مریم ، چچا کی حکومت کو اپنی حکومت کیوں تسلیم نہیں کرتیں؟ چچا کی محبت غالب ہے لیکن چچی کا کوئی ذکر نہیں ؟ کسی چچی نے مریم کی سیاسی جدوجہد کی تعریف میں ایک لفظ نہیں بولا کیوں ؟ اب تو حمزہ بھی چپ چپ رہنے لگے ہیں ۔ پارٹی رہنماؤں کے پاس کارکنوں کیلئے کوئی جواب نہیں ۔

تین مرتبہ کے وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی اور پاکستان مسلم لیگ نون کی رہنما مریم نواز پر ایک مرتبہ پھر اپنے چچا وزیراعظم شہباز شریف کی محبت غالب نظر آتی ہے کچھ روز پہلے تک وہ اس حکومت کو اپنی حکومت تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھیں لیکن یکدم 24 مارچ کو انہیں احساس ہوا کہ مشکلات جتنی بھی گھمبیر ہوں ، وزیراعظم شہباز شریف کا ان سے مقابلہ کرنے کا جذبہ اس سے زیادہ بلند ہے ، اعلانات تو ہر کوئی کرتا ہے ، مگر جو ان اعلانات کو حقیقت بنانے کیلئے میدان میں اتر جائے اس کو شہباز شریف کہتے ہیں ۔ انشاء اللہ پاکستان مشکلات کو شکست دے گا ۔ مریم نواز نے یہ باتیں وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے مفت آٹا سستا پیٹرول خدمات کے تناظر میں کہیں ہیں ۔

جاتی امرا ، امرتسر سے ہجرت کر کے لاہور میں غازی کے حوالے سے شہرت حاصل کرنے والے شریف خاندان کو سیاست میں کامیابیوں کے بعد دو وزیراعظم مل چکے ہیں اس خاندان کے تین لوگ پنجاب کے وزیر اعلی بن چکے ہیں دو بھائیوں کو پاکستان کا وزیراعظم بننے کا اعزاز ملا اور بیک وقت باپ بیٹے کو وزیراعظم اور وزیر اعلی بننے کا اعزاز ملا ۔ میاں شہباز کے دو بیٹے نواز شریف اور شہباز شریف کا وزیراعظم بنے اور تیسرے بیٹے عباس شریف سیاست میں آئے بغیر وفات پا گئے ۔

میاں شریف کے بڑے بیٹے نواز شریف کے شادی بیگم کلثوم نواز سے ہوئی ان کی چار اولادیں ہیں مریم نواز ، اسماء نواز ، حسین نواز اور حسن نواز ۔
میاں شریف کے دوسرے صاحبزادے شہباز شریف کی شادی بیگم نصرت سے انیس سو تہتر میں ہوئی ان کی بھی چار اولادیں ہیں حمزہ شہباز سلمان شہباز اور جڑواں بہنیں رابعہ اور جویریہ ،
میاں شریف کے تیسرے صاحبزادے عباس شریف کی شادی صبیحہ عباس سے ہوئی ۔عباس شریف کچھ سال پہلے وفات پا چکے ہیں ۔
23 ستمبر 1951 کو پیدا ہونے والے پاکستان کے موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف ماشاءاللہ زندگی کی بہتر بہاریں دیکھ چکے ہیں شریف خاندان ان کی جن دو شادیوں کو تسلیم کرتا ہے ان کے مطابق پہلی شادی بیگ مدثر شہباز سے انیس سو تہتر میں ہوئی اور دوسری شادی بیگم تہمینہ درانی سے ہوئی ۔

عجیب بات ہے کہ ساری دنیا نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کی سیاسی جدوجہد کی تعریف کرتی ہے لیکن آج تک کسی چچی نے مریم نواز کی تعریف میں دو لفظ نہیں بولے ، مریم نواز بھی اپنے چچا کا ذکر کرتی ہیں لیکن کسی چچی کا کبھی کوئی ذکر نہیں ہوتا ، مشرف دور میں جب نواز شریف اور شہباز شریف سمیت خاندان کے سارے مرد گرفتار کر لیے گئے تھے تو بیگم کلثوم نواز اور بیگم نصرت شہباز نے بڑی ہمت اور بہادری کا مظاہرہ کیا تھا بیگم کلثوم نواز تو اللہ کو پیاری ہو چکی ہیں اور بیگم نصرت اپنی علالت کی وجہ سے بیرون ملک مقیم بتائی جاتی ہیں عمران دور میں شہباز شریف کے خاندان کی خواتین پر بھی مقدمات بنا کر گرفتاریوں کی کوشش کی گئی


بیگم نصرت شہباز کو نیب نے 8 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کے کیس میں شہباز شریف اور ان کے صاحبزادوں کے ساتھ شریک ملزم بنایا لیکن ان کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ وہ علیل ہیں اور علاج کی غرض سے بیرون ملک مقیم ہیں ۔

جب شہباز شریف پاکستان کے وزیراعظم بنے تو سیاسی حلقوں میں یہ سوال اٹھایا گیا کہ اب پاکستان کی خاتون اول کون ہوں گی ؟

شہباز شریف کی دوسری اہلیہ بیگم تہمینہ درانی پاکستان میں موجود ہیں لیکن وہ سیاست میں دلچسپی لینے کے بجائے سماجی خدمات میں سرگرم رہتی ہیں ۔

کسی اہم تقریب میں مریم نواز اور بیگم تہمینہ درانی کو ایک ساتھ نہیں دیکھا گیا ۔

سیاسی حلقوں میں کہا جاتا ہے کہ جب قائد اعظم محمد علی جناح کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کو مادر ملت کا خطاب دیا گیا تو وزیراعظم شہباز شریف بھی چاہتے تو اپنی بھتیجی مریم نواز کو پاکستان میں سرکاری پروٹوکول دلا سکتے تھے لیکن ایسا کرنے میں کسی نے دلچسپی نہیں لی۔
جب شہباز شریف نے پاکستان کے وزیراعظم کا حلف اٹھایا تو انڈین میڈیا سمیت سوشل میڈیا پر ان کی مختلف غیر اعلانیہ شادیوں کا چرچا ہوا ، ان کے حوالے سے سامنے آنے والی ایسی میڈیا رپورٹ میں بیگم نصرت شہباز اور بیگم تہمینہ درانی کے علاوہ عالیہ ہنی ، کلثوم حئی ، نرگس کھوسہ ، غریدہ اور عاصمہ جیسے نام بھی ان کے ساتھ جوڑے گئے لیکن انہیں رپورٹس میں تسلیم کیا گیا کہ یہ سب افئیرز مانے جاتے ہیں اور ان کی شادیوں کی کبھی تصدیق نہیں ہوئی ۔ ان خواتین میں کلثوم نامی خاتون کو ایک ایس ایس پی کی بیوی اور تین بچوں کی ماں بتایا جاتا رہا اور ایک خاتون نرگس کو سابق چیف جسٹس کی بہن ۔ جبکہ ایک ماڈل خاتون کا ذکر بھی کیا گیا جس کی وفات ہوچکی ہے ۔

مسلم لیگ نون کی قیادت کے سیاسی مخالفین بالخصوص پی ٹی آئی کے حامی یہ سوالات اٹھاتے رہتے ہیں کہ عمران خان کی شادیوں ، بیگمات اور اولاد پر باتیں کرنے والے خود شہباز شریف کی دل پھینک شخصیت کا احاطہ کیوں نہیں کرتے ؟ جب کہ مسلم لیگی جانتے ہیں کہ پاناما کیس ہویا دیگر اہم سیاسی واقعات ، وہاں پر مسلم لیگی قیادت کو شہباز شریف کے پرانے معاشقوں کی بھاری قیمت چکانی پڑی ۔
==========================

مشکلات جتنی بھی گھمبیرہوں،وزیراعظم کاان سےمقابلہ کرنےکاجذبہ اس سےزیادہ بلندہے،مریم نواز
چیف آرگنائزر مسلم لیگ ن مریم نواز نے کہاہےکہ مشکلات جتنی بھی گھمبیر ہوں، وزیر اعظم شہباز شریف کا ان سے مقابلہ کرنے کا جذبہ اس سے زیادہ بلند ہے۔اپنے ٹویٹ میں مریم نواز نے وزیراعظم کےمفت آٹا مراکز کے دورے کی تفصیل شیئر کرتے ہوئے کہاکہ اعلانات تو ہر کوئی کرتا ہے، مگر جو ان اعلانات کو حقیقت بنانے کے لئے میدان میں اتر جائے اس کو شہباز شریف کہتے ہیں۔ انشاءاللّہ پاکستان مشکلات کو شکست دے گا۔
======
وزیراعظم شہبازشریف کا صدر عارف علوی کو جوابی خط
وزیراعظم محمدشہبازشریف نے صدرڈاکٹر عارف علوی کے چوبیس مارچ کے خط کے جواب میں پانچ صفحات اور سات نکات پر مشتمل جوابی خط لکھاہے ۔اپنے خط میں وزیراعظم نے کہاکہ میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ آپ کا خط تحریک انصاف کا پریس ریلیز دکھائی دیتا ہے ۔آپ کا خط یک طرفہ، حکومت مخالف خیالات کا حامل ہے جن کا آپ کھلم کھلا اظہار کرتے ہیں ۔آپ کا خط صدر کے آئینی منصب کا آئینہ دار نہیں۔وزیراعظم محمدشہبازشریف نے صدرڈاکٹرعارف علوی کو اپنے جوابی خط میں لکھا ہے کہ 3 اپریل 2022 کو آپ نے قومی اسمبلی کی تحلیل کرکے سابق وزیراعظم کی غیرآئینی ہدایت پر عمل کیا۔قومی اسمبلی کی تحلیل کرنے کے آپ کے حکم کو سپریم کورٹ نے 7 اپریل کو غیرآئینی قرار دیا ۔آپ آرٹیکل 91 کلاز5کے تحت بطور وزیراعظم میرے حلف کے معاملے میں بھی آئینی فرض نبھانے میں ناکام ہوئے۔وزیراعظم نے اپنے خط میں لکھا کہ کئی مواقع پر آپ منتخب آئینی حکومت کے خلاف فعال انداز میں کام کرتے آرہے ہیں ۔میں نے آپ کے ساتھ اچھا ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرنے کی پوری کوشش کی ۔ آپ نے جو لب ولہجہ استعمال کیا، اُس سے آپ کو جواب دینے پر مجبور ہوا ہوں ۔اپنے خط میں وزیراعظم نے لکھا ہےکہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا آپ کا حوالہ ایک جماعت کے سیاستدانوں اور کارکنوں کے حوالے سے ہے ۔آئین کے آرٹیکل 10 اے اور 4 کے تحت آئین اور قانون کا مطلوبہ تحفظ ان تمام افراد کو دیاگیا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ریاستی عمل داری کے لئے قانون اور امن عامہ کے نفاذ کے مطلوبہ ضابطوں پر سختی سے عمل کیا ہے۔تمام افراد نے قانون کے مطابق دادرسی کے مطلوبہ فورمز سےبھی رجوع کیا ہے ۔جماعتی وابستگی کے سبب آپ نے قانون نافذ کرنےو الے اداروں پر حملوں کو یکسر فراموش کردیا۔وزیراعظم نے لکھا ہےکہ آپ نے نجی وسرکاری املاک کی توڑپھوڑ، افراتفری پیداکرنے کی کوششوں کو نظر انداز کیا۔پی ٹی آئی کی طرف سے ملک کو معاشی ڈیفالٹ کے کنارے لانے کی کوششوں کو آپ نے نظرانداز کردیا۔پی ٹی آئی کی وجہ سے آئین، انسانی حقوق اور جمہوریت کے مستقبل سے متعلق پاکستان کی عالمی ساکھ خراب ہوئی ۔آپ نے بطور صدر ایک بار بھی عمران خان کی عدالتی حکم عدولی اور تعمیل کرانے والوں پر حملوں کی مذمت نہیں کی ۔عدالت کے حکم کے خلاف کسی سیاسی جماعت کی طرف سے ایسی عسکریت پسندی پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی ۔ہماری حکومت آئین کے آرٹیکل 19 کے مطابق آزادی اظہار پر مکمل یقین رکھتی ہے ۔یہ آزادی آئین اور قانون کی حدود قیود میں استعمال کرنے کی اجازت ہے۔
اپنے خط میں وزیراعظم نے لکھاکہ جب پی ٹی آئی اقتدار میں تھی تو آپ نے کبھی اِس بارے میں آواز بلند نہیں کی ۔انہوں نے ہیومن رائٹس واچ کی سالانہ ورلڈ رپورٹ2022 کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہاکہ پی ٹی آئی اس وقت اقتدار میں تھی ۔ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ میں لکھا ہے کہ حکومت پاکستان میڈیا کو کنٹرول کرنے کی کوششیں تیز کرچکی ہے ۔رپورٹ میں یہ بھی لکھا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت اختلاف رائے کو کچل رہی ہے۔رپورٹ میں صحافیوں، سول سوسائیٹی اور سیاسی مخالفین کو ہراساں کرنے، قید وبند اور نشانہ بنانے کی تمام تفصیل درج ہے ۔وزیراعظم نے لکھا کہ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں انسانی حقوق کا قومی کمیشن معطل رہا ۔قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کی رپورٹ پی ٹی آئی حکومت پر فرد جرم ہے ۔انسانی حقوق کے عالمی اداروں کی متعدد رپورٹس میں پی ٹی آئی حکومت کی خلاف ورزیوں کا ریکارڈ موجود ہے۔صدرڈاکٹرعارف علوی کو اپنے جوابی خط میں وزیراعظم محمدشہبازشریف نے لکھاکہ رکن قومی اسمبلی رانا ثناءاللہ پر منشیات کا جھوٹا مقدمہ بنایاگیا جس کی سزا موت ہے ۔پی ٹی آئی حکومت نے مرد و خواتین ارکان پارلیمان کو قید وبند اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نشانہ بنایا ۔ایک سابق وزیراعظم کے خاندان کی خاتون رُکن کو بھی معاف نہ کیاگیا ۔سیاسی مخالفین کا صفایا کرنے کے لئے نیب کو استعمال کیاگیا ۔افسوس بطور صدر پاکستان آپ نے ایک بار بھی اِن میں سے کسی بھی واقعے پر آواز بلند نہ کی ۔آپ بطور صدر انسانی حقوق، آئین اور قانون کی اِن خلاف ورزیوں پر اُس وقت کی حکومت سے پوچھ سکتے تھے ۔آپ کے خط کا جواب اسی لئے دے رہا ہوں تاکہ آپ کے یک طرفہ رویے کو ریکارڈ پر لاسکوں۔پی ٹی آئی کی طرف سے آپ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کے انتخاب کی تاریخ د دی ۔آپ کا یہ فیصلہ سپریم کورٹ نے یکم مارچ 2023 کے حکم سے مسترد کردیا۔آپ نے دو صوبوں میں بدنیتی پرمبنی اسمبلیوں کی تحلیل پر کسی قسم کی تشویش تک ظاہر نہ کی۔یہ سب آپ نے چئیرمین پی ٹی آئی کی انا اورتکبر کی تسکین کے لئے کیا ۔صوبائی اسمبلیاں کسی آئینی وقانونی مقصد کے لئے نہیں، صرف وفاقی حکومت کو بلیک میل کرنے کے لئے تحلیل کی گئیں۔آپ نے یہ بھی نہ سوچا کہ دوصوبائی اسمبلیوں کے پہلے الیکشن کرانے سے ملک نئے آئینی بحران میں گرفتار ہوجائے گا ۔آپ نے آرٹیکل 218 کی شق تین کے تحت شفاف، آزادانہ اور غیرجانبدارانہ انتخابات کے تقاضے کو بھی فراموش کردیا ۔آئین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کو آپ نے مکمل طورپر نظر انداز کردیا جو نہایت افسوسناک ہے ۔آپ کا یہ طرز عمل صدر کے آئینی کردار کے مطابق نہیں ۔اپنے خط میں وزیراعظم نے تحریرکیاکہ الیکشن کمیشن نے 8 اکتوبر2023 کو پنجاب میں انتخابات کرانے کی تاریخ دی ہے ۔تمام وفاقی اور صوبائی اداروں نے متعلقہ اطلاعات الیکشن کمیشن کو مہیا کی ہیں ۔الیکشن کرانے کی ذمہ داری آئین نے الیکشن کمیشن کو سونپی ہے ۔الیکشن کمیشن نے طے کرنا ہے کہ شفاف و آزادانہ انتخاب کرانے کے لئے آرٹیکل 218 تین کے تحت کیا سازگار ماحول موجود ہے ۔وزیراعظم نےصدرڈاکٹرعارف علوی کو اپنے جوابی خط میں لکھا کہ آپ نے اپنے خط میں سابق حکومت کے وفاقی وزراءکے جارحانہ رویے اور انداز بیان پر اعتراض نہیں کیا ۔سابق حکومت کے وزرا مسلسل الیکشن کمیشن کے اختیار اور ساکھ پر حملے کررہے ہیں ۔آئین کے آرٹیکل 46 اور رولز آف بزنس کی شق15 پانچ بی کی صدر کی تشریح درست نہیں۔صدر اور وزیراعظم کے درمیان مشاورت کی آپ کی بات درست نہیں ۔آئین کے آرٹیکل 48 کی شق ایک کے تحت صدر کابینہ یا وزیراعظم کی ایڈوائس کے مطابق کام کرنے کا پابند ہے۔صدر کو مطلع رکھنے کی حد تک اس کا اطلاق ہے۔ وفاقی حکومت کے انتظامی اختیار کو استعمال کرنے میں وزیراعظم صدر کی مشاورت کا پابند نہیں ۔جناب صدر، میں اور وفاقی حکومت آئین کے تحت اپنی ذمہ داریوں سے پوری طرح آگاہ ہیں ۔آئین کی مکمل پاسداری، پاسبانی اور دفاع کے عہد پر کاربند ہیں آئین میں درج ہر شہری کے بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ پر کاربند ہیں ۔حکومت پرعزم ہے کہ کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے، ریاست پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کی اجازت نہ دی جائے ۔آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آئینی طورپر منتخب حکومت کوکمزور کرنے کی ہر کوشش ناکام بنائیں گے۔
===============================