کیا خواجہ سعد رفیق پنجاب کی وزارت اعلی مانگ رہے ہیں ؟ پارٹی قیادت سے اتنے نالاں کیوں ہیں ؟ والد کی برسی پر کہا کہ ساٹھ سال سے زیادہ کا ہو گیا ہوں آخر سچ کب بولنا ہے ؟ کیا قبر میں جاکر سچ بولنا ہے ؟ سیاستدان وقت اور موقع ضائع کر دیتے ہیں بعد میں رسوا ہوتے ہیں ۔ خواجہ سعد رفیق کی تلخ باتیں سن کر سردار ایاز صادق خوف زدہ ہو گئے کہ کہیں کراچی والا واقعہ نہ دہرا دیا جائے

کیا خواجہ سعد رفیق پنجاب کی وزارت اعلی مانگ رہے ہیں ؟ پارٹی قیادت سے اتنے نالاں کیوں ہیں ؟ والد کی برسی پر کہا کہ ساٹھ سال سے زیادہ کا ہو گیا ہوں آخر سچ کب بولنا ہے ؟ کیا قبر میں جاکر سچ بولنا ہے ؟ سیاستدان وقت اور موقع ضائع کر دیتے ہیں بعد میں رسوا ہوتے ہیں ۔ خواجہ سعد رفیق کی تلخ باتیں سن کر سردار ایاز صادق خوف زدہ ہو گئے کہ کہیں کراچی والا واقعہ نہ دہرا دیا جائے ، انہوں نے اعتراف کیا کہ میرے سینے میں بہت سی باتیں دفن ہیں بڑے بڑے راز ہیں اگر بتا دیا تو اپنا بھی نقصان کروں گا اور ملک کا بھی ۔


سردار ایاز صادق خواجہ سعد رفیق کی باتوں کے باوجود سچ بولنے سے گریزاں ۔
خواجہ سعد رفیق نے اپنے والد کی برسی کے موقع پر سوال اٹھایا کہ جنہوں نے پروجیکٹ عمران خان لانچ کیا ان کے خلاف کیوں کاروائی نہیں ہونی چاہیے ؟ وہ کون ہوتے ہیں نیا پاکستان بنانے والے یہ تو ہم سیاستدانوں کا کام تھا اور ہے کہ پاکستان کیسے آگے بڑھے گا ۔
سیاسی حلقوں میں یہ بحث ہو رہی ہے کہ کیا خواجہ سعد رفیق اس لیے وزیر نہیں بننا چاہتے تھے اور اقتدار سے عدم دلچسپی کا اظہار کر رہے تھے کہ انہیں باپ بیٹے کی حکومت سے اتفاق نہیں تھا اور اب ایک مرتبہ پھر وہ پنجاب کی سیاست میں پارٹی رہنماؤں کو نظرانداز کیے جانے پر مایوسی کا شکار ہیں بعض مسلم لیگی سمجھتے ہیں کہ وزارت اعلی کا جھگڑا ہے جسے شریف خاندان نے مسلسل اپنے پاس رکھا ہوا ہے یہ عجیب بات ہے کہ ہے وزیراعلی کی باری ہو یا اپوزیشن لیڈر کی ۔ہر مرتبہ نام شریف خاندان سے آتا ہے باہر کے کسی رہنما کو نہیں بنایا جاتا ، گرفتاریاں دینی ہو قربانیاں دینی ہوں مار کھانی ہو تو دیگر لوگ مارے کھاتے ہیں اور جب اہم عہدوں کی باری آئی تو شریف خاندان کے اپنے لوگ سامنے آ جاتے ہیں ۔
ادھر مونس الہی نے بھی طنز کیا ہے کہ یہ ککڑی کو لائیں گے ۔


کہا جارہا ہے کہ حمزہ شہباز 5 جنوری کے بعد پنجاب کی سیاست میں پھر متحرک ہو جائیں گے ان کے بھائی سلمان شہباز بھی پاکستان آ چکے ہیں ۔
مفتاح اسماعیل کی حکومتی پالیسیوں پر مسلسل تنقید سے یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ مسلم لیگ میں دو کیمپ واضح طور پر آمنے سامنے آ چکے ہیں ایک طرف نواز شریف اور دوسری طرف شہباز شریف کیمپ ہے

اور دو مرتبہ وزیر خزانہ کا سٹیٹس انجوائے کرنے والے مفتح اسماعیل شہباز شریف کے کیمپ کی نمائندگی کرتے ہیں

جب کہ اسحاق ڈار نواز شریف کی شکل میں سامنے موجود ہیں ۔
==============================================