کے مطابق بھارتی فوجیوں کو زیادتی پر اْکسانے میں AFSPA کا مرکزی کردار ہے۔ اس ادارے نے جنوبی ایشیا میں جنسی تشدد پر تحقیق کی اور اس واقعہ پر
“Do You Remember Kunan Poshpora?”
کے نام سے ایک تحقیقی رپورٹ بھی شائع کی گئی ہے، جس میں بتایا گیا کہ بھارتی فورسز نے کس طرح منصوبہ بندی اور حکمت عملی کے تحت سری نگر سے 90 میل مشرق میں سرحدی ضلع کپواڑہ کے دو گاوں کنن اور پوش پورہ میں فروری کی ایک سرد رات چادر اور چار دیواری کو تار تار کیا۔ اس واقعہ میں ایک سو سے زیادہ خواتین کو اجتماعی ریپ کیا گیا جن کی ریاستی اور حکومتی سطح پر شنوائی نہیں ہوئی اور مجرموں کو تحفظ اور اعزازات سے نوازا گیا۔ اس واقعہ کی کہانی اس طرح ہے کہ 23 فروری 1991 کو 4 راجپوتانہ رائفل کے جوانوں نے ضلع کپواڑہ کے گاوٴں کنن پوش پورہ میں 100 سے زائد کشمیری خواتین سے زیادتی کی، جبکہ 17 مارچ 1991 کو چیف جسٹس جموں و کشمیر کے تحقیقاتی کمیشن کے سامنے 53 کشمیری خواتین نے بھارتی فوجیوں کی طرف سے عصمت دری کا اعتراف کیا۔ 15 سے 21 مارچ 1991 کے دوران ہونے والے طبی معائنوں میں 32 کشمیری خواتین پر تشدد اور جنسی زیادتی ثابت ہوئی۔ سال 1992 میں امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی رپورٹ میں بھی کہا گیا کہ کنن پوش پورہ سانحے میں بھارتی فوج کے خلاف اجتماعی زیادتی کے ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں۔اپریل 2018 میں کٹھوعہ میں ہندو انتہا پسندوں نے مسلمانوں بکروالوں سے زمین خالی کروانے کے لیے ان کو خوف زدہ کرنے کی خاطر گھر کے قریب سے
8 سالہ آصفہ بانو کو مقامی پولیس کے تعاون سے اغوا کیا گیا 7 دن مندر میں زیادتی کا نشانہ بنایا۔ بعد ازاں قتل کر کے میت کو گاوں کے قریب جنگل میں پھنک دیا۔ اس گروہ میں پولیس و ملٹری افسران پارلیمنٹرین اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے بااثر افراد شامل تھے۔ ان کے اثر کا اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آصفہ بانو کو انصاف کیا ملتا۔ اس کا مقدمہ بھی جموں کی حدود میں کسی عدالت میں نہیں چلنے دیا گیا جو پہنجاب کی کسی عدالت میں منتقل کیا گیا۔ 10 اکتوبر 1992 کو 22 گرینیڈیئر کے جوانوں نے شوپیاں میں 9 خواتین کو اجتماعی زیادتی کا شکار بنایا۔ یہ تو چند وہ واقعات ہیں جو رپورٹ کئے گئے مقدمات میں سے چنے گئے یا جن کو بین الاقوامی اداروں کی جانب سے رپورٹ کیا گیا۔ جب کے ہزاروں ایسے واقعات ہیں جن کے متاثرین نے یہ سمجھ کر شکایت ہی نہیں کہ کون سا انصاف ملنا ہے، الٹا خواری اور بدنامی ہی ملنی ہے۔ جن کی رپورٹ بھی کی گئی اول تو ان کی ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کردیا گیا جہاں عوامی پریشر میں ایف آئی آر درج ہوئی وہاں تحقیقات میں ہی پولیس نے گڑھ بڑھ کر دی، جہاں بات عدالت تک پہنچی وہاں روک لیا گیا۔ ابھی بھی کشمیری عدالتوں میں جنسی تشدد اور زیادتی کے 1000 سے زائد مقدمات زیر التوا ہیں۔ 12 فروری ماوں کے عالمی دن کے موقع پر دنیا کی سب سے بڑی جیل مقبوضہ جموں و کشمیر کی 23 ہزار بیواؤں اور 12 ہزار ریپ زدہ ماوں کو سلام کہ جنہوں نے اعلی مقصد آزادی کی خاطر دنیا میں سب سے قیمتی چیز کی قربانی دی۔ دورخے عالمی حکمران ان کی اس قربانی کی تصدیق نہیں کر رہے اور نہ ہی بھارتی ریاست کو دہشت گرد کہہ رہے ہیں۔ آج کے دن کو ہم ماوں کا عالمی دن تب مانتے جب سیکریٹری جنرل آج کے دن فلسطین اور مقبوضہ جموں و کشمیر سمیت دنیا بھر کی مظلوم و محکوم ماوں سے اظہار یکجہتی کرتے اور ان کو ہدیہ تہنیت کا تحفہ پیش کرتے۔ حتی کہ آزادی کے بیس کیمپ کے دعویدار آزاد کشمیر میں براجمان حکمرانوں اور فرنچائز کے منہ سے بھی ایک لفظ نہیں نکلا۔ ضمیر مر چکا یا ہیڈ کوارٹر کا خوف ہے، مقبوضہ کشمیر کے عوام کے دکھوں پر ایسے خاموشی اور سکوت ہے جیسے سانپ سونگھ چکا ہو۔ اقوام متحدہ کے عہدیداروں اور عالمی حکمرانوں کی خاموشی ظہار کرتی ہے کہ یہ دن محظ ایک ڈھکوسلہ ہے۔ حق خودارادیت کے لیے جدوجہد کرنے والے عوام کو طفل تسلی اور لولی پاپ ہے، اس میں ماوں کے لیے کوئی خیر کی خبر اور مسرت کا پیغام نہیں۔