جانوروں سے خالی، چھوٹا گلہ چڑیا گھر، بچوں کے ساتھ دھوکہ ہے۔۔

سچ تو یہ ہے،
============

بشیر سدوزئی،
================
ہمیشہ کی طرح آج بھی دل و دماغ میں یہ چبھن باقی ہے کہ اردو زبان میں Zoo کا ترجمہ چڑیا گھر کب، کیسے اور کس نے کیا۔ وائلڈ لائف پارک میں تو مختلف انواع و اقسام کے جانور رکھے جاتے ہیں سوائے چڑیا کے ،اس کے باوجود ان پارکوں کو چڑیا گھر کہا جانا سمجھ سے بالا تر ہے ۔ میں جب کراچی چڑیا گھر کا ڈائریکٹر تعینات ہوا تو اس پر بہت تحقیق کی لیکن کچھ اتہ پتہ نہیں چلا نہ کوئی سوراخ ملا کہ زولیجیکل گارڈن کو چڑیا گھر کیوں اور پہلی مرتبہ کب کہا گیا۔ پھر قیاس کیا کہ zoo کے تین مقاصد بیان کیے گئے ہیں، جانوروں کی نسل کو محفوظ رکھنا،


تعلیم اور تفریح۔ ممکن ہے دوسری ضرورت، یعنی تعلیمی مقاصد کو پورا کرنے کی غرض سے اہل اردو نے بچوں کی توجہ حاصل کرنے کی خاطر جنگلی جانوروں کے پارک کا نام چڑیا گھر رکھا ہو، ورنہ جنگلی حیات پارک کے نام پر بچے اس تعداد میں نہ آتے جو چڑیا گھر کے نام پر بے قرار ہوتے ہیں۔وائلڈ لائف فیڈریشن( ڈبلیو، ڈبلیو ایف) والے ان پارکوں کو بند کرانے کے در پہ ہیں جن کا موقف ہے کہ لوہے کی

سلاخوں کے پیچھے مجرم انسانوں کو تو قید کیا جا سکتا ہے، بے زبان جانوروں کو نہیں جن سے کوئی گناہ سرزد نہیں ہوتا۔ انیمل رائٹس آرگنائزیشنز اس موقف کو سامنے رکھ کر احتجاج تو کر رہی ہیں، لیکن پہلی دو وجوہات کی بنا پر زو کے حمایتی دنیا بھر میں


اور خاص طور پر ترقی یافتہ معاشرے میں جہاں حقوق کا بڑا خیال رکھا جاتا ہے، Zoo قائم اور جنگلی حیات قید کئے جاتے ہیں اور قائم کئے جاتے رہیں گے ۔ ان کا موقف ہے کہ زو کا قیام جانوروں کو قید کرنے کے لیے نہیں بلکہ ایسے جانوروں کی زندگیوں کو محفوظ اور نسل بڑھانے کے لیے ہے جن کی نسل محدود اور نایاب ہوتی جاتی ہے۔ ڈائنو سارز کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہ جنگل کی سب سے بڑی چھپکلی 144 ملین برس دنیا میں رہنے کے بعد ختم ہو گئی ۔ اس کو زو میں رکھا کر نسل محفوظ اور اس میں اضافہ کیا ہوتا تو آج بنی نو انسان اس کی صورت صرف تصویر میں نہیں چڑیا گھر میں دیکھ رہا ہوتا۔ چڑیا گھر میں جانوروں کی صحت، نسل اور فطرت کے بارے میں بچوں کو معلومات فراہم کی جاتی ہے تاکہ وائلڈ لائف کے ساتھ فرنڈلی ماحول پیدا ہو اور انسان بے زبان مخلوق کو اپنا دشمن نہیں دوست سمجھے ۔ جب کہ زو میں دیگر سہولیات سے تفریح مقاصد بھی پورے ہوتے ہیں۔ دنیا کے ترقی یافتہ معاشرے کے زو میں یہ خدمات کما حقہ انجام دی جا رہی ہیں۔ پاکستان میں، کراچی، لاہور، پہاولپور، اور اسلام آباد میں بڑے زو قائم ہوئے،


کراچی زو میں وہ ماحول ہی نہیں جہاں جانور بچے دے سکیں، تاکہ اس کی نسل محفوظ کی جائے، جب کہ اسلام آباد میں انتظامیہ کی غفلت اور حکومت کی نالائقی سے بیمار ہاتھی میاں کو جس شاہی پروٹوکول کے ساتھ خصوصی طیارے میں افریکا کے جنگلات میں اس کے ساتھیوں کے جھنڈ میں لے جا کر چھوڑا گیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اسلام آباد کی قید سے رہاہی کے بعد ہاتھی کو جس قدر خوش دیکھا، کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ انسان کتنا لالچی ہے کہ وہ اس قید سے رہائی کے بعد خوش نہیں ہوتا الٹا چیختا ہے کہ مجھے کیوں نکالا، جب کہ ہاتھی خوش ہے کہ مجھے نکالا گیا اس قید خانے سے جہاں خوراک ملے نہ کوئی دوست ۔ آزاد کشمیر میں نیشنل پارک تو کافی سارے ہیں لیکن میرے علم میں یہ نہیں کہ چڑیا گھر کہاں، کہاں ہیں ،البتہ راولاکوٹ کے نواح چھوٹا گلہ کی بلند پہاڑی پر چڑیا گھر کے نام سے تعمیر کردہ پارک پہلے دو مقاصد کو پورا نہیں کرتا۔ جانوروں کے بغیر یہ مقاصد پورے بھی نہیں ہوتے ،

یعنی نسل کی حفاظت اور تعلیم ۔ جانوروں کے بغیر، یا چند مرغیوں اور دوچار بندروں کو پنجرے میں بند کر کے کسی پارک کا نام چڑیا گھر رکھنا بچوں کے ساتھ سراسر فراڈ اور دھوکہ ہے۔ چھوٹا گلہ کہ بلند پہاڑی پر ایسا ہی ہو رہا ہے۔ چڑیا گھر دیکھنے کے شوقین، وہاں جانے والے بچے خوشی خوشی جنگلات کا سفر طےکر کے بلند و بالا پہاڑ پر پہنچتے ہیں تو وہاں جانوروں کے بجائے جھولوں سے دل بھلا کر وآپس لوٹتے ہیں، البتہ وہ بچے جو جنگلات سے دور رہتے ہیں پنجرے میں بند دو عدد بندر اور چار بندر کے بچوں کو اٹکلیاں کرتے دیکھ کر ممکن ہے خوش ہوتے ہوں۔ جنگلات کے قریب رہنے والے اس مخلوق کی کارستانیوں سے خوب واقف ہیں جن کے غول کے غول فصلوں اور فروٹ پر اس قدر ٹوٹتے ہیں کہ اللہ کی پناہ ۔ چھوٹا گلہ چڑیا گھر کے بندر جتنے بھی ہیں


انسان دوست ہیں یا بھوکے، آپ کے ہاتھ سے فروٹ لے کر کھانے میں بڑا فخر محسوس کرتے ہیں، بندر کے بچے درختوں پر چڑتے اترتے کرتب دیکھاتے اور پھر خوراک کا مطالبہ کرتے ہیں اگر ان کو کچھ کھانے کو نہ دیا تو روٹھ کر پنجرے میں چلے جاتے ہیں۔ میرے تجربہ نے اندازہ لگایا کہ انتظامیہ کے پاس ان کے کھانے کا میزانیہ ہی نہیں، اگر ہے تو اس پر ہاتھ صاف کئے جا رہے ہیں بندر کے بچے سیاحوں کی رحم و کرم پر جن کی محدود تعداد ہے۔۔ ایک عدد جنگلی مرغی، دو جوڑے، مور اور دو جوڑے کبوتر نما کوئی پرندہ چھوٹا گلہ زو کی کل کائنات یا جنگلی حیات ہے۔ بلا اس مخلوق مخصوصہ کو دیکھنے دور، دور سے بچوں کو بلانا زیادتی نہیں تو اور کیا ہے۔ یہ کہنا کہ ریاست کے پاس مالی کمی یا معاشی تنگی ہے اس وجہ سے جانور نہیں خریدے جا سکتے بلا جواز ہے۔ سارا قصہ انتظامی افسران کی عدم دلچسپی، نالائقی یا ویژن کی کمی کا ہے ۔


اس سے بھی زیادہ عوام کی لاشعوری ہے جو سب کے سب سیاسی ہیں ۔ جس بھی سیاسی جماعت کی حکومت ہو اس کی مخالف جماعت کے اراکین حکومت پر تنقید تو ضرور کرتے ہیں لیکن تعمیری مشورہ نہیں دیتے ۔ اس تنقید میں نہ لاجک ہوتی ہے نہ کوئی جواز اور نہ دلیل نہ مقصد، تنقید کی ایک ہی وجہ ہوتی ہے کہ حکومت مخالف پارٹی کی ہے ۔ جب کہ حکومتی جماعت کے اراکین اپنی جماعت کے ہر کام کی حمایت کرتے ہیں چاہیے وہ اسمبلی کے اندر ممبران اپنی تنخواہوں میں اضافہ کرتے رہیں یا پارلیمانی جمہوریت میں نئی مثال قائم کرنے کے لیے ممبران اسمبلی کی پنشن کا بل پاس کریں ۔ من پسند افراد کو ملازمتیں دینے کے لیے نئے ، نئے محکمہ قائم کریں یا انتظامی دفاتر۔ راولپنڈی ڈویژن سے کم آبادی اور رقبہ پر مشتمل آزاد کشمیر میں 10 اضلاع قائم کئے گئے ہیں، 1947ء میں جہاں ایک کمیشنر تین ڈپٹی کمیشنر تھے، آج تین کمیشنر، دس ڈپٹی کمیشنر اور ان کے ماتحت افسران اور اہلکاروں کی ایک فوج ظفر موج ہے۔ جس معاشرے میں گریڈ 17 کا اسسٹنٹ کمیشنر 80 لاکھ کی ڈبل کیبن میں گھومتا ہو وہاں کے حاکم اعلی کی کیا موج ہو گی۔ چھوٹا گلہ زو میں 12 جانوروں کی دیکھ بحال کے لیے 12 افراد تعینات ہیں، جن کی تنخواہیں لاکھوں میں ہوں گی لیکن زو کی جانب جانے والی سڑک کی حالت زار پر کیا لکھا جائے ایک الگ کالم کی ضرورت ہے ۔ گھائی گلہ سے بن جونسہ جھیل جاتے ہوئے چھوٹا گلہ بازار کے چوک سے داہیں مڑتے ہی آپ کو نئی منزل کا سفر محسوس ہونے لگتا ہے۔ انتہائی خستہ حال سڑک بھی ہو اور چڑھائی بھی تو گاڑی کا مضبوط ہونا شرط ہے۔ کمزور یا نازک گاڑی لے کر چھوٹا گلہ زو دیکھنے کا شوق پالنا موت کے منہ


میں جانے کے مترادف ہے۔ مانا کہ سڑک کی تعمیر کے لیے وافر مقدار میں فنڈ چاہیے استرکاری تو کمیشنر، ڈپنی کمیشنر کی صوابدیدی فنڈ سے بھی ہو سکتی ہے اگر صوابدیدی فنڈ نہ ہوں تو حکومت کے نوٹس میں لایا جا سکتا ہے۔لیکن یہ سب توجہ اور دلچسپی کی مظہر ہے،اگر سیاحوں کی سہولت کے لیے وقفے وقفے سے چھوٹے، چھوٹے بورڈ ہی نصب کر دئیے جائیں تو اس کے لیے کون سا بھاری بھرگم بجٹ چاہیے ۔ کسی بزنس میں سے رابطہ کر کے اس کے تشہیری بورڈ کے ساتھ بھی یہ کام ہو سکتا۔ اس کام کے لیے بہت زیادہ اختیارات کی بھی ضرورت نہیں، سماجی کارکن یا سول سوسائٹی کا کوئی نمائندہ بھی یہ کار خیر انجام دے سکتا ہے لیکن بدقسمتی سے اس علاقے میں نہ سول سوسائٹی ہے نہ سماجی کارکن، سب سیاسی اور مطلبی ہیں۔ اس لیے عوامی فلاح و بہبود کے کاموں پر کوئی توجہ نہیں دیتا۔ بلاشبہ پارک کا ڈیزائن اور تعمیرات تو بہتر ہیں اور جولے بھی اچھے۔ پارک میں پہنچتے ہی سب سے پہلے پارکنگ سے واسطہ پڑتا ہے ۔ جو کرب اسٹون سے مزائین ہے۔ صدر دروازہ خوبصورت ہے، داخل ہونے کے بعد نیا ماحول میں داخل ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ پتھروں سے تعمیر راداریاں بہت خوبصورت ہیں اور سیاحوں کو بیٹھنے کے بنچ بھی ۔ لیکن جس نام سے بچوں کو بلایا جاتا ہے وہ سب کچھ وہاں نہیں، یعنی بہترین تفریحی گاہ تو ہے لیکن چڑیا گھر نہیں اس کے لیے بہت زیادہ رقم کی ضرورت نہیں جذبہ کام کی ضرورت ہے ۔ جس ریاست میں 24 ارب خرچ کرنے کے لیے ایک سو پندرہ ارب مختص کیے جاتے ہوں، ایسی جمہوریت پر تف، جہاں کےحکمران خوش حال اور جمہور بد حال ہیں ۔ اکبر الہ آبادی نے کیا خوب کہا ۔
============================================================