پاکستان میں آٹے کا بحران اور ہمارے حکمران


نوید نقوی
============

پاکستان زرعی ملک ہے اس خوشگمانی نے ہمیں بچپن سے ہی بے حد متاثر کر رکھا ہے .جس کا حقائق کی دنیا سے کوئی تعلق نہی ہے .اگر یہ ملک زرعی ہے تو ہم اناج اور دوسری اشیاء خوردنی میں خود کفیل کیوں نہی ہین گندم چینی دالیں خوردنی تیل درآمد کرنے کے باوجود ہم پھر بھی زرعی ملک ہیں۔ کیا یہ صرف خوش گمانی نہیں ؟ ہم اس وقت آبادی کے لحاظ سے دنیا میں پانچویں بڑے ملک ہیں اور ہماری آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے وسائل بڑھنے کی بجائے تیزی سے ختم ہو رہے ہیں یا کم ہو رہے ہیں اور ہمارے ارباب اختیار کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔
روس اور یوکرین کے درمیان کشیدگی کی وجہ سے جہاں عالمی طاقتوں کے درمیان ٹکراؤ کی سی کیفیت پیدا ہوئی ہے تو اس کے ساتھ پاکستان میں فوڈ سکیورٹی کے مستقبل کے حوالے سے شدید خدشات نے جنم لیا ہے۔
روس اور یوکرین دنیا میں گندم پیدا کرنے والے بڑے ممالک میں شامل ہیں۔ دنیا میں گندم کی مجموعی تجارت میں دونوں کا لگ بھگ دو تہائی حصہ ہے۔ روس دنیا میں گندم برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے تو یوکرین چوتھا بڑا ملک ہے۔پاکستان اپنی گندم کی ضروریات جہاں اس کی مقامی پیداوار سے کرتا ہے تو اس کے ساتھ اسے بیرون ملک سے گندم درآمد کرنا پڑتی ہے۔پاکستان نے گذشتہ مالی سال کے دوران جو گندم درآمد کی اس کا 80 فیصد سے زیادہ حصہ روس اور یوکرین سے آیا تھا۔ روس اور یوکرین کے درمیان کشیدگی کی وجہ سے عالمی مارکیٹ میں تیل کے ساتھ ساتھ گندم کی قیمتوں میں بھی اضافے کا رجحان دیکھنے میں آیا ہے۔ اور اس کا خمیازہ پاکستان جیسے ممالک کے عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔پاکستان میں مجموعی زیر کاشت رقبہ 12 کروڑ85 لاکھ 780ہزار 8 دو 8 ایکڑ ہے۔ جبکہ ملک میں گندم ملک کے قابل کاشت رقبے کے 37 فیصد حصے پر ہوتی ہے اور سب سے زیادہ کاشت کی جانے والی فصل گندم ہی ہے۔ لیکن مقامی گندم کو منظم طریقے سے ٹھکانے نہ لگانے اور افغانستان کی طرف سمگلنگ نہ روکنے سے پاکستان میں ایک بار پھر گندم اور آٹے کی قیمتوں میں اضافے کا شدید رجحان دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ملک بھر میں آٹے کی قیمتیں روز بروز بڑھ رہی ہیں اور اس سے لوگ متاثر ہو رہے ہیں۔ جو دیہاڑی دار طبقہ ہے وہ فاقوں تک پہنچ چکا ہے۔ ادارہ شماریات کے مطابق دسمبر کے آخری ہفتے میں آٹے کی قیمت میں تقریباً تین فیصد (2.81 فیصد) تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ رواں ہفتے میں آٹے کے 20 کلو تھیلے کی قیمت میں کم از کم 200 روپے تک کا اضافہ ہو چکا ہے۔
موسم سرما کے دوران کئی علاقوں میں صورتحال یہ ہے کہ اگر گھر کی گیس کا پریشر کم ہو تو پھر تندور کا رُخ کرنا پڑتا ہے جبکہ تندور سے ایک روٹی تک ملتی نہیں اور اگر مل بھی جائے تو 25 روپے سے کم کی نہیں مل رہی ہے۔ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود گذشتہ دو برسوں سے پاکستان اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے گندم کی درآمد پر انحصار کر رہا ہے۔گندم پاکستان میں خوراک کا اہم جُزو ہے اور ہر پاکستانی اوسطاً 124 کلو گرام گندم سالانہ کھا لیتا ہے۔پاکستان کی بے چاری عوام کے لیے مشکل یہ ہے کہ آٹے کی قیمتوں میں اضافے کے علاوہ بجلی، گیس اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ جس کی وجہ سے غریب کا جینا دوبھر ہو چکا ہے۔بجلی اور گیس کے بلوں نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے اب اوپر سے آٹے کے بحران نے رہی سہی کسر نکال دی ہے۔آٹے کی قیمت میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے میں 25 روپے کی بھی روٹی بہت مشکل سے مل رہی ہے۔ بے چارے عوام چاہے وہ غریب ہوں یا سفید پوش اپنے بچوں کا جیسے تیسے پیٹ تو پال لیں گے مگر ذہن میں یہ سوال تو ضرور پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس سارے بحران کا ذمہ دار کون ہے یا پھر اس بحران پر کیسے قابو پایا جا سکتا ہے؟ آخر یہ کس کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اشیاء خوردونوش کی سپلائی جاری رہے اور اس زرعی ملک میں کسی کو خوراک کے حوالے سے کوئی مسلئہ درپیش نہ ہو، کیونکہ اس وقت وفاقی اور صوبائی حکومتیں ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتے ہوئے خود کو بری الزمہ کر رہی ہیں۔ وفاقی حکومت نے اس حوالے سے معاملہ صوبوں پر الزام ڈال دیا ہے کہ یہ مسئلہ یا بحران ملز ایسوسی ایشنز اور صوبائی حکومتوں کا پیدا کردہ ہے۔ حکومت کے مطابق آٹے کے ذخیرے اور فلور ملز کو فراہمی سمیت اس کی قیمتیں مقرر کرنا بھی صوبائی حکومتوں کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔اس بحران کو سمجھنے سے قبل یہ ذہن میں رہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کی زیرِ صدارت رواں برس مئی میں ایک اجلاس ہوا، جس میں ملک میں گندم کی پیداوار، موجودہ ذخائر اور صوبائی و قومی سطح پر کھپت جیسے معاملات زیر غور آئے۔اس اجلاس میں رواں برس گندم کی مجموعی پیداوار کا ہدف دو کروڑ 29 لاکھ میٹرک ٹن لگایا گیا تھا جبکہ متوقع پیداوار دو کروڑ 26 لاکھ میٹرک ٹن تک ہو گی۔ گندم کی ملکی سطح پر مجموعی کھپت کا تخمینہ تین کروڑ میٹرک ٹن لگایا گیا۔وزیراعظم کی زیر صدارت اس اجلاس کو بتایا گیا کہ گندم کی حکومتی سطح پر خریداری کے حوالے سے پنجاب نے 91.66 فیصد، سندھ نے 49.68 فیصد، بلوچستان نے 15.29 فیصد جبکہ پاسکو نے 100 فیصد ہدف حاصل کر لیا ہے۔
مقامی ضرورت کے مقابلے میں گندم کی کم پیداوار کی وجہ سے وفاقی کابینہ نے ملک میں 30 لاکھ ٹن گندم کی درآمد کی منظوری دی۔
یہ بھی واضح رہے کہ گذشتہ برس ملک میں دو کروڑ 28 لاکھ میٹرک ٹن گندم کی پیداوار ہوئی تھی تاہم یہ پیداوار بھی ملکی ضرورت سے کم تھی اس لیے پاکستان نے 20 لاکھ ٹن گندم بیرون ملک سے منگوائی تھی۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان میں وفاق سمیت صوبوں میں مختلف جماعتوں کی حکومتیں ہیں اور ان کے درمیان مسلسل کھینچا تانی بھی رہتی ہے۔ وفاق میں مسلم لیگ ن کی قیادت میں پی ڈی ایم کی حکومت جبکہ سندھ میں پیپلز پارٹی ہے، خیبرپختونخوا، پنجاب اور بلوچستان میں تحریک انصاف کی حکومت ہے تو یہ کھچڑی بنی ہوئی ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم کیوں دیں، ہم کیوں کریں۔ پاکستان میں اوپن مارکیٹ میں آٹے کے بحران کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ اس وقت دس ہزار ٹن یومیہ قلت ہے یعنی ایک لاکھ بوری روزانہ کم ہے۔یہی وجہ ہے کہ جس کے پاس گندم ہے وہ من مانی قیمت مانگ رہا ہے حالانکہ وفاق کو چاہیئے کہ اس وقت ہر صورت میں مارکیٹ میں گندم کا اجراء کرایا جائے تاکہ مارکیٹ معمول کے مطابق آ جائے۔ بین الصوبائی پابندی لگانے سے الٹا نقصان ہو رہا ہے اور اتنا سادہ سی بات ہمارے حکمرانوں کو سمجھ نہیں آ رہی اور اس کا خمیازہ بے چارے عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ باوثوق ذرائع کے مطابق وفاقی حکومت کے پاس سٹاک موجود ہے پر وہ اجراء نہیں کر رہی حالانکہ جس طرح عوام کو مشکل درپیش ہے آٹا فی کلو 50 روپے کم ہونا چاہیئے تھا، لیکن یہ بے حس حکمران غریب کی بد دعا سے ذرا بھی خوفزدہ نہیں ہیں ۔ واضح رہے کہ محکمہ شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان نے رواں برس کے پہلے نو ماہ میں 80 کروڑ ڈالر کی گندم درآمد کی۔ وفاق ہو یا صوبائی محکمہ خوراک دونوں مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور فلورز مل والوں کو نہ صرف ذخیرہ اندوزی کرنے سے نہیں روک رہے بلکہ قیمتوں میں بھی کمی نہیں کروا پا رہے،رواں برس مئی میں وزیر اعظم کی زیر صدارت اجلاس میں یہ بھی طے پایا تھا کہ گندم کی پیداوار کے ہدف اور پیداوار میں فرق کی وجوہات میں گندم کی کاشت میں کمی، پانی کی قلت اور گذشتہ حکومت کی کھاد کی فراہمی میں بد انتظامی کی وجہ سے بحران پیدا ہوا۔مزید یہ کہ مارچ میں گندم کی امدادی قیمت کے دیر سے اعلان کی وجہ سے کسانوں کی گندم کی کاشت میں دو فیصد کمی کا رجحان بھی دیکھنے میں آیا۔ تیل کی قیمتوں میں اضافے اور ماحولیاتی تبدیلی یعنی وقت سے پہلے گرمی کی شدت میں اضافہ بھی گندم کے طے شدہ ہدف کے حصول میں بڑی رکاوٹ رہے۔
گندم کے شعبے سے وابستہ افراد اور ماہرین کے مطابق اگر گندم کی بلند قیمت اور روپے کی کم قیمت برقرار رہی تو درآمدی گندم پاکستانیوں کے لیے آٹے کی قیمت کو مزید بڑھا دے گی، جو ملک میں پہلے سے موجود مہنگائی کی بلند سطح کو اوپر کی جانب دھکیل دے گی.ایک اندازے کے مطابق2025 میں پاکستان میں72 ملین ٹن خوراک کی کمی ہو گی جو کہ انتہائی خطرناک حالت ہے۔ اگر پاکستان نے ان خطر ناک حالات سے بچنا ہے تو زراعت پر توجہ دینی چاہیے اور پانی کی کمی کو پورا کرنا چاہیے۔ پاکستان نے حال ہی میں گندم سعودی عرب اور روس سے امپورٹ کی ہے۔ پاکستان کبھی گندم اور دوسری اشیاء دوسرے ممالک کو فراہم کرتا تھا لیکن آج یہ خود باہر سے منگوا رہا ہے۔ ایک زرعی ملک ہونے کے ناطے یہ پاکستان کے لیے انتہائی شرمناک عمل ہے۔ ہمارے حکمران تو جیسے ہیں وہ تو تبدیل ہونے والے نہیں ہیں اب ہم عوام کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنی زمینوں کا ایک ایک انچ کاشت کریں، گھر میں عورتیں چھوٹی کیاریاں بنا کر سبزیاں وغیرہ کاشت کر سکتی ہیں، ہم پانی کو ضائع ہونے سے بچائیں، زیادہ سے زیادہ درخت لگائیں تاکہ بارشیں زیادہ ہوں اور ہماری زمینیں زرخیز رہیں، کاروں ، موٹروں کا کم سے کم استعمال کریں، بجلی کی ہر ممکن طریقے سے بچت کریں، جانور پالیں تاکہ ہماری معیشت پر دباؤ کم ہو، انشاء اللہ ہمارے ملک کے حالات بہتری کی طرف جائیں گے اور 2023 پاکستان کے لیے خوشیاں لائے گا۔ پی ڈی ایم اور تحریک انصاف کے مستقبل کے حوالے سے مارچ میں واضح ہو جائے گا۔
=======