ہزاروں خواتین کے اُن کی اجازت کے بغیر مانع حمل آپریشن کیے گئے


ہزار وں خواتین کے ان کی اجازت کے بغیر مانع حمل آپریشن کرنے سے متعلق بی بی سی کی ایک حالیہ رپورٹ میں چونکا دینے والے انکشافات سامنے آئے ہیں اور دنیا بھر میں خواتین کے حقوق اور ان کی صحت کے ساتھ ساتھ بہبود آبادی کے ماہرین بھی چونک اٹھے ہیں ۔

نئے سوالات نے جنم لیا ہے اور اس حوالے سے نئی بحث شروع ہو گئی ہے آئیے دیکھتے ہیں بی بی سی کی رپورٹ میں کن حوالوں سے کیا باتیں کی گئی ہیں اور اس کے بعد دنیا کے مختلف حصوں میں پاپولیشن کنٹرول اور بہبود آبادی کے حوالے سے مزید کیا کچھ ہو رہا ہے یہ بھی آپ کو پتہ چلے گا ۔
================================

اینڈریئن مرے
بی بی سی نیوز

——-

’مجھے یاد ہے کہ سفید کوٹ پہنے وہ ایک ڈاکٹر یا نرس تھی۔ مجھے ٹانگوں کے درمیان میٹل (دھات)جیسی کوئی چیز محسوس ہوئی۔ وہ بہت خوفناک لمحہ تھا۔ میری جیسی بچی کے لیے وہ آلات بہت بڑے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے میرے جسم کے اندر چھریاں چلائی جا رہی ہوں۔‘

یہ الفاظ نایا لائیبرتھ کے ہیں جو مانع حمل کے اس سکینڈل کی ایک متاثرہ ہیں جس کی زد میں 60 اور 70 کی دہائیوں میں ہزاروں خواتین اور نوجوان لڑکیاں آئیں۔

ڈنمارک کے ڈاکٹروں کے ہاتھوں 1960 اور 1970 کے دوران گرین لینڈ کی ہزاروں خواتین کے اُن کی مرضی اور اجازت کے بغیر مانع حمل کے آپریشن کیے جا رہے تھے۔ اس عمل میں ’انٹرا یوٹرین ڈیوائس‘ یعنی آئی یو ڈی کا طریقہ اختیار کیا گیا۔

آئی یو ڈی مانع حمل کا ایک آلہ ہوتا ہے جسے کوائل بھی کہتے ہیں۔ اسے کوکھ یا بچہ دانی میں فٹ کر دیا جاتا ہے۔

ڈنمارک اور گرین لینڈ دونوں ہی ممالک نے اب اس معاملے میں تحقیقات کا اعلان کیا ہے جس میں دو برس لگ سکتے ہیں۔

’میں تب کنواری تھی‘
نایا کی نوجوانی کی تصویر
،تصویر کا ذریعہNAJA LYBERTH
،تصویر کا کیپشن
نایا گرین لینڈ کے چھوٹے سے شہر مینتزوک میں رہتی تھیں

سنہ 1970 میں ایک ڈاکٹر نے نایا سے کہا کہ وہ سکول کی جانب سے کروائے جانے والے معمول کے طبی معائنے کے لیے ہسپتال جائیں اور ’کوائل‘ رکھوا لیں۔ نایا کے بقول اس وقت وہ محض 13 برس کی تھیں اور اس بارے میں کچھ نہیں جانتی تھیں۔

نایا اس وقت گرین لینڈ کے چھوٹے سے شہر مینتزوک میں رہتی تھیں جب ان کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا۔ انھوں نے بتایا ’مجھے کوئی اندازہ نہیں تھا کہ کوائل کیا ہوتی ہے کیونکہ ڈاکٹر نے مجھے اس بارے میں کچھ بتایا اور نہ ہی میری اجازت لی۔‘

انھوں نے کہا ’میں اتنی خوفزدہ تھی کہ میں نے اپنے والدین کو بھی اس بارے میں کچھ نہیں بتایا۔ میں کنواری تھی۔ میں نے کبھی کسی لڑکے کو کِس (بوسہ) بھی نہیں کیا تھا۔‘

نایا کی عمر اب ساٹھ برس سے زیادہ ہے اور اس سکینڈل کے حوالے سے آواز اٹھانے والی وہ پہلی خاتون ہیں۔

نایا نے بتایا کہ ان کے والدین سے اس بارے میں اجازت نہیں لی گئی تھی۔ ان کے علاوہ کلاس کی دیگر لڑکیوں کو بھی ہسپتال بھیجا گیا تھا لیکن ہر کوئی اس قدر صدمے میں تھا کہ کسی نے کسی سے اپنے اس تجربے کے بارے میں بات ہی نہیں کی۔

نایا نے اب فیس بک پر ایک گروپ کا پیج بنایا ہے تاکہ وہاں اس سکیندل سے متاثرہ خواتین ایک دوسرے سے رابطے میں آئیں اور اپنے اپنے تجربات شیئر کریں۔ اب تک ستر سے زائد خواتین یہ گروپ جوائن کر چکی ہیں۔

ہزاروں خواتین متاثر
گرین لینڈ ڈینمارک کے اندر ایک خود مختار ریاست ہے
،تصویر کا ذریعہREUTERS
،تصویر کا کیپشن
گرین لینڈ ڈنمارک کے اندر ایک خود مختار ریاست ہے

مواد پر جائیں
پوڈکاسٹ
ڈرامہ کوئین
ڈرامہ کوئین
’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں
مواد پر جائیں
ایک تازہ پوڈ کاسٹ میں سامنے آیا کہ 1960 سے 1970 کی دہائیوں کے درمیان تقریباً 4500 خواتین اور نوجوان لڑکیاں مانع حمل کے اس سکینڈل سے متاثر ہوئیں اور یہ سب کچھ ستر کی دہائی کے وسط تک جاری رہا۔

یہ واضح نہیں ہے کہ ان میں سے کتنے کیسز میں مانع حمل سے قبل ان خواتین کی اجازت لی گئی یا انھیں تفصیل سے بتایا گیا کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا تھا۔

متاثرین میں بارہ برس تک کی عمر کی لڑکیاں بھی شامل تھیں۔ ان میں سے متعدد کا کہنا ہے کہ انھیں تفصیل نہیں بتائی گئی تھی۔ چند خواتین جو کبھی ماں نہیں بن سکیں ان کا خیال ہے کہ ایسا کوائل کی وجہ سے ہوا۔

نایا نے بتایا ’مجھ سے بہت سی خواتین رابطہ کرتی ہیں۔ ان کی باتوں سے پتا لگتا ہے کہ جن لڑکیوں کی عمر اس وقت کم تھی انھیں اس کا زیادہ نقصان اٹھانا پڑا۔ یہ بہت افسوس کی بات ہے۔‘

ارنانگواک اس وقت 16 برس کی تھیں جب اُن کی بچہ دانی میں کوائل فٹ کر دیا گیا تھا۔ ان کی سرجری ڈنمارک میں ہوئی۔ وہ سنہ 1974 میں ایک ایسے بورڈنگ سکول میں پڑھتی تھیں جہاں زیادہ تر گرین لینڈ سے تعلق رکھنے والی لڑکیاں پڑھتی تھیں۔

انھوں نے کہا ’مجھے اس عمل سے پہلے کچھ بتایا گیا نہ ہی مجھے خود یہ پتا تھا کہ کوائل کیا ہوتی ہے۔‘

وہ سال میں ایک بار اپنے والدین سے ملنے گھر جایا کرتی تھیں۔ ارنانگواک بتاتی ہیں کہ وہ اس دوران کس قدر تکلیف میں تھیں۔ ایک برس بعد جب وہ گھر لوٹیں تب ان کی کوائل نکلوائی گئی۔ اس وقت وہ 17 برس کی تھیں۔

انھوں نے کہا ’اب مجھے لگتا ہے کہ مجھے اس وقت اپنے لیے فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں دیا گیا، اور یہ ناقابل قبول ہے۔ اگر یہ سب کچھ گرین لینڈ کے بجائے ڈنمارک کی خواتین کے ساتھ ہو رہا ہوتا تب بھی کیا لوگوں کا ردعمل ایسا ہی ہوتا؟‘

ارنانگواک پولسن
،تصویر کا کیپشن
ارنانگواک پولسن کے بقول انھیں کوائل فٹ کیے جانے کے نتیجے میں شدید درد اور کرب سے گزرنا پڑا تھا

اس دور میں گرین لینڈ اور ڈنمارک دونوں ہی جگہ مانع حمل کے بارے میں بہت کم معلومات تھیں۔ لیکن اس دور میں اس سلسلے میں جو کچھ ہوا اس بارے میں رپورٹس کے منظر عام پر آنے کے بعد لوگ حیران ہیں۔

گرین لینڈ کی حکومت نے ہیلتھ پالیسیوں کا اختیار کوپن ہیگن سے سنہ 1992 میں اپنے ہاتھوں میں لے لیا تھا۔

اب دونوں حکومتوں کی جانب سے تشکیل دی گئی کمیٹی یہ جانچ کرے گی کہ 1960 سے 1991 کے درمیان ڈنمارک کے سکولوں میں گرین لینڈ کے بچوں کی تعلیم کے لیے جو ادارے تھے وہاں ان کے ساتھ کیا ہوا۔ اس کے علاوہ گرین لینڈ میں بھی اس دور کے مانع حمل کے کیسز کی جانچ کی جائے گی۔

گذشتہ جمعہ کو ایک بیان میں ڈنمارک کے وزیر صحت میگنس ہیونسکی نے کہا کہ جانچ میں یہ پتا لگایا جائے گا کہ کن فیصلوں کی بنیاد پر یہ طریقہ کار استعمال میں لائے گئے اور کس طرح مانع حمل کے معاملوں کو انجام دیا گیا۔

انھوں نے متعدد متاثرہ خواتین سے ملاقات کی اور اُن کے تجربات سُنے۔ انھوں نے کہا کہ ’وہ جس جسمانی اور ذہنی درد اور اذیت سے گزریں اسے آج بھی محسوس کیا جا سکتا ہے۔‘

مانع حمل کی وجہ
سنہ 1953 میں گرین لینڈ کو ڈنمارک کی خود مختار ریاست کا درجہ حاصل ہو گیا تھا۔ اس سے قبل گرین لینڈ ڈنمارک کا نوآبادیاتی علاقہ تھا۔

اس وقت ان علاقوں میں صحت اور طرز زندگی میں سدھار یا بہتری کے لیے بہت کچھ کیا جا رہا تھا۔ نتیجے میں لوگوں کے لمبی عمر تک زندہ رہنے اور نو زائیدہ بچوں کے زندہ بچنے کی شرح میں اضافہ ہونے لگا۔

کوپن ہیگن یونیورسٹی سے وابستہ تاریخ دان سورین روڈ کے مطابق ان کامیابیوں نے کچھ چیلینجز کو بھی جنم دیا۔

گرین لینڈ کی آبادی تیزی سے بڑھنے لگی اور 1970 تک تقریباً دگنی ہو گئی۔

روڈ کا خیال ہے کہ کوائل کے استعمال کو معاشی بوجھ کم کرنے کے لیے فروغ دیا گیا تھا۔ ساتھ ہی یہ نوآبادیاتی سوچ کا بھی اثر تھا۔

انھوں نے کہا کہ ’آبادی میں اضافے کو روکنے کے کچھ واضح فوائد ہیں۔ اس سے لوگوں کو گھر یا عوام کو فلاحی خدمات دینے کا بوجھ کم ہو جاتا ہے۔‘

اس کے علاوہ گرین لینڈ میں ’سنگل مدرز‘ یعنی اکیلی ماؤں کی تعداد بھی بڑھ رہی تھی جس کے نتیجے میں فیملی پلاننگ کی ضرورت اور بھی زیادہ محسوس کی جانے لگی۔

یہ بھی پڑھیے
ہر پاکستانی جوڑے کے ایک ’غیرارادی‘ بچے کی پیدائش: ’مانع حمل طریقہ اپنانا اسقاط حمل سے بہتر ہے‘

پاکستان میں مانع حمل ادویات کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کی حقیقت کیا ہے؟

کیا مانع حمل گولیوں کا استعمال خواتین میں کسی بیماری کا باعث بھی بن سکتا ہے؟

کونڈوم یا نس بندی، مانع حمل کا کون سا طریقہ کامیاب ہے؟

روڈ نے بتایا کہ اس وقت ڈاکٹروں نے کوائل کی کامیابی کے بارے میں بھی خوب لکھا۔ چند ہی برسوں میں پیدائش کی شرح آدھی ہو گئی۔

خواتین جو کبھی ماں نہیں بن سکیں
ڈاکتر کے ہاتھ میں آئی یو ڈی کوائل
،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
،تصویر کا کیپشن
جدید زمانے کے آئی یو ڈی سائز میں چھوٹی اور انگریزی کے حرف T جیسی لگتی ہے۔ ماضی میں وہ حرف S جیسی ہوتی تھی اور سائز میں بھی بہت بڑی

کٹرین جیکبسن اس وقت 12 برس کی تھیں جب ان کی بچہ دانی میں کوائل فٹ کر دی گئی۔ انھیں ایک رشتہ دار کی گرل فرینڈ ڈاکٹر کے پاس لے گئی تھی۔

تقریباً دو دہائی تک وہ اس کوائل کے ساتھ زندگی بسر کرتی رہیں۔ انھیں اس درمیان شدید درد اور مشکلات سے گزرنا پڑا۔ تیس برس کی عمر کے بعد ان کی بچہ دانی کو طبی مسائل کے سبب نکالنا پڑا۔

کٹرین نے بتایا ’مجھے یاد ہے کہ کوائل فٹ کیے جانے کے بعد میں اتنے شدید درد میں تھی کہ میں جا کر برف کے اوپر بیٹھ گئی۔‘

انھوں نے کہا ’اس سب نے میری زندگی کو بُری طرح متاثر کیا۔ میرے کبھی بچے نہیں ہو سکے۔ میں نے اس بارے میں کبھی کسی کو نہیں بتایا کیوں کہ مجھے لگتا تھا میں اکیلی ہی ایسی ہوں جس کے ساتھ یہ سب ہوا تھا۔‘

جدید زمانے کے آئی یو ڈی سائز میں چھوٹی اور انگریزی کے حرف T (ٹی) جیسی لگتی ہے۔ ماضی میں وہ حرف S (ایس) جیسی ہوتی تھی اور سائز میں بھی بہت بڑی۔

نوک کے کوین انگرڈ ہسپتال میں گائناکالوجسٹ ڈاکٹر آویاجا زیگسٹاڈ کے مطابق ’اگر کوئی عورت ماضی میں کبھی ماں نہیں بنی ہے تو اس کی بچہ دانی میں اس آلے کے سبب زیادہ بلیڈنگ (خون بہہ جانا)، زیادہ درد اور انفیکشن کا بھی زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔‘

سنہ 1990 اور 2000 کی دہائیوں میں ان کے پاس متعدد ایسی خواتین آئیں جنھیں ماں بننے میں مشکل ہو رہی تھی اور وہ یہ جانتی ہی نہیں تھیں کہ ان کی بچہ دانی میں کوائل فٹ تھی۔ اور ایسے معاملے اکثر سامنے آتے تھے۔

انھوں نے بتایا ’کچھ معاملوں میں ہم نے پایا کہ آئی یو ڈی ان خواتین میں فٹ کر دی گئی تھی جنھوں نے اسقاط حمل کروایا تھا، لیکن انھیں یہ نہیں بتایا گیا کہ ان کے اندر کوائل فٹ کی جا رہی ہے۔‘

گرین لینڈ کی انسانی حقوق کی کونسل کے مطابق اس سب کے ذریعے خاندانوں کی ذاتی زندگی اور اس سے منسلک ذاتی فیصلوں کے ان کے حق کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔

کونسل کے صدر نے کہا ’ہمیں اس بات کی تفتیش کرنی چاہیے کہ کیا یہ نسل کشی کا معاملہ تھا۔‘

گرین لینڈ کی وزیر صحت میمی کارلسن کا کہنا ہے کہ ’معاملے کی اصل وجہ تک پہنچنے کے لیے گرین لینڈ کو اس تفتیش میں شامل کرنا ضروری تھا۔‘

اس معاملے کے بعد ڈنمارک اور گرین لینڈ کے درمیان ماضی کے تعلقات اور اس میں گھرے متعدد دیگر تنازعات بھی ایک بار منظر عام پر آ گئے ہیں۔

مارچ میں ڈنمارک نے تین قبائلی افراد کو معاوضہ دیا جنھیں 1950 میں ایک سماجی تجربے کے دوران ان کے خاندانوں سے جدا کر دیا گیا تھا۔ وہ تجربہ بھی ناکام رہا تھا۔ ڈنمارک نے معاوضے کے ساتھ ان سے معافی بھی مانگی تھی۔

موسم گرما میں گرین لینڈ کی پارلیمان نے ایک علیحدہ کمیشن بنانے کے حق میں ووٹ دیا تھا جو 1953میں وہاں ڈنمارک کے نو آبادیاتی نظام کے بعد کے حالات کا جائزہ لے گی۔

مانع حمل کے معاملوں کی متاثرہ خواتین کو کونسلنگ کی پیشکش کی گئی ہے تاہم ارنانگوات کو امید ہے کہ انھیں ہرجانہ دیا جائے گا۔

وہ کہتی ہیں ’بہت سی خواتین ہیں جو اب کبھی ماں نہیں بن سکتیں۔‘
https://www.bbc.com/urdu/world-63102482
======================================================================

انڈیا: غیر شادی شدہ خواتین کو بھی 24 ہفتوں میں اسقاط حمل کا حق
انڈیا میں سپریم کورٹ نے ایک فیصلے میں تمام خواتین کے لیے حمل کے 24 ہفتوں تک اسقاط حمل بنیادی حق قرار دے دیا ہے، چاہے خاتون شادی شدہ ہوں یا نہیں، جس پر سماجی کارکن خوشی کا اظہار کر رہے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو جمعہ 30 ستمبر 2022 13:00
facebook sharing buttontwitter sharing buttonwhatsapp sharing buttonsharethis sharing button

دہلی میں 22 جنوری 2020 کو لی گئی تصویر میں سپریم کورٹ آف انڈیا کے باہر صحافی جمع۔ عدالت عظمیٰ نے ملک کی تمام خواتین کو اسقاط حمل کا حق دے دیا ہے (روئٹرز)

سپریم کورٹ آف انڈیا نے فیصلہ دیا ہے کہ تمام خواتین، چاہے ان کی ازدواجی حیثیت جو بھی ہو، کو حمل کے 24 ہفتوں تک اسقاط حمل کروانے کا بنیادی حق حاصل ہے، جس کے بعد سماجی کارکنان نے اسے سراہا ہے۔

بھارت کے اسقاط حمل کے قانون کے تحت اس سے قبل شادی شدہ خواتین اپنے حمل میں 24 ہفتوں تک اسقاط حمل کروا سکتی تھیں لیکن غیر شادی شدہ خواتین کو 20 ہفتوں تک محدود رکھا گیا تھا۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق عدالت نے جمعرات کو جاری ہونے والے اپنے فیصلے میں ملک کی تمام خواتین کے لیے مدت 24 ہفتے تک مقرر کر دی۔

میڈیکل ٹرمینیشن پریگنینسی ایکٹ کے تحت 1971 سے انڈیا میں اسقاط حمل قانونی ہے۔ 2021 میں اس قانون میں ترمیم کی گئی تاکہ مخصوص خواتین بشمول شادی کے بعد طلاق یافتہ یا بیوہ ہونے والی خواتین، نابالغوں، ریپ کا شکار یا ذہنی طور پر بیمار خواتین کو 24 ہفتوں تک اسقاط حمل کرانے کی اجازت دی جا سکے۔

لیکن ان تبدیلیوں میں غیر شادی شدہ خواتین کو شامل نہیں کیا گیا تھا، جس کی وجہ سے بہت سے لوگوں نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ قانون نے ازدواجی حیثیت کی بنیاد پر فرق کیوں کیا۔

اے ایف پی کے مطابق عدالت کے فیصلے میں کہا گیا: ’ایم ٹی پی ایکٹ ہر حاملہ عورت کی اس تولیدی خودمختاری کو تسلیم کرتا ہے کہ وہ اپنے حمل کو ختم کرنے کے لیے طبی طریقہ کار کا انتخاب کرے۔‘

اس میں مزید کہا گیا: ’محفوظ اور قانونی اسقاط حمل‘ کے لیے غیر شادی شدہ خواتین کے حقوق کا کوئی بھی اخراج ’غیر آئینی‘ ہوگا۔

جسٹس دھننجے وائی چندرچوڑ نے کہا: ’شادی شدہ اور غیر شادی شدہ خواتین کے درمیان مصنوعی فرق کو برقرار نہیں رکھا جا سکتا۔ خواتین کو اپنے حقوق کے آزادانہ استعمال کے لیے خودمختاری حاصل ہونی چاہیے۔‘

عدالت نے کہا: ’غیر شادی شدہ خواتین کو اسقاط حمل تک رسائی نہ دینا انڈیا کے آئین کے تحت قانون کے مطابق برابری کے حق کی خلاف ورزی ہے۔‘

مزید پڑھیے

امریکہ: سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ، اسقاط حمل کا حق ختم

’ریپ کے بڑھتے واقعات‘: اسقاط حمل کی ادویات یوکرین روانہ

برطانیہ میں اسقاط حمل کی بڑھتی شرح اور بے رحم سرکاری پالیسی

اسقاط حمل ، جو ہمارا مسئلہ ہے اور نہیں بھی
سپریم کورٹ کی وکیل کرونا نندی کا کہنا تھا: ’بین الاقوامی سطح پر فیصلے ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں اور یہ ایک تاریخی فیصلہ ہے کیونکہ یہ ایک خاتون کے اپنے جسم پر حق اور تولیدی آزادی کو تسلیم کرتا ہے، اس سے قطع نظر کہ حکومتیں اور مقننہ جو بھی کہیں۔‘

یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا ہے جب جولائی میں ایک ذیلی عدالت نے رضامندی سے تعلقات میں ایک غیر شادی شدہ خاتون کو اسقاط حمل سے روک دیا تھا کیونکہ اس کے حمل میں 20 ہفتے گزر چکے تھے۔

اسی مہینے کے آخر میں، سپریم کورٹ نے انہیں حمل کے 24 ویں ہفتے تک اسقاط حمل کرانے کی اجازت دے دی، اور جمعرات کو یہ حق تمام خواتین کو دے دیا گیا۔

آئی پاس ڈویلپمنٹ فاؤنڈیشن کے 2017 کے مطالعے میں کہا گیا کہ ایک اندازے کے مطابق انڈیا میں ہر سال64 لاکھ اسقاط حمل کیے جاتے ہیں اور نصف سے زیادہ غیر محفوظ ہونے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔

اے پی کے مطابق اس فیصلے پر تولیدی حقوق کے کارکنوں نے خوشی کا اظہار کیا ہے اور کہا کہ عدالت نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ قانون امتیازی سلوک نہ کرے اور محفوظ اور قانونی اسقاط حمل کا حق غیرشادی شدہ خواتین تک بھی پہنچے۔

تولیدی حقوق پر کام کرنے والی نیشنل لا سکول آف انڈیا میں قانون کی ایسوسی ایٹ پروفیسر اپرنا چندرا کا کہنا ہے کہ ’شادی شدہ عورتوں کو جتنے بھی حقوق حاصل ہیں، اب وہ سب غیر شادی شدہ خواتین کو بھی حاصل ہوں گے۔‘

انہوں نے کہا کہ اپنے فیصلے میں عدالت نے ’غیر شادی شدہ خواتین کے حاملہ ہونے سے منسلک بدنامی کو دور کردیا ہے۔‘

سماجی کارن برندا اڈیگے نے اسے عدالت کے جاری کردہ ’سب سے زیادہ ترقی پسند فیصلوں میں سے ایک‘ قرار دیا۔

انہوں نے کہا: ’یہ فیصلہ خواتین کے حقوق اور انتخاب کا مکمل احترام کرتا ہے۔‘

خواتین کے حقوق پر کام کرنے والی پرتگیا مہم نے کہا کہ یہ فیصلہ تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔

تاہم ٹوئٹر پر کچھ صارفین اس پر ناخوش بھی نظر آئے۔

ایجنڈا بسٹر کے نام سے اکاؤنٹ چلانے والے ایک صارف نے لکھا کہ اس سے ہندو اقدار متاثر ہو رہے ہیں۔

کرشنا سوامی بھروا نے بھی اس پر سوال اٹھایا۔
https://www.independenturdu.com/node/116286
===================================================================
پاکستان کی بڑھتی آبادی اور مانع حمل ذرائع کا فقدان: ’مانع حمل کے طریقے اپنانا ابارشن سے بہتر ہے‘
عمر دراز ننگیانہ
بی بی سی اردو لاہور
24 فروری 2022
حاملہ مائیں
،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
پاکستان میں ہر سال تقریباً ایک کروڑ ایک لاکھ خواتین حاملہ ہوتی ہیں اور ان میں سے 38 لاکھ خواتین ایسی ہوتی ہیں جو درحققیت حاملہ ہونا ہی نہیں چاہتی تھیں۔

یہی وجہ ہے کہ اِن 38 لاکھ خواتین میں 69 فیصد خواتین اسقاطِ حمل کے ذریعے اپنا حمل ختم کروا دیتی ہیں۔ اسقاط حمل کے لیے جو طریقے اپنائے جاتے ہیں وہ زیادہ تر محفوظ نہیں ہوتے اور اس دوران کئی خواتین جان سے چلی جاتی ہیں۔

نا چاہتے ہوئے بھی حاملہ ہونے والی ان 38 لاکھ خواتین میں سے لگ بھگ دس فیصد خواتین کے حمل مختلف وجوہات کی بنا پر ضائع ہو جاتے ہیں۔ یوں باقی 20 فیصد کے ہاں جو بچے پیدا ہوتے ہیں وہ اُن کی منصوبہ بندی کا حصہ نہیں ہوتے۔ یعنی ایسے بچوں کی پرورش کے لیے یا تو انھیں پیدا کرنے والے والدین کے پاس وسائل نہیں ہوتے یا خواتین کی صحت اس زچگی کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی۔

پاکستان میں آبادی اور منصوبہ بندی کے حوالے سے کام کرنے والے عالمی ادارے ’پاپولیشن کونسل‘ کے ترتیب دیے گئے یہ اعداد و شمار یہ بھی بتاتے ہیں کہ پاکستان میں ہر شادی شدہ جوڑے کے ہاں کم از کم ایک غیر ارادی بچہ پیدا ہوتا ہے۔

تولیدی عمر کو پہنچنے والی ایک عورت اوسطاً 3.6 بچوں کو جنم دیتی ہے۔ یہ شرح جنوبی ایشیائی ممالک میں سب سے زیادہ ہے۔

پاپولیشن کونسل کے مطابق ہر سال پاکستان میں 52 لاکھ بچے پیدا ہوتے ہیں۔ آبادی میں اضافے کی اس شرح کے باعث صرف 30 برس بعد پاکستان کی آبادی لگ بھگ 350 ملین ہو جائے گی۔

تو کیا اُس وقت اتنے زیادہ لوگ پاکستان میں اپنے لیے خوراک، پانی، رہائش اور روزگار حاصل کر پائیں گے؟

پاپولیشن کونسل کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان کی آبادی حالیہ شرح یا دو فیصد کے حساب سے بھی بڑھتی رہے تو ’سنہ 2040 تک پاکستان کو ایک کروڑ نوے لاکھ مزید گھروں اور گیارہ کروڑ ستر لاکھ نئی نوکریوں کی ضرورت ہو گی۔‘

ملک میں مزید 85 ہزار پرائمری سکول تعمیر کرنے پڑیں گے۔ اتنی بڑی آبادی کو صرف پینے کا پانی فراہم کرنا ہی ایک بہت بڑا چیلنج ہو گا۔ پاکستان اس وقت پانی کی قلت کا شکار تین سرِفہرست ممالک میں شامل ہے۔

ماہرین کے مطابق پاکستان ایسے ممکنہ مسائل سے بڑی حد تک خود کو بچا سکتا ہے اگر وہ آبادی میں اضافے پر قابو پا لے۔ پاکستان گذشتہ کئی دہائیوں سے خاندانی منصوبہ بندی کے طریقوں پر عمل کر رہا ہے۔ یعنی مانع حمل کے مختلف طریقے اپنائے جاتے ہیں۔

تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان باآسانی آبادی پر قابو پا سکتا ہے؟ ماہرین اور اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔ پاکستان کے لیے بڑھتی آبادی پر قابو پانا مشکل ہو گا۔

اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ افراد جو مانع حمل کے محفوط اور جدید طریقے استعمال کر رہے ہیں ان کی تعداد انتہائی کم ہے۔

پاکستان میں کتنے لوگ مانع حمل کے طریقے استعمال کرتے ہیں؟
پاپولیشن کونسل کی پراجیکٹ ڈائریکٹر سامیہ علی شاہ نے بی بی سی کو بتایا کہ پاکستان میں مانع حمل کے جدید طریقے استعمال کرنے والوں کی شرح یعنی سی پی آر صرف 34 فیصد ہے۔ اور گذشتہ آٹھ سے دس برسوں میں اس میں صرف ایک فیصد کے لگ بھگ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

بچے
اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں تولیدی عمر کی زیادہ تر خواتین مانع حمل کے طریقے استعمال نہیں کر رہیں۔ مگر کیا یہ خواتین ایسے طریقے استعمال کرنا ہی نہیں چاہتیں یا انھیں ان تک رسائی ہی نہیں ہے؟

سامیہ علی شاہ کے مطابق ’پاکستان میں تقریباً 70 لاکھ جوڑے ایسے ہیں جو مانع حمل کے جدید طریقے استعمال کرنا چاہتے ہیں مگر نہیں کر پاتے۔‘ سامیہ علی شاہ کے مطابق یہ تقریباً تولیدی عمر کی خواتین کا تقریباً 17 فیصد ہے۔

’اگر ان خواتین ہی کو جدید مانع حمل کے طریقوں تک رسائی دے دی جائے تو پاکستان کا سی پی آر فوری طور پر 50 فیصد سے زیادہ ہو جائے گا۔‘

تو سوال یہ ہے کہ ایسا ہو کیوں نہیں پایا اور اس کے حصول میں دقت کیا ہے۔

’ابارشن کی گولی کا غلط استعمال زیادہ ہو رہا ہے‘
مواد پر جائیں
پوڈکاسٹ
ڈرامہ کوئین
ڈرامہ کوئین
’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں
مواد پر جائیں
ڈاکٹر رابعہ نتاش لاہور کے حمید لطیف ہسپتال کے ’لائف سینٹر‘ میں گذشتہ کئی برس سے گائناکالوجسٹ کے طور پر کام کر رہی ہیں۔ ان کے مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ پاکستان میں مانع حمل کے طریقے استعمال کرنے کے بجائے حمل گرانے کے غیر محفوظ طریقے استعمال کرنے کا رجحان زیادہ نظر آتا ہے۔

’ابارشن یا حمل گرانے کی گولی میڈیکل سٹورز پر باآسانی دستیاب ہے۔ ہمارے ہاں اس کا غلط اور غیر ضروری استعمال بہت زیادہ ہو رہا ہے۔‘ ڈاکٹر رابعہ نتاش کے مطابق بہت سی خواتین ڈاکٹر سے مشورہ کیے بغیر خود ہی انٹرنیٹ سے دیکھ کر یہ دوا استعمال کر لیتی ہیں۔

اس طرح کے ابارشن کے نتیجے میں ناصرف خاتون کی جان کو خطرہ ہوتا ہے بلکہ اس سے خواتین کی بچے پیدا کرنے کی صلاحیت پر منفی اثرات بھی پڑتے ہیں۔

ڈاکٹر رابعہ نتاش کے مطابق ان صورتوں میں جہاں اسقاطِ حمل کا یہ طریقہ استعمال نہیں کیا جا سکتا وہاں خواتین غیر ارادی حمل کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچے سے چھٹکارا پانے کے لیے عطائی ڈاکٹروں اور دائیوں کی مدد لے لیتی ہیں۔

‘ہمارے پاس ایک ایسی خاتون بھی ایمرجنسی میں لائی گئیں جن کے اسقاط حمل کے دوران انٹریاں تک دائی نے کھینچ کر نکال دی تھیں۔ بہت کوشش کے بعد بھی ہم ان کی جان نہیں بچا پائے تھے۔‘

ڈاکٹر رابعہ نتاش سمجھتی ہیں کہ پاکستان میں خواتین اور شادی شدہ جوڑوں کو یہ بات سمجھانے کی ضرورت ہے کہ ’مانع حمل کے طریقے اپنانا ابارشن یا اسقاطِ حمل سے بہتر ہے۔‘

مانع حمل
،تصویر کا ذریعہPA MEDIA
خواتین کے پاس مانع حمل کے کون سے آپشنز موجود ہیں؟
ڈاکٹر رابعہ نتاش نے بتایا کہ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی مانع حمل کے تقریباً تمام جدید طریقے میسر ہیں جو انتہائی مؤثر اور محفوظ ہیں۔

یہ صرف شادی شدہ جوڑوں یا خواتین کی ضروریات پر منحصر ہے کہ وہ کس نوعیت کی خاندانی منصوبہ بندی چاہتے ہیں اور اس کے مطابق وہ طریقے کا انتخاب کر سکتے ہیں۔

’ہمارے پاس ایسی گولیاں موجود ہیں جو پانی کے ساتھ کھائی جاتی ہیں، اس کے علاوہ سرنج کے ذریعے دی جانی والی ادویات بھی ہیں۔‘ اس کے علاوہ ایسی ادویات بھی موجود ہیں جنہیں ’لانگ ایکٹنگ ریورسیبل‘ طریقہ کار بھی کہا جاتا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ یہ ان جوڑوں کے لیے موزوں ہے جو بچوں کے درمیان کچھ سال کا وقفہ چاہتے ہیں۔ ’اس کے لیے ایسے امپلانٹس موجود ہیں اور یہ تین سے پانچ سال تک مانع حمل کا انتہائی مؤثر اور محفوظ طریقہ ہے۔‘

اس کے علاوہ ’انٹرا یوٹیرائن ڈیوائسز‘ یعنی رحم میں رکھے جانے والے آلے ہیں جن میں ’کاپر ٹی‘ اور ’مائیرینا‘ شامل ہیں۔ ڈاکٹر رابعہ کے مطابق خاص طور پر کاپر ٹی ایک ایسا آلہ ہے جو انتہائی سستہ اور مؤثر طریقہ ہے۔

پاکستان میں خواتین یہ طریقے کیوں نہیں اپنا رہیں؟
ڈاکٹر رابعہ نتاش کہتی ہیں کہ ان کے مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ جو شادی شدہ جوڑے یا خواتین مانع حمل کے ان جدید طریقوں کو استعمال نہیں کرتیں یا کرنے سے ڈرتے ہیں ان میں ان کے حوالے سے غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔

مانع حمل
’مثال کے طور پر کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ گولیاں کھانے سے یا انجیکشن لینے سے خواتین بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتی ہیں، یہ تاثر سراسر غلط ہے۔‘ اس کے برعکس ابارشن کے غیر محفوظ طریقوں میں یہ خطرہ ہو سکتا ہے۔

ڈاکٹر رابعہ کے مطابق مانع حمل کے جدید طریقے یعنی انٹرا یوٹرائن ڈیواسز کے ایک حوالے سے ایک غلط خیال یہ بھی پایا جاتا ہے کہ رحم میں رکھے جانے والی کاپر ٹی اپنی جگہ چھوڑ دیتی ہے یا اس سے بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔

’یہ بھی بالکل غلط ہے۔ اگر کاپر ٹی مستند ڈاکٹر کے ذریعے رکھوائی جائے تو ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ وہ اپنی جگہ چھوڑ دے اور اس کے حوالے سے یہ تاثر کہ یہ بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت کو متاثر کر سکتی ہے، بالکل غلط ہے۔‘

ڈاکٹر رابعہ کے مطابق یہ طریقے پوری دنیا میں ان کے محفوظ ہونے کی مکمل تصدیق کے بعد ہی استعمال ہو رہے ہیں۔

جو خواتین اپنانا چاہتی ہیں وہ مانع حمل کیوں نہیں کر رہیں؟
عفت لطیف گذشتہ کئی برس سے لاہور میں لیڈی ہیلتھ ورکر کے طور پر کام کر رہی ہیں۔ ماں اور بچے کی صحت کے حوالے سے کام کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے بنیادی فرائض میں خواتین اور شادی شدہ جوڑوں کو خاندانی منصوبہ بندی کے طریقوں کے حوالے سے آگاہی اور ان کو اپنانے میں ان کی مدد کرنا شامل ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ آج سے دس سے بارہ برس قبل خاص طور پر دیہی علاقوں کی خواتین کو خاندانی منصوبہ پر آمادہ کرنا بہت مشکل ثابت ہوتا تھا۔ تاہم گذشتہ کئی برس سے اس رجحان میں انھوں نے تبدیلی دیکھی ہے۔

’اب بہت سی ایسی خواتین ہیں جو مانع حمل کے طریقے اپنانا چاہتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ہمیں ابھی بچہ نہیں چاہیے کیونکہ ہمارے وسائل اتنے نہیں ہیں کہ ہم اس کی پرورش کر سکیں۔ ان کے خاوند بھی ان کی حمایت کرتے ہیں۔‘

عفت لطیف بتاتی ہیں کہ ’بہت سے ایسے شادی شدہ جوڑے ان سے مانع حمل کے طریقے حاصل کرتے تھے جن میں گولیاں اور کنڈوم وغیرہ شامل تھے۔ ان میں زیادہ تر وہ جوڑے شامل تھے جو یا تو خود میڈیکل سٹور سے کنڈوم یا گولیاں خریدنے میں شرم محسوس کرتے تھے۔ یا ان کی اتنی استطاعت نہیں تھی کہ وہ یہ طریقے خرید سکیں۔‘

لیڈی ہیلتھ ورکر عفت لطیف کے مطابق گذشتہ لگ بھگ دو برس سے انھیں حکومت کی طرف سے مانع حمل کے یہ آلات فراہم ہی نہیں کیے جا رہے تھے۔ اس لیے وہ ان خواتین تک نہیں پہنچ رہے تھے جو لیڈی ہیلتھ ورکرز پر انحصار کرتی تھیں۔

’وہ ہم سے ہی یہ طریقے حاصل کرتے تھے کیونکہ انھیں ہم پر اعتبار بھی تھا اور انھیں یہ گھر بیٹھے مفت مل جاتے تھے۔ لیکن ہمیں جب مل ہی نہیں رہے تو ہم ان کو کیسے پہنچائیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ وہ ایسے کئی جوڑوں کو جانتی ہیں جن کے ہاں اس دوران غیر ارادی زچگیاں ہو چکی ہیں۔

خواتین، مرد، گولڈ ڈیگر
،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
’ان کی ساس نہیں چاہتی کہ ہم ان سے ملیں‘
لیڈی ہیلتھ ورکر عفت لطیف کے مطابق وہ خواتین جو خاندانی منصوبہ بندی کے طریقے استعمال کرنا چاہتے ہوئے بھی نہیں کر پاتیں، ان میں زیادہ تر پر سسرال یا خاوند کی طرف سے دباؤ ہوتا ہے۔

’بہت سی خواتین ایسی ہیں جن کی ساس چاہتی ہیں کہ ان کے بیٹے کا خاندان بڑا ہو یا کچھ کو زیادہ بیٹے چاہیے ہوتے ہیں اس لیے وہ اپنی بہوؤں کو خاندانی منصوبہ بندی کے طریقے اپنانے سے منع کرتی ہیں۔ ان کی ساس نہیں چاہتیں کہ ہم ان سے ملیں۔‘

اس کے باوجود لیڈی ہیلتھ ورکرز خواتین کا اعتماد حاصل کرتی ہیں اور ان سے مل کر انھیں فیملی پلاننگ کے فوائد سے آگاہ کرتی رہتی ہیں۔

تاہم عفت لطیف کے خیال میں پاکستان میں سی پی آر کے نہ بڑھنے کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ لیڈی ہیلتھ ورکرز کو دوسری کئی مہمات پر لگا دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ خاندانی منصوبہ بندی کے حوالے سے اپنے فرائض پوری طرح ادا کرنے کے لیے وقت نہیں نکال پاتیں۔

پاکستان میں مانع حمل مصنوعات کی کمی کیوں ہے؟
پاکستان میں مانع حمل کے طریقوں کے استعمال کی شرح یعنی سی پی آر خطے میں دیگر ممالک کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔ بنگلہ دیش میں یہ شرح 62 جبکہ ایران میں 74 فیصد سے زیادہ ہے۔

حاملہ
پاکستان کے وزیرِاعظم کے سابق مشیر برائے صحت اور ہیلتھ سسٹمز کے پروفیسر ڈاکٹر ظفر مرزا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں مانع حمل آلات یا طریقوں کی دستیابی انتہائی کم ہے۔

یہ بھی پڑھیے

کیا کنڈوم کے استعمال نے خواتین سے خاندانی منصوبہ بندی کا بوجھ کم کر دیا؟

حاملہ یا فیملی وے: ’ہم عام سی چیزوں کو بھی باعثِ شرم بنا دیتے ہیں‘

پاکستان میں مانع حمل ادویات کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کی حقیقت کیا ہے؟

کونڈوم یا نس بندی، مانع حمل کا کون سا طریقہ کامیاب ہے؟

انھوں نے بتایا کہ ‘گذشتہ دو سے تین برس میں پاکستان کے کم از کم پچاس فیصد اضلاع کے پبلک سیکٹر یا سرکاری سطح کی سہولیات میں مانع حمل کے آلات یا طریقے دستیاب ہی نہیں تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر خواتین کو ان کی ضرورت تھی بھی تو وہ انھیں دستیاب نہیں تھے۔’

ڈاکٹر ظفر مرزا کا کہنا تھا کہ اتنے بڑے پیمانے پر اس عدم دستیابی کی وجہ یہ تھی کہ حکومتی سطح پر مانع حمل کے آلات کے حصول اور ان کی سپلائی کا نظام صحیح طریقے سے کام نہیں کر رہا تھا۔ بروقت حصول اور سپلائی نہیں کی جاتی۔

A photo of different forms of contraception on a pink background.
،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
’مانع حمل کے زیادہ تر طریقے امپورٹ کیے جاتے ہیں‘

ان کے خیال میں ’اس میں اٹھارویں ترمیم کا بھی ایک بڑا عمل دخل ہے۔ سنہ 2010 کے بعد سی پی آر نہ بڑھنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ صوبے اپنے طور پر اور وفاق اپنے طور پر اور وفاق اپنے طور پر خریداری کر رہے تھے جس میں ہم آہنگی نہیں تھی۔‘

اس فقدان کی دوسری وجہ ڈاکٹر ظفر مرزا کے مطابق یہ بھی تھی کہ پاکستان میں استعمال ہونے والے زیادہ تر مانع حمل کے آلات درآمد کیے جاتے تھے، مقامی سطح پر ان کی تیاری نہ ہونے کے برابر ہے۔

’پاکستان میں کنڈوم نہیں بنتے، یہاں آئی یو ڈیز نہیں بنتیں، کئی انجیکٹیبلز نہیں بنتے۔ صرف کچھ گولیاں ہیں اور چند ایک انجیکشنز ہیں جو پاکستان میں بنتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں گذشتہ متواتر حکومتوں کی ترجیحات میں یہ مسئلہ شامل ہی نہیں رہا۔ حکومتوں کی اس جانب بھی رہنمائی نہیں کی گئی کہ انھیں مقامی سطح پر صحت کی کن بنیادی مصنوعات کی تیاری پر توجہ دینے کی ضرورت تھی۔

’اس لیے جو کاروباری شعبہ ہے اس کو اس ہی میں فائدہ نظر آتا ہے کہ کونٹراسیپٹوز کو باہر سے منگوایا جائے۔‘

ڈاکٹر ظفر مرزا کے مطابق اس کے ساتھ ساتھ گذشتہ چند برسوں میں خاندانی منصوبہ بندی کے حوالے سے میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے آگاہی دینے کی مہمات بھی سرکاری سرپرستی میں ہوتی نظر نہیں آئیں۔

ان کے خیال میں پاکستان میں پریکیورمنٹ اور سپلائی کے سسٹم میں بہت زیادہ بہتری لانے اور حکومت کو کونٹراسیپٹوز کی مقامی سطح پر تیاری کے حوالے سے پالیسی کو ریویو کرنے کی فوری ضرورت ہے۔
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-60495257
================================================================
امریکہ: سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ، اسقاط حمل کا حق ختم
امریکہ میں سپریم کورٹ نے ماضی میں دیے گئے اپنے ہی ایک فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اسقاط حمل کے آئینی حق کو ختم کر دیا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو جمعہ 24 جون 2022 23:00
facebook sharing buttontwitter sharing buttonwhatsapp sharing buttonsharethis sharing button

امریکہ میں اسقاط حمل کا حق ختم کرنے کے فیصلے کے بعد بڑی تعداد میں لوگ امریکی سپریم کورٹ کی عمارت کے باہر احتجاج کر رہے ہیں (اے ایف پی)

امریکہ میں سپریم کورٹ نے ماضی میں دیے گئے اپنے ہی ایک فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اسقاط حمل کے آئینی حق کو ختم کر دیا ہے۔

سپریم کورٹ نے 1973 میں دیے گئے اپنے ایک فیصلے میں اسقاط حمل کو قانونی عمل قرار دیا تھا۔

امریکہ میں اس فیصلے کے بعد لاکھوں خواتین اسقاط حمل کے قانونی حق سے محروم ہو جائیں گی۔

اس تاریخی فیصلے کے بعد اسقاط حمل کے موجودہ قوانین میں تبدیلی آئے گی اور مختلف ریاستیں انفرادی سطح پر اسقاط حمل کے طریقہ کار پر پابندی لگانے کے قابل ہو جائیں گی۔

امریکی سپریم کورٹ کی جانب سے اسقاط حمل کے حق کو ختم کرنے کے فیصلے پر امریکہ سمیت کئی دیگر ممالک کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آ رہا ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق خود امریکی صدر جو بائیڈن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’آج امریکہ کی سپریم کورٹ نے امریکی عوام سے وہ آئینی حق لے لیا ہے جسے میں پہلے ہی تسلیم کر چکا تھا۔‘

صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ ’میرے خیال میں یہ ملک کے لیے ایک دردناک دن ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ لڑائی ختم ہو گئی ہے۔‘

مزید پڑھیے

پاکستان میں اسقاط حمل کی اہم وجہ غربت و ناخواندگی
’میں یہ واضح کر دوں کہ خواتین کے برابری کا انتخاب کرنے کے حق کو جو موجود ہو محفوظ کرنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ کانگریس Roe v. Wade کی پروٹیکشن کو بطور وفاقی قانون بحال کرے۔‘

دوسری جانب خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق فرانسیسی صدر ایمانوئل میکروں نے بھی جمعے کو سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی مذمت کی ہے۔

ایمانوئل میکروں کا کہنا ہے کہ ’انہیں (خواتین) تحفظ ملنا چاہیے۔ میں ان خواتین کے ساتھ ہوں جن کی آزادی آج امریکہ کی سپریم کورٹ نے چیلنج کی ہے۔‘

جبکہ سینیٹ میں رپبلکن لیڈر مچ مک کونیل نے ایک بیان میں اس فیصلے کو ’نڈر اور صحیح‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’یہ آئین اور ہمارے معاشرے کے سب سے کمزور افراد کے لیے تاریخی جیت ہے۔‘
https://www.independenturdu.com/node/106346
===================================================