انتالیہ میں سفر کا لطف پھیکا پڑھ گیا۔(65) “اسلامبول سے استنبول” سے اقتباس

چوں کہ رات جلدی سو گئے تھے، لہذا صبح سویرے اٹھ بیٹھے۔ کچھ قونیہ کا احوال لکھا اور کچھ قونیہ کو بلندی سے دیکھا، میرا کمرہ چوتھی منزل پر ہے اور یہاں سے قونیہ شہر دور تک نظر آتا ہے۔ بلند بالا چمکتی عمارتیں قونیہ کی شان ہیں۔ کسی حوالے سے نہیں لگتا کہ قونیہ پانچ ہزار سال پرانی تہذیب کا شہر ہے۔ ہر چیز نئی ہے حضرت مولانا کا مقبرہ اور مسجد بھی پرانی نہیں لگتی۔ ہوٹل کی بالکونی میں کھڑے ہو کر قونیہ کو دیکھنے کا لطف اور مزا ہی اور ہے وہ بھی صبح سویرے جب ہر چیز نئی اور چمکتی ہے۔ ترکیہ میں ٹریفک صبح سویرے رواں نہیں ہوتی، ہوتے ہوتے ہوتی ہے۔ ٹریفک کے رواں دواں کا انتظار کئے بغیر میں کمرے سے رواں ہوا، تمام سامان سمیٹا اور بریف کیس ہاتھ میں پکڑ کر لابی میں آ گیا۔ ابتدائی وقت پر ہی یعنی ساڑے ساتھ بجے ریسٹورنٹ میں پہنچا تو ناشتہ پارٹی کا میں پہلا ہی فرد تھا۔ قونیہ کی صبح کا لطف لینے باہر جانا ہے تاکہ کچھ وقت سڑکوں پر آوارہ گردی کی جائے۔ قونیہ کے ریسٹورنٹ صبح سویرے ہی کھل جاتے ہیں۔ ریسٹورنٹ پر خاصی رش ہے، لوگ کافی، قہوہ وغیرہ پینے میں زیادہ دلچسپی لیتے نظر آئے البتہ کچھ ناشتے کے ٹیبل پر بھی ہیں۔ میں نے بھی ایک قہوہ خانے سے قہوہ کا گلاس لیا اور فٹ پاتھ پر کھڑا ہو کر چسکیاں لینے لگا۔ درویشوں کی ایک لمبی ٹوپی جریدنے کی ٹھانی کہ پاکستان لے جا کرڈرائنگ روم میں سجاوں گا، ترکیہ کی خریداری کا کچھ تو بھرم ہو گا۔ پاکستان میں یہ ٹوپی آخری آدمی نواب زادہ نصراللہ خان پہنا کرتے تھے۔ اب تو ترکی ٹوپی قوم بھول گئی خود ترکیہ میں بھی درویشوں تک محدود رہ گئی وہ بھی رقص کے دوران، قیمت پوچھی تو 200 سے 1000 لیرا سے بھی زیادہ مالیت کی ہے۔ فورا سمجھ آ گئی کہ پاکستان میں اب وہ زمانہ نہیں رہا کہ میرے جیسا شخص پندرہ ہزار کا شوپیس ڈرائنگ روم میں رکھے۔ دراصل یہ ترپوش کی قیمت ہے لیکن میں نے اس بھرم سے توبہ کی اور آگئیں بڑھ گیا۔ کافی دور تک پیدل گھوما پھرا لیکن ایک چابی کی زنجیر کے سوائے کچھ نہیں خریدا۔ واپس ہوٹل پہنچا تو ابھی بھی ساتھی لابی میں نہیں پہنچے تھے۔ اللہ، اللہ کر کے ساڑھے نو بجے ساتھی تیار ہو کر لابی میں پہنچے تو گاڑی میں سامان رکھنے کا اعلان ہوا کہ ہر کوئی اپنا سامان اپنی نگرانی میں رکھوائے، اپنے مال کا خود ذمہ دار ہے۔ تھوڑی دیر بعد ہم قونیہ کی یادیں لیے آگئے بڑھ رہے ہوں گے اور قونیہ پیچھے چھوڑ دیں گے۔ آج 22 جولائی ہے اور ہم قونیہ سے انتالیہ روانہ ہوئے ہیں۔ ڈرائیور نے قونیہ شہر کا ایک لمبا چکر لگایا۔ یہ معلوم نہیں کے شہر سے باہر نکلنے کے لیے یہ چکر لازمی ہے یا سیاحوں کو قونیہ کا اندرونی حصہ دیکھانا مطلوب ہے۔ جو بھی ہے اچھا ہے کہ قونیہ شہر کے بچے ہوئے حصے بھی دیکھنے کا موقع مل گیا۔ سارے شہر کی سڑکیں استنبول سے کشادہ اور سیدھی ہیں۔ جب قونیہ سے گاڑی باہر نکلی تو پہاڑ پر چڑھنا شروع ہوئی۔ گاڑی جتنی بلندی کی طرف جا رہی ہے قونیہ اور زیادہ نمایاں ہو رہا ہے۔ ڈرائیور نے ایک بڑا موڑ کاٹا اور پہاڑ کے سر پر جا ٹھرا، اس پہاڑ سے قونیہ ایک پیالے کی مانند ہے سرخ چھتیں اور بلند بالا عمارتیں سورج کی پہلی کرنوں میں شہر کی چمک دوبالا ہو رہی ہے۔ اس کا تحریر میں اظہار ہمارے لیے ممکن نہیں محسوس کرنے تک ہے۔ پہاڑ پر کھڑے ہو کر دیکھیں تو قونیہ پاوں کے نیچے نظر آتا ہے۔ ہمیں طویل سفر طہ کرنا تھا لہذا یہ ممکن نہ رہا کہ کچھ دیر اور اس پہاڑ پر کھڑے ہو کر قونیہ کہ بہاریں دیکھتے، ڈرائیور نے ایک اور موڑ کاٹا تو گاڑی پہاڑ کی پشت پر سیدھی ہو چکی اور قونیہ ہماری پشت پر پیچھے ہی پیچھے ہٹتا جا رہا ہے۔ اب چوں کہ ہم وہ پہاڑ عبور کر کے دوسری جانب آ گئے اور قونیہ بھی اوجل ہو گیا۔ قونیہ اور انتالیہ کے درمیان پہاڑی سلسلے کے ساتھ طویل جنگلات ہیں۔ پہاڑوں اور جنگلات کے حوالے سے ترکیہ کی حکومت جو ترقیاتی اور حفاظتی کام کر رہی ہے اس پر پچھلے صفحات میں بہت کچھ لکھا جا چکا۔ وہی سب کچھ اس شاہراہ پر بھی ہے۔ مثلا قونیہ سے نکل کر جو پہاڑ عبور کیا تو ایک وسیع ذخیرہ آپ سے واسطہ پڑا جو سمندر نما لگ رہا ہے۔ معلوم ہوا یہ بارش کا پانی روکنے کے لیے بند ہے جس سے اس جنگل کو سیراب کیا جاتا ہے، جنگلی حیات اور پرند چرند اس سے فیضیاب ہوتے ہیں تو یہ اضافی فائدہ ہے۔ سارے راستے کا کیا خوب صورت اور سحر انگیز منظر ہے۔ ترکیہ کا سارا دہی اور پہاڑی علاقہ اللہ نے بہت خوبصورت بنایا۔ پہاڑ ہیں، جنگلات ہیں، صحرائے ہیں، جھیلیں، دریا، سمندر، پانی سب سے زیادہ ہے۔ اسی باعث اللہ تعالی نے اس ملک میں گرینری بہت دی سبزہ ہی سبزہ حد نگاہ سبزہ ہی ہے۔ حکومت بھی بہت کوشش کر رہی ہے خصوصا جنگلات اگانے کی جو پلاننگ کی جا رہی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ترکیہ میں سبز انقلاب آ ئے گا۔ قونیہ سے انتالیہ تک کا سفر بہت ہی دلچسپ اور سحر انگیز رہا۔ ہائی وے بھی خوبصورت علاقوں سے گرتی ہے، کبھی پہاڑوں کی چوٹیوں پر، کبھی دامن کوہ میں، کبھی جنگلات اور ویرانوں بیابانوں سے اور کبھی سمندر کے کناروں اور کبھی پانیوں کے اوپر اور کبھی پہاڑوں کے پیٹ سے گزرتی ہے۔ ہائی وے کے اطراف میں حکومت نے کثیر تعداد میں طویل رقبہ پر چیڑ اور دیار کے درخت لگائے ہوئے ہیں۔ 50 سال کی منصوبہ بندی معلوم ہوتی ہے۔ 50 سال بعد یہ درخت ترکیہ کی سو سالہ ضرورت پوری کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔
اور ترکیہ کے پاس لکڑی کی صورت میں کھربوں ڈالر کا سرمایہ محفوظ ہوگا۔ ہم چھ گھنٹے کے طویل سفر کے بعد انتالیہ میں داخل ہوئے تو شام کے چار بج رہے تھے۔ دوپہر کا کھانا تو ہم راستے میں کھا چکے، کچھ ساتھیوں کی خواہش تھی کہ تھکن کو اتارنے کے لیے آج کی شام ہوٹل ہی میں آرام کیا جائے۔ چناں چہ، ڈرائیورہمیں اتار کر گاڑی کو چیک کرانے چلا گیا، شام کو ڈنر کے وقت پہنچا تو گاڑی کی حالت پہلے سے بھی زیادہ خراب ہو چکی تھی۔ اناڑی مستری ترکیہ میں بھی موجود ہیں، ممکن نہیں ہر گوری چمڑی والا لائق اور ذہن بھی ہو۔ راستے میں گاڑی کے ائرکنڈیشن نے کچھ مستی کی تو فیصلہ ہوا انتالیہ میں اس کو ٹھیک کراتے ہیں۔ جب رات گئے اردگان آیا تو معلوم ہوا کہ رہی سہی کسر بھی پوری ہو گئی کہ اب ائرکنڈیشن پورا ہی بیٹھ گیا۔ جس کا اے سی ہی بیٹھ گیا ہو اس گاڑی میں کیسا بیٹھنا جب کے گاڑی کے کھڑکی شیشے بھی نہیں ہیں۔ انتالیہ میں گرمی شدت سے ہے اور ہماری گاڑی کا ائرکنڈیشن خراب ہو چکا۔ گاڑی کی خرابی کی وجہ سے انتالیہ میں تفریح کا لطف پھیکا پڑھ چکا۔ ڈنر ہوٹل ہی میں منگوایا گیا، اور آرام یا انفرادی تفریح تک اکتفادہ کیا گیا۔ ہمارا ہوٹل سمندر کے کنارے پر ہے۔ ہوٹل اور سمندر کے درمیان ایک بڑا گرین بلٹ ہے جس میں درخت پھول پودے اور بنچ وغیرہ وافر مقدار میں نصب ہیں۔ میں نے اسی پارک کو اپنی تفریحات کا مرکز بنایا۔ ایک دن دو راتیں انتالیہ میں رہے، سوائے سمندر کے کنارے گھومنے کے دوسری کوئی تفریح نہیں کر سکا۔ انتالیہ بھی ایک بڑا شہر ہے خوبصورت وسیع و کشادہ صاف ستھرا۔ سمندر کے کنارے ساحل پر جہازوں میں کئی ریسٹورنٹ قائم ہیں جہاں رات دو ڈھائی بجے تک نائٹ کلب چلتے ہیں ہزاروں افراد کی موجودگی میں بھی سمندر گندا نہیں ہوتا اور نہ ساحل گندا ہوتا ہے۔
=========================

https://www.youtube.com/watch?v=ak0DHASC