لہور لہور ہے۔(3)۔ لکشمی چوک علم و ثقافت کا مرکز۔

سچ تو یہ ہے،
============

بشیر سدوزئی
============
پہلے کی اقساط میں لکھا جا چکا کہ لکشمی چوک کے ایک کونے پر شورش کاشمیری کے چٹان کا دفتر تھا، جہاں سے وہ بوقت ضرورت لکشمی چوک پہبچنے میں چند منٹ لگاتے اور پھر شورش بھرپا کردیتے۔ان کے دفترکی دوسری جانب لاہور ہائی کورٹ بار کا دفتر تھا جہاں ملک کے نامور وکلا آتے جاتے رہتے۔ بعض نے تو اپنے دفاتر بھی اسی علاقے میں قائم کئے ہوئے تھے۔ علاقے میں فلمی دفاتر کی طرح وکلاء کے دفاتر بھی کثیر تعداد میں قائم ہوئے تاہم فلمی کاروبار کی طرح یہ چوک اس پیشے کے حوالے سے زیادہ مشہور نہیں ہوا۔جب تک پاکستان میں فلم انڈسٹری عروج پر رہی اس علاقے کا نام اور شان بھی بلند رہی۔ لکشمی جوک لکشمی ہی بنا رہا۔ جہاں ہر کسی کی قسمت چمک رہی ہوتی۔کاروباری بھی خوش کہ ان کی تجارت اور تجارتی سرگرمیاں آسمان پر ہیں اور خریدار بھی خوش کہ ان کو ہر چیز یہاں دستیاب ہے۔نوجوان اس علاقے میں آتے شوبزنس میں شامل ہوتے اور کم ترین عرصے میں ہی دولت اور شہرت کی بلندیوں تک پہنچ جاتے۔ فلم انڈسٹری کا مرکز ہونے کے باعث کئی سینموں اور فلم میکرز کے دفاتر کی وجہ سے یہ چوک طویل عرصے تک پاکستان کے صف اول کے فن کاروں کی آماج گاہ بنا رہا۔ پھر پاکستان میں جنرل ضیاءالحق نے اسلامی نظام نافظ کرنا شروع کیا تو اس نظام کی پہلی تلوار اسی انڈسٹری پر گری جو بعقول ضیائی نان اسٹیٹ ایکٹر کے یہ فحاشی،عریانی اور بے حیائی کا منبہ ہے۔ضیاءالحق کے مارشل لاء حکم نامہ نے مردوں کے لباس پر بھی قدغن لگائی تھی لیکن عورت کے لیے سر ڈھانپنا اور عین اسلامی احکامات کے مطابق لباس پہننا لازمی قرار دیا گیا۔فن کاراوں کے لیے چادر میں لپٹ کر ،برقعہ اوڑھ کر اور منہ سر ڈھانپ کر اداکاری کرنا مشکل ٹھرا۔ کچھ گھر بیٹھ گئیں اور کچھ عدم وطن ہوئیں۔فلم انڈسٹری کیا تباہ ہوئی پاکستان کے غریب اور متوسط طبقے کا کاروبار تفریح و تباہ کا بڑا ذریعہ ختم ہوا۔ابلاغ، ڈیلاک، طنزومزاح اور ادب و ثقافت جو اس انڈسٹری کے ساتھ جڑے تھے کے دروازے بند ہو گئے اور پاکستان کی قومی آمدنی پر بھی فرق پڑھا۔اس کے ساتھ لکشمی چوک کی رنقیں ماند، چہل پہل، تجارت اور ثقافتی رنگ پھیکے پڑھ گئے۔روزگاری بڑھنے لگی مقالمہ اور بحث و مباحثہ کی روایت ختم ہو گئی۔ نوجوان دوسری سمت پلٹے، انتہا پسندی پروان چڑی اور سرچڑھ کر بولنے لگی۔ سیاسی کارکنان اور رہنماؤں پرضیاءالحق کے نافظ کردہ اسلامی کوڑوں کی سزاوں پر ضیاءالحق کے نان اسٹیٹ ایکٹر کو اطمینان نہ ہوا تو حقیقی نظام شریعت کے مطالبات نے زور پکڑا۔ مطالبات منوانے کے لیے ریاست کے اندر ریاست قائم ہونے لگی۔ حقیقی ریاست نے زور زبردستی سے دبانے کی کوشش کی تو جب تک نان اسٹیٹ ایکٹر بے لگام ہو چکے تھے۔خود کش بمبار سامنے آئے اور نتائج جو بھی ہیں پاکستان کا جو بھی حشر ہوا وہ براہ ملاحظہ موجودہ ہے اس پر مذید تبصرے کی ضرورت نہیں، جو قومیں علم و ادب ،فن و ثقافت سے منہ موڑتی ہیں ان کا حشر ایسا ہی ہوتا ہے۔صرف لکشمی چوک ہی متاثر نہیں ہوا سارا پاکستان متاثر ہے۔قوم کے چالیس سال ضائع ہو چکے لیکن قومی ترقی کی ریل پیڑی پر نہیں چڑھ رہی۔ ضیاءالحق نے جس طرح کی لیڈر شپ دی لگتا ہے مذید کچھ عرصہ انتظار کرنا پڑے گا جب تک حقیقی لیڈر شپ نہیں ملتی جو سیاسی ماحول میں پیدا ہو اور سیاسی ماحول ہی میں پروان چڑھے۔امریت کی بوتل سے نکلی ہوئی کسی بھی قیادت سے لکشی چوک آباد ہونے کی توقع عبث ہے۔لیکشمی چوک کی ہی نہیں پاک ٹی ہاوس، کئی چوک اور علم و ادب فن و ثقافت کے ادارے ویران ہو گئے جس کا نقصان قوم آج تک بھگت رہی ہے۔اس وقت کے ان پرانے سینماوں میں سے چند ایک آج بھی موجود ہیں جو آج کے دور میں غنیمت لگتے ہیں۔جن کے باہر ویسے ہی اشتہاری بورڈ نصب تھے جو ہم 1980تک کراچی کے سینما گھروں کے باہر پاکستان کے نامور آرٹسٹوں کی تصویروں کے ساتھ دیکا کرتے تھے۔ ہم نے شکیل خان کے ہمراہ ان سینما گھروں کا باغور معائنہ کیا اور ان کے سامنے ٹہلتے رہے۔مجھے ایسا لگا کہ پاکستان میں فلم بحالی کا عمل لاہور کے لکشمی چوک سے پھر سے شروع ہو رہا ہے۔لیکن اجڑے ہوئے الحمرا کو دیکھ کر یقین نہیں آ رہا تھا کہ حکومت پہنجاب صوفیائے کرام کی دھرتی میں فن و ثقافت اور علم و ادب کے فروغ میں سنجیدہ ہے الحمرا کے عملے نے بتایا کہ آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی نے آکر پاکستان لیٹریچر فیسٹیول کا جو تین روزہ میلا سجایا ہے ہم نے فن و ثقافت اور علم و ادب کی یہ رنق گزشتہ 40 سال میں پہلی بار دیکھی ہے۔ حالاں کہ الحمرا کی بناوٹ، سجاوٹ اور کھلے حاطے بانیان کے ویژن اور سوچ کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔فن و ثقافت کی ترویج کے لیے اس نوعیت کی دوسری عمارت ملک بھر میں نہیں۔الحمرا کئی عمارتوں کا مجموعہ ہے، ہر عمارت آرکیٹیکچر کے لحاظ سے ایک دوسری سے برتر ہے۔ایک سو سے ایک ہزار افراد کے بیٹھنے کی گنجائش کے کئی ہال، بہترین ماحول ہریالی اور کشادہ میدان لاہور کی طرح الحمرا کو بھی خاص بنا رہے ہیں۔ اس کا استعمال بھی خوب اور ملک بھر میں فن و ثقافت کا مرکز ہونا چاہیے تھا
۔لکشمی چوک کے سینماؤں کے باہر جو بورڈ نصب کئے گئے تھے ان پر جن فن کاروں کی تصویریں آویزاں تھی ان میں ہماری نسل کا کوئی ایک آرٹسٹ بھی نظر نہیں آیا۔ تاہم جو بھی تھے اور بورڈز کی وجہ سے ان سینماؤں پر جو رنق اور رعب تھا اس سے اندازہ ہو رہا تھا کہ لاہور میں فلم انڈسٹری کی بحالی پر کام شروع ہو چکا اور اب لوگ پردے کی بڑی اسکرین میڈیم کی طرف پلٹ رہے ہیں۔ہم نے اس صورت حال پر یہ تبصرہ کیا کہ اگر فلم انڈسٹری کی بحالی کی کوئی بھی کوشش ہو سکتی ہے تو انہی سینماؤں کے ذریعے ورنہ چار، پانچ ہزار کے ٹکٹ والے سینماؤں میں لگنے والی فلم نہ عوام دیکھ سکتے ہیں نہ انڈسٹری کو کوئی فائدہ دے سکتی ہے۔ سرمایہ دارانہ طرز انٹرٹینمنٹ میں ایک اضافہ ہو سکتا ہے عوامی سطح پر فن و ثقافت کی ترقی ہر گز نہیں اور نہ اسے سنیما کی بحالی کہا جا سکتا ہے۔ہم ادھر ادھر گھوم کر اجڑی لٹی لاہور بلکہ پاکستان کی تاریخ اور ثقافت کا جائزہ لے رہے تھے کہ ایک سینما کے صدر دروازے کے باہر کالے سنڈے شخص پر نظر پڑی جو تخت پر بیٹھا ایک بڑی کڑاہی (دیک)میں کڑچھا ہلا رہا تھا۔ ہمیں تجسس ہوا کہ رات کے اس دوسرے پہر یہ پہلوان کیا پکا رہا ہے۔اس کے قریب پہنچ کر دیکھا کہ دیک کی طہ میں کشمیری چائے تھی اور دیگ کے نیچے ہلکی آنچ میں آگ جل رہی تھی۔ کشمیری چائے تو ہم تلاش کر رہے تھے جو کراچی میں دستیاب نہیں لیکن یہ یقین کیسے آئے کہ یہ اصل کشمیری چائے ہے یا رنگ دار پانی جو دودھ اور چینی ملا کر کراچی میں بھی دستیاب ہے۔ ہم نے جھانک کر دیکھا تو دیک کی دیواروں کے ساتھ جلی ہوئی ملائی اور کشمیری چائے کی باقیات چپکی ہوئی تھیں۔جس سے اندازہ ہوا کہ کام تقریبا پکا ہی ہے۔ہم نے مذید پکا کرنے کے لیے اس کالے فربہ پہلوان سے پوچھا کہ کیسے سمجھا جائے کہ یہ اصلا اور نسلا کشمیری چائے ہے۔ چائے والا پہلوان گویا ہوا کہ پینا شرط ہے اگر آپ جو کہہ رہے ہیں وہ ہیں، یعنی آپ کشمیری ہیں تو آپ کو خود انداز ہو جائے گا کہ چائے اصل ہے یا پانی میں رنگ ملا شربت۔ میں نے مشروط چائے پینے کی ہاں بھری کہ پینے کے بعد اصل کشمیری چائے نہ محسوس ہوئی تو قیمت ادا نہیں کی جائے گی۔ جس پر وہ کالا اور موٹا چائے والا راضی نہیں ہوا اور کہا کہ میری چائے تو اصلا اور نسلا کشمیری ہے آپ کا مجھے کیا معلوم کہ کشمیری ہیں کہ نہیں، کون سا میرے پاس آپ کا پشتی سرٹیفیکیٹ ہے۔ مودی نے تو پشتی سرٹیفیکیٹ کا قانون 35اے ہی ختم کر دیا اب تو ہر کوئی کشمیری ہو سکتا ہے اس کے لیے اب پشتی ہونا لازمی نہیں۔ آپ ہی جعلی کشمیری ہوں تو میں اپنا نقصان کیوں کروں۔لگ بھگ دو ڈھائی من گنجائش کی کڑاہی خالی ہو رہی تھی ،کشمیری چاہے کے مصالحہ جات اور ملائی کڑاہی کے ساتھ ایسا چپکی ہوئی تھی جیسے کئی گھنٹوں سے یہ چائے پک رہی ہے۔ہمارے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ کشمیری چائے بری یہ دیگ مغرب کی نماز سے رات دو بجے تک ختم ہو جاتی ہے۔ مجھے یقین ہو گیا کہ یہ چائے واقعی اصل کشمیری چائے ہے۔ ویسے بھی کشمیریوں کا مسلم لیگ ن اور لاہور پر قبضہ ہے چائے فروش کالا اور فربہ سہی کشمیری ہی ہو گا،ضروری نہیں کہ ہر کشمیری خوبصورت بھی ہو اور سمارٹ بھی۔ 76 سال بعد جسامت اور رنگ کہاں باقی رہتا ہے اور نہ اصل و نقل کی پہچان باقی رہتی ہے، بس نام ہی رہ جاتا ہے۔ چائے تو اپنے نام کا لاج رکھنے کے لیے مناسب تھی رنگ بھی اور ذائقہ بھی دونوں سے لگ رہا تھا کہ تھوڑے بہت فرق کے ساتھ کشمیری چائے ہی ہے۔ہم نے اس روز سبز قہوہ کے بجائے کشمیری چائے پی۔ ہمارے ساتھیوں کا کشمیری چائے پینے کا بے حد اصرار تھا لیکن اس دن عجب اتفاق ہوا کہ وہ موجودہ نہیں تھے۔ہمارے لیے آج سردی بھی مناسب پڑھ رہی تھی، لاہوری تو شاید اس کو سرد موسم میں شمار نہیں کر رہے تھے لیکن ہم کراچی والوں کے لیے ٹھیک ٹھاک سردی تھی اسی لیے ہم نے کوٹ پین رکھے تھے۔گرم کشمیری چائے نے ہمیں جسمانی حرارت دی اور سردی سے بھی محظوظ رکھا۔ فٹ پاتھ پر رکھی کرسیوں پر چند نوجوان بھی بیٹھے ہوئے تھے لیکن ہمیں بیٹھتے دیکھ کر وہ رخصت ہو گئے۔اب ہم تھے فٹ پاتھ اور کشمیری چائے تھی۔فٹ پاتھ پر بیٹھ کر ہم چائے کی چسکیاں لینے کے ساتھ ساتھ علاقے کا بھی معائنہ کرتے رہے، کتنے لوگ آئے اور چلے گئے اللہ کی سرزمین اپنی جگہ قائم ہے۔یہ لاہور اور اس کے گلی محلے ہزاروں سال قبل مسیح آباد ہو اور آج لاہور لاہور ہے اور اسی لیے اہل لاہور زندہ دلان لاہور ہیں۔ لیکن کیا کبھی کوئی ان لوگوں کو بھی یاد کرتا ہو گا جنہوں نے یہ گلی محلے آباد کئے تھے اس خواہش پر کہ یہ سب کچھ میرا ہے۔ آج وہ نہیں ہیں ہم ہیں۔آنے والوں کے لیے ہم کیا چھوڑ کر جا رہے ہیں، بم دھماکے، خودکش بمبار نفرتیں، تعصب اور افراتفری اس پر انفرادی اور اجتماعی ہر سطح پر غور کرنے کی ضرورت ہے ایک اچھے خوش حال اور ترقی یافتہ معاشرے کے لیے ہم سب کو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ خدا کی قدرت اور اس قدرت کا نظام اربوں سال سے چل رہا ہے نہ معلوم کب تک چلے گا لکشمی چوک پر کھانے پینے سمیت ہر قسم کا کاروبار دن رات کھلا رہتا ہت۔ یہ سلسلہ سالوں پرانہ ہے۔ لوگ آتے ہیں جاتے ہیں ایک بحر بے گراں ہے جو رواں دواں ہے۔۔اسی آمدورفت کی وجہ سے یہ علاقہ شہر کا اہم کاروباری مرکز رہا جس کے کچھ اثرات آج بھی موجود ہیں۔ لکشمی چوک کے بارے میں لاہوریوں کا کہنا ہے کہ یہ لاہور میں ہوٹلوں کا مرکز رہا۔ ہوٹلوں کی جتنی تعداد اس چوک کے قریب واقع ہے لاہور میں کوئی دوسری جگہ ایسی نہیں۔لاہوری بتاتے ہیں کہ لکشمی چوک کے رنگارنگ اور لذیذ کھانے اپنی مثال آپ تھے دور دور تک ان کی مہک و خوشبو پھیلتی رہتی۔ کچھ تو کھانوں اور مختلف اقسام کے پکوانوں کی بہار اب بھی موجود ہے لیکن زمانے نے جو کروٹ لی اس کے اثرات لکشمی چوک پر بھی پڑے۔
نوٹ: آئندہ کالم میں اورنج لائن ٹرین منصوبے اور اس کی زد میں آنے والے 11تاریخی مقامات کے بارے میں ملاحظہ فرمائیں ۔یہ کالم آپ روزنامہ دھرتی کشمیر راولاکوٹ اور پرل ویو۔
jeevey pakistan وائپ سائیڈ
lost kashmir. Bashir Saddozai فیس بک پیج پر بھی پڑھ سکتے ہیں
======================