حلیم عادل شیخ ۔۔۔۔وزیر اعلی کی کرسی سے کتنے قدم دور ؟

سیاست میں کبھی حکمرانی اور کبھی گرفتاری جیسے نشیب و فراز دیکھنے والے حلیم عادل شیخ کی سیاست پہلے مسلم لیگ اور اب پاکستان تحریک انصاف کے حوالے سے شہرت کی حامل ہے وہ سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف ہیں نہایت جوشیلے جذباتی انداز میں تقریریں کرتے ہیں جو ان کے مخالفین کا لہو گرما دیتی ہیں وہ بھی اپنے مخالفین کو للکارنے سے باز نہیں آتے ،

چنانچہ ان کے خلاف مختلف مقدمات الزامات سامنے آتے رہتے ہیں متعدد مرتبہ ان پر حملے ہو چکے ہیں سی آئی اے سنٹر میں اچانک سانپ نکل آیا اگر وہ اسے نہ مارتے تو کچھ بھی ہو سکتا تھا ۔انہیں جیل بھیجا جاتا ہے وہاں درجنوں افراد ان پر حملہ کر دیتے ہیں ان کی ٹانگ میں پلیٹ لگی ہوئی ہے ان کا زبردست تشدد کیا جا چکا ہے لیکن ان کا حوصلہ اور عزم بلند ہے وہ خود کو کپتان کا چھوٹا سا کارکن اور

ایک سپاہی قرار دیتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ یہ ساری ہمت تو انہوں نے اپنے بہادر لیڈر سے حاصل کی ہے ان کی کوئی لوبنگ نہیں ہے وہ اپنے بل بوتے پر آگے بڑھتے ہیں اور اپنے کام پر انحصار کرتے ہیں ان کا گزر بسر اسمبلی کی تنخواہ اور جوائنٹ فیملی بزنس سے ہونے والی آمدن پر ہے ۔ وہ سندھ حکومت کی نا اہلی اور پیپلز پارٹی کی قیادت کی بدعنوانیوں کو بے نقاب کرنے کے لیے آواز اٹھاتے رہیں گے اسی بات کی انہیں سزا دی گئی ہے ان پر متعدد حملے ہوئے کئی مقدمات ہیں

انہیں ان کے خاندان کو اور دوستوں کو سیاسی مخالفین نے نشانہ بنا کر کافی تنگ کیا کاروباری نقصان پہنچایا جھوٹے مقدمات بنائے ، تشدد کیا اور انہوں نے یہ سب کچھ برداشت کیا کیونکہ وہ سندھ کے عوام کی آواز بن کر سندھ اسمبلی میں اور تمام فورمز پر ان کا مقدمہ لڑ رہے ہیں غریبوں کا مقدمہ لڑ رہے ہیں سندھ کے مظلوموں کا مقدمہ لڑ رہے ہیں تھر کے مظلوم بچوں کا مقدمہ لڑ رہے ہیں اور اس لڑائی میں ہر حد تک جانے کو تیار ہے انہیں یقین ہے اور وہ اللہ سے دعا گو ہیں کہ سندھ کو لوٹنے والوں سے سندھ کی جان جلد چھوٹ جائے ۔ ظالم اپنے انجام کو جلد پہنچیں۔ اس مقصد کے لیے ان کی جدوجہد جاری ہے ۔
===================

وہ سندھ اسمبلی کے فلور پر بیان کر چکے ہیں کہ قائد حزب اختلاف کی حیثیت سے میری اور وزیر اعلی کی کرسی میں چند فٹ کا فاصلہ ہے ۔

===================

حلیم عادل شیخ – اگست 2018 سے سندھ کی صوبائی اسمبلی کے رکن ہیں، اور جنوری 2021 سے سندھ کی صوبائی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ شیخ اگست 2018 سے جنوری 2021 تک سندھ کی صوبائی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر کے طور پر خدمات انجام دیں، اور 21 جولائی 2019 سے 25 دسمبر 2021 تک سندھ کے لیے پی ٹی آئی کے صدر رہے۔

شیخ 2018 کے پاکستانی عام انتخابات میں حلقہ PS-99 (کراچی ایسٹ-I) سے پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار کے طور پر سندھ کی صوبائی اسمبلی کے لیے منتخب ہوئے تھے۔

جنوری 2021 میں انہیں سندھ اسمبلی کا قائد حزب اختلاف مقرر کیا گیا۔

شیخ کو 25 اگست 2022 کو اینٹی انکروچمنٹ فورس (AEF) سندھ نے زمین پر قبضے کے کیس کے سلسلے میں گرفتار کیا تھا۔ اے ای ایف نے انہیں آج ملیر کے جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا۔

9 ستمبر 2022 کو عدالت نے ان کی ضمانت کی درخواست منظور کرنے کے بعد انہیں جیل سے رہا کیا گیا۔
======================

جمہوریت میں اپوزیشن کو گورنمنٹ ان ویٹنگ مانا جاتا ہے اس اعتبار سے اپوزیشن لیڈر ممکنہ طور پر اگلے حکمران ہوتے ہیں ۔
عمران خان کے دور حکومت میں شہباز شریف اپوزیشن لیڈر بنے آج وزیراعظم ہیں۔
=======================
اس لحاظ سے حلیم عادل شیخ کا یہ کہنا کہ ان کی اور وزیر اعلی کی کرسی میں چند فٹ کا فاصلہ ہے ایک معنی خیز بات ہے
=====================
لیکن سندھ کی سیاست میں وہ سب کچھ اس طرح نہیں ہوتا رہا جس طرح جمہوریت میں دیگر جگہوں پر ہوتا ہے ۔ سندھ اسمبلی میں جتنے اپوزیشن لیڈر آئے ان میں سے شاذ و نادر ہی کوئی وزیراعلی بن سکا ، ایسا قسمت کا دھنی کوئی کوئی ہوتا ہے جو اپوزیشن لیڈر بھی ہوں اور پھر مسند اقتدار پر بھی بیٹھے ۔ زیادہ تر اپوزیشن لیڈر جو سندھ اسمبلی میں آتے رہے ہیں وہ وزیر اعلی نہ بن سکے ان کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ دو چار ہاتھ لب بام رہ گئے ۔
سندھ اسمبلی میں جب وزیر اعلی بنانے کی باری آتی ہے تو اکثر ایک دم نیا نام کی شخصیت سامنے آجاتی جس نے کبھی اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے کام نہیں کیا ہوتا ۔

دیکھنا ہے کہ کیا حلیم عادل شیخ کسی روایت کو بدل سکتے ہیں بظاہر ان کی جماعت سندھ میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں نظر نہیں آتی اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت مستحکم ہے ،
لیکن پاکستان کی سیاست میں کوئی بات حتمی طور پر نہیں کہی جاسکتی یہاں ایک سیٹ والے جام صادق وزیراعلی بن چکے ہیں ارباب غلام رحیم بھی وزیراعلی چکے ہیں مظفر شاہ بھی وزیر اعلی بنے تھے ، مہر برادران بھی وزارت اعلی اپنے گھر لے گئے تھے ۔ لیاقت جتوئی بھی وزیراعلی رہ چکے ہیں یاد آنے والے وقت میں کیا ہو کوئی بات حتمی طور پر نہیں کہی جاسکتی ۔

ماضی میں پیپلز پارٹی نے نثار کھوڑو کو اپوزیشن لیڈر بنایا لیکن جب وزیر اعلی بنانے کی باری آئی تو وہ اس کے اہل نہیں سمجھے گئے ۔
پہلے سید قائم علی شاہ کو اور پیر سید مراد علی شاہ کو وزیر اعلی بنا دیا گیا ۔

اسی طرح جام مدد علی سے لے کر ایم کیو ایم کے خواجہ اظہار تک اور پی ٹی آئی کے فردوس شمیم نقوی تک مختلف شخصیات اور فیشن لیڈر رہی ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی وزارت اعلیٰ کا امیدوار نہیں بن سکتا ۔
===========================