انڈیا میں بڑھتا اسلامو فوبیا۔۔۔ لمحہ فکریہ۔۔۔

نوید نقوی
=======

بھارت پاکستان کا ایک ایسا ہمسایہ ملک ہےجو اکٹھے آزاد ہوا اور دونوں ایک دوسرے کے ساتھ 2200کلومیٹر طویل سرحد رکھتے ہیں۔۔۔ بھارت دنیا میں واحد ہندو ملک ہے جبکہ پاکستان دنیا کا واحد اسلامی ملک ہے جو نظریہ اسلام کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا۔پاکستان اور بھارت تنازعات کی ایک طویل فہرست رکھتے ہیں اور ان دو پڑوسی ممالک کے درمیان متعدد جنگیں بھی ہو چکی ہیں۔فی الحال ہمارا موضوع بھارت میں بڑھتی ہوئی ہندو انتہا پسندی ہے جسکی وجہ سے وہاں بسنے والی اقلیتیں مصائب کا سامنا کر رہی ہیں، اسلام چونکہ بھارت میں تیزی سے بڑھنے والا مذہب ہے اور مسلمان وہاں کی طاقت ور اقلیت ہیں،کیء سو سال تک مسلمانوں نے برصغیر پاک وہند پر حکمرانی بھی کی ہے اس لیے وہاں کے انتہا پسند ہندو مسلمانوں کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتے ہیں۔ آیے دن مسلمانوں پر ظلم وستم کیا جاتا ہے اور بھارتی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹیBJP اس سب میں پیش پیش ہے۔2014 میں جب سے مودی حکومت آئی ہے مسلمانوں پر مظالم میں نہ صرف اضافہ ہوا ہے بلکہ ریاستی سرپرستی میں دوسری اقلیتوں کے ساتھ بھی ناروا سلوک کیا جا رہا ہے بھارتی پولیس بی جے پی اور RSS کے مقامی رہنماؤں کے حکم پر مسلمانوں کے گھروں اور املاک کو مسمار کر دیتی ہے۔اتر پردیش میں مسلمانوں کی کافی بڑی تعداد رہتی ہے اس ریاست کا وزیراعلی آدتیہ ناتھ جوگی


ہے جو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا رایٹ ہینڈ ہے۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت اس کے دل میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے اور آیے دن اس کے بیانات اور عملی اقدامات مسلمانوں کے لیے شدید نقصان کا باعث بن رہے ہیں اس دہشت گرد نے ہزاروں بے گناہ لوگوں کو جیل میں ڈال دیا ہے اور اسکو مقامی لگ مسٹر بلڈوزر بھی کہتے ہیں کیونکہ یہ مسلمانوں کے گھروں کو مسمار کرنے کے بہانے تلاش کرتا رہتا ہے۔اب تک اس نے مسلمانوں کے سینکڑوں گھروں کو مسمار کیا ہے۔اس کی ریاست میں آر ایس ایس اور بی جے پی کے غنڈوں کو کھلی چھٹی ہے اور کئی بے گناہ مسلمانوں کو گائے کے گوشت کھانے کے شبہے میں ماورائے عدالت قتل کیا جا چکا ہے۔گزشتہ کچھ عرصہ سے بھارت کے مسلمان بھارتی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی ایک مرکزی لیول کی ترجمان نو پور شرما کے پیغمبر اسلام کے بارے میں گستاخانہ بیانات پر اپنا احتجاج جاری رکھے ہوئے تھے اور اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں بھارتی حکومت کی بربریت کا سامنا کر رہے تھے کہ حیدرآباد دکن کی گوشا محل سیٹ پر رکن پارلیمان ٹی راجہ سنگھ نے پیغمبر اسلام کے متعلق انتہائی نازیبا اور توہین آمیز گفتگو کرکے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو نہ صرف شدید ٹھیس پہنچائی ہے بلکہ اس پر بی جے پی کے کارکنان اور عہدیداران کا اس رکن پارلیمان کی حمایت میں آگے آنا شدید لمحہ فکریہ ہے۔ ٹی راجہ سنگھ بی جے پی کا ایک پرانا کارکن ہے اور مسلمانوں کا سخت دشمن ہے یہ مذہبی معاملات پر اپنے تبصروں کی وجہ سے بدنام ہے۔یہ گوشا محل سے دو بار ایم ایل اے منتخب ہو چکا ہے اور مسلمانوں کے خلاف کئی بار اشتعال انگیز بیان دے چکا ہے اور یہ ہمیشہ کہتا ہے اس کو مسلمانوں کے ووٹ کی ضرورت نہیں ہے لیکن اس بار اس نے حد کردی ہے اور گستاخانہ گفتگو کرکے اپنے بیان کو سچ ثابت کر دیا ہے کہ اس کو مسلمانوں کے ووٹ کی ضرورت نہیں ہے۔یہ ایک کٹر انتہا پسند ہندو ہے اور اسلام و فوبیا کو فروغ دینے والے بیانات دینے پر اس کے خلاف تلنگانہ حکومت نے کئی مقدمات بھی درج کیے ہیں مرکز میں چونکہ اس کی پارٹی بی جے پی کی حکومت ہے اس لیے اس کے خلاف موثر قانونی کارروائی کو آگے نہیں بڑھا یا جا سکا۔


اس کے توہین آمیز ریمارکس کے بعد حیدرآباد میں کئی مسلم نوجوانوں نے اس کے خلاف تھانوں کے باہر احتجاج کیا ہے اور مسلمانوں کے احتجاج سے مجبور ہو کر ریاستی حکومت نے اس کے خلاف ipc کی دفعہ 295اے 153اے کے تحت مقدمہ درج کیا اور اس کو گرفتار بھی کیا گیا لیکن چند گھنٹوں کے بعد ہی اس کو رہا کر دیا گیا۔ لیکن یہ اس پر بھی پر سکون نہ ہوا بلکہ اس نے اپنے تعصب کی انتہا کرتے ہوئے مزید بیان جاری کیا کہ اس نے جو کہا اس پر یہ قائم ہے اور اس نے ٹھیک کیا جو بھی کیا، تعجب اور حیرت کی بات یہ ہوئی کہ جب یہ رہا ہوا مقامی بی جے پی کی قیادت نے نہ صرف اس کا استقبال کیا بلکہ نو جوانوں نے اس کو پھولوں کے ہار بھی پہنائے۔ نو پور شرما ہوں یا ٹی راجہ سنگھ جیسے اسلام دشمن بھارتی رکن پارلیمان یہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بھارت میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دے کر مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچاکر مسلمانوں کے خلاف ایک منظم طریقے سے مہم چلا رہے ہیں۔ بی جے پی اور آر ایس ایس مل کر ریاستی سرپرستی میں مسلمانوں کی نسل کشی کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں پاکستان کے دفتر خارجہ نے ٹی راجہ سنگھ کے توہین آمیز بیانات کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہےاور کہا ہے کہ تین ماہ میں دوسری مرتبہ ایک سینئر بی جے پی رہنما نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے متعلق توہین آمیز بیان دیا ہے جس سے دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ایسے انتہا پسند ہندوؤں کو فی الفور خاموش کرایا جائے۔ پاکستانی دفتر خارجہ نے مزید کہا ہے کہ موجودہ صورت حال سے نمایاں ہوتا ہے کہ انڈیا میں اسلامو فوبیا کا رجحان پریشان کن ہے، دفتر خارجہ نے مزید کہا کہ پاکستان انڈیا سے مطالبہ کرتا ہے کہ ان رہنماؤں کے خلاف سخت کارروائی کرے جو بار بار اسلام پر حملہ کرتے ہیں اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف توہین آمیز بیان دیتے ہیں ۔ پاکستان عالمی برادری سے بھی مطالبہ کرتا ہے کہ وہ انڈیا میں اسلامو فو بیا کی بگڑتی ہوئی صورتحال کا فوری نوٹس لے موجودہ بی جے پی حکومت کا اس کے مسلم اور اسلام مخالف ایجنڈے کے خلاف احتساب کرے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھارت میں مرکزی لیول کے رہنما بار بار مسلمانوں کو کیوں اشتعال دلا رہے ہیں اور مسلمانوں کی ریڈ لائن کراس کر کے مسلمانوں بالخصوص پاکستان کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں۔۔،دراصل مودی حکومت کے تمام نعرے اور شاءننگ انڈیا کے دعوے کھوکھلے ثابت ہوئے ہیں اور آنے والے الیکشن میں اس کو اپنی ہار صاف دکھائی دے رہی ہے اس لیے وہ ہندوؤں کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ اقوام متحدہ میں باقاعدہ طور پر بھارتی انتہا پسند اور دہشت گرد حکومت کے خلاف سخت آواز بلند کرے اور عالمی برادری کو باور کراءے کہ برصغیر کے امن کے ساتھ مودی اور اس کے حواری کھلواڑ کر رہے ہیں اس کا نتیجہ خود دنیا کے امن کے لیے بھی برا ہوگا،
=======================