گلوبل نیبرہڈ فارمیڈیا انوویشن کے زیراہتما اس سیمینار کا اہتمام کیا گیا۔ جس میں صحافیوں کے خلاف جرائم کی روک تھام کے خاتمے کےعالمی دن کے موقع پر شرکا نے اظہار خیال کیا۔

کراچی ۔ ( رپورٹر) گلوبل نیبرہڈ فارمیڈیا انوویشن کے زیراہتما اس سیمینار کا اہتمام کیا گیا۔ جس میں صحافیوں کے خلاف جرائم کی روک تھام کے خاتمے کےعالمی دن کے موقع پر شرکا نے اظہار خیال کیا۔ صحافیوں پر آن لائن اور جسمانی ٹارگٹڈ حملوں، ماورائے عدالت قتل، پھانسیوں اور دیگرجرائم پر پینل نے سیر حاصل گفتگو کی۔ تجربہ کار اور سینئر صحافیوں نے اس ضمن میں کئی چبھتے ہوئے سوال بھی اٹھائے۔ اس موقع پر جی این ایم آئی کی بانی اور صدرناجیہ اشعر نے مباحثے کا آغاز کرتے ہوئے مرحوم صحافی ارشد شریف کو زبردست انداز میں خراج عقیدت پیش کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ارشد شریف کے قتل نے پاکستانی صحافتی برادری کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ان کے مطابق معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ ہر قتل ہونے والا صحافی صرف ایک نمبر تک محدود ہو کر رہ جاتا ہے اورپھر یہ بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔ کریمنل جسٹس سسٹم جس نے انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے وہ بے بس نظر ۤآتا ہےجس کی وجہ سے صحافت خطرے میں ہے۔ جب صحافت کی بنیادوں پر حملہ آور ہوا جاتا ہے تو ا س کی زد میں صحافی بھی ۤآتے ہیں اور یہی وہ مقام ہے جس سے دشمن فائدہ اٹھاتا ہے۔ سیمینار میں سینئر صحافیوں اور میڈیا سے وابستہ ماہرین نے شرکت کی ۔ ان میں سینٹر فور ایکسیلینس ان جرنالزم آئی بی اے کی ڈائریکٹرعنبررحیم شمسی، صدر بول نیوز نیٹ ورک فیصل عزیز خان ، دنیا نیوز کے سینئر اینکر مسعود رضا، سینئر صحافی اور تجزیہ کار جیو نیوز مظہر عباس شامل تھے جبکہ ناجیہ اشعر نے سیمینار کی میزبانی کی۔ سینئر تجزیہ کار اور صحافی مظہر عباس کا کہنا تھا کہ صحافیوں کو ناصرف حفاظتی اقدامات کا خیال کرنا چاہیے بلکہ یہ ان کی تنظیموں کی بھی ذمے داری ہے۔ انہوں نے دکھ بھرے لہجے میں کہا کہ فرض کی راہ میں جان سے جانے والا صحافی پھر صحافی نہیں رہتا۔ بیشتر صحافی اگر کسی خبر کے تعاقب میں جاں بحق ہوتے ہیں تو اس کے ساتھ خبر بھی مر جاتی ہے لیکن ان کی موت کیوں رائیگاں جاتی ہے ؟ انہوں نے صحافیوں پر زور دیا کہ وہ دباؤ کا شکار ہو کر ملک سے باہر نہ جائیں۔ تمام تر حالات کا مقابلہ کریں،میدان جنگ سے راہ فرار اختیار نہ کریں۔ فیصل عزیز خان کا کہنا تھا کہ صحافت میں تربیت بنیادی اور لازمی جز ہے ۔ خاص طور پر اُس وقت جب آپ خطرات سے بھرے علاقوں میں ہوں تو اپنی حفاظت اور تحفظ کو یقینی بنائیں۔ صدر بول نیوز نیٹ ورک فیصل عزیز خان کہتے ہیں کہ صحافی حامد میر پر حملے میں ان کی جان محض اس لیے محفوظ رہی کیونکہ انہوں نے نامساعد حالات کی تربیت حاصل کی ہوئی تھی۔ ان کے مطابق افسوس ناک امر تو یہ ہے کہ صحافیوں کے مسائل اور ان کے حل کے لیے کوئی مناسب فورم دستیاب نہیں۔ سینٹر فور ایکسیلینس ان جرنالزم آئی بی اے کی ڈائریکٹرعنبررحیم شمسی کا کہنا تھا کہ وسائل کی برابری کی بنیاد پر تقسیم کا فقدان صحافیوں کی اپنی حفاظت سے سمجھوتہ کرنے کا باعث بنتا ہے۔ لاہور میں لانگ مارچ کی کوریج کرنے والی مقتول صحافی صدف نعیم کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انہیں مناسب حفاظتی اقدامات میسر نہیں تھےجس کی وجہ سے وہ زندگی کی بازی ہار گئیں۔ اینکر پرسن سید مسعود رضا کے مطابق بدقسمتی سے حکومت کو تحفظ فراہم نہ کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے لیکن اس سلسلے میں صحافیوں سے جڑی تنظیموں کو بھی جواب دہ ہونا چاہیے۔ ایک صحافی کو اس بات کا اعتماد ہونا چاہیے کہ اس کے کسی بھی مسئلے کے حل کے لیے اس کی صحافتی تنظیم اس کے ساتھ کھڑی ہوگی۔
اپنے قیام کے بعد سے جی ایم ایم آئی میڈیا لٹرسی، میڈیا ایڈوکسی ، میڈیا اور سول سوسائٹی کے تعاون سے پاکستان میں میڈیا کی ترقی کے لیے کام کررہا ہے۔ صحافیوں کی حفاظت اور انہیں بااختیار بنانے کے لیے ان کی رہنمائی اور جدوجہد جس کا اہم جُز اور مقصد ہے۔
======================