92 نیوز میڈیا گروپ کے سی ای او میاں رشید کے کاروباری معاملات کے گرد گھیرا تنگ ، کینسر کا سبب بننے والا مضر صحت GMO سویابین غیر قانونی طور پر درآمد کرنے کا معاملہ گرم۔ کسٹم انٹیلی جنس کی نو جہازوں کے خلاف کاروائی ، ون ٹائم اجازت دلانے کے لیے امریکی سفیر کی سفارش ، وفاقی کابینہ نے سات وزیروں کی کمیٹی پر فیصلہ چھوڑا ، وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ ڈٹ گئے ، قانون توڑنے والوں کوئی رعایت نہیں ، غیر قانونی کام کرنے کی اجازت دینے سے صاف انکار ۔


تفصیلات کے مطابق 92 نیوز میڈیا گروپ کے سی ای او میاں رشید جو سویابین منگوانے والی کمپنیوں کے سو سی ایشن کے چیئرمین بھی ہیں ان کے گرد انٹیلی جنس رپورٹس کے بعد گھیرا تنگ ہوتا جا رہا ہے الزام ہے کہ کینسر کا سبب بننے والا مضرصحت GMO سویا بین پچھلے کچھ عرصے سے غیر قانونی طور پر پاکستان منگوایا جا رہا تھا قانون اس کی اجازت نہیں دیتا قانون کے مطابق نان جی ایم او سویابین منگوایا جا سکتا ہے کسٹم انٹیلی جنس کی کاروائی پر ایک شپمنٹ پکڑی گئی جس کے بعد مزید پانچ جہازوں کو اسی قسم کا مال کراچی بندرگاہ پر لاتے ہوئے پایا گیا میڈیا رپورٹس کے مطابق مجموعی طور پر نو جہازوں کو روکا گیا کافی شعری صنف ااور معاملہ وفاقی کابینہ تک آیا امریکی سفیر نے ایک مرتبہ کارگو شپ کا مال کلیئر کرنے کی سفارش کی ۔ وفاقی کابینہ نے سات زیرو پر مبنی ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دی اور اس معاملے کی جانچ اور فیصلہ کمیٹی کی سفارشات پر چھوڑا ۔اس دوران ملک بھر میں سویا بین منگوانے اور کوکنگ آئل اور پولٹری فیڈ بنانے والوں نے شور مچایا۔ حادثہ ظاہر کیا جانے لگا کہ اگر کارگو شپ کلیئر نہ کیے گئے تو ملک میں پولٹری فیڈ کا بحران پیدا ہو جائے گا جس کے نتیجے میں مرغی کا گوشت اور انڈے کی قیمت بڑھ جائے گی مہنگائی کی نئی لہر آئے گی اور حکومت کے لیے مسائل پیدا ہوں گے ۔
وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ اس پورے معاملے میں ڈٹ گئے انہوں نے قانون توڑنے والوں کے ساتھ رعایت نہ برتنے کا اعلان کیا اور وزیراعظم سمیت پارٹی رہنماؤں کو بتا دیا کہ غلط کام وہ نہیں کریں گے اور نہ کسی کو کرنے دیں گے ، جس نے جتنا شور مچانا ہے مچالے کسی دباؤ کو خاطر میں لائے بغیر فیصلے ہوں گے ۔
وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ نے اپنی حالیہ پریس کانفرنس میں میاں رشید میاں ارشد کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 92 ٹی وی چینل کے مالک ہیں اور ایسوسی ایشن کے چیئرمین ہیں انتہائی شریف آدمی ہیں وہ تشریف لائے تھے مجھ سے میٹنگ کی ۔ ہاتھ سے لکھا کہ ہم دونوں جہاز واپس لے کر جائیں گے اور تیسرے جہاز کے مال کی ری ٹیسٹنگ کی اجازت دی جائے اگر مال صحیح نہ ہوا تو اسے بھی واپس لے کر جائیں گے ۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ یہ جی ایم او کا معاملہ ہے اور قانون موجود ہے اس پر پابندی ہے کسی بھی طرح اجازت نہیں دے سکتے کس قانون کے تحت کا اجازت دیں یہ معاملہ کابینہ میں گیا اور میں نے اسٹینڈ لیا وہاں طارق صاحب اور لا منسٹر نے بھی میری حمایت کی ۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ ہم تارے توڑ کر زمین پر نہیں لا سکتے لیکن ہمارے سامنے غلط کام ہو رہا ہو تو ہم اس کی اجازت نہیں دیں گے انہوں نے شکایت کی کہ اس دوران عجیب و غریب اشتہارات چلائے گئے میں نے تو انہیں صاف کہہ دیا تھا کہ جس جس سے ایڈوانس لیا ہے واپس کردیں میں غلط کام نہیں کروں گا نہ ہونے دوں گا اور اللہ کا شکر ہے کہ کابینہ کے اجلاس میں ہر چیز صاف شفاف طریقے سے سامنے آگئی اور میں سرخرو ہوا ۔ یاد رہے کہ وفاقی کابینہ نے وزیراعظم کی ہدایت پر وزیر طارق بشیر چیمہ کی سربراہی میں جو کمیٹی تشکیل دی تھی اس میں وفاقی وزیر ماحولیاتی تبدیلی ، وفاقی وزیر کامرس ، وفاقی وزیر انڈسٹریز پروڈکشن ، وفاقی وزیر قانون ، وفاقی وزیر ریلوے اور وفاقی وزیر انسانی حقوق شامل تھے ۔


دوسری طرف سیاسی حلقوں میں یہ کہا جارہا ہے کہ 92 نیوز میڈیا گروپ کے خلاف موجودہ حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں کو کافی شکایات رہی ہیں عمران خان کے دور حکومت میں یہ میڈیا گروپ اور اس کے مالکان عمران خان اور ان کے قریبی ساتھیوں سے کافی


قربت انجوائے کرتے رہے اور پی ٹی آئی کی حکومت کی پالیسیوں کی کھلی حمایت اور فوائد سمیٹنے کے حوالے سے اس گروپ کا نام پیش پیش رہا لہذا اب موجودہ دور حکومت میں اس گروپ کے خلاف گھیرا تنگ ہورہا ہے لہذا یہ صرف کاروباری معاملہ نہیں ہوسکتا

بلکہ سیاسی انتقامی کارروائی بھی ہوسکتی ہے ۔
ادھر صحافی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ،92 ٹی وی چینلز اور اخبارات کی وجہ سے بڑی تعداد میں صحافیوں کو روزگار کے مواقع ملے اور میڈیا میں اس گروپ کے مالکان نے کافی جدت اور سہولتیں متعارف کروائیںجن کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اگر اس گروپ کے خلاف گھیرا تنگ ہوتا ہے اور اسے مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو یہ صحافت اور صحافی برادری کے لیے بھی مشکلات کا سبب بنے گا ۔
جب کہ قانونی حلقوں کا کہنا ہے کہ قانون توڑنے والوں کے خلاف کاروائی عمل میں لانی چاہیے اور قانونی راستہ اختیار کیا جانا چاہئے کسی کو سیاسی انتقام کا نشانہ نہیں بنانا چاہیے بلکہ انصاف کرنا چاہیے اگر کسی نے مضر صحت اور ممنوعہ کوکنگ آئل سویابین اور دیگر اشیاء باہر سے منگوائی اور یہاں پر وہ اس میں ملوث پایا گیا ہے تو اس کے لیے قانون موجود ہے اور قانون کے تحت کاروائی عمل میں لانی چاہیے عدالتوں میں مقدمات پیش ہونے چاہیے ۔اور اگر کسی پر الزام ہے تو اسے اپنے دفاع اور صفائی کا موقع بھی ملنا چاہیے ۔
==============================

وزیر اعظم محمد شہباز شریف کی زیر صدارت کسان پیکیج پر جائزہ اجلاس
وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ زرعی شعبے کی ترقی پاکستان میں فوڈ سیکوریٹی کی ضامن ہے۔ کسان پیکیج پر عمل درآمد کو تیز کیا جائے ۔ زرعی شعبے کی ترقی کے لیے حکومت کے دیے گئے تاریخی کسان پیکیج پر جائزہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ہمیں ہر حال میں پاکستان میں غذائی تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔انہوں نے ہدایت کی کہ ملک میں غذائی تحفظ کے لیے گندم، کپاس، کنولہ اور زیتون کی کاشت اور پیداوار پر خصوصی توجہ دی جائے ۔ کسانوں کو دالوں سمیت دیگر غذائی اجناس کی پیداوار بڑھانے کے لیے بہتر بیجوں کی فراہمی یقینی بنائی جائے ۔
اجلاس کو بتایا گیا کہ کسان پیکیج پر عمل درآمد کے لیے نوجوانوں کے لیے قرضہ سکیم، چھوٹے کسانوں کے لیے سود پر چھوٹ اور سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں چھوٹے کسانوں کو بلا سود زرعی قرضے فراہم کرنے کے سلسلے میں اسٹیٹ بینک نوٹیفیکیشن کے ذریعے بینکوں کو ہدایات جاری کر چکا ہے۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ رواں مالی سال میں نومبر تک 664 ارب کے زرعی قرضے کسانوں میں تقسیم کیے جاچکے ہیں جو گزشتہ مالی سال کے اس عرصے کےمقابلے میں 36 فیصد زیادہ ہیں۔
===================

ابینہ ڈویژن کے نام سے جاری خط بے بنیاد اور جعلی قرار, جعلی خط کا مقصد عوام الناس میں بے چینی پھیلانا ہے: وزیراطلاعات
جعلی خبروں کے حوالے سےوزارت اطلاعات و نشریات کے ٹوئٹر ہینڈل نے ملک کی معاشی صورتحال سے متعلق کابینہ ڈویژن کے نام سے جاری کردہ خط کو بے بنیاد اور جعلی قرار دیا ہے۔ اس فیک لیٹر میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کمی، پیٹرول کی قیمتوں سمیت حکومت کی جانب سے عوام کو دی جانے والی دیگر سہولتیں واپس لینےکا ذکر ہے جو کہ من گھڑت اور بے بنیاد ہے۔وزارت اطلاعات نے کہا کہ اس جعلی خط کا مقصد عوام الناس میں بے چینی پھیلانا ہے۔
====================================
کراچی (اسٹاف رپورٹر) اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے بڑا فیصلہ کرتے ہوئے ضروری اشیاء کی درآمد کیلئے زرمبادلہ کی پیشگی اجازت کی شرط 2؍ جنوری 2023ء سے ختم کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ منگل کو اسٹیٹ بینک کے ایڈیشنل ڈائریکٹر اطہر غفور کی جانب سے تمام مجاز ڈیلرز کے نام سرکلر جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اسٹیٹ بینک نے 20؍ مئی 2022ء اور 5؍ جولائی کو 2؍ الگ الگ سرکلر جاری کئے تھے ۔ ان سرکلر کے تحت کسٹمز ٹیرف کے چیپٹر 84،85 میں آنے والی تمام مصنوعات اور چیپٹر 87کی کچھ مصنوعات کی درآمدت کے لئے زرمبادلہ کی فراہمی اسٹیٹ بینک کے فارن ایکسچینج ڈیپارٹمنٹ کی اجازت سے مشروط کی گئی ۔ اسٹیٹ بینک کی اس شرط کے بعد صورتحال گھمبیر سے گھمبیر ہوتی جارہی ہے، ملک میں خام مال نہ آنے سے صنعتیں بند ہو نا شروع ہو گئیں ، خام مال کی قلت سے مارکیٹ سے دوائیں غائب ہیں ، ضروری میڈیکل ڈیوائسز نہ آنے سے میڈیکل کے شعبے میں بحران ہے ، ایکسپورٹ کی صنعت کا خام مال اور ضروری پرزے نہ آنے سے ایکسپورٹ بھی متاثر ہو رہی تھی، کاروباری طبقہ شدید پریشان تھا، کنسائمنٹ کی کلیئرنس میں مسلسل تاخیر سے ان پر لگنے والے ڈیٹنشن چارجز اور جرمانے کی لاگت درآمدی مال کی لاگت سے بھی بڑھ گئی ہے۔ کاروباری برادری کے مسلسل دباؤ پر حکومت نے ایک بڑا فیصلہ کرتے ہوئے یہ پابندی ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ 27؍ دسمبر 2022ء کو مجاز ڈیلزر کے نام جاری سرکلر میں کہا گیا ہے کہ ضروری اشیاء کی درآمد جن میں خوراک، کھانے کا تیل ، فارما سوٹیکل کا خام مال، دوائیں اور سرجیکل انسٹرمنٹ شامل ہیں ، اس کے ساتھ آئل اینڈ گیس، ایکسپورٹ انڈسٹری کے خام مال، اسپیئر پارٹس، کھاد، کیڑے مار ادویات اور دیگر زرعی اشیاءکے ساتھ وہ تمام درآمدات جس کیلئے درآمد کنندہ ایک سال کی ڈیفرڈ پیمنٹ کا سرٹیفکیٹ دے گا یا پھر وہ پروجیکٹ جو کہ 75؍ فیصد تکمیل ہو چکے ہیں اور ان کی بقیہ تکمیل کیلئے ضروری سامان کی درآمدکے لئے بھی زر مبادلہ کی پیشگی اجازت کی شرط 2جنوری 2023ء سے ختم کر دی گئی ہے۔ ایف پی سی سی آئی نے اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے موجودہ حالات میں اسے ایک بڑا فیصلہ قرار دیا۔ نائب صدر شبیر منشا اورسابق نائب صدر خرم اعجاز کا کہنا ہے کہ ملکی معیشت اور صنعت کیلئے یہ بولڈ اقدام ہے کیونکہ ایک جانب اسٹیٹ بینک کی یہ امپورٹ پالیسی شپنگ کمپنیوں اور ٹرمینل آپریٹرز کے لئے منافع بخش بن گئی تو دوسری جانب اس سے پہلی مرتبہ اسٹیٹ بینک میںاسپیڈ منی کا نظام متعارف ہو گیا تھا ، کاروباری برادری کا کہنا ہے کہ شپنگ کمپنیاں اور ٹرمینل آپریٹرز پاکستان کی معاشی صورتحال سے بھر پورو فائدہ اٹھا رہی تھیں۔ڈالر کی بچت کے نام پر شپنگ کمپنیوں کو ڈالر میں جرمانے اور چارجز کی ادائیگی سے بھاری زرمبادلہ باہر جا رہا ہے۔ اسٹیٹ بینک کا یہ فیصلہ ملک کو بحران اور افواہوں سے بچائے گا ۔

========================

وفاقی وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے اعلان کیا ہے کہ پاکستان کا ڈیفالٹ ہونے کا کوئی چانس نہیں ہے، ثابت کر سکتا ہوں کہ پاکستان ڈیفالٹ نہیں کرے گا، یہ ماضی کا پاکستان نہیں، کیوں ڈیفالٹ کر جائے گا؟

پاکستان اسٹاک ایکسچینچ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ مشکل حالات ضرور ہیں لیکن پاکستان ڈیفالٹ نہیں کرے گا، زرِمبادلہ کے ذخائر کم ہیں مگر ڈیفالٹ کا خطرہ بالکل نہیں، یہ ملک رہے گا، ہم سب کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

اسحاق ڈار نے کہا کہ لوگوں کو خوف میں مبتلا کر دیا گیا ہے جس کے بعد کوئی ڈالر تو کوئی سونا خرید رہا ہے، پاکستان بھنور میں آ چکا ہے، جس سے نکالنا ہے، سنگین مسائل ہیں لیکن ہمیں ان کا حل نکالنا ہے، پاکستان کے ڈیفالٹ کا رونا رونے والے کس کے لیے کام کر رہے ہیں؟

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو 2013ء میں ادارے ایک ڈالر بھی نہیں دے رہے تھے، معاشی حالات انتہائی ابتر تھے، ملک ڈیفالٹ کے دہانے پر تھا، کہا جا رہا تھا کہ الیکشن کے بعد 6 ماہ میں ملک ڈیفالٹ کر جائے گا، مگر ہم نے 3 سال میں معیشت کھڑی کر دی تھی۔

وفاقی وزیرِ خزانہ نے کہا کہ سستی سیاست کے لیے ملک کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے، پاکستان کے خلاف غلیظ پروپیگنڈا روکنا ہے، سیاسی مقاصد کے لیے ایسی باتیں کرنا درست نہیں، ڈالر کی ہمسایہ ملک کو اسمگلنگ ایک بڑا مسئلہ ہے، ڈالر، گندم، کھاد کی اسمگلنگ روکنی ہے، جس کی ہدایت کر دی ہے، سرحدی علاقوں میں ڈالر کی اسمگلنگ کو روکنا ہو گا۔

ان کا کہنا ہے کہ ہم پیرس کلب نہیں جائیں گے، بانڈ ادائیگی کی افواہیں چلیں لیکن وہ ادا کر دیا گیا، معیشت ٹھیک کرنے کی ذمے داری لی ہے، کسی کو انتقام کا نشانہ نہیں بنانا، پاکستان کی معیشت ٹھیک کریں گے۔

وفاقی وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے تاجروں اور صنعت کاروں سے کہا کہ اپنی تجاویز چیئرمین ایس ای سی پی کے پاس جمع کرائیں، آپ آئیڈیاز شیئر کرتے رہیں، ہم ان پر غور کریں گے، پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاروں کے لیے ایف بی آر کی پالیسی کو بھی نرم کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ پاکستان اسٹاک ایکسچینج سے ملکی معیشت کو بہتر سمت میں لے جایا جا سکتا ہے، دنیا کی پانچویں اسٹاک مارکیٹ اس وقت انتہائی مشکل میں ہے، خواہش ہے کہ اسٹاک مارکیٹ کا گولڈن دور واپس آئے۔

اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی دورِ حکومت میں ایس ای سی پر توجہ نہیں دی گئی، سب سے پہلے اسٹاک ایکسچینج اور ایس ای سی پی پر فوکس کیا، شفاف طریقے سے کام کا آغاز کیا، 2 ویک اینڈز لگا کر تمام عمل مکمل کیا، ایس ای سی پی اور سبسڈی لاء میں ترامیم کیں، ایس ای سی پی میں 3 ڈائریکٹرز نہیں تھے، شفافیت سے یہ مرحلہ طے کیا۔

ان کا کہنا ہے کہ ملکی معیشت میں بہتری کے لیے کوشاں ہیں، ہمیں کارپوریٹ سیکٹر پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، ملکی معیشت کی بہتری میں اسٹاک مارکیٹ کا کلیدی کردار ہے، ہمارے گزشتہ دور میں پاکستان اسٹاک ایکسچینج جنوبی ایشیاء کی بڑی مارکیٹ تھی، یقین ہے کہ پاکستان کا روشن مستقبل ہے۔

وزیرٍ خزانہ نے کہا کہ کاروباری طبقہ ملکی ترقی کے لیے حکومت کے ساتھ کھڑا ہے، گورنر اسٹیٹ بینک سے گزشتہ ہفتے ملاقات کی، درآمدی ادائیگیوں کے لیے اسٹیٹ بینک کی پیشگی شرط ختم کر دی ہے، پاکستان کا مستقبل شاندار ہے، ہماری بدقسمتی ہے کہ پاکستان کو وہاں لا کر کھڑا کیا ہے جو اس کا مقام نہیں۔

اسحاق ڈار آئی ایم ایف ملاقات ناکامی کا شکار کیوں ہوئی؟ اسدعمر

انہوں نے مزید کہا کہ ڈکٹیٹر آئی ایم ایف کا پروگرام پورا نہیں کر سکے، ن لیگ کی حکومت نے پروگرام پورا کیا تھا، شرحِ سود کا تعین اسٹیٹ بینک کرتا ہے، ترکیے میں بھی مہنگائی بلند ہے لیکن ان کی شرحِ سود 9 فیصد ہے، معیشت پر جو تجربے ہوئے ان کا میں جواب دہ نہیں ہوں، میں پاکستان کے ایشوز ہینڈل کر رہا ہوں۔

وفاقی وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے یہ بھی کہا کہ پوری دنیا کو مشکل معاشی حالات کا سامنا ہے، ملک کو سنگین مسائل سے نکالنے کے لیے ہمیں مل کر کام کرنا ہو گا، حکومت اصلاحات کرتی ہے، کاروباری طبقہ بہتری کے لیے اقدامات کرتا ہے، ہماری اپنی کمزوریوں اور پالیسیوں کی وجہ سے ملک نیچے جاتا ہے، پاکستان کے خلاف منفی پروپیگنڈا روکنا ہو گا، ہم ایک ایک ارب ڈالر کے لیے بھاگ رہے ہیں، معیشت پر سیاست نہ کی جائے، سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں تعمیرِ نو کے لیےچھ سات سال میں 16 ارب ڈالرز کی ضرورت ہو گی۔
======================