نم دیدہ ہیں معصوم سی کشمیر کی آنکھیں.

خنساء سعید
==============

سرسبز مخملی گھاس کی وادیوں ،بلند و بالا برفیلے پہاڑوں ،باغوں ،بہاروں ،گنگناتی آبشاروں ،لمبے لمبے درختوں کی چھاؤں ،چہچہاتے پرندوں ،لہلہاتے سبزہ زاروں ،شبنم کے قطروں ،پھولوں ،کلیوں،ناگن کی طرح بل کھانے والے برفانی اور ٹھنڈے دریاؤں ،میٹھے چشموں ،نیلی جھیلوں اور اٹکھیلیاں کرنے والی ہواؤں کی سر زمین کو کشمیر کہتے ہیں ۔مشتاق احمد اپنی کتاب “جہادِ کشمیر” میں لکھتے ہیں.

“کشمیر دو الفاظ کاش اور میر سے مرکب ہے کاش کا مطلب ندی نالے اور میر سے مراد پہاڑ کا کوئی حصہ یا وادی لیکن عام فہم پہاڑ…..”

“تاریخ کشمیر زمانہ قبل از تاریخ تا قراداد اقوام متحدہ” میں عنصر صابری لکھتے ہیں.

“ریاست کا زیادہ حصہ پہاڑیاں ہیں.جو صنوبر اور شمشاد کے دراز قد درختوں سے ڈھکی ہوئی ہیں. وادیاں میوہ ہائے رنگا رنگ کے درختوں کو گود میں لیے ہوئے ہیں. جابجا زعفران کے کھیت ریاست کے حسن کو دوبالا کر رہے ہیں…”

1947 میں ہندوستان تقسیم ہوا جس کے نتیجے میں دو نئے ملک پاکستان اور بھارت وجود میں آئے ،اور کشمیر پاکستان کے حصے میں آیا ۔مگر دہشت گرد بھارت نے نا حق کشمیر پر قبضہ کر لیا اور وہاں سے ہی مسئلہ کشمیر کا آغاز ہوا جو آج تک حل نہ ہو سکا اور آج بھی بھارت کشمیر پر قابض بن کر بیٹھا ہے..
وہ کشمیر جسے قدرت کا ایک لاثانی شاہکار ،جنت نظیر اور مجسمہ حسن کہا جاتا تھا، آج وہاں آگ ہی آگ اور خون ہی خون نظر آتا ہے ۔ارض کشمیر کے فردوس نظر خطے میں جتنی رونقیں تھیں سب لہو رنگ ہوئیں ۔اس وادی میں جو دلوں کو لبھانے والی ہوئیں چلا کرتیں تھیں انسانوں کو جھلسانے لگیں ،خوشبوئیں بھاپ بنیں ،چناروں کی وادی جہنم کا نشاں بنی ،پھول سے بچوں کے جسم راکھ ہوئے ،جنت نظیر کشمیر آگ ہوا…

خلیل جبران نے کہا تھا کہ زندگی آزادی کے بغیر روح سے محروم وجود کی طرح ہوتی ہے ۔آزادی کی بہت بھاری قیمت چکانا پڑتی ہے ۔ایک عرصے سے تن و تنہا نہتے کشمیری اپنی آزادی حاصل کرنے کے لیے اکیلے جنگ لڑ رہے ہیں۔ اور اپنی آزادی کی قیمت چکا رہے ہیں.. کشمیر کے آتش بجاں پروانے ہر وقت شمع آزادی پر نثار ہونے کے لئے تیار ہیں ۔چناچہ پہلے دن سے ہی کشمیریوں نے زنداں کی دردیوار سے سمجھوتہ کرنے کی بجائے ہاتھوں میں پتھر تھامے سڑکوں پر آزادی کی خاطر لڑنے لگے. 1947 سے لے کر آج تک وہ کون سا ظلم ہے جو کشمیریوں پر نہ ڈھایا گیا ہو بھارتی دہشت گردوں نے ہر روز ظلم کی ایک نئی داستان رقم کی۔ جب مودی کی حکومت آئی تو مودی اور اُس کے وحشی ،درندے حواری مظلوم ،معصوم ،محکوم کشمیریوں پر چڑھ دوڑے اور بھیڑیوں کی طرح اُن کوچیر نے پھاڑ نے لگے ۔مقبوضہ کشمیر اب اس زمین کا وہ خطہ بن گیا ہے جہاں ہر روز ہر لمحے انسانوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کیا جاتا ہے بھارتی افواج کا ہر نئے دن درنگی کا ایک نیا روپ سامنے آتا ہے ۔بھارت سیکولرازم اور جمہوریت کا لباس پہنے وحشت اور بربریت کا کھیل کھیلتا جا رہا ہے اور باقی ساری دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔مودی نے اگست 2019میں کشمیر میں کرفیولگا کر یہ ثابت کر دیا کہ مودی ایک آدم خور ہے جو انسانوں کو کھا جاتا ہے. اور آج ڈھائی سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی کشمیر میں کرفیو بدستور لگا ہوا ہے ۔مودی نے کشمیر میں ذرائع ابلاغ پر پابندی لگائی ،مارکیٹیں بند ،سکول بند، ہسپتال بند ،یونیورسٹیاں بند ،انٹرنیٹ بند کر کے کشمیریوں کا رابطہ پوری دنیا سے منقطع کر دیا ۔ایک لمحے کو سوچیں کہ جب کورونا وائرس کی وبا میں جب ہمارے ہاں کرفیو لگا تو ہماری کیا حالت ہو گئی تھی ؟اور کشمیریوں کے شب و روز کرفیو میں کیسے گرزتے ہوں گے؟ مودی نے دفعہ 370 کو منسوخ کیا اور ساتھ ہی ریاست میں گرفتاریوں کے سلسلے شروع ہو گئے۔ بھارتی درندوں نے کشمیریوں پر ہر طرح کی بندشیں عائد کر کے سیاسی سرگرمیوں کا گلا گھونٹ دیاعوامی مزاحمت کو توڑنے کے لیے سخت گیر اقدامات کیے ۔تاریخ جب بھی لکھی جائے گی اُس میں کشمیری عوام کی ہمت اور جرات کو ضرور داد دی جائے گی کس طرح سے وہ پہلے دن سے لےکر اب تک نہتے پتھروں سے ڈنڈوں سے اپنی آزادی کی جنگ لڑتے رہے کشمیریوں نے کرفیو میں بھی ہار نہیں مانی وہ مظلوم و محکوم ضرور ہیں مگر ابھی ہارے نہیں ہیں کشمیری قوم دلیر اور باہمت قوم ہے ۔

ڈھائی سال کے لگے اس کرفیو کے دوران اب کشمیر کی کوئی ایسی وادی کوئی ایساکوہ دمن باقی نہیں بچا جہاں خون ِ معصوم کے دھارے نہ بہے ہوں اور آج کے بعد جو بھی گل و لالہ یہاں پھوٹیں گے وہ خون شہیداں کی سرخی کے ہی مرہون ِ منت ہو ں گے۔ کشمیر کے کتنے ہی درودیوار جل کر سیاہ ہو چکے ہیں کتنی تمناؤں نے دم توڑ دیا ،کتنی آرزوئیں خاک ہو گئیں ،کتنے ہی ایسے جسد ِ خاکی ہیں جو آج سینکڑوں من مٹی کے نیچے روزِ حساب تک کے لیے روپوش ہو چکے ہیں کہ اب جلاد کے بے رحم ہاتھ اُن کو کبھی ڈھونڈ نہیں پائیں گے ۔کتنے کشمیری ایسے ہیں جن کے پاس بندوقیں نہیں دشمن کی گو لیاں روکنےکے لیے سینے پیش کر دیتے ہیں ۔کشمیری شہید ہو رہے ہیں اور تہذیب و تمدن کے دعویدار ،فکر و نظر کے علمبردار ،سرمایہ دار خاموش ہیں ۔آج کہاں گئی ہے اقوام متحدہ اور کہاں گیا وہ شملہ معاہدہ ۔دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعویدار کو کشمیر کی جلتی ہوئی وادی میں بہتے خون کا شورکیوں سنائی نہیں دیتا ہےمسئلہ کشمیر کو سلجھانے میں بے حسی کی ساری حدیں پار کر دیں گئی ہیں ۔ماؤں کے سامنے بیٹے تڑپ تڑپ کر جان دے دیتے ہیں اور بھائیوں کے سامنے بہنوں کی ردائیں تار تار کی جاتی ہیں انسان سراپا احتجاج ہیں اور عزت و عصمت کے آبگینے چور چور ہو رہے ہیں ۔یہ سب مظالم دیکھ کر اقوام متحدہ کا ادارہ چراغ پا نہیں ہوتا ہے نہ ہی عالمی انسانیت کونسل کی رگ انسانیت پھڑکتی ہے اور نہ ہی عالمی عدالتیں کوئی انصاف کا فیصلہ سناتی ہیں کیوں !کیوں کہ یہ بہتا ہوا خون مسلمانوں کا ہے ۔یہ ہی ادارے افریقہ کے قحط زدگان پر لکھتے ہیں ،امریکہ کے معاشرتی مسائل ان کی بحث کا موضوع بنتے ہیں ،گوری اقلیت کے خلاف آواز اُٹھاتے ہیں ،کالوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں ،جنگلوں میں لگی آگ میں جانور جل جائیں تو ان کا دل تڑپ اُٹھتا ہے اور کشمیر کی وادی میں جلتے انسان ان کو بے چین نہیں کرتے کشمیر کا خطہ ان کی جیورس ڈکشن میں آتا ہی نہیں اگر آتا ہوتا تو کشمیر کو کشمیر کی آزادی مل جاتی ۔

اگر ہم پاکستانیوں نے کشمیریوں کی آزادی کے لیے خالی کھوکھلے نعرے لگانے کی بجائے عملی طور پر کچھ کر دکھایا ہوتا تو آج کشمیریوں پر طویل جبر کی رات کو سکھ چین کا سورج دیکھنا نصیب ہوتا.
مگر انسانیت کا مقدر تو اجالے ہیں، روشنیاں ہیں اور کشمیری انہی اجالوں اور روشنیوں کے نقیب ہیں آخر وہ ایک دن غلامی کی یہ زنجیریں خود اپنی جدوجہد اور قربانیوں سے ہی توڑ ڈالیں گے….اللہ تعالی ہمارے کشمیری بھائی بہنوں کی مدد فرمائے اور اُن کو آزادی کا روشن سویرا دیکھنا نصیب ہو آمین ۔
======================