آزاد کشمیر کا مثالی زمیندار (کسان) عبدالرشید چغتائی

سچ تو یہ ہے،
،

بشیر سدوزئی،
=========

پچھلی صدی کے آخر میں میری پہلے کتاب ” پوبچھ جہاں سروں کی فصل کٹی” شائع ہونے کے ساتھ ہی ریاست بھر میں مقبول ہوئی۔ کتاب کی مقبولیت کی وجہ پہلی مرتبہ تحریک منگ 1832ء اور خاص طور پر اس جنگ میں سردار شمس خان کے کردار کو نمایاں کیا گیا تھا۔ ملوٹ بن گراں کے سردار صدیق خان چغتائی نے کتاب کی شہرت کو دوام بخشا جب انہوں نے تنقید شروع کی کہ میں نے سردار شمس خان کے بارے میں غلط لکھا کہ وہ سدھنوں کا مرکزی سردار اور منگ میں اس کی راج دہانی تھی۔ سردار صدیق خان چغتائی 1832 کی خونی تحریک جو منگ سے شروع ہو کر وہاں ہی ختم ہوئی کے بارے میں رائے تھی کہ اس تحریک کے قائد سردار شمس خان کا تعلق ملدیال قبیلے سے تھا۔ اس موقف پر وہ آخر تک قائم رہے۔ انہوں نے اس حولے سے اپنے وسیع حلقہ احباب میں باقائدہ مہم چلائی اور اس پر ایک کتاب بھی تحریر کی۔ وہ کتاب کورئیر سروس کے ذریعے سب سے پہلے مجھے کراچی بھیجی ۔ کتاب میں میری ذات سے متعلق کچھ منفی تحریر بھی لکھی گئی لیکن اس سے نہ ہماری بات چیت بند ہوئی نہ رابطہ منقطع ہوا۔۔ بشیر جعفری صاحب سے 1947ء کی جنگ آزادی میں شیخ الحدیث مولانا محمد یوسف خان کے کردار پر تنازعہ ہوا تو میں نے روزنامہ اوصاف میں ان کے لکھے گئے ایک کالم کے جواب میں سخت کالم لکھا جس میں بشیر جعفری صاحب پر کچھ سخت الفاظ میں تنقید کی کہ یہ بھی سدھن مخالف تحریک کا حصہ ہیں جو ان دنوں پس پردہ جولی چیڑھ سے چلا جا رہی تھی۔ سب سے پہلا فون صدیق چغتائی صاحب کا موصول ہوا جنہوں نے برملا مجھ سے کہا کہ اگر بشیر جعفری صاحب سے کوئی غلطی بھی ہوئی تب بھی آپ کو سینئیر کے مدمقابل اس انداز میں گھڑا نہیں ہونا چاہیے تھا وہ ہمارے علاقہ کے معروف دانشور ہی نہیں بزرگ اور بہت قیمتی اثاثہ ہیں اور یہ ہماری روایات نہیں کہ بڑوں کے سامنے اس طرح کھڑے ہو جائیں۔ ان کی اس گفتگو کا جو انتہائی نفیس نستعلیق اور محبت بھری تھی مجھ پر اتنا اثر ہوا کہ میں نے ان سے کہا کہ میں آئندہ کسی کالم میں بشیر جعفری صاحب سے معزرت کرو گا۔ چند دن بعد جعفری صاحب کا مجھے چار صفحات کا خط موصول ہوا جس میں انہوں نے فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے میری معذرت قبول کی جو سردار صدیق خان چغتائی کے تواسط سے ان تک پہنچی تھی بلکہ آئندہ اخبارات میں اس حوالے سے کوئی بھی تحریر لکھنے پر منع کیا گیا ۔ جب سے مجھے اندازہ ہوا کہ اس صدی کے لوگ کس قدر روادار تھے کہ نظریاتی اختلافات کو صرف علمی بحث مباحثہ تک محدود رکھتے تھے۔


چند ماہ پہلے مجھے کسی نے بتایا تھا کہ محترم سردار صدیق خان چغتائی ، صاحب فراش ہیں۔ پھر اطلاع آئی کہ بہتر ہو گئے ہیں۔۔ راولاکوٹ میں تھا کہ اخبار میں ان کے انتقال کی خبر پڑھ کر شدید افسوس ہوا۔ کوئی زندہ ہے تو آپ کا دوست ہے یا مخالف دنیا سے رخصت ہو جائے تو دوست کیا اور دشمن کیا سب آسودہ خاک ہوئے اور اپنی باری کا انتظار ہے سب کچھ رہ جاتا ہے تحقیق کیا اور تحریر کیا۔ دل نے کہا ایسا کوئی سبب نکل آئے کہ قبر پر حاضری یا ورثاء سے پرسا ہو جائے۔ بلا ہو سردار عبدالخالق خان ایڈووکیٹ کہ انہوں نے از خود کہا کہ صدیق خان چغتائی صاحب کے گھر تعزیت کے لیے چلتے ہیں، گویا ہمارے دل کی بات انہوں نے کہی اور ساتھ ڈاکٹر غلام حسین خان صاحب کو بھی تیار کیا کہ سدھن ایجوکیشنل کانفرنس کی نمائندگی بھی ہو جائے گی ۔ اسی وقت سردار ریاض اصغر ملوٹی سے بھی بات ہوئی کہ ملوٹ آمد پر کچھ قبیلے کے زعماء سے ملاقات ہو جائے۔ چنانچہ چار چولائی کو ریاض اصغر ملوٹی صاحب نے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ ملوٹ بوائز انٹر کالج کے حاطے میں ہمیں خوش آمدید کہا اور سردار صدیق خان چغتائی کے گھر بن گراں لے گئے۔ اس سے قبل اس خاندان کے بارے میں معلومات نہیں تھی۔ ریاض اصغر ملوٹی صاحب نے ڈھلوان سے اتر کر تھوڑی ہموار جگہ پر اپنی جیپ روکی جو میری گاڑی سے آگئیں تھی۔ مجھے اشارے میں گاڑی الٹے ہاتھ کھڑی کرنے کا کہا، جہاں سنگ مرمر سے مزین ایک راہداری کے دونوں جانب پھل دار درخت فروٹ سے لدی ہوئی ٹہنیاں جھک کر سروں سے ٹکر رہی تھیں۔ گاڑی سے اترے ہی تھے کہ بالکل مختلف ماحول دیکھ کر عجب وسوسے اٹھنے لگے اس دیہات اور وہ بھی مشکل ترین جنگل میں منگل کس نے بنا رکھا ہے۔ معلوم ہوا یہ سردار رشید خان چغتائی صاحب کی رہائش گاہ ہے، جو سردار صدیق خان چغتائی کے حقیقی بھائی ہیں اور انہی سے تعزیت کرنے ہم یہاں آئے ہیں ۔ اس خوبصورت راہداری پر قدم ،قدم چلتے ہوئے مسرت و فخر کی ملی جلی کیفیت کے ساتھ آگئیں بڑھ رہے تھے اور اسی کیفیت میں پھلوں، پھولوں سے مزین اور خوشبو و مہک سے تر خوبصورت لون میں پہنچے۔ جہاں بڑے کرینہ سے فرنیچر سجا تھا۔ محترم مرحوم کے لیے اجتماعی دعا کے بعد گفتگو ہوئی تو یہ راز پہلی مرتبہ منکشف ہوا کہ موصوف رشید زمیندار کے نام سے ریاست بھر میں معروف شخصیت ہیں۔ ہماری آمدورفت تو صرف اسی سبز لان تک ہی رہی جس پر لکی گھاس امریکن گھاس سے بھی زیادہ اور سلیقہ سے کٹی لگ رہی تھی۔ لان کے اطراف ہر نسل کے دیسی و بددیسی فروٹ، رنگ برنگے پھول، شہید کی مکھیوں کے چھتے اور پرندوں کے لیے گھونسلے بنانے کی سہولت، پانی کا انتظام اور بہت کچھ سے اندازہ ہوا کہ سردار رشید خان چغتائی اللہ تعالی کے اس احکام کو صحیح سمجھے کہ زمین میں خزانے پوشیدہ ہیں اس کو تلاش کرو، یہ شرط نہیں کہ زمین میدانی ہے یا پہاڑی، سندھ کی صحرائی ہے کشمیر کی کوہستانی زمین، زمین ہے چاہے کئیں کی بھی ہو ۔بے شک اس میں خزانے چھپے ہیں سو کشمیر کے اس عظیم فرزند نے بن گراں کے ان پہاڑوں میں بھی اللہ کا خزانہ تلاش کر لیا جہاں سے میرا جیسا نکما تو پیدل بھی نہیں چل سکتا، سردار رشید زمین دار نے آزاد کشمیر کی اکثریت کی اس رائے کو مسترد کر دیا کہ “اب تو زمینیں بنجر ہو گئی ہے فصل ہی نہیں دیتی”۔ ہزاروں نوجوان مرد و خواتین، “نا کام کے نا کاج کے دشمن اناج کے” سارا دن گھوم پھر کر وقت ضائع اور عمر کھپا رہے ہیں رشید زمین دار کی 75 سالہ پیران سالی بھی اس کام میں آڑے نہیں آتی۔ رشید زمین دار کی یہ کیسی انوکھی زمین ہے کہ، صرف 8 کنال پر سالانہ 64 من مکئی اور 75 من گندم کاشت ہوتی ہے۔ اسی رقبہ پر 250 پھل دار سمیت 600 درخت بھی پال رکھے ہیں ۔ 20 من لہسن اور مختلف اقسام کی سبزیاں جن میں 8 کلو وزن کی ایک مولی اور 570 گرام کا شلجم،24 کلو وزن کا کدو،اور عمدہ نسل کے سیب، انجیر، خربانی، اخروٹ سے املوک تک انواع و اقسام کے فروٹ بھی اسی زمین سے پیدا ہوتے ہیں ۔اربوں روپے خرچ کرنے والا محکمہ زراعت آزاد کشمیر مختلف بیج کے لیے سردار رشید خاں چغتائی کا متحاج ہے، اور ایگریکلچر کے ڈاکٹر و طلبا اکیلے رشید زمیندار کے سامنے ہیج ہاگ ہیں ۔ کتنا فخر ہوتا ہے جب یہ اطلاع آتی ہے کہ پاکستان میں جہاں کئیں بھی سبزیوں،پھلوں اور مکئی وگندم کے بیجوں کی نمائش منعقد ہو یہ شخص ٓآزاد کشمیر کی نمائندگی کرتا ہے اور اب تک سیکڑوں تعریفی سرٹیفکیٹ اور نقد انعامات حاصل کر چکا۔ ملکی و غیر ملکی زرعی ماہرین، محکمہ زراعت کے اہلکاران،ایگریکلچر جامعات کے طلبہ اس زمیندار کے فارم ہاوسز کا وزٹ کر چکے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ جامعہ پونچھ کو فیکلٹی آف ایگریکلچر کے لیے ان کی خدمات حاصل کرنا چاہیے تاکہ رشید زمیندار کے وسیع تجربہ سے اس شعبہ میں تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان استفادہ حاصل کر سکیں۔ کم از کم ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈکری اور بھاری اعزازیہ پر ان کے لیکچر کا اہتمام تو ہونا ہی چاہیے ۔ کسی کو سردار رشید خاں چغتائی (رشید زمیندار ) سے ملاقات کرنی ہے ان کے کارنامے دیکھنے ہیں تو بن گراں جو ضلع باغ کے قصبہ ملوٹ مرکز سے چند منٹ کے فاصلے پر ہے جا کر دیکھ لیں سیر و سیاحت بھی ہو گی اور علم میں اضافہ بھی اس سے بھی بڑھ کر ایک اچھے انسان سے ملاقات ہو گئی جن کی آج کل کمی ہو رہی ہے اور ساتھ میں مکئی کا پراٹھا بھی کھانے کو ملے گا جو آج کل ناپید ہے۔ انتہائی نفیس و نستعلیق انسان اور بلا کا مہمان نواز، ہم جیسا بسیار خوری کا عادی نہ ہونے کے باوجود رشید زمیندار کے وسیع و عریض دسترخوان پر رکھے درجن ایٹم میں سے مکئی کا ایک مکمل پراٹھا کھا کر اٹھا جس کی لذت آج تک موجود ہے۔ محترم پروفیسر ریاض اصغر ملوٹی کے گھر دعوت طعام کا انتظام نہ ہوتا دوچار مکئی کے پراٹھے تو اڑا ہی لیتا، شرم حضوری نے ہمت نہ ہونے دی ورنہ ایک دو پراٹھے تو باندھ جا سکتے تھے جو سفر میں کام آتے۔ سردار رشید خان چغتائی، رشید زمیندار کے نام سے شہرت رکھتے ہیں لیکن میں چوں کہ نیو سندھی ہوں اس لیے زمیندار کا لفظ اچھا نہیں لگتا ۔ہمارے سندھ میں زمیندار کا سندھی ترجمہ وڈیرہ ہے جو غریبوں پر مظالم کی استطلاع ہے۔ مجھے سردار رشید چغتائی صاحب کے نام کے ساتھ کسان کا لفظ اچھا لگتا ہے۔۔ کسان، مٹی کو سونا بناتا ہے۔بنجر زمین کو سرسبز بناتا ہے ۔ کسان پکا سچا مومن ہوتا ہے۔ حق حلال کی روزی روٹی کماتا ہے وہ صبح آذان کے وقت اٹھتا ہے اور سورج ڈھلنے تک اپنی فصل کی پرورش کرنے میں لگا رہتا ہے وہ اپنی فصل کو ہمیشہ بہتر سے بہتر رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ دنیا بھر میں کسان کا بڑا رتبہ ہے۔ گندم سے دال تک پیدا کرنے کا وسیلا اللہ تعالی نے کسان کو ہی بنایا ہے۔ سردار رشید کئی سال سے یہی کام کر رہے ہیں ۔ آزاد کشمیر کے مثالی کسان سردار رشید خان چغتائی کے صاحب زادے عبید احمد چغتائی نے ” محنت کے رنگ” نام سے کتاب شائع کی ہے۔ جس میں اپنے خاندان اور رشید صاحب کے بارے میں تفصیل لکھی گئی ہے جب کہ ان کا ایک صاحب زادہ، سردار افتخار رشید چغتائی علاقے کے نامور سیاسی کارکن ہیں، اللہ تعالی اس خان دان کو سلامت اور صدیق چغتائی کی بخشش فرمائے۔ آمین ۔
===========================================