یورپ کی ثقافتی سرگرمیوں کا مرکز چیک ریپبلک کا دارالحکومت پراگ

رب کا جہاں
نوید نقوی
==========

صاحب صاحبہ رب کا جہاں ایک ایسا سلسلہ ہے جس کو پڑھ کر آپ کا دل امید کی روشنی اور علم و ادب کی طاقت سے منور ہو جائے گا۔ آج ہم لمبی دوری طے کرتے ہوئے بیونس آئرس سے رکشے کا رخ خوابوں کی سرزمین یعنی سیدھا یورپ کی طرف کرتے ہیں۔ کہتے ہیں سفر وسیلہ ظفر ہوتا ہے اس لیے حقیقت میں نہ سہی خوابوں کی دنیا میں پوری دنیا گھومنا کوئی برا خیال نہیں ہے۔ یورپ سے سیاسی اختلافات اپنی جگہ لیکن یہ بھی ایک سچ ہے کہ یورپ بے انتہا خوبصورت ہے۔ اس براعظم کا ہر شہر ، گاؤں خوبصورتی میں پوری دنیا کو مات دیتا ہے۔ یوں تو اللہ تعالیٰ اپنی تمام مخلوقات پر مہربان ہے لیکن یورپ والوں کو بھی بہت زرخیز اور سرسبز زمینیں عطا فرمائی ہیں جو جنت نظیر ہیں۔ آپ نے مختلف یورپی ممالک کے دارالحکومتوں جیسے لندن، پیرس، برلن، روم، میڈرڈ، برسلز، ایتھنز، کیئو، سٹاک ہوم، کوپن ہیگن اور اوسلو وغیرہ کے نام سنے ہوں گے ان میں سے کافی کی سیر بھی کرا چکا ہوں لیکن آج ہم یورپ کے ایک ایسے ملک چیک رپبلک کا تفصیلی دورہ کریں گے جہاں کی پرکشش وادیاں انسان کو مدہوش کرنے کے لیے کافی ہیں۔ ہم اس خوبصورت ملک کے دارالحکومت پراگ میں بھی جائیں گے اور تمام تاریخی اور ثقافتی مقامات کی سیر کریں گے۔ چيک ریپبلک ایک جدید صنعتی ملک ہے جو وسطی یورپ میں واقع ہے۔ اس کی قومی زبان چیک ہے۔ اس میں 14 حصے ہیں۔ چيک ریپبلک شمال میں پولینڈ، جنوب میں آسٹریا اور مغرب میں جرمنی، مشرق میں سلوواکیہ سے ملا ھوا ہے۔ اس کا رقبہ 78867 مربع کلومیٹر ہے اور اس کی آبادی تقریباً 10505445 نفوس پر مشتمل ہے۔ پراگ چيک جمہوريہ کا دار الخلافہ ہے۔ یہ شہر تاریخی، ثقافتی اور سیاسی مرکز بھی ہے۔ برلن، لکسمبرگ اور کوپن ہیگن کو اس شہر کے جڑواں شہر کہا جاتا ہے۔ سنہ 1993 میں چیکوسلواکیہ سے ٹوٹ کو دو ملک سلواکیہ اور جمہوریہ چیک وجود میں آئے تھے۔ پراگ جمہوریہ چیک کا سب سے بڑا شہر اور یورپ کی ثقافتی سرگرمیوں کا مرکز بھی ہے جہاں کا مشہور لینڈ مارک “چارلس بریج” دنیا بھر کے سیاحوں میں مقبولیت رکھتا ہے۔ پراگ چونکہ جمہوریہ چیک کا دار الحکومت ہے اس لیے ملک کے دونوں اعلی ترین عہدیداران صدر اور وزیر اعظم کی رہائش گاہیں بھی یہیں واقع ہیں۔ چیک پارلیمان کے دونوں ایوان اور اعلی عدالت بھی یہیں قائم ہیں۔ یہ شہر “سو میناروں کا شہر” اور “شہرِ زریں” کے نام سے بھی مشہور ہے۔ 1992 سے پراگ کا تاریخی مرکز یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کے مقامات میں شامل ہے۔
یہاں آپ کو چیک ریپبلک کے بارے میں ایک اہم ترین بات بتاتا چلوں کہ یہ دنیا کا ساتواں رہائش کے لیے بہترین اور محفوظ ترین ملک ہے۔ یورپ کے دیگر شہروں کی طرح یہاں بھی شراب کا استعمال دنیا میں سب سے زیادہ ہے مگر اس کے باوجود دنیا کے فٹسٹ لوگوں میں یہ قوم 11ویں نمبر پر ہے۔
یورپ کے کسی بھی ملک سے زیادہ کیسلز ” Castle” یہاں واقع ہیں۔ ان تاریخی کیسلز کی تعداد 2 ہزار سے زیادہ ہے۔ گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے مطابق دنیا کا سب سے بڑا قلعہ جسے پراگ کیسل بھی کہا جاتا ہے، یہیں واقع ہے۔ اسی قلعے کے اندر سینٹ ویٹوز کا چرچ بھی ہے، جس میں بہت سے بادشاہوں کے مقبرے موجود ہیں۔ اسی چرچ کے پیچھے ایک اور چرچ ہے جس کا نام سینٹ جارج بیسیلیکا ہے۔ اس چرچ کی بنیاد 920 عیسوی میں رکھی گئی۔ اب اس کو بوہیمین آرٹ گیلری کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ دارالحکومت پراگ میں کئی قدیم تعلیمی اداروں کا وجود اب بھی باقی ہے اور بلاشبہ چیک قوم اپنے اس عظیم کارنامے پر فخر کر سکتی ہے۔ وسطی یورپ کی سب سے قدیم یونیورسٹی چارلز یونیورسٹی بھی پراگ میں ہے جو سنہ 1348 میں قائم ہوئی۔ پراگ شہر ساتویں صدی میں آباد ہوا جب یہاں ایک انتہائی خوبصورت، دانشمند اور غیبی قوتوں کی حامل سیلوک شہزادی لیبیوز اور ان کے شوہر شہزادہ پریمسل پراگ میں واقع پہاڑوں سے چیک کی ان سرسبز زمینوں پر حکومت کرتے تھے۔ یہ خوبصورت شہزادی ہر روز پہاڑ کی چوٹی سے ایک وادی کو دیکھتی تھی، ایک دن اسے بصارت ہوئی اور پیشین گوئی کی کہ ایک دن یہاں ایسا شہر آباد ہوگا جس کی روشنیاں آسمان تک پہنچیں گی۔ ان کی پیشین گوئی سچ ثابت ہوئی اور اس شہر کی خوبصورت دل کو موہ لیتی ہے۔ آخر یہ قدرت کا ہی تو تقاضا ہے کہ خوبصورتی ہمیشہ آنکھوں کو بھاتی ہے اور حسن کی تشنگی حسن سے بجھتی نہیں بڑھتی ہے۔
دریائے “ولتاوا” کے کنارے آباد چیک ریپبلک کا دارالحکومت پراگ یورپ کا پانچواں سب سے زیادہ وزٹ کیا جانے والا شہر بھی ہے۔ اس فہرست میں استنبول پہلے، پیرس دوسرے، روم تیسرے اور لندن چوتھے نمبر پر ہے۔ پراگ میں ہر سال ڈھائی لاکھ کے قریب سیاحوں کی آمد ہوتی ہے۔ دنیا بھر کے سیاح آخر اس قدیم شہر کو پسند بھی کیوں نہ کریں، انسان تو انسان ٹھہرا، چاہے ترقی کی منازل طے کر لے مگر ماضی کی ہر شے اسے ہمیشہ شاندار لگتی ہے، چنانچہ سیاح اس شہر میں سموئی تاریخ کو ٹٹولنے آتے رہتے ہیں۔ یہ شہر وسطی یورپ میں ہے اور اس طرح پراگ مشرقی اور مغربی یورپ کے درمیان ایک پل کا کردار بھی ادا کرتا ہے۔ یہاں بیئر کی بوتل پانی کی بوتل سے بھی سستی ہے اور پراگ کی مدہوش راتوں میں دنیا بھر کے سیاح دھیمی روشنیوں کے سائے میں جاگ کر گزارتے ہیں۔ یہاں بے شمار نائٹ کلبز اور بار ہیں۔ رات دس بجے کے بعد جب شاپنگ کی دکانیں بند ہو جاتی ہیں تو پراگ کی رات کا آغاز ہوتا ہے۔ چارلس برج پراگ کی پہچان ہے یہ پل کیا ہے؟ بس یوں سمجھیں کہ ایک دنیا آباد ہے، جس میں سارے پراگ کی خوبصورتی اور حسن کا نچوڑ سمایا ہوا ہے۔ گرد و نواح کے خوبصورت نظاروں کو دیکھنے کے لیے پل کے کونوں پر برجیوں پر چڑھا جا سکتا ہے۔ پل کی خوبصورتی کا یہ رنگ آپ کے ذوقِ نظر کی بھر پور تسکین کرے گا۔ یہاں شاہ چارلس چہارم کا مجسمہ بھی آپ کو داد دہش دینے پر مجبور کرتا ہے۔ پراگ کا اولڈ ٹاؤن پرانے یاروں کی طرح ہلکا ہلکا سرور دیتا ہے۔ پراگ کی مشہور فلکیاتی گھڑی اور قدیم چرچ کو دیکھ کر آپ کو سکون دے گی
یہاں بھی زیادہ تر سائن بورڈز لوکل زبان میں ہوتے ہیں۔ یہ ایک دلچسپ بات ہے کہ یورپ کا ہر ملک چاہے وہ چھوٹا ہے یا بڑا، اپنی مقامی بولی ہی بولتا ہے اور اسی میں سائن بورڈز اور دوسری چیزیں ہوتی ہیں۔ چیک ریپبلک میں تو کرنسی بھی زیادہ تر ان کی اپنی ہی استعمال ہوتی ہے۔
یہاں ہر سال انٹرنیشنل میوزک فیسٹیول بھی ہوتا ہے جس میں دنیا بھر سے فنکار اور پرستار شرکت کرتے ہیں۔
آپ کو اگر اس خوبصورت شہر آنے کا موقع ملے تو “فیری رائڈ” کا پیکج لازمی لیں اس سے آپ کا سفر نہ صرف پر لطف ہوگا بلکہ یادگار بھی ہوگا۔ یہ سفر آپ کو چیک ریپبلک کے شہروں کے بیچوں بیچ دریائے”ولتاوا” کی سیر کروائے گا۔ یوں دریا کی دونوں سائیڈوں پر مشہور عمارات کو دیکھنے کے علاوہ چارلس بریج کے نیچے سے بھی گزرنے کا موقع ملے گا۔
مشہور زمانہ “چارلس بریج” پراگ شہر کی پہچان ہے۔ قرون وسطہ کا پتھر کا بنا ہوا یہ پل سنہ 1402 میں مکمل ہوا تھا۔ اس پل کی خصوصیت اس پر تراشے گئے 30 مجسمے ہیں۔ یہ واحد پل ہے جو WWII کے دوران بھی محفوظ رہا۔
قدیم اور جدید عمارات سے سجا یہ شہر بہت ساری فلموں کی شوٹنگ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ ابھی حال ہی میں ریلیز ہوئی بلوک بسٹر ایکشن فلم “The Gray Man” کا بیشتر حصہ بھی یہیں فلمایا گیا ہے۔
وہ ٹرین سسٹم جس کے ذریعے آپ نہ صرف پورا ملک گھوم سکتے ہیں بلکہ ساتھ والے ملکوں میں بھی جا سکتے ہیں۔ بہت شاندار تجربہ ثابت ہوتا ہے۔ ٹرینز کی ان لائن بکنگ اور سیٹ نمبر تک بک ہو جاتے ہیں۔ یہاں ٹرینیں بھی پابندی وقت کو ملحوظ خاطر رکھتی ہیں۔ ٹائم سے چلتی ہیں اور ٹائم پر ہی منزل مقصود تک پہنچاتی ہیں۔ جن کے اندر فری انٹرنیٹ اور موبائل چارجنگ کی سہولت الگ سے ہوتی ہے۔ حیران کن طور پر ان ٹرینوں میں رش نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ اکثر تو ایسا لگتا ہے کہ پورا کیبن ہی آپ کی ملکیت ہے۔ سمجھ نہیں آتا کہ اتنے کم لوگوں کے ساتھ یہ سروس کیسے چل رہی ہے۔ لیکن بھائی یہ یورپ ہے جہاں عوام کو ہمیشہ ریلیف پہنچایا جاتا ہے۔
یورپ میں ایسا بہت کم ہی ہوتا ہے کہ آپ کا ٹکٹ چیک کیا جائے اور اگر بغیر ٹکٹ سفر کر رہے ہوں تو کم از کم 10 گنا جرمانہ بھرنا پڑتا ہے۔
=============================

https://www.youtube.com/watch?v=ak0DHASC