دنیا میں پاکستانی چاول کی ڈیمانڈ ، کوالٹی اور فوڈ سیفٹی قوانین کے تناظر میں پاکستان ایگریکلچر ریسرچ کونسل کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ذاکر حسین ڈاھری سے وحید جنگ کی جیوے پاکستان کے لئے خصوصی گفتگو ۔


دنیا بھر میں چاول ایک بڑی مرغوب غذا ہے دنیا کی آدھی آبادی کا انحصار چاول جیسی غذاؤں پر ہے پاکستان ان پانچ بڑے ملکوں میں شامل ہے جو چاول ایکسپورٹ کرتے ہیں ہر سال چار ملین ٹن چاول ایکسپورٹ کرکے پاکستان 1.9 ارب ڈالر کما رہا ہے لیکن دنیا بھر کی چاول ایکسپورٹ میں پاکستان کا حصہ بمشکل دس فیصد ہے اسے بڑھانے کی بہت ضرورت ہے لیکن اس کے لیے عالمی قوانین کو سمجھنا اور عالمی مانگ پر نظر رکھنا ضروری ہے دنیا بھر میں فوڈ سیفٹی ایک گلوبل ایشو ہے اور اس کے ساتھ پبلک ہیلتھ اور انٹرنیشنل ٹریڈ کے مسائل جڑے ہوئے ہیں ترقی یافتہ ملکوں نے صارفین تک پہنچنے والی کھانے پینے کی اشیاء کے حوالے سے فوڈ سیفٹی قوانین اور پالیسیاں بنا رکھی ہیں جن پر عمل درآمد ہر گزرنے والے دن کے ساتھ سختی سے کرایا جارہا ہے جب کہ ترقی پذیر ملکوں میں ابھی ان کی تیاریوں کا مرحلہ چل رہا ہے ۔


کراچی میں 14 اور 15 جون کو دو روزہ کانفرنس منعقد کی گئی جس کا موضوع کانفرنس اینڈ ٹریننگ ورکشاپ آن فوڈ سیفٹی اینڈ کوالٹی آف رائس ۔۔۔تک آ گیا تھا اور اس کا انعقاد محمد علی جوہر یونیورسٹی MAJU نے PARC- SARC کے اشتراک سے کیا ۔ اسی حوالے سے پاکستان ایگریکلچر ریسرچ کونسل کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ذاکر حسین ڈائری نے جیوے پاکستان کے لئے وہ جنگ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کانفرنس اور ٹریننگ ورکشاپ کی ضرورت اہمیت اور افادیت پر روشنی ڈالی اس کے اغراض و مقاصد اور پس منظر کو بیان کیا اور بتایا کہ کس طریقے سے عالمی سطح پر فوڈ سیفٹی کے امور پر توجہ دی جا رہی ہے اور اب وہ ہمیں بھی اس پر فوکس کرنے کی ضرورت ہے انہوں نے بتایا کہ سچی بات ہے ابھی تک ڈویلپنگ ملکوں کے لیے


کوالٹی ایک مسئلہ نہیں رہا ان کی زیادہ تر وجہ بزنس پر ہوتی ہے لیکن اب ایکسپورٹ کرنے والوں کو مختلف قوانین اور معیار کا خیال رکھنا پڑتا ہے انہوں نے بتایا کہ یونیورسٹی کے اندر ہونے والے اس دو روزہ ورکشاپ اور کانفرنس کو کافی اہمیت حاصل ہے اس کے دوران 30 سے 35 اسپیکر نے اپنے تجربات سے لوگوں کو آگاہی دی آن لائن بھی ایکسپرٹ شریک ہوئے پہلے سیشن میں اسٹیک ہولڈرز کو رکھا گیا تھا اس کے بعد ٹیکنیکل سیشن تھا جس میں کوالٹی پر زیادہ بات کی گئی ۔ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ پاکستان میں لوگ مسلمان ہونے کی حیثیت سے پرہیزگار تو ہیں لیکن یہاں پر


ملاوٹ کی شکایت بہت زیادہ ہے بعض شعبوں میں کہا جاتا ہے کہ یہ قوم ڈنڈے کے بغیر نہیں چلے گی ان کے ساتھ سختی کرنی پڑتی ہے ۔دنیا بھر میں کسی بھی چیز کو ایکسپورٹ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی کوالٹی پر کمپرومائز نہ کیا جائے اگر کوالٹی اچھی ہوگی تو یقینی طور پر دنیا بھر میں آپ کی پروڈکٹ کی مانگ بڑھے گی۔ اس حوالے سے شعور اور آگاہی کو فروغ دینے کی ضرورت ہے اس کانفرنس میں بائیو سائنس


کے طلبہ کو بھی اچھی پاتے سیکھنے کا موقع ملا ہے یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور پروفیسر اور اچھے ایکسپرٹس نے نے اپنے پیپرز پڑے اور اپنے تجربات سے آگاہی دی اپنے تجربات سے آگاہی دی۔ مجموعی طور پر یہ کامیاب ورکشاپ اور کانفرنس تھی ۔
=================================