رضا ربانی کی مایوسی


ڈاکٹر توصیف احمد خان
====================

آئین کے تحت قائم منتخب پارلیمنٹ کی ریاستی اداروں پر بالادستی محض ایک نظریہ ہے۔ پیپلزپارٹی کے سینیئر رہنما رضا ربانی نے سینیٹ میں اپنے پانچ آئینی بلوں کو واپس لینے کے موقع پر کہا کہ پاکستان میں آئین اور آئین کے تحت قائم ادارے حملوں کی زد میں ہیں۔ پیپلز پارٹی موجودہ مخلوط حکومت میں شامل ہے۔

رضا ربانی نے عمران خان کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی میں بھر پور کردار ادا کیا ۔ سینیٹ میں حکمراں جماعت کی اکثریت کے باوجود رضا ربانی تنہا نظر آرہے ہیں اور بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ سے متعلق قانون سازی کی ان کی کوشش ان پانچ بلوں کو چیئرمین سینیٹ نے ایوان میں بحث کے لیے پیش کرنے کی اجازت نہیں دی تھی۔


رضا ربانی نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ پارلیمنٹ کو 1973 کے آئین کی بقاء اور آئین کے تحت قائم اداروں کے تحفظ کے لیے متحدہ ہوجانا چاہیے۔ سابق وزیر اطلاعات پرویز رشید نے بھی رضا ربانی کے خیالات سے متفق ہیں۔ پیپلز پارٹی کے ایک اور سابق سینیٹر فرحت اﷲ بابر کا بیانیہ بھی یہ ہے۔
سابق وزیر اعظم عمران خان نے حالیہ انٹرویو میں بتایا ہے کہ ان کی ذمے داریاں تو بہت تھیں مگر اختیارات نہیں تھے۔ عمران خان پر یہ حقیقت آشکار ہوئی مگر پھر بھی نیوٹرل اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ دوبارہ اقتدار میں آنے کے لیے راہ ہموار کرے۔ رضا ربانی ، پرویز رشید ، فرحت اﷲ بابر اور عمران خان کے بیانات کے تجزیہ کے لیے تاریخ سے ہی مدد مل سکتی ہے۔


پاکستان ایک سیاسی جدوجہد کے نتیجہ میں قائم ہوا تھا اور اس وقت دنیا کا پہلا ملک تھا جس کا قیام ووٹ کے ذریعہ ہوا تھا۔ بانی پاکستان صرف قانونی جدوجہد پر یقین رکھتے تھے، عسکری جدوجہد ان کے تصور میں نہیں تھی۔ بیرسٹر محمد علی جناح نے جون 1948ء میں اسٹاف کالج کوئٹہ کا دورہ کیا تھا اور فوجی افسروں سے اپنے خطاب میں ان کے حلف نامہ کا ذکرکیا تھا۔

بیرسٹر محمد علی جناح نے اپنی اس اساسی تقریر میں واضح کیا تھا کہ مسلح افواج کا بنیادی فریضہ حکومت کی اطاعت ہے مگر بیرسٹر محمد علی جناح کے انتقال کے بعد ملکی معاملات میں بیوروکریسی کا کردار بڑھنے لگا۔ چوہدری محمد علی اور ملک غلام محمد کا پس منظر انگریز کی قائم کردہ بیوروکریسی سے تھا، پھر ان کی مدد کے لیے فوج کے اس وقت کے سربراہ جنرل ایوب خان موجود تھے جن کے بارے میں بیرسٹر محمد علی جناح کے قریبی معاونین لکھتے ہیں کہ جناح صاحب ایوب خان کو پسند نہیں کرتے تھے، یوں پہلے بنگالی وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کی برطرفی سے اس ملک کے مقدر میں بگاڑ پیدا ہوا۔ چوہدری محمد علی اور ملک غلام محمد کے ساتھ بنگال سے تعلق رکھنے والے بیوروکریٹ اسکندر مرزا کا کردار بڑھنے لگا۔

غلام محمد کی معزولی کے بعد اسکندر مرزا طاقتور شخصیت کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔ پنجاب، سندھ اور خیبر پختون خوا کے سیاست دان اس بیوروکریسی کے مہرے بنے ہوئے تھے۔ اسکندر مرزا نے ملک میں مارشل لاء نافذ کیا اور جنرل ایوب خان کو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا لیکن اس کا پہلا شکار تو اسکندر مرزا خود ہوئے اور ملک ایک ایسے سیاہ دور میں داخل ہوا کہ 16 دسمبر 1971 کو ڈھاکا کے ریس کورس گراؤنڈ میں جنرل اے اے کے نیازی نے اپنا پستول جنرل اروڑا کے حوالے کیا اور پاکستان تقسیم ہوگیا۔

بعض ناقدین جنرل ایوب خان کے ترقی کے دس سالہ دور کا ذکر کرتے ہیں مگر یہ ترقی صرف کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں ہوئی۔ ملک کا مشرقی پاکستان ، بلوچستان ، سندھ ، خیبر پختون خوا اور پنجاب ترقی کے ثمر سے محروم رہے۔ 1973میں پہلی دفعہ منتخب اراکین نے 1973 کا آئین تیار کیا۔ اس آئین پر سیکولر اور مذہبی جماعتیں متفق ہوئیں اور آج تک تمام تر ترامیم کے باوجود یہ متفقہ دستاویز ہے۔ مگر پھر جنرل ضیاء الحق نے 5 جولائی 1977 کو آئین معطل کیا اور ایک سیاہ رات شروع ہوئی۔ جنرل ضیاء الحق امریکا کی ایماء پر افغانستان کے پروجیکٹ میں ملوث ہوئے اور آج 42 سال گزرنے کے باوجود یہ ملک افغانستان کے حالات سے متاثر ہے۔

1980 سے 1999 تک پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومتیں تھیں مگر یہ حکومتیں اپنی آئینی عمر مکمل نہ کرسکیں۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن پر کرپشن کا لاحقہ چپک گیا۔ 1999 میں جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف حکومت کو برطرف کیا اور ایک ہائبرڈ نظام کا تجربہ ہوا مگر نئے تضادات کا شکار ہوا۔

دہشت گردی کی جنگ کے ساتھ بلوچستان میں بغاوت سرائیت کرگئی۔ اگرچہ بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے درمیان میثاق جمہوریت پر اتفاق کی بناء پر تاریخ میں پہلی دفعہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومتوں نے اپنی آئینی مدت پوری کی مگر دونوں حکومتوں کے پہلے وزیر اعظم عدالتی فیصلوں کا شکار ہوئے ، مگر تاریخ میں پہلی دفعہ 2013 میں اقتدار آئینی طور پر منتقل ہوا اور عمران خان کی حکومت کی شکل میں ہائبرڈ نظام قائم ہوا۔


عمران خان ، شیخ رشید اور فواد چوہدری ہر دوسرے روز یہ نعرے بلند کرتے رہے کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک صفحہ پر ہیں مگر عمران خان اور ان کے قریبی ساتھیوں کے انتہا پسندانہ نظریہ کی بناء پر ملک عالمی تنہائی کا شکار ہوا۔ پاکستان کے پرانے دوست سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات بھارت کے تجارتی پارٹنر بن گئے۔

ایشیا اور مشرق بعید کی اقوام متحدہ کی فنانشنل ٹاسک فورس نے پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کیا اور نئی اقتصادی پابندیاں عائد ہوئیں۔ ان پابندیوں سے بینکنگ کی صنعت متاثر ہوئی اور غیر رسمی معیشت کمزور ہونے سے ملک معاشی بحران کا شکار ہوا۔ روپے کی قدر میں کمی ہوئی اور مہنگائی کے بحران کا آغاز ہوا۔

پیپلز پارٹی، مسلم لیگ اور جمعیت علماء اسلام کے اکابرین نے قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک پیش کی تو عمران خان نے اس کو امریکا کی سازش کا نام دے دیا اور اسٹیبلشمنٹ کو مدد کے لیے پکارا لیکن عمران خان کو پارلیمان کی اکثریت کی حمایت نہیں رہی تھی، ان کی اپنی پارٹی کے ایم این ایز ان کے خلاف ہوچکے تھے، اب عمران خان شکوہ کرتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ ان کی مدد کو نہیں آتی اور ملک کے تین حصے ہونے کی وارننگ جاری کررہے ہیں۔ عمران خان نے اپنے دورِ اقتدار میں کئی دفعہ یہ انکشاف کیا کہ روپے کی قیمت کم کرنے کے علاوہ ان کی حکومت کے کئی اہم فیصلوں کا انھیں بھی علم ٹی وی چینلز کے ذریعہ ہوا تھا۔

معروف سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ایک دفعہ پھر ہائبرڈ نظام کا تجربہ ناکام ہوا۔ یہ حقیقت ہے کہ سویلین کے لیے Space کم ہورہی ہے۔ اسلام آباد میں سابق فوجی افسروں کا جنرل باجوہ سے نئے انتخابات کرانے کا مطالبہ اور ان کے خلاف تادیبی کارروائی نہ ہونا اس کی تازہ ترین مثال ہے۔

وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ سابقہ حکومت کو جتنی حمایت اسٹیبلشمنٹ کی ملی ہے اگر اس سے آدھی بھی ان کی حکومت کو مل جاتی تو ملک راکٹ کی طرح ترقی کرتا۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے گزشتہ ہفتہ تمام اسٹیک ہولڈرز کے درمیان مذاکرات کی تجویز پیش کی ۔ اگرچہ تحریک انصاف نے اس تجویز کو مسترد کردیا مگر غیر جانبداری سے حقائق کا جائزہ لیتے ہوئے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ 1973 کے آئین کے دائرہ میں تمام اسٹیک ہولڈرز کے درمیان مذاکرات ہونے چاہئیں ، اس طرح رضا ربانی کا مایوسی ختم ہوگی۔

================================
https://www.express.pk/story/2335831/268/

=========================