عالمی یوم تدارک فالج اور پروفیسر قاسم بشیر کی آگاہی۔

ن والقلم۔۔۔مدثر قدیر

غیور اختر صاحب سے میری پہلی ملاقات کب اور کہاں ہوئی اس بارے میں مجھے نہیں معلوم مگر میں ان کو اپنے بچپن ہی سے جانتا ہوں انھوں نے اداکاری کے ضمن میں جو ریکارڈ قائم کیے ان کی مثال نہیں ملتی ۔ریڈیو پاکستان میں ان سے سینکڑوں ملاقاتیں اور اس سے جڑی یادیں میرے ماضی کا آج تک حصہ ہیں ،غیور اختر صاحب نے مجھے ہمیشہ اپنے بچے جیسا ہی ٹریٹ کیا ان سے کئی باتیں سیکھیں ان کی اور میرے والد کی ایک چیز مشترک تھی اور وہ حدسے بڑھا ہواتوکل یعنی وہ ہمیشہ توکل ہی کی بات کرتے تھے ۔جس دن ملے کھانا اور چائے کے بغیر جانے نہیں دیا ان کے سینے میں اپنے دور کے سپراسٹارز کے کئی راز دفن تھے کبھی کبھا ر مجھے کوئی چیز سنا دیتے کہ کیسے یہ واقعہ ماضی میں پیش آیا اور اس کے کیا محرکات تھے کیسے وہ اسپورٹس مین بننے گئے مگر اداکار کی حثیت سے اپنے فنی سفر کا آغاز انھیں کرنا پڑا،تین دھائیوں تک کے تعلقات میں ان سے روزانہ کی بنیاد پر ملاقاتیں رہیں صرف ان ملاقاتوں میں تعطل تب آتا جب وہ ملک سے باہر یاں دوسرے شہر میں ریکارڈنگ پر گئے ہوتے مگر جیسے ہی واپس آتے تو مجھے کال کرکےبلاتے اور اپنے ٹور کی تمام تر اسٹوری مجھے سناتے،میری ان سے انسیت اور محبت ایک بیٹے جیسی تھی جسے انھوں نے بخوبی نبھایا اور ایک دن 2013کے کسی مہینے کی تاریخ کو مجھے صبح صبح ان کی کال آئی کہ یار میری طبیعت خراب ہے لگتا جیسے مجھے فالج کا حملہ ہوا ہے فوری طور پر گھر پہنچو۔میں کچھ گھنٹوں بعد ان کے پاس پہنچا اس کے بعد ڈاکٹرز نے ان کا معانہ کیا اور انھیں فالج کا بتایا کہ آپ کو فالج ہوا ہے اس کے بعد ان کی روزانہ کی روٹین پہلے جیسی نہیں رہی مگر وہ ریڈیو پر اپنا پروگرام کرنے ضرور پہنچ جاتے تھے آہستہ آہستہ فالج اور شوگر کی وجہ سے مزید پیچیدگیاں پیدا ہوئیں اور اس کا اثر ان کے گردوں پر پڑا اور 7فروری کی صبح مجھے فون کال پر اطلاع ملی کہ غیور اختر صاحب سروسز ہسپتال میں وفات پاگئے ہیں میرے والد کی وفات کے بعد یہ میرے لیے ایک بڑا صدمہ تھا کیونکہ میں نے ان کی رفاقت میں طویل عرصہ گزارا اور ہمیشہ ان سے سیکھا کہ کیسے جملہ کی ادائیگی کس تاثر کے ساتھ کرنی ہے ۔فالج کی بیماری کا شکار غیور اختر صاحب نہیں ہوئے بلکہ ایک سسٹم اس کا شکار ہواجس میں انسان کے روز مرہ کے معمولات متاثر ہوتے ہیں ۔23کڑور کی آبادی پر مشتمل وطن عزیز میں اس مرض میں مبتلا مریضوں کی تعداد 5فیصد سے زائد ہے اور اس تناسب سے 10لاکھ سے زائد لوگ کسی فالج کی وجہ سے معذوری کے ساتھ اپنی ذندگی گزار رہے ہیں ۔ فالج، جسے عرفِ عام میں برین اٹیک یا ’’دماغ کا دَورہ‘‘ کہا جاتا ہے، ایک ایسا مرض ہے کہ اگر اس کے اٹیک کے بعد جان بچ بھی جائے، تب بھی مستقل معذوری کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، جب کہ بعض مریضوں میں اس کا حملہ جان لیوا بھی ثابت ہوتا ہے۔ فالج کے بعد مریض کو جس قدر جلد طبّی نگہہ داشت مل جائے، بحالی کے امکانات اُتنے ہی بڑھ جاتے ہیں۔فالج سے بچائو اس بیماری کے علاج پر سروسز انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے شعبہ نیورولوجی کے سربراہ پروفیسر قاسم بشیر نے آگاہی گفتگو میں بتایا اگر کسی صبح بیدار ہونے پر یا دِن کے کسی پہر اچانک آپ کے جسم کا کوئی حصّہ خدانخواستہ مفلوج ہو جائے یا بات چیت میں دشواری پیش آئے، تو یہ ایک لمحہ آپ کی پوری زندگی بدل کر رکھ سکتا ہے، لیکن اگر فالج کے عوامل، ان سے بچاؤ اور علامات سے متعلق بنیادی معلومات ہوں، تو یہ آگہی آپ کو فالج اور اس سے ہونے والی کئی پیچیدگیوں سے بچا سکتی ہے۔فالج کے عوامل میں سرِ فہرست بلند فشارِ خون، تمباکو نوشی، موٹاپا، تساہل پسندی، خون کی شریانوں کا تنگ ہونا، ذیابطیس اور کولیسٹرول کی زیادتی وغیرہ ہیں۔ جب کہ دیگر اسباب میں عُمر رسیدگی(عُمر میں اضافے کے ساتھ فالج کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں)، غیر متوازن غذا، نشہ آور اشیاء کا استعمال، دِل کی دھڑکن میں بے ترتیبی، ذہنی و نفسیاتی امراض، تناؤ اور جینیاتی عوامل وغیرہ اہم ہیں۔فالج اور بلند فشارِ خون:فالج کا سب سے اہم سبب بلند فشارِ خون یعنی ہائی بلڈ پریشر ہے۔فالج یا تو اُس وقت ہوتا ہےجب بلند فشارِ خون کے باعث دماغ کے کسی حصّے کی شریان میں خون جمنے سے دماغ میں خون کی فراہمی منقطع ہو جاتی ہے یا بلندِ فشار خون کے باعث دماغ کی شریان پَھٹ جاتی ہے۔ بلند فشارِ خون کے باعث فالج کا خطرہ بہت بڑھ جاتا ہے۔ اگر صرف بلڈ پریشر ہی کو 120/80 کے قریب رکھ لیا جائے، تو ہم فالج کی کم و بیش نصف وجوہ سے بچ سکتے ہیں۔ تمباکونوشی کے باعث فالج ہونے کے امکانات میں چھے گُنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس کے باعث پھیپھڑوں کے ذریعے خون کی شریانوں میں جانے والے نقصان دہ کیمیائی مادّے شریانوں کے خلیات کو نقصان پہنچانا شروع کر دیتے ہیں اور اس نقصان دہ کیمیائی عمل کے نتیجے میں دیگر مسائل کے علاوہ خون کی شریانوں کے نظام میں خرابی پیدا ہو جاتی ہے، جو بالآخر دیگر امراض کی وجہ بننے کے ساتھ، فالج کا بھی باعث بنتی ہے۔تمباکو نوشی کے باعث جسم میں کولیسٹرول کی سطح متاثر ہوتی ہے۔ یہ خون میں اچھے کولیسٹرول یعنی HDL کی سطح کم کرتا اور خراب کولیسٹرول یعنی LDL کی سطح بڑھاتا ہے، جب کہ جسم میں ایل ڈی ایل کے اضافے ہی سے دماغ کے اٹیک (فالج) کا خطرہ بڑھتا ہے۔یہ شریانوں کو سخت کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں خون کی روانی میں کمی آتی ہے، جو کہ بلند فشارِ خون یا خون جمنے کا سبب ہے اور پھر اسی سے فالج کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ فالج سے بچاؤ کے لیے مناسب غذائی اشیاء مثلاً سبزیاں، پھل، مرغی اور مچھلی کا اعتدال و میانہ روی کے ساتھ استعمال ضروری ہے۔ ان اشیاء میں سلاد، سبزیوں، پھلوں کا استعمال تناسب کے اعتبار سے، گوشت کے مقابلے میں زیادہ ہونا چاہیے۔چکناہٹ، مرغّن اشیاء سے ہر ممکن حد تک پرہیز، نمک کے بے دریغ استعمال اور میٹھی اشیاء سے اجتناب بھی انتہائی ضروری ہے۔ زیادہ تر افراد صرف جسمانی طور پر غیر فعال رہنے کے باعث فالج کا شکار ہوتے ہیں۔ جسمانی طور پر چاق چوبند رہنے سے جسم کا مجموعی نظام بہتر انداز میں رواں دواں رہتا ہے۔ بصورتِ دیگر، غذائی بے احتیاطی کی طرز پر تساہل پسندی بھی ’’زخم پر نمک‘‘ کا کردار ادا کرتی ہے۔پروفیسر قاسم بشیر نے بتایا کہ تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ اگر کوئی شخص ہفتے کے پانچ دن صرف آدھا گھنٹہ جسمانی ورزش کرے، تو فالج کے امکانات میں25 فی صد تک کمی واقع ہو سکتی ہے۔ ورزش، فالج کے خطرے کے کئی عوامل کم کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے ۔ پنجاب انسٹیوٹ آف نیورو سرجری اور سروسز انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں فالج سے متاثرہ افراد کی بحالی کے خصوصی وارڈز قائم کیے گئے ہیں جہاں پر فالج کے مریض اگر 24گھنٹے کے اندر پہنچ جائیں تو ان کے علاج میں بڑی پیش رفت ممکن ہوتی ہے اس لیے میں آپ کے توسط سے عوام کو کہوں گا کہ اگر انھیں ذرا سا بھی محسوس ہو یاں انھیں فالج کی علامات لگیں تو فوری طور پر قریبی ہسپتال یاں پھر سروسز ہسپتال اور پاکستان انسٹیٹیوٹ آف نیورو سرجری میں رجوع کریں تاکہ جدید علاج کی سہولیات سے مستفید ہوں جو حکومتی سطح پر بلکل فری ہے۔پروفیسر قاسم بشیر کی فالج سے متعلق آگاہی گفتگو بڑی اہمیت طلب تھی جس میں اس مرض سے جڑی تمام باتوں کا احاطہ کیا گیا ۔
==============================

https://www.youtube.com/watch?v=ak0DHASC