مردم شماری میں کشمیری شناخت مٹانے سے رائے شماری پر اثرات ؟۔

سچ تو یہ ہے۔
====


بشیر سدوزئی۔
===

اداروں میں ہیں یا انفرادی، کسی بااثر جگہ پر برجماں ایسی کوئی قوت ہے جو چاتی ہے کہ جموں و کشمیر اور پاکستانی عوام کے درمیان دوریاں پیدا ہوں۔یہ کون لوگ ہیں جن کو جب بھی موقع ملتا ہے ایسا کچھ کرتے ہیں کہ دونوں اکائیوں کے درمیان تنازعات کھڑے ہو جاتے ہیں۔بحث مباحثہ ہونے کی صورت میں جذباتی مزاج افراد اور کچھ موقع پرست بدکلامی اور بدزبانی کرتے ہیں۔جیسا کہ کزشتہ سال آزاد کشمیر کے ایکٹ میں پندرویں ترمیم کی کوشش کی گئی۔اس پر تنازعہ کھڑا ہوا اور شور شرابہ کچھ افراد نے سخت زبان کا استعمال کیا پھر اچانک خاموشی چھاگئی، جیسے کوئی بات تھی ہی نہیں۔گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے اور مسئلہ کشمیر کو ختم کر کے بھارت کے ساتھ تجارتی سرگرمیاں شروع کرنے کی بھی بہت کوشش کی گئی۔اس پر جوابی وار اور آزاد کشمیر کا آخری وزیراعظم کی صدا بلند ہونے سے ایسا سناٹا چھایا جیسے جوں سونگھ چکی ہو۔آزاد کشمیر کے پانیوں پر رائلٹی اور دیگر معاملے میں بھی انصاف نہیں کیا جاتا جس پر لوگ بولتے ہیں۔ اور بعض اوقات کچھ زیادہ اور غیر ضروری گفتگو ہو جاتی ہے جس کا تعلق ان مسائل سے تو نہیں ہوتا،لیکن گفتگو کر ت والے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہیں ہم پھر یہی کہیں گے کہ ایسی گفتگو کرنت کا موقع کیوں مہیا کیا جاتا ہے۔تازہ ایشو قومی مردم شماری کا ہے، جسے پالیسی سازوں نے گزشتہ کی طرح اس مرتبہ بھی مکمل ہونے سے قبل ہی متنازع بنا دیا۔ پاکستان کی بہت ساری اکائیوں نے اس پر شدید اعتراضات شروع کر دیئے ہیں اور بعض اعتراض تو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ غلطی کو ٹھیک کرنے کے بجائے وفاقی حکومت ڈھٹائی کے ساتھ متنازعہ کام کو جاری رکھے ہوئے ہے جس پر شدید مندی اور معاشی گراوٹ کے زمانے میں 34 ارب سے زیادہ رقم خرچ ہو رہی ہے۔ قوم و ملک کو اس مشق کا کوئی فائدہ ہوتا نظر نہیں آ رہا بلکہ یکجہتی اور بھائی چارے پر انگلی اٹھتی ہے۔آزاد جموں و کشمیر کے عوام کو یہ اعتراض ہے کہ اس مردم شماری سے مرتب ہونے والے اعداد و شمار سے جموں و کشمیر کے شہری کے طور پر ان کی ریاستی شناخت مٹ جائے گی اور رائے شماری پر اس کے بہت زیادہ مضر اثرات پڑھیں گے۔ اگر یہ عمل دانستہ شروع کیا گیا ہے تو یہ سمجھا جائے کہ پاکستان واقعی مسئلہ کشمیر سے جان چھوڑانے چاتا ہے اور جموں و کشمیر کے مستقبل کے فیصلے کے لیے رائے شماری کے موقف سے پیچھے ہٹ رہا ہے یا یہ دیکھنے چاتا ہے کہ اگر ایسا کیا جائے تو عوام کا رد عمل کیا ہو گا۔یہ پالیسی جموں و کشمیر کے عوام کے لیے تقسیم کشمیر کا پیغام تو نہیں۔پرنٹ،الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر شور مچا ہوا ہے کہ پاکستان کی موجودہ مردم شماری میں ایسی پالیسی اختیار کی گئی ہے جو دراصل 5 اگست 2019 کے بعد مقبوضہ جموں و کشمیر میں آبادیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے بھارتی پالیسی جیسی ہی ہے بس فرق اتنا ہے کہ اس طرف کان کو الٹا پکڑا جا رہا ہے۔ بھارتی حکومت نے آرٹیکل 370 کو منسوخ کر کے ہندوستانی آئین کے تحت جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت اور آرٹیکل 35-A، کے خاتمے سے جموں اور کشمیر کے شہریوں کی ریاستی شناخت کا آئینی تحفظ ختم کر دیا ہے۔2023 کی مردم شماری میں حکومت پاکستان نے یہ شرط لگا دی کہ جو فرد چھ ماہ تک جہاں مقیم ہے گنتی میں وہ وہاں ہی شمار کیا جائے گا۔اندازہ ہے کہ آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کی 40 فیصد سے زائد آبادی جو ملازمت، کاروبار اور تعلیم کی غرض سے عارضی طور پر پاکستان میں آباد ہے۔مردم شماری کے اعداد وشمار مرتب ہونے کے بعد ریاست کی کل آبادی سے مٹا دے جائے گی۔جب کہ پاکستان میں مقیم مقبوضہ جموں و کشمیر کے مہاجرین جو عارضی پناہ گزین ہیں کے بارے میں بھی کوئی قابل شناخت آبادی کا ڈیٹا مرتب نہیں کیا جا رہا۔اس مردم شماری کے فارم میں اس کی گنجائش ہی نہیں رکھی گئی کہ مہاجرین جموں و کشمیر اور آزاد کشمیر و گلگت بلتستان کے شہریوں کی الگ شناخت برقرار رکھی جا سکے جیسا کہ گزشتہ 76 سال سے ان کی الگ شناخت برقرار رکھی جاتی رہی ہے۔گویا مہاجرین و باشندگان آزاد کشمیر و گلگت بلتستان،مقیم پاکستان کا قصہ ہی ختم کر کے پاکستانی عوام میں ضم کیا جا رہا ہے۔جموں و کشمیر کے سیاسی کارکنان اور سول سوسائٹی کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان نے بیورو آف اسٹیٹسٹکس کے ذریعہ جموں و کشمیر کے اسٹیٹ سبجیکٹ ایکٹ 20 اپریل 1927کی شق 35-اے کو غیر علانیہ ختم کر دیا ہے جس کو بھارت نے 5/اگست 2019 کو اعلانیہ ختم کیا تھا۔اس ایکٹ کے تحت ریاستی مضامین کے قواعد میں جموں و کشمیر کے شہری کے طور پر درجہ بندی کی گئی ہے اور پشتی سرٹیفیکیٹ کشمیری شہری ہونے کا سنہری ثبوت ہے۔اس قانون کا زندہ رہنا ہی جموں و کشمیر کے ڈھائی کروڑ افراد کو رائے شماری کی امید دلاتا ہے اور اسی ایکٹ کی بنیاد پر دنیا شناخت کر سکے گی کہ واقعی یہ کشمیری ہے بھی کے نہیں۔اسی شناخت کو دنیا نے اقوام متحدہ کی قراردادوں میں تسلیم کیا۔ جب کہ اسی ایکٹ 35-اے کو پاکستان سٹیزن شپ ایکٹ 1951 اور اے جے کے آئین 1974 میں تحفظ دیا گیا ہے جس کے تحت یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کے شہری رائے شماری تک پاکستان میں عارضی طور پر رہ رہے ہیں۔اسی بنیاد پر چند سال پہلے تک جموں و کشمیر کے باشندے کو حکومت پاکستان کی جانب سے جاری ہونے والے شناختی کارڈ اورپاسپورٹ پر شہریت کے حصہ میں “ریاست جموں و کشمیر کا شہری ” درج ہوتا تھا جیسے غیر محسوس اور غیر علانیہ طور پر ختم کر دیا گیا۔اگر واقعی جموں و کشمیر کو بھارت سے آزادی کے لیے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق رائے شماری ہونا ہے تو یہی باشندے(آزاد، مقبوضہ جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان) عارضی طور مقیم پاکستان، ریاست کے مستقبل کے تعین کے لیے استصواب رائے میں حصہ لینے کے حق دار ہوں گے۔لیکن موجودہ مردم شماری کی دستاویز میں جموں و کشمیر کے عوام کی آبادی کے سائز اور آبادیاتی ساخت کی درست پیمائش کرنے کے لئے ایسا کوئی قابل اعتماد ڈیٹا تجزیہ اور میکانزم نہیں رکھا گیا جس سے شناخت باقی رہ سکے گی کہ 35-اے کے تحت ریاستی باشندہ اور اس کے خاندان کے افراد کون ہیں اور کہاں آباد ہیں۔ ایسی صورت میں رائے شماری میں یہ لوگ ووٹ کیسے دے سکیں گے۔
جموں کشمیر کی دونوں اکائیوں اے جے کے اور جی بی کو اس ایکسرسائز سے ایک یہ نقصان بھی ہو گا کہ وسائل تک مساوی رسائی حاصل نہ ہونے کے باعث یہاں کے عوام کی زندگی اور حکومتوں کی کارکردگی شدید متاثر ہوگی۔جب کہ سماجی و اقتصادی ترقی، صحت عامہ،تعلیم، آبادی کی فلاح و بہبود سمیت ہر پہلو پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔آبادی کے تناسب سے 40 فی صد کم وسائل ملنے سے انفراسٹرکچر کی ترقی اور مؤثر منصوبہ بندی کرنے کے لیے ان دونوں خطوں کی حکومتوں کے پاس مطلوبہ وسائل ہی نہیں ہوں گے تاکہ وہ خدمات پر استعمال کر سکیں۔آزاد جموں و کشمیر کی سیاسی فرنچائز اس اہم اور حساس مسئلے پر مکمل خاموش ہیں جب کے اسلام آباد میں آل پارٹیز حریت کانفرنس بھی انتظار میں ہے۔تاہم کشمیر ڈیولپمنٹ فنڈ نامی ایک این جی او نے وزیر اعظم پاکستان کی توجہ حاصل کرنے اور مسئلے کی حساسیت کو اجاگر کرنے کے لیے یاداشت ارسال کی ہے جس میں درخواست کی گئی ہے کہ بیورو آف شماریات کو ہدایت کی جائے کہ 2023 کی مردم شماری کے آن لائن فارم میں ترمیم کے لیے درج ذیل عبارت کو شامل کیا جائے۔ سوال 7 کہ “آپ کی مادری زبان کیا ہے”؟ کے جواب میں” کشمیری پہاڑی، گوجری اور بروشسکی” وغیرہ۔ سوال نمبر 8″ آپ کی قومیت کیا ہے”؟ کے جواب میں “بشندہ ریاست جموں و کشمیر” لکھنا بے حد ضروری ہے۔ عرض داشت میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ آبادی اور مکانات کی گنتی پائیدار ترقی کے لیے بنیادی ڈیٹا ہوگی۔خاص طور پر آمدنی،جنس،عمر،نسل،جموں و کشمیر کے شہریوں کی ہجرت کی مقصدیت،جامع سماجی و اقتصادی ترقی، پالیسیوں اور ترقیاتی پروگراموں کی تشکیل، نفاذ اور نگرانی میں مدد کرنے کے لیے اس ڈیٹا کا بنیادی حوالہ ہوگا۔لہذا آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام مطالبہ کرتے ہیں ہمارے اس مطالبے کو قبولیت بخشی جائے تاکہ اس بشری غلطی کو بنیاد بنا کر کوئی بھی شخص عوام کو مشتعل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔
====================================