کوش آداسی میں رات رنگین اور متحرک ہے۔آوارہ گردی میں بہکنے بہلنے کا اندیشہ ہے۔(73) “اسلامبول سے استنبول” سے انتساب

ہم ہوٹل میں کیا آئے کے باہر نکلنے سے ہی رہ گئے۔ ایک تو کوش آداسی میں گرمی زیادہ ہے، دوسرا طویل سفر سے جان میں جان نہیں رہی۔ بڑے بڑے جوان ڈھیر ہو گئے، ہم تو ٹھہرے بوڑھے۔ لہذا ہوٹل آنے کے بعد نکلنے کی ہمت ہی نہیں رہی حتی کہ ڈنر کا وقت ہو گیا۔ میری تو کوشش یہی ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ وقت فٹ پاتھ پر آوارہ گردی کرتے گزرے، اسی میں کچھ دیکھنے، سمجھنے اور سیکھنے کا موقع ملے گا۔ ڈنر کا وقت ہوا چاہتا ہے جس کے لیے لامحالہ جانا پڑھے گا۔ طہ پایا کہ آج کا ڈنر مصروف تجارتی بازار کے کسی ہوٹل پر ہو گا، جہاں کھانے سے زیادہ کوش آداسی میں رات کی زندگی سے لطف اندوز ہوا جائے۔ یہاں ٹریفک کے بڑے مسائل ہیں گاڑی لے کر بازار میں جانے کا مقصد یہ ہے کہ آپ کا وقت سارا گاڑی میں خراب ہو گیا، گاڑی بازار میں رینگتی رہے اور آپ گاڑی میں اونگتے رہیں۔ دوستوں نے کہا بازار تک پیدل چلتے ہیں، بہت دن ہوئے واک نہیں ہوئی، پھر کسی کونے سے آواز آئی، بھیا واک کرنے ترکیہ نہیں آئے ورنہ کراچی میں بھی کافی پارک ہیں اور ہر پارک میں ٹریک موجود ہیں۔ اتفاق اس بات پر ہوا کہ گاڑی پر جاتے ہیں اور واپس پیدل آتے ہیں۔ میرے خیال میں یہ فیصلہ صحیح تھا۔ گاڑی کی پابندی میں سوائے ڈنر کے سب کچھ ہاتھ سے جاتا۔ ہم کچھ ٹھونستے اور آکر بستر پر دراز ہو جاتے، وقت بھی جاتا اور صبح کے ناشتے تک پیٹ اور معدے پر بھار ہی رہتا اس بھار کو ہلکہ کرنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ کھانے کے بعد آوارہ گردی اور ہوٹل تک پیدل واپسی۔ ترکیہ میں رات کی زندگی دن کی زندگی سے زیادہ متحرک اور ر نگین ہے۔ جب کہ کوش آداسی اس میں سب سے آگئیں ہے، انقرہ اور استنبول بھی اس کا مقابلہ نہیں کرتے سارے رات کے راہی کوش آداسی پہنچ جاتے ہیں۔ ہمیں بھی ساحر لدھیانوی یاد آ گیا اس کو کیا خبر تھی ہم کبھی کوش آداسی جائیں گے۔ اتنا پہلے کہہ دیا،
“رات کے راہی تھک مت جانا صبح کی منزل دور نہیں
دھرتی کے پھیلے آنگن میں پل دو پل ہے رات کا ڈیرا “۔

کوش آداسی میں رات کے پچھلے پہر تک نائٹ کلب کھلے رہتے ہیں، جہاں ڈانس پارٹی اور اس کے لوازمات چلتے ہیں۔ جو اس کے شوقین نہیں وہ باہر سے دیکھتے ہیں، تاکتے، جھانگتے ہیں۔ جو اس سے بہت زیادہ معزز کہلانا چاتے اور اس کو گناہ سمجھتے ہیں وہ گلیوں اور چوراہوں میں کھوم پھر کر حسیناؤں سے ٹکراتے اور پھر سوری کر کے دوسرے شکار کے لیے نکل جاتے ہیں۔ جو واقعی معصوم ہیں، کسی نکڑ پر بیٹھ کر یا ٹہل ٹہل کر آنکھوں کو ٹھنڈا کرتے ہیں۔ ہم نے بھی شرافت کی اس آخری حد کو مضبوطی سے تھامے رکھا تاکہ روایتی شرافت ہاتھ سے نہ جانے پائے۔ ڈنر کے بعد گروپ سے کہا بلکہ سب نے اتفاق کیا کہ آج کی رات سب آزاد ہیں زمین پر پھیل جائیں کہ اس میں قدرت نے کچھ نعمتیں رکھی ہیں۔ اب ہم رفاقت کی بندھن سے آزاد نعمتوں کی تلاش میں نکل پڑھے۔ آخری اطلاعات آنے تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ کون کتنی نعمتوں سے فیض یاب ہوا اور کس کو کتنی مرتبہ سوری کرنا پڑا۔ کوش آداسی کی گلیاں تھی اور ہم، بس خوف یہ تھا کہ ہوٹل بھول نہ جائے اور اسی خوف نے مجھے ہوش میں رکھا، ورنہ کوش آداسی میں رات ہو اور اس طرح کی آوارہ گردی، بہکنے بہلنے کا اندیشہ کچھ زیادہ ہی ہے۔ ہر گلی کے نکڑ پر نائٹ کلب اور، کلب کے صحن میں بیٹھی سگریٹ کا دھواں اڑاتی، گھٹ گھٹ پیتی حسینائیں شرفاء کو بھی للچا دیتی ہیں۔ طمع بے لگام ہو جائے تو کیا سے کیا ہو جائے۔ہوٹل بھول جانے کا خوف ہی یہاں بچاتا ہے ورنہ آرزوئیں بے قابو ہونے میں کچھ دیر نہیں لگاتی۔ اس رات تو ہم نے بے خوب بازار کا چکر لگایا اور بیٹیوں کے لیے کچھ سوغات بھی چنے، بلکہ خرید ہی لیے۔ اس شہر میں دنیا بھر سے سامان آتا ہے قانونی بھی اور اسمگلنگ سے بھی لیکن ہوتا بڑا معیاری اور اصل۔ چھوٹے چھوٹے تحفے اتنے خوبصورت کے بڑوں اور بچوں کا یک ساں دل بھیل جائے۔ ہم نے 80 فیصد خریداری اسی بازار اور آج ہی کی رات کی اور ایک دوکان دار سے کافی اور دو سے قہوہ پیا۔ کوش آداسی کے لوگ بہت خوش اخلاق، مہمان نواز اور محبت والے ہیں۔ ایک دوکان دار نے جو لگ بھگ 30، 35 کے لپیٹے میں ہوا ہو گا۔ مجھ سے پوچھا کہ آپ انڈین ہیں؟ میں نے کہا، اللہ نہ کرے ہم انڈین ہوں، انڈیا نے تو بہت مار لگائی کہ تم بولو کہ انڈین ہو لیکن ہم نے ابھی تک نہیں مانا 76 سال گزر گئے مار کھاتے ہوئے، 76 سال میں کسی قوم نے اتنا راشن نہیں کھایا ہو گا جتنی ہم انڈین نہ ماننے پر مار کھا چکے۔ اوہ ! کشمیر، جی بالکل درست، پاکستان۔ اس نے ترکی زبان میں اپنے کسی بندے کو کچھ کہا معلوم نہیں اس کا چھوٹا تھا یا کوئی گھومتا پھرتا چائے والا، ہماری کراچی کی زبان میں باہر والا، لیکن بڑی عجلت میں قہوہ کا وہی چنا منا گلاس ایک چھوٹی سی ٹرے میں رکھ کر لے آیا۔ میں نے دوکان دار سے کہا، ابھی کچھ خریدا ہی نہیں تو تم نے قہوہ پہلے منگوا لیا۔ ممکن ہے میں کچھ بھی نہ خریدوں، وہ مسکرایہ اور بولا، یہ قہوہ گائک کے لیے نہیں منگوایا، پاکستان بھائی کے لیے ہے۔ اس سے کافی بات چیت ہوئی، دوکان بچوں اور بڑوں کے کھلونوں سے بھری ہوئی تھی۔ ہم نے بھی قہوہ کا جواب محبت سے دیا لیکن میرے خریدے ہوئے سامان پر اس نے سوچ سوچ کر کافی رعایت کی۔ میں تو ترکیہ جانے والے دوستوں کو مشورہ دوں گا کہ اگر کوئی خریداری کرنی ہے تو قونیہ اور کوش آداسی بہترین شہر ہیں۔ کوش آداسی کی بندرگاہ سے بحری مسافت میں یورپ نزدیک ہے۔ اسی باعث انسانی اسمگلنگ کے یہاں زیادہ موقع ہیں۔ میڈیا پر جو سمندر میں کشتیاں ڈوبنے کے واقعات منظر پر آتے ہیں کہ غیر قانونی طور پر کشتی میں یورپ جاتے ہوئے حادثہ۔ غیر قانونی طور پر یورپ جانے والے ایشیائی باشندے جو ترکیہ کے راستے جانا چاتے ہیں، ان کی اکثریت کو اسی شہر کے اطراف سے کشتیوں میں بھرا جاتا یے۔ یہاں سے یورپ نزدیک ہونے کی سہولت تو اپنی جگہ، سمندر کنارے پہاڑی علاقے اور وسیع جنگلات غیرقانونی تارکین کو بحری جہازوں میں ٹھونسنے کی بڑی سہولت ہے۔ حکومت اور فورسز جتنی بھی متحرک ہوں گھنے جنگلات میں رات کے اندھیرے میں تلاش کرنا جان جوکھوں کا کام ہے۔ اس ماحول اور جغرافیائی ساخت سے انسانی اسمگلر فائدہ اٹھاتے ہیں لوگوں کو کشتیوں میں بھرتے ہیں۔ اکثر تھوڑی دور جا کر کھلے سمندر میں بے یار و مدد گار چھوڑ دیتے ہیں جو قسمت سے بچ گیا تو ٹھیک ورنہ یورپ نہ جا سکا تو اللہ میاں کے پاس پہنچ جاتا ہے۔
================================

https://www.youtube.com/watch?v=ak0DHASC