کوش داسی میں عورت کے پسینہ نے چپاتی کی لذت میں اضافہ کر دیا۔ (72) “اسلامبول سے استنبول” سے اقتباس۔

یہاں آج موسم گرم ہے لیکن درختوں کے سائے میں گرمی کی حدت محسوس نہیں ہوتی۔ بڑھاپے میں یہ آوارہ گرد مسافر ایک درخت کے سائے میں بیٹھا اور ہیراپولس کی وادی میں کھو گیا، جو میرے سامنے دور تک قدیم آثار کی صورت میں پھیلی ہوئی ہے۔ کسی جگہ کوئی ستون گھڑا اور کسی جگہ آرچ اور کسی جگہ کوئی دیوار ٹوٹی پھوٹی ہے۔ کیا کیا باقیات ہیں اور کیا کیا تعمرات کی گئی تھیں۔ اس کے کاریگر کیسے لوگ ہوئے ہوں گے۔ ایک ایک پتھر کو گھنٹوں دیکھتے رئیں تو جی نہ بھرے۔ یہ سب کام فرست کے ہیں ایک دو یوم کے نہیں ہمارے پاس تو تھے ہی چند گھنٹے اس میں کیا دیکھیں اور کیا لکھیں۔ میں وادی ہیراپولس کے آثار اور تاریخ میں کھویا ہوا تھا کہ اچانک ڈھنڈھورا مچ گیا، دیر ہو گئی دیر ہو گئی، پلٹ کر دیکھا تو قافلے والے تیزی سے گاڑی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ان بے چاروں کے پاوں گیلے ہو گئے اور سیاحت مکمل۔ اب ان کو دوپہر کے کھانے کی فکر کھائے جا رہی ہے جو انہیں کوش داسی شہر میں ملنا ہے۔ اعلان ہوا تھا کہ دو گھنٹے کی مسافت ابھی بھی باقی ہے۔ میں اس پتھر سے اٹھا جس کو دو صدی قبل مسیح میں کسی سنگ تراش نے بڑی مہارت اور حسرت سے تراشہ ہو گا کہ وہ اسے اپنے آنگن میں سجائے گا، اپنی دیوار میں چنے گا، یا اس پتھر کو اپنی پسند کی جگہ پر نصب کر کے کتنا خوش ہوا ہو گا، یہ بھی معلوم نہیں کہ اس کی خوشی کا دورانیہ کتنا رہا۔ لیکن آج یہ پتھر یہاں اس درخت کے نیچے اوندھا پڑا ہے، کچھ ٹوٹا ہوا کچھ چھیلا ہوا کھرچا ہوا۔ لیکن آج اس کو دیکھ کر خوش ہونے والا کوئی نہیں۔ لاکھوں لوگ آتے ہیں اکثریت ادھر پلٹ کر ہی نہیں آتی۔ جو آتے ہیں ان پتھروں پر صد افسوس کرتے ہیں انہیں دیکھ کر خوش نہیں ہوتے۔ بات افسوس کی ہی ہے جب تک یہ پتھر دیواروں اور آرچوں میں چنے ہوئے تھے سب کو خوبصورت لگتے تھے، سب ان پتھروں کی تعریف بھی کرتے تھے، خوش بھی ہوتے تھے۔ 17ء اور 60ء اور 14ویں اور 17ویں صدیوں میں زلزلوں نے اس وادی میں وہ تباہی مچائی کہ قدرت نے ان پتھروں کو ان کی جگہ سے ہٹا دیا، پتھر تو اپنی جگہ پر ہی بھاری ہوتا ہے۔ ہلکی چیز کو کون دیکھے، کون تعریفیں کرے اور کون پسند کرتا ہے۔ ساری تعریفیں اللہ ہی کے لیے جو اپنی جگہ قائم و دائم ہے۔ جس نے اس خوب صورت دنیا پر یہ خوب صورت شہر آباد گیا اور پھر اس شہر خوب کو شہر خاموشاں میں بدل دیا۔ آخر کار ہیراپولس دفن ہو گیا اور جب 1887ء، 1957ء اور 2008 میں کی جانے والی کھدائی میں برآمد ہوا تو یہ خوبصورت پتھر درخت کے نیچے اوندھا پڑا تھا۔ دیکھ رہا تھا کہ ہزاروں آنے والوں میں وہ نہیں آیا جس نے مجھے تراشہ تھا اور دیوار میں چنا تھا۔۔ وہ اب نہیں آئے گا تو انتظار چھوڑ دے، میں نے اس بھاری بھرگم سفید مرمر کے تراشے ہوئے پتھر کو آخری بار دیکھا جس پر خوب صورت بیل بوٹوں کے نشانات اب بھی تازہ اور واضح ہیں ۔ خدا حافظ کہا اور بس کی طرف روانہ ہو گیا جس کو ڈرائیور اسٹارٹ کر بیٹھا ہے۔ میرے بیٹھتے ہی بس دوڑنے لگی، ہیراپولس پیچھے ہونے لگا چند منٹ میں ہی ہم پہاڑ اتر کر پاموکالے وادی میں پہنچ چکے تھے، سفید پہاڑ پر آخری نظر پڑی اور گاڑی اسی پہاڑ کے نیچے وادی میں گم ہو گئی یا دوڑتی گاڑی نے پہاڑ کو اوجل کر دیا۔ اب ہم اسی ہائی وے کی طرف رواں دواں تھے جو انتالیہ کو کوش داسی سے ملاتی ہے۔ جس کو ہم چند گھنٹے پہلے چھوڑ کر ہیراپولس آئے تھے۔ ہم میدانوں سے گزر رہے ہیں جہاں وقفے وقفے پر آبادی ہے، اور کچھ صنعتوں کا بھی شائبہ ہے۔ ترکیہ حکومت کی بھی کیا خوب منصوبہ بندی ہے گاوں گاوں صنعتیں لگا دیں کہ دیہاتی بے روزگاری کا بہانہ بنا کر قوم کا اور اپنا وقت ضائع نہ کریں۔ روزگار کو دروازے کے پاس لے گئے۔ گھوم کر ہم ہائی وے پہنچے اور ڈرائیور نے ایکسیلیٹر کو مذید دبایا جیسے گاڑی ہوا کی دوش پر ہو۔ اور دو ڈھائی گھنٹے میں ہم کوش داسی شہر میں داخل ہو چکے۔ ترکیہ کا ہر شہر اہم ہے۔ ہر شہر کی افادیت اور اہمیت ہے۔ کوش داسی سمندر کے کنارے ایک بڑا شہر اور وسیع بندرگاہ ہے اس کی اہمیت پر بعد میں آتے ہیں پہلے گاڑی سے اترتے ہیں ۔ ہماری گاڑی ایک تفریح مقام کی پارکنگ میں رکھی جہاں دیوار کے ساتھ بہت سارے کیبنوں میں مختلف اشیاء برائے فروخت رکھی تھی۔ گاڑی سے اترنے کے ساتھ ہی ایک آسکریم والے سے واستہ پڑا۔ جس نے ترکیہ برانڈ آسکریم بلاقیمت تھما دی۔ ہم نے پوچھا یہ کس خوشی میں دے رہے ہو، بولا آپ کے یہاں آنے کی خوشی میں، ویلکم پاکستانی بھائی۔ میں نے کہا نہیں میں تو نہیں لیتا، اس نے بڑی محبت سے پھر کہا کہ آپ کے لیے ہے۔ مجھے اس کی اپنائیت نے مجبور کر دیا اور اس کی قیمت ادائیگی کی بھی کوشش کی مگر وہ مسکراتا اور تھیک یو ہی کہتا رہا۔ میرے ہمرائیوں نے اس کا یہ مطب نکالا کہ ترکیہ تاجر پکا کاروباری ہے، کاروبار کی تشہیر کا طریقہ ہے کہ دوسرے مجھ سے پوچھیں کہ ذائقہ کیسا ہے اور اس طرح دوچار خرید لیتے ہیں تو رقم پوری بلکہ منافع بھی وصول ہو جائے گا۔ لیکن میں نے اتفاق نہیں کیا کہ تشہیر کے لیے میرا انتخاب ہی کیوں ۔ میرا خیال تھا کہ میں اس کے سامنے آ گیا اور یہ آسکریم میرے حصے میں آ گئی۔ ہم محبت کے رشتے میں مینگنی کیوں ڈالیں۔ دروازے سے اندر داخل ہوئے جہاں ایک اور شہر آباد ہے۔ ہوٹل موٹل، لیکن اس سے بھی زیادہ دل لبھا آبشار کی داستان ریجھنا۔
“کٹتا ہوں میں بھی وہ کہ مری جنس دل کو دیکھ۔۔۔۔
گاہک جو ریجھ جائے تو قیمت فزوں کروں ”
لیکن اس سے پہلے قصہ ہوٹل کا جہاں فربہ عورتیں تندور پر روٹیاں پکانے میں ایسے مشغول اور تیز رفتار جیسے کوئی مشین پکی پکائی تازہ روٹی نکال رہی ہو۔ حسب پروگرام کوش داسی ہی ہمیں دوپہر کا کھانا، کھانا تھا دوپہر نہ سہی سہ پہر کو تو ہم کوش داسی پہنچ ہی گئے اور سب سرگرمیوں پر کھانے کو فوقیت دی گئی۔ اس ہوٹل کے اس مقام پر ایک لمبے ٹیبل پر ہم بیٹھے جس کی قریب سے تازہ بہ تازہ پانی کی نہر بہتی ہے۔ نہری پانی کے شور نے کھانے کے لطف کو دوبالا کر دیا۔ اس جنگل میں تنکوں کے چھت کے سائے میں بھی یہ کیا خوب ہوٹل ہے کہ مالکان کو رقم بٹھورنے کی فرصت ہی نہیں۔ عورتیں اور مرد سب کام پر جُتے ہوئے ہیں کہ دنیا میں ان کو دوسرا کوئی کام ہی نہیں۔ موٹی موٹی عورتیں تندور پر روٹیاں پکانے میں ایسی مگن ہیں کہ مجال ہے ان کی نظر ادھر ادھر جائے بلکہ ادھر ادھر کی نظر سے بھی بے فکر و بے نیاز۔ ہم نے اسی ہوٹل پر چپاتی کھائی جس میں ترک خواتین کا پسینہ شامل تھا۔ استاد محترم سیف الرحمن گرامی کہا کرتے تھے “گھر کے سالن میں اس لیے لذت و ذائقہ ہوتا ہے کہ اس میں خاتون خانہ کا پسینہ شامل ہوتا ہے” ترکیہ میں خاتون خانہ نہ سہی خاتون کا پسینہ روٹی میں شامل تھا تب ہی اس میں لذت دوسری جگہ کی روٹیوں سے زیادہ ہے۔۔ سچ پوچھیں تو جب سے ترکیہ آئے پہلی مرتبہ اس طرح کی لائف چباتی کھا رہے ہیں ورنہ سخت بن کھا کھا کر جبڑے بھی دکھی ہو گئے۔ دس دن بعد چباتی ملی وہ بھی گرم تو لذت تو آئے گی۔ لیکن اس کا کریڈٹ ہم خواتین کی محنت ہی کو دیں گے کہ ان کی گرتی پسینے کی بوندوں سے چباتی کی لذت میں اضافہ ہوا، ہم ہوئے جو حقوق نسواں کے کٹر حامی یہ الگ بات ہے کہ وہ اپنے جسم پر اپنی مرضی چاتی ہیں اور یورپ کے پڑوس کی عورت اپنے جسم کے پسینے سے کھلے عام ساری دنیا کو سیراب کرتی ہیں۔ ہم بھی پرلطف لنچ سے پرباش ہو کر اسی نہر کی آبشار پر چلے گئے جس کے کنارے بیٹھ کر کھانے سے لطف اندوز ہوئے۔ آبشار کیا ایک بلند پہاڑ سے گرتی پانی کی دھاروں کی تار نما لڑیاں، اپنی ملک میں دیکھیں تو لاکھوں نہیں تو ہزاروں پہاڑ ایسے ہوں گے جہاں پانی کی ایسی دھاریں گرتی ہیں۔ لیکن یہاں کمال یہ ہے کہ اسی مقام سے جہاں سے پانی گرتا ہے پہاڑ میں سرنگ یا ٹنل کھود کر سڑیوں کے ذریعے نیجے جانے کا راستہ بنایا گیا۔ نصف میں ایک چبوترا بنا کر ٹنل کو کھولا گیا تاکہ پانی کی دھاروں کی فوار سیاح پر پڑے اور اس کو پانی کے قطرے کرنے سے بارش کا احساس ہو۔ اس مقام پر سیاح آبشار کے بالکل سائے میں چلا جاتا ہے۔ اسی چبوترے کے ایک کونے پر کھلی سیڑیوں کے ذریعے سیاح نیچے جاتا ہے جہاں اس کو گرتی آبشار بالکل ناک کی سید میں نظر آتی ہے۔ پانی کی تیز دھاریں تین چار سو فٹ کی بلند سے گرتی ہیں تو شور سے ایک عجب ماحول بنتا ہے جب کہ یہاں بلند و بالا درختوں کے سائے نے گرمی کی حدت ختم کر دی جیسے ہلکہ ائرکنڈیشن لگا ہو۔۔ ہم کچھ دیر اس قدرتی خوب صورت منظر اور گرم شہر کے سرد ماحول میں گھومتے رہے اور پھر شام کا سہارا لے کر ہوٹل روانہ ہو گئے جو کوش داسی کے مصروف ترین تجارت علاقے کے عقب اور سمندر کے قریب ہے۔
==============================

https://www.youtube.com/watch?v=ak0DHASC