شبانہ اعظمی کی زنگی میں پیش آمدہ حیرت انگیز واقعات و حادثات؟؟؟؟

………………….
شبانہ اعظمی نے پہلی مرتبہ کالج میں نیلا تھوتھا کھاکر خود کشی کی کوشش کی، دوسری کوشش، سامنے ٹرین آرہی تھی اور شبانہ جان بوجھ کر ریل کی پٹری پر چلنے لگی، کمیونسٹ پارٹی نے شبانہ کی پیدائش کی مخالفت کی مگر والدہ کے ڈٹ جانے پر ان کی آمد ممکن ہوئی، وہ 3 سال کی تھی اور اکیلی جنگل میں درخت کے نیچے کھڑی رورہی تھی اور ماں اسے بھول کر بس میں 10 کلومیٹر آگے جاچکی تھی، اسکول ڈریس کے جوتے پھٹ گئے شبانہ اعظمی نے گتا کاٹ کر اس پر چپکادیا وہ ماں کے اس جملہ پر کہ کھبوڑے جیسے پیر ہیں روز جوتے پھاڑ لاتی ہے دل برداشتہ تھی، والدین کی غربت کو دیکھتے ہوے شبانہ نے کالج کی سالانہ چھٹیوں میں پیٹرول پمپ پر کافی بیچ کر 900 روپئے کمائے اور سارے ماں کو دیدئیے-

کراچی (تحریرو ترتیب آغا خالد)

بالی وڈ سےشہرت حاصل کرنےوالی برصغیرکی بیک وقت معروف اداکارہ اورسیاستداں شبانہ اعظمی کا بچپن صنفی عصبیت کاشکار رہا اور اپنے بھائی کی نسبت انہیں نظراندازکئے جانے پر انہوں نے لڑکپن میں دومرتبہ خودکشی کی کوشش کی مگر شاید تقدیر کی لکھی کہانی کی تکمیل کی خاطر دونوں مرتبہ وہ حیرت انگیز طور پر بچ گئیں اور ایسا رویہ ان کی اپنی والدہ کی جانب سے روا رکھا گیا جنہوں نے بعد ازاں اپنے اس رویہ کی تصدیق اپنی جانب سے شائع کردہ سوانح عمری میں کیا شبانہ اعظمی کا بچپن بھی غربت، مفلسی اور کسم پرسی کی آخری حدود کوچھوتے گزرا، ان کی پیدائش (یعنی دنیاء میں آمد) کی بھی ان کے والدین کی پسندیدہ “کمیونسٹ پارٹی” نے شدید مخالفت کی، آج شہرت اوردولت ان کےگھرکی لونڈی ہےمگران کابچپن مایوسیوں، آزمائشوں محرومیوں کےایسےماحول میں بیتاہےکہ ان کی اپنی والدہ اورممتاز اداکارہ صداکارہ ادیب ادب پرست شوکت کیفی کی “سوانح حیات” پڑھ کرروح تک کانپ اٹھتی ہےاورجس ماحول میں شبانہ اعظمی کا بچپن گزرا اورخواب بننے کے دن انہوں نے جیسے گزارے اسے جہد مسلسل کی شاندار مثال کہاجا سکتا ہے آج کی سہل پسند نسل کے لیے وہ مثال ہے، کامیابیوں کی سیڑھیاں چڑھتے مشکل سفرکےساتھ تعلیم حاصل کی وہ بھی آج کی پیڑھی کےلئے سبق آموزہے درحقیقت محترمہ شوکت کیفی کی ”یادکی رہ گزر“ ایک ایسی داستاں ہےجس کا ہر کردار اپنی ذات میں انجمن ہے چہ جائکہ شوکت کیفی کی تحریر میں ایک غیر جانبدار مصنف سے زیادہ الفت مادری نمایاں ہے کیا بہتر ہوتا کہ وہ ممتا کا انس ایک طرف رکھ کر ایک ناقد کی حیثیت سے یہ تصنیف تحریر کرتیں تو شبانہ اعظمی کی شاندار سوانح تاریخ کامستند ورق بن جاتا اس کامطلب ہرگز یہ نہ لیاجائے کہ محترمہ شوکت کیفی نے شبانہ اعظمی کی بے مثال خدمات اور کارناموں کا جوذکر کیاہے وہ درست نہیں شبانہ جیسی قابل فخر بیٹی کے لئے جو لکھا وہ بہت کم ہے نہ ہی میں ایک ناقد کے کردار میں اس وقت ہوں مگر ہر بندہ بشر ہے اور بشری کمزوریاں ہی اسے نظام کائنات میں ممتاز بناتی ہیں مگر “یاد کی رہ گزر” میں شاید ایک ماں کو عمر کے آخری حصہ میں اپنی لائق فائق بیٹی سے اس کے بچپن میں برتے رویہ پر ندامت ہو اور وہ اس کے ازالہ میں یوں حد سے گزر گئیں پھر بیٹی نے بھی ماں اور باپ کا آخری سہارے کا وہ عظیم کردار نبھایا جو مشرقی بیٹیوں کی انفرادیت ہے اس لیے “یادوں کی رہ گزر” پر تبصرہ کرنے والا اس کا تعین کرنے میں عقل کھو سکتاہے کہ ان کرداروں میں زیادہ عظیم کون ہےاورکسے وہ مرکزی کردار سونپے، آہ کیا شاندار خاندان ہے جس کا سفر ڈیڑھ صدی سےجاری ہے اور شاید صدیوں تک یاد رکھا جائے گا ترقی پسندوں کاجوچہرہ ہمیں پاکستان میں دیکھنے کو ملا شوکت نے ہمیں اس کے بلکل برعکس وہ کردار کے غازی دکھائے جنھیں بے داڑھی کے فرشتے کہا جائے تو انصاف ممکن ہے بغیر تیمم کے انسانیت کی عظمتوں کو چھونے والے یہ لوگ ہی ترقی پسندوں کے سالار قافلہ بننے کے لائق تھے اور انہی کی وجہ سے یہ تحریک روس کے بعد برصغیر میں اس قدر مقبولیت حاصل کر پائی، شوکت کیفی اپنے خاندان کی سوانح (یادوں کی رہ گزر) میں لکھتی ہیں، جب شبانہ نو برس کی تھی اور بابا (بیٹا) چھ برس کا ایک بار ایسا ہوا میں دونوں بچوں کو ناشتہ دینے میں مصروف تھی دونوں کے اسکول جانے کا وقت ہو رہا تھا اچانک ڈبل روٹی ختم ہوگئی شبانہ کی پلیٹ میں ٹوسٹ تھا میں نے جلدی میں ٹوسٹ اٹھا لیا اور شبانہ سے کہا، بیٹے بابا کی بس آنے والی ہے میں نے نوکر کو ڈبل روٹی لانے کے لیے بھیج دیا ہے و ہ آتا ہوگا یہ ٹوسٹ بابا کو دے دو تم کوتو ابھی جانے میں ٹائم ہے میں نے مکھن لگا کر بابا کو ٹوسٹ دے دیا شبانہ منہ سے تو کچھ نہیں بولی لیکن میز پر سے اٹھ گئی اور باتھ روم میں جاکر ہچکیوں سے رونے لگی تب تک ڈبل روٹی آگئی تھی میں نے پکارا شبانہ شبانہ لو بیٹے آپ کا ٹوسٹ آگیا اسی اثنا میں مینے رونے کی آواز سنی میں بھاگی ہوئی باتھ روم میں گئی اور اسے منانے لگی مگر شبانہ نے جلدی جلدی اپنے آنسو پونچھے اپنی کتابوں کا بیگ اٹھایا اور اسکول جانے کے لیے گھر سے نکل گئی بعد میں اس کی سہیلیوں نے مجھے بتایا کہ لیبارٹری میں جاکر اس نے نیلا تھوتھا کھا لیا جو زہر ہوتاہے مگر خدا نے مجھ پر رحم کیاکہ وہ نیلا تھوتھا پرانا ہونے کی وجہ سے زیادہ زہریلا نہیں رہ گیا تھا شبانہ نے اپنی دوست “پرنا” کو صرف اتنا بتایا کہ ممی بابا کو زیا دہ چاہتی ہیں میں نے اپنا سر پیٹ لیا اسی طرح کا ایک اور واقعہ یاد آیا ایک بار شبانہ نے مجھ سے بدتمیزی سے بات کی میں نے ڈانٹ دیا بعد میں پتہ چلا کہ وہ گرانٹ روڈ اسٹیشن پر ٹرین کی پٹری پر چلنے لگی تھی ٹرین آنے کا وقت ہو گیا تھا اتفاق سے اسکول کا چپڑاسی شبانہ کے پیچھے کھڑا تھا اس نے اسے پکڑ کر گھسیٹ لیا اور چلا یا بے بی..بے بی تم کیا کرتا ہے اس طرح یہ دوبارہ بچ گئی جب مجھے معلوم ہوا تو میں سر سے پیر تک کانپ گئی اس کے بعد میں اسے ڈانٹتے ہوئے بھی ڈرنے لگی تھی نو دس برس کی چھوٹی سی عمر میں بھی شبانہ نے اپنی کسی ضرورت کسی خواہش کا اظہار مجھ سے نہیں کیا اس کے اسکول میں سفید کینوس شوز اس کے یو نیفارم کا حصہ تھے یہ کینوس کے جوتے ہر دو چار مہینے میں پھٹ جایا کرتے تھے ایک دفعہ میں نے جھلا کر کہ دیا اتنےبڑےکھبوڑے جیسے پیر ہیں کہ ہر تین مہینے میں جوتا پھٹ جاتا ہے مینے غصہ میں کہ دیا، میں ہر تیسرے مہینے نیا جوتا کہاں سے لائوں کچھ دنوں بعد میں نے دیکھا کہ اس کا جوتا کن انگلی کے پاس سے پھٹ گیا ہے مگر اس نے مجھے نہیں بتایا بلکہ اس میں گتے کا ایک گول ٹکڑا کاٹ کر چپکا دیا میں نے جب یہ دیکھا تو میرا کلیجہ کٹ کر رہ گیا اور میں نے کسی طرح جوڑ توڑ کر کے نیا جوتا اسے دلا دیا، ابتدا میں جب شبانہ کو اسکول میں داخل کروایا تو شبانہ اسکول نہ جانے کی ضد کرتی اور ایڑیاں رگڑ رگڑ کر زمین سے چپک جاتی آیا کے گھسیٹ کر لے جانے پر بھی نہیں جاتی تھی پھر دو لوگ گود میں اٹھا کر بس میں بٹھا دیتے جب امتحان کا نتیجہ سامنے آیا تو میں پریشان ہوگئی ہر سب جیکٹ میں گول گول انڈے جب میں نے یہ حال دیکھا تو سلطانہ آپا سے کہا میں تو اپنی بچی کو اس اسکول میں نہیں بھیجوں گی سلطانہ آپا نے تینوں بچوں کو اسکول سے نکلوا لیا کیفی نے کہا میں شبانہ کو کوئین میری ہائی اسکول میں داخل کرائوں گا میں نے سنا تو گھبرا گئی ارے باپ رے باپ اس کی تو فیس ہی 3 روپے ہے، شبانہ کی اداکارہ والدہ بیان کرتی ہیں میں اور کیفی کمیونسٹ پارٹی کے صدر دفتر میں رہتے تھے جہاں ہمارے ساتھ تحریک سے وابستہ بیسیوں لوگ بھی رہتے تھے اور ہم سب ایک خاندان کی طرح رہتے تھے اور پارٹی ہمارے تمام معاملات چاہے وہ ذاتی ہوں یا اجتماعی طے کرتی تھی اس لیے جب شبانہ کی آمد کی خوش خبری ملی تو میں خوشی سے نہاں ہوگئی کیونکہ میرا پہلا بچہ انتقال کر گیا تھا اس لیے میں تو اس خوش خبری پر بہت مسرور تھی لیکن پارٹی کو یہ بات پسند نہیں آئی آرڈر ہوا ابار شن کروایا جائے کیونکہ کیفی انڈر گرائونڈ ہیں میں بے روزگار تھی لہذا بچے کی ذمہ داری کون اٹھا پائے گا مجھے بے حد تکلیف پہنچی اس بات پرجب ایک میٹنگ ہوئی تو اسمیں میں نے کہا یہ بچہ مجھے چاہیے اور جیسے بھی ہو میں اسے پالوں گی مجھ سے بہت کچھ کہا گیا لیکن میں اپنی جگہ اڑ گئی تھی اس میٹنگ مین صرف ہمارے دوست مہدی نے میرا ساتھ دیا آخر پارٹی نے مجھے یہ بچہ پیدا کرنے کی اجازت دے دی یوں آج کی عظیم اداکارہ کاجنم ممکن ہوا ، آگے چل کرشبانہ کی والدہ لکھتی ہیں بچوں کی آیا ایلس ان کی دیکھ بھال بلکل ماں کی طرح کرتی تھی اس کا ایک دل چسپ واقعہ ہے شبانہ سات سال کی اور بابا چار سال کا تھا ہمارے گھر سے قریب پارسیوں کا ایک شادی خانہ تھا ایلس دونوں بچوں کو خوبصورت سے کپڑے (غریبی کے باوجود دونو ں بچوں کی سالگرہ کے کپڑے انتہائی اسمارٹ اور خوبصورت بناتی تھی )پہنا کر روز شام کو شادی خانے میں لے جاتی اور مفت میں کو کا کولا اور آئس کریم کھلا پلا کر واپس لے آتی تھی ایک دن چوکیدار کو شک ہوا اس نے ایلس کو روکا اے تم کدھر جاتا ہے ، ادھر آئو ، ہم روز دیکھتا ہے تم ہر دن ان بچوں کو لے کر ہر شادی میں آتا ہے کیا ہر شادی میں شادی کا لوگ کے ساتھ تمہارا رشتہ داری ہے بھاگو، ابھی ادھر آنے کا نہیں، نہیں تو ہم بڑے ساب سے تمہاری شکایت کرے گا، ایلس تھوڑی شرمندہ ہوئی پھر بچوں کی انگلیاں پکڑ ے ہوئے بڑ براتی نکل آئی، ارے بچہ لوگ تھوڑا کھا لے گا تو تمہارے باپ کا کیا جاتا سالا لوگ ایک دم ڈانٹے دیتا ہے خود کھاتا ہے وہ کچھ نہیں اس دن سے بےچارے بچوں کو جو مفت آئس کریم کھانے کو ملتی تھی ، وہ بند ہوگئی جب بہت دنوں بعد شبانہ نے یہ واقعہ مجھے بتایا تو مجھے ہنسی آگئی ہم 15ستمبر 1959کو جانکی کٹیر جو ہو منتقل ہوئے تھے تو اس کے تین دن بعد یعنی اٹھا رہ ستمبر کو شبانہ کی نویں سالگرہ منائی گئی تھی میرا بیٹا بابا چھ سال کا تھا جوہو آکے بچوں کا اسکول جانا ایک مسئلہ بن گیا شبانہ کا اسکول جوہو سے 14کلومیٹر دور تھا اب نو سال کی بچی جوہو سے بس میں سانتا کروز اسٹیشن وہاں سے لوکل ٹرین میں گرانٹ روڈ اسٹیشن اور اسٹیشن سے پندرہ منٹ پیدل چل کر اسکول کیسے پہنچتی اسکول تو جوہو کے آس پاس بھی تھے لیکن شبانہ اپنا اسکول چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھی شبانہ اور ایلس کے لیے میں نے لوکل ٹرین کے پاس بنو ادیے ایلس تین مہینے تک شبانہ کو اسکول لاتی لے جاتی رہی تین مہینوں میں ہی نو برس کی شبانہ اتنی سمجھ دار ہوگئی کہ وہ اکیلے ہی اسکول جانے لگی جوہو سے سانتا کروز اسٹیشن آنے جانے کے لیے اسے 30 پیسے ملتے تھے جب کبھی چیا سینگ دانہ (مونگ پھلی )کھانے کو اس کا جی چاہتا تو وہ جانگی کٹیر سے دو اسٹاپ پہلے جوہو چاپاٹی پر اتر جاتی اور پیدل چل کر گھر آتی اس طرح بس کے ٹکٹ کے جو پانچ پیسے بچتے ان سے چنا یا مونگ پھلی خرید تی لیکن مجھ سے کبھی وہ پانچ پیسے نہیں مانگے یہ بات بھی مجھے ایک زمانے بعد اس کی دوست “پرنا” نے بتائی جب میٹرک فرسٹ ڈیویژن میں پاس کر لیا تو اسے کالج جانے کے لیے تین مہینے کا وقت ملا پتہ نہیں اس نے یہ کیسے معلوم کر لیا کہ پٹرول پمپ پر اگر کافی بیچی جائے (جو اس وقت نیا پروڈکٹ تھا )تو ہر روز 15روپے ملتے ہیں اگر دو جگہ کام کرے تو 30 روپے اس نے چپکے سے یہ کام کر لیا اور مجھے بتایا تک نہیں میں اپنے ڈرامے اور ریہر سل میں اتنی مصروف رہتی تھی کہ میں نے پوچھا بھی نہیں مہینے کے اختتام پر اس نے مجھے نوسو روپے لا کر دیے میں نے حیرت سے پوچھا بیٹے پیسے کہاں سے ملے تب اس نے بتایا تین مہینوں کی چھٹیاں تھیں میں نے سوچا بیکار وقت گنوانے سے کیا فائدہ کچھ کام کیوں نہ کروں پھر ساری بات بتائی میری آنکھوں میں آنسو بھر آئے یہ ننھا سا دل گھر کی غریبی سے کتنا متاثر ہےاور کیا کیا سوچتا ہے شبانہ کے اسکول سے لوٹنے کا وقت شام چھ بجے تھا میں ٹھیک چھ بجے لان میں بیٹھ کر اس کا انتظار کرتی تھی اگر کسی دن اسے پانچ دس منٹ کی دیر ہوجاتی تو میری ٹانگیں کانپنے لگتی تھیں میں ہزاروں دعائیں اور منتیں مانگنے لگتی تھی کہ یاخدا میری بچی کو بخیر و عافیت گھر تک پہنچھا دے شکر ہے میری دعا ہمیشہ قبول ہوئی جب میری بہن قم کو جو اس وقت نائجیریا میں رہتی تھی اس بات کا پتہ چلا تو اس نے مجھے خط لکھا آپ بڑی ظالم ماں ہیں جو اتنی دور بھیج تی ہیں بچی کو، غربت سے تنگ آکر میں نے صبح نو بجے اوپیرا ہائوس تھیٹر جانا شروع کردیا اسٹیج پر ناٹیہ شاشتر پڑھا جاتا جسے ہندی کے اسکالر شری رام شاستری پڑھتے تھے وہ ایک اچھے ایکٹر بھی تھے کبھی آواز کی تیاری ہوتی مثلاً ہار مونیم پر پاپاجی سروں کی مدد سے آواز کو تیز کرتے نیچے کی آواز کے لیے وہ گاتے اللہ ہو اللہ ہو ، اوپر کے سروں کے لیے رام رام کا آلا پ کرتے ان دنوں میں چار مہینے کی شبانہ کو کمر پر لاد کر ساتھ لے جاتی تھی ریہر سل کے دوران اسٹیج کے ایک کونے میں چھوٹا سا گدا بچھا کر اسے لٹا دیتی جہاں وہ ہاتھ پائوں مارتی اور غوں غاں کرتی رہتی تھی رانی آزاد (جو تھیٹر میں کام کرتی تھی )اس سے چپکے چپکے کھیلتی رہتی میں شبانہ کے کپڑے میک اپ روم میں سکھانے کے لیے لٹکا دیتی لیکن پا پا جی کبھی اعترا ض نہیں کرتے تھے جس کی وجہ سے ،مجھے گھر کا سا ماحول محسوس ہوتا تھا کچھ ہی دنوں بعد خوش قسمتی سے مجھے ایلس جیسی ذمہ دار آیا مل گئی تو میں اکثر شبانہ کو گھر پر اس کے ساتھ ہی چھوڑ دیتی تھی ایک مرتبہ عجیب واقعہ ہوا شبانہ تین سال کی تھی ہم لوگ بنارس میں بدھ کا مندر دیکھنے گئے تھے شبانہ میرے ساتھ تھی اور بابا جو دو مہینے کا تھا، ایلس لیے تھی ہم جب سارے آثار قدیمہ دیکھ چکے تو بسوں میں بیٹھ کر چل پڑے ہم کوئی دس میل گئے ہوں گے تو پرتھوری راج نے پوچھا کہ شبانہ کہاں ہے میں نے ادھر ادھر دیکھا تو دکھائی نہیں دی میں بھاک کر ایلس کے پاس گئی جو آگے کی سیٹ پر بیٹھی تھی، پوچھا تو وہ بولی منی بے بی تو آپ کے ساتھ تھی میرے پیروں تلے تو جیسے زمین نکل گئی میں رونے لگی-
جاری ہے….
======================