نیکی کیا ہے ؟

عابد حسین قریشی
ڈسڑکٹ اینڈ سیشن جج لاہور (ر)
===============

چند روز قبل ممتاز مذہبی سکالر اور مفسّرِ قرآن ڈاکٹر اسرار احمد صاحب مرحوم کا دلوں کو چھو لینے والا بیان سوشل میڈیا پر سنا۔یہ صرف ایک منٹ کا ویڈیو کلپ تھا مگر اسرار و رموز کے کتنے ہی در وا کر گیا ۔اسے لفظ بلفظ دہرانے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں ۔۔
“؛ کسی کو دکھ میں دیکھو اور اس پوزیشن میں ہو کہ تم اسکا مداوا کر دو مگر نہ کرو۔ تو تم محدّث ہو سکتے ہو، تم مفسّر ہو سکتے ہو، عابد ہو سکتے ہو، زاہد ہو سکتے ہو مگر نیک نہیں ہو سکتے۔”؛۔ نیکی کیا ہے ، اسکی تلاش میں جب قرآن کریم پر نظر دوڑائی تو سورہ آل عمران کی آیت نمبر 92 اور چوتھے پارے کی پہلی آیت پر نظر پڑی جس میں فرمان خداوندی ہے کہ” تم نیکی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ اپنی وہ چیزیں خدا کی راہ میں خرچ نہ کرو جنہیں تم عزیز رکھتے ہو۔”

تو بات کچھ سمجھ آئی کہ نیک بننے اور نیک کہلوانے میں بڑا فرق ہے ۔آپ کتنے بڑے عبادت گزار اور متقّی ہیں مگر ضرورت کے وقت آپ اپنے کسی بھائی ، کسی غرض مند ،کسی بے کس و محتاج کی مدد نہیں کرتے تو آپ سب کچھ ہو سکتے ہیں مگر نیک نہیں اور اسی طرح بہترین نیکی یا نیکی کا کمال یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں وہ چیز خرچ کرو جو تمہیں سب سے زیادہ عزیز ہے اور مال سے بڑھ کر اور کیا خرچ کرنا مشکل ہوتا ہے کہ یہ مال ہی انسان کو بہت عزیز ہوتا ہے ۔۔

زندگی کی اِس رزم گاہ میں جہاں شکست وریخت ،تعمیر و تخریب اور گناہ و بقا کا ایک نہ ختم ہونے والا چکر چل رہا ہے ،اس میں انسانی عزت و اکرام،رضوان و فضیلت ،جود و احسان ،فضل و امتنان اور نعمت و راحت اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ وہ بخل و خجالت اور کفرانِ نعمت کی بجائے نیکی کا راستہ اختیار کرے۔۔

حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نیکی کی کیا خوب تین خصلتیں بیان کی ہیں۔کہ انسان نیکی کرنے میں جلدی کرے، اُسے حقیر سمجھے اور اُسے پوشیدہ رکھے۔کہ جب تم نے نیکی کرنے میں جلدی کی تو اُسے خوشگوار بنا دیا ، جب اُسے حقیر سمجھا تو اُسکی قدر کو بڑھا دیا اور جب اُسے پوشیدہ رکھا تو اُسے مکمل کر دیا۔

بلاشبہ نیکی کے اس تصور کو پانے کے لیے اپنی عزیز ترین متاع مال و دولت کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنا پڑتا ہے۔اسلیے مال خرچ کرنے میں انسانی طبیعت میں انقباض آتا ہے اور وہ نیکی تک پہنچنے کے لیے آسان راستے تلاش کرتا ہے اور بعض اوقات بڑی بڑی نیکیوں کی کوشش میں چھوٹی چھوٹی نیکیاں فراموش کر دیتا ہے۔چھوٹی نیکیاں کیا ہیں، سلام میں پہل کرنا، اپنے کسی بھائی سے مُسکرا کر ملنا، کسی غرض مند کی حاجت روائی کرنا،کسی پیاسے کو پانی کا گلاس اور بھوکے کو کھانا کھلانا، کسی رشتہ دار کی تیمار داری کرنا اور شادی کے موقع پر دیا جانے والا لفافہ تیمارداری کے موقع پر دینا کسی یتیم اور غریب کے سر پر شفقت کا ہاتھ پھیرنا اور انکی چھوٹی موٹی ضرورت پوری کر دینا،سردی کے موسم میں کسی غریب کو سویٹر، کپڑوں کا جوڑا ہی دے دینا،لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنا، کسی قریبی مسجد میں دو کرسیاں، کوئی دری، کوئی ایک دو پنکھے لگوا دیں۔ کسی غریب یا یتیم بچی کی شادی میں کچھ مالی امداد کر دیں ، کسی یتیم یا مستحق بچے کے سکول کی فیس ادا کردیں۔کسی قرض خواہ کو قرض کی ادائیگی میں کچھ سہولت دینا،ہمسایہ کے حقوق کا خیال رکھنا، راستہ میں سے کوئی رکاوٹ ہٹا دینا، صلہ رحمی کرنا، دوسروں کے بارے میں اچھا گمان رکھنا، کسی کی دل آزاری سے بچنا،انسانی وقار اور عزت کو ملحوظ خاطر رکھنا اور بے شمار دیگر کام دنیاوی صلہ اور داد و تحسین سے بے نیاز ہو کر کرتے جائیں۔

نیکی کرکے جتلانے اور دکھ پہنچانے سے بہتر ہے کہ ایسی نیکی سے پرہیز ہی کی جائے۔سورہ الفجر کی آیات نمبر 15تا18 میں فرمان الٰہی ہے کہ “انسان عجیب مخلوق ہے کہ جب اسکا پروردگار اسے آزماتا ہے اور اسے عزت اور نعمت بخشتا ہے تو کہتا ہے کہ آہا میرے پروردگار نے مجھے عزت بخشی اور جب دوسری طرف آزماتا ہے اور اس پر روزی تنگ کر دیتا ہے تو کہتا ہے ہاے میرے پروردگار نے مجھے ذلیل کر دیا ۔نہیں بلکہ تم لوگ یتیم کی عزت اور خاطر نہیں کرتے اور نہ مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتے ہو ۔””۔ قرآن کریم میں نفسِ مطمئنہ کا ذکر بھی آیا ہے ۔اگر نیکی کرکے آپ کا نفس مطمئن ہے تو آپ اپنے رب کی خوشنودی کے مستحق ہونگے۔اور نفس کو سکون تب ملتا ہے جب وہ یقین و معرفت اور شہود کی اعلیٰ منازل پر فائز ہو جائے اور یہ مقام ذکر الہیٰ کی کثرت اور یتیم اور مسکین کی دستگیری اور انسانی خدمت سے ملتا ہے۔۔

سوشل میڈیا پر نیکی کا پرچار کرنا، اچھی گفتگو کرنا اور اچھی اچھی پوسٹیں لگانا الگ بات ہے مگر اصل معاملہ تو عمل کا ہے۔ نیک بننے کے لیے صرف نیک دکھائی دینا کافی نہیں عملی طور پر نیکی کی راہ پر گامزن ہونا ضروری ہے ۔اب ماشاءاللہ لوگوں میں یہ بیداری آرہی ہے کہ غریب مسکین کو کھانا کھلانے میں کتنا عظیم اجر ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کو کس قدر پسند ہے مگر اس کار خیر کو وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔جوں جوں ملک میں مہنگائی بڑھے گی، روزگار کے مواقع مسدود ہونگے لوگوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل تر ہوتا جائے گا تو ایسے میں معاشرہ کے صاحبِ ثروت لوگوں پر اور زیادہ زمہ داری پڑے گی اور یہی وہ نیکی کے مواقع ہیں جنہیں ضائع نہ ہونے دیں۔کہ اللہ تعالیٰ نے جو وافر مال و دولت آپ کو دیا ہے اس پر معاشرہ کے غریب و مستحق لوگوں کا زیادہ حق ہے ورنہ مرنے کے بعد تو اس مال کے وارث کوئی اور ہونگے۔آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان عالی شان ہے کہ “” انسان میرا مال میرا مال کہتا ہے ،اے فرزند آدم تمہارا مال صرف وہی ہے جو تم نے کھایا اور فنا کر دیا ، پہنا اور بوسیدہ کر دیا، یا صدقہ کرکے اپنے لیے آگے بھیج دیا ۔اسکے سوا جو کچھ ہے تو اسے لوگوں تک چھوڑ کر چلا جاے گا ۔”” اگر اس حدیث کی روح کی سمجھ آ جائے تو زندگی کا دھارا بدل جائے ۔۔ اگر صرف اس بات کا ہی ادراک ہو جائے کہ قرآن کریم کی رو سے مرنے والا جب صدقہ کا اجر دیکھے گا تو خواہش کرے گا کہ کاش اسے دوبارہ دنیا میں بھیج دیا جائے تاکہ وہ صدقہ کر سکے۔وہ کسی دیگر عبادت کی تمنا نہیں کرے گا صرف صدقہ کرنے کی کرے گا۔۔ ہم نے زندگی میں ایسے لوگوں کو بھی دیکھا جو مال و دولت کے انبار ہونے کے باوجود نہایت عسرت اور تنگی ترشی کی زندگی گزارتے رہے۔ انہوں نے شاید مولا علی علیہ السلام کا وہ زریں قول نہیں پڑھا ،” کہ وہ انسان کتنا بدقسمت ہے، جو زندہ تو غریبوں کی طرح رہا مگر اگلے جہاں اسے حساب امیروں والا دینا پڑا ۔””
لہٰذا نیکی کا کوئی موقع ضائع نہ کریں۔یہ خواہ مال خرچ کرنے سے ملے، کسی پر شفقت کرکے ملے، کسی کو کھانا کھلا کر ملے، عبادت و ریاضت میں ملے یا انسانی خدمت میں ملے۔ اگر تمام عبادتوں کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کا حصول ہے تو پھر انسانی خدمت سے بڑھ کر کوئی عبادت اور نیکی نہیں۔
=========================