افکار پریشاں۔


عابد حسین قریشی
ڈسڑکٹ اینڈ سیشن جج لاہور (ر)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ حضرت انسان مصیبت سے گھبراتا ہے اور مصیبت میں گھبراتا ہے ۔ہر وقت خوش رہنا چاہتا ہے مگر خوش رہنا آتا
نہیں کہ خوشی کو اپنی ذات تک محدود کر لیتا ہے ۔دوسروں کی خوشی اسے کم کم ہی راس آ تی ہے۔اس نے ان خوشی کے لمحات کو کرکرا کرنے کے لیے حسد، بغض، کینہ ، رنجش اور کمینگی کے وافر جراثیم اپنے اندر پال رکھے ہوتے ہیں جنکی پرورش بڑی محنت سے کرتاہے ۔جب بھی یہ جزبے ماند پڑنے لگتے ہیں نفرت کی بھٹی میں دل کا غبار جھونک کر اسکے شعلے بڑھکا دیتا ہے ۔ خاکی ہے مگر خاک سے رکھتا نہیں پیوند ۔اونچا اڑھنا چاہتا ہے مگر اپنی ہی افتاد طبع کے ہاتھوں جلد ہی گر جاتا ہے۔شاہین اور کرگس کے اس مقابلہ میں بسا اوقات شاہین کے پر سازش سے کترنے کے لیے بغل میں چھری ضرور رکھتا ہے خواہ منہ سے رام رام نہ بھی کرے۔اپنی عقل و فہم کو سب سے بر تر سمجھنے میں ذرا بھی کوتاہی نہیں کرتا خواہ عقل و فہم سے ناطہ توڑے مدت گزر گئی ہو۔بظاہر سادہ نظر آ نے والے بھی اتنا سادے نہیں ہو تے کہ انسان اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے جملہ چالاکیوں سے بحوبی آ گاہ ہوتے ہیں۔خود نیک نہ بھی ہو نیک کہلوانا اور ۔نیک نظر آ نا زیادہ پسند کرتا ہے۔نیک بننے کے لیے محنت کرنا پڑتی ہے اور خاک کا یہ پتلا محنت سے ذرا گھبراتا ہے۔جھوٹ بولنے اور گھڑنے کے لیے کئی تاویلیں ڈھونڈ تا ہے مگر سچ بولنے، سچ سننے اور سچ برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتا۔عورت کا آ نکھ سے نہیں دل سے احترام کرتا ہے۔ انسان صرف دھوکہ دیتا ہی نہیں ہے بلکہ دھوکہ کھا بھی جاتا ہے، صرف اعتماد کی دھونی دینی ہوتی ہے۔سمجھدار ہونے کے لیے واقعی سمجھ دار ہونا ضروری نہیں بس لوگوں کا ایسا سمجھنا کافی ہے۔زمین پر بیٹھ کر ہوائی بلکہ خلائی منصوبے بنانے میں کوئی ہرج نہیں،صرف عمل سے بچنا ضروری ہے۔ویسے عمل کی کٹھن آزمائش سے گزرنے سے بہتر ہے کہ زیادہ تر باتوں اور خالی دعووں سے کام چلایا جاے۔عمل کرنے کے لیے دوسرے لوگ تھوڑے ہیں۔اجکل سوشل میڈیا کی بدولت یہ کام بڑا آسان ہو گیا ہے کہ بنی بنائی نیکی اور بھلائی کی ترغیب والی پوسٹیں بآسانی دستیاب ہیں اور پڑھنے والا کچھ دیر اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ بھیجنے والا ہی اس کا تحلیق کار ہے ،اس طرح
بھی اچھی خاصی علمی دہشت دوست احباب پر پڑ جاتی ہے ۔اور یہ تحریر بھی اسی سلسلہ کی ہی کڑی ہے ۔
===========================