کشمیر۔۔۔۔جی۔20کانفرنس۔۔محبوبہ ناراض،امتیاز عالم کیوں قتل یوا۔

سچ تو یہ ہے۔
=============
بشیر سدوزئی،
============

بھارتیہ جنتا پارٹی مسلہ کشمیر کو مکمل طور پر دفن کرنے کی حتمی منصوبہ بندی کے طور پرجی 20 سربراہی اجلاس سری نگر میں منعقد کرانے کی تیاریوں میں مصروف ہے لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ ہماری جانب 5/اگست 2019 کی طرح مضبوط اور موثر سفارتی اقدامات نہیں ہو رہے جس سے یہ افواہیں زور پکڑا رہی ہیں کہ کسی نہ کسی طور بھارت کے اس اقدام میں بھی نیم رضامندی شامل ہے۔ جی 20 دنیا کا بہت بڑا فورم ہے بلکہ یوں کہا جائے کہ یہی آج کی دنیا ہے۔ بظاہر تو یہ 20 ممالک کا فورم ہے لیکن حقیقت میں عالمی جی ڈی پی میں ان 20 ممالک کا حصہ 80 فیصد ہے یعنی پوری دنیا کی دولت اور سرمایے کا 80فی صد ان 20ممالک کے پاس ہے۔ پاکستان سمیت باقی 180 سے زائد ممالک صرف 20 فی صد کے حصہ دار ہیں۔ مبینہ طور پر اپریل میں سری نگر میں منعقد ہونے والی یہ کانفرنس مسئلہ کشمیر کی ہیت کو ہی تبدیل کر دے گی اور یہی مودی کی خواہش اور کوشش بھی ہے۔یکم دسمبر 2022 تا 30 نومبر 2023 تک جی 20 کا سربراہ بھارت ہے وہ اس سربراہی منصب سے غیر قانونی اور غیر اخلاقی فائدہ اٹھانے چاتا ہے۔ مودی کی خواہش ہے کہ اس دوران سری نگر میں یہ کانفرنس منعقد کر کے مسلہ کشمیر کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکی جائے۔مقبوضہ جموں و کشمیر کی حکومت نے اس کانفرنس کے انتظامات کے لیے 23 جون 2022 کوپانچ رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی مبینہ طور پر اس کمیٹی نے نئی دہلی کو انتظامات کی حتمی رپورٹ بھی پیش کر دی ہے۔ گو کہ پاکستان نے اس پر اعتراض کیا ہے لیکن ممبر نہ ہونے اور موثر و متحرک سفارتی کاری کے بغیر پاکستان کا اعتراض قابل غور سمجھا جائے گا یہ سوال اپنی جگہ بہت اہمیت رکھتا ہے۔ جب کہ پاکستان کے دوست ممالک عرب کے سرمایہ کار پہلے ہی کشمیر میں سرمایہ کاری کا اعلان کر چکے اور یو اے ای اور سعودی عرب کے تو بھارت کے ساتھ اسٹریٹجک پارٹنر شپ قائم ہونے کی خبریں بھی عام ہیں۔اب پاکستانی حکومت کے پاس کشمیری عوام کو اخلاص دیکھانے کا آخری موقع ہے کہ وہ کم از کم قریبی دوست چین، سعودی عرب، ترکی اور انڈونیشیا جیسے ممالک کو اس اجلاس میں شرکت نہ کرنے پر قائل کرے بلکہ ان ممالک کو اس بات پر بھی راضی کرے کہ وہ جموں و کشمیر میں ہونے والے اس اجلاس پر اعتراض اٹھائیں، بائی کاٹ کریں اور دیگر ممالک کو بھی سری نگر جانے سے روکیں۔بھارت انتہائی چلاکی کے ساتھ ان 20 ممالک کو سری نگر لانے چاتا ہے بلکہ کئی عرب ریاستوں کو بطور مہمان بھی مدعو کرے گا تاکہ متاثر ہو کر وہ مقبوضہ کشمیر میں سرمایہ کاری کریں۔اگر پاکستان جموں و کشمیر میں ہونے والے اس اجلاس کو نہیں روک سکا تو یہ تحریک آزادی کشمیر کو بڑا دھچکہ ہو گا اور کشمیری عوام اور خاص طورپر حریت پسند انتہاء پسند قوم پرستوں کے اس بیانیہ پر غور کرنے کے لیے مجبور ہوں گے کہ کشمیر کے مسئلے پر دونوں ممالک کے درمیان کسی نہ کسی سطح پر ہم آئینگی پائی جاتی ہے اور تقسیم کشمیر فارمولے پر اتفاق رائے سے آگئیں بڑا جا رہا ہے۔ چین تو اس حوالے سے اپنا موقف واضح کر چکا۔30 جون 2022 کو میکسیکو کے ایم ایس ٹی وی نے چینی وزارت خارجہ کے ترجمان چاؤ لیجیان سے پوچھا تھا کہ ’انڈیا 2023 میں متنازع علاقے کشمیر میں جی 20 اجلاس منعقد کرنے کا اعلان کر رہا ہے۔ اس بارے میں چین کا کیا موقف ہے؟ چینی ترجمان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے اس پیشرفت کو نوٹ کیا ہے۔ جموں و کشمیر پر چین کا مؤقف واضح ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔‘ چین نے یہ اصولی موقف اپنایا کہ جی 20 اقتصادی اور مالی تعاون کا اہم فورم ہے۔ ہم عالمی معیشت کو مشکلات سے نکالنے پر توجہ دیں سیاست نہ کریں۔اسی پرس کانفرنس میں بھارتی خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی نے سوال کیا کہ ’کیا چین کشمیر میں جی ٹوئنٹی اجلاس میں شرکت کرے گا؟ اگر کشمیر متنازعہ مسئلہ ہے تو چین اس علاقے سے اکنامک کوریڈور کیوں لے جا رہا ہے؟اس پر چینی وزارت خارجہ ترجمان کا جواب تھا کہ ’آپ نے یہاں دو مسائل کا ذکر کیا ہے جب کہ دونوں اپنی نوعیت میں بالکل مختلف ہیں۔ چین نے پاکستان میں کچھ منصوبے شروع کیے ہیں تاکہ وہاں کے لوگوں کا معیار زندگی بہتر بنایا جا سکے۔ یہ منصوبے پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں ہیں۔’منصوبے سے وابستہ چینی کمپنیاں پاکستان کی معیشت اور معاش کے مسائل حل کرنے میں مدد فراہم کر رہی ہیں۔ اس سے کشمیر پر چین کے مؤقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ ہم دیکھیں گے کہ اس اجلاس میں شرکت کریں یا نہیں۔جب کہ ترکیہ بھی مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی کُھل کر حمایت کرتا ہے۔ فروری 2020 میں پاکستانی پارلیمنٹ سے خطاب کے دوران طیب اردوغان نے کہا تھا کہ ’کشمیر جتنا اہم پاکستان کے لیے ہے اتنا ہی ترکی کے لیے بھی اہم ہے۔اس صورت حال میں یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ اگر پاکستان نے موثر سفارت کاری کی تو یہ دونوں ممالک تو سری نگر نہیں جاتے۔ رہی بات سعودی عرب اور انڈونیشیا کی تو بھارت کے ساتھ ان کے تعلقات جتنے بھی اچھے ہوں وہ پاکستان کو بھی درگزر نہیں کر سکتے۔ لہذا سعودی عرب یہ تو کر سکتا ہے کہ مودی کو اپنا فیصلہ تبدیل کرنے پر آمادہ کر دے۔ اگر سعودی عرب اور انڈونیشیا نے مودی پر زور دیا تو چلاک مودی کبھی بھی ان کو ناراض نہیں کرے گا۔ لہذا جی 20 اجلاس سری نگر میں منعقد ہونا اتنا آسان نہیں، اگر سب کی رضامندی شامل نہ ہو۔تازہ ترین رپورٹ کے مطابق سری نگر سے جاری ایک بیان میں کل جماعتی حریت کانفرنس نے گروپ20کے رکن ممالک پر زوردیا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے تسلیم شدہ متنازعہ علاقے میں فورم کے اجلاس میں شرکت کے لیے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی دعوت سے صاف انکار کر دیں۔ ترجمان نے کہا کہ سرینگر میں G-20 کے اجلاس کی میزبانی کے بھارت کے منصوبے کا مقصد مقبوضہ علاقے میں بھارتی فوجیوں کی طرف سے انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیوں کے بارے میں دنیا کو گمراہ کرنا،مسئلہ کشمیر کے حل سے عالمی برادری کی توجہ کو ہٹانا ہے۔G-20 رکن ممالک یاد رکھیں کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق بھارت کو جموں و کشمیر میں ایک غیر قانونی قابض کی حیثیت حاصل ہے۔ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ متنازعہ علاقے میں عالمی فورم کے اجلاس کے انعقاد سے عالمی ادارے کی ساکھ مجروح ہو گی۔ حریت کانفرنس کی جانب سے اس اہم ترین ایونٹ پر صرف بیان ہی کافی نہیں بلکہ حریت کو اب سفار کاری کی طرف بھی توجہ دینا چاہیے۔اسلام آباد میں غیر ملکی سفارت کاروں اور اقوام متحدہ مشن کو یادشت پیش کریں ۔خاص طور پر حکومت آزاد کشمیر کی سربراہی میں جی 20 ممالک کے سفیروں کی کانفرنس بلا کر اپنا مطالبہ ان کے سامنے رکھیں۔اس اہم موقع پر جب بھارت مسئلہ کشمیر کو ختم ہونے کا اعلان کر کے بین الاقوامی کانفرنس منعقد کرنے کی تیاری کر رہا ہے جموں و کشمیر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ محبوبہ مفتی نے مودی سے سوال کیاکہ اگر کشمیر کا مسئلہ ختم ہوچکا ہے تو پھر ہزاروں کشمیری غیر قانونی طورپر بھارت کی جیلوں میں کیوں قید ہیں۔ محبوبہ نے کہا کہ کشمیریوں کو ان کی زمینوں، ملازمتوں، معدنیات سے بے دخل اور ان کے قدرتی وسائل کولوٹا گیا وہ افسوسناک ہے ۔معروف کشمیری حریت لیڈر امتیاز عالم کی اسلام آباد میں شہادت ایک غیر معمولی واقع ہے۔ جموں و کشمیر کی آزادی کے لیے شہید کی لازوال جدوجہد ہے۔کہا جاتا ہے کہ وہ ہنس مکھ انسان تھے جس کی وجہ سے ہر کوئی ان سے محبت کرتا اور وہ ہردلعزیز تھے۔تحریک آزادی میں ان کے والد سکندر پیر اور بھائی نظیر پیر بھی شہید ہو چکے۔حریت رہنماء کے ساتھ اسلام آباد میں یہ واقع پیش آنا افسوس ناک ہے۔ اس واقع کی غیرجانب دارانہ تحقیقات ہونا چاہیے اور اس کی تشہر بھی تاکہ کہ حریت پسندوں کو یقین ہو کہ ان کے ساتھ انصاف ہوا۔
===============