معاشرہ کا مجبور اور بے بس طبقہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خواجہ سرا

معاشرہ کا مجبور اور بے بس طبقہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خواجہ سرا / خسرے / ہیجڑے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر ۔۔شہزاد بھٹہ
===========================

خواجہ سرا (transgender) ہمارے معاشرے کا وہ بدقسمت حصہ/ طبقہ ھے جن کو آج تک کسی نے قبول نہیں اور نہ ھی آج تک ان کو بنیادی حقوق بھی مل سکے ھمارے معاشرے میں عام طور پر ان کو خسرے،ہیجڑے، شی میل ،میک اپ کرتے ، گھنگرو پہن کر ناچتے یا سیکس ورکر کے طور پر پیش کیا جاتا ھے۔
ہیجڑے سے مراد تیسری صنف یا جنوبی ایشیا میں خواجہ سراؤں کا وہ حصہ ہے جو اپنے آپ کو صنف زنانہ تصور کرتے ہیں اور جسمانی طور پر بظاہر مردانہ، زنانہ یا مخلوط ہوتے ہیں-


شادی بیاہ یا کسی اور خوشی کے مواقع پر ڈانس گانے پیش کرکے اپنے پیٹ کی بھوک مٹالیتے ھیں ھر کوئی ان کو مذاق اور نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ھیں ۔پاکستان میں چند این جی اوز اور افراد خواجہ سراؤں کی فلاح وبہبود کے لیے کام کر رھے ھیں۔۔
کچھ عرصہ پہلے سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی خواجہ سراؤں کے لیے چند فیصلے کیے جن کی روشنی میں پاکستان میں پہلی بار چھٹی مردم شماری میں خواجہ سراوں کو شامل کیا گیا ۔خصوصی افراد اور خواجہ سراوں کے لیے الگ سے کوڈ مقرر کیا گیا جس سے پاکستان میں خواجہ سراوں کی تعداد کے بارے معلوم ھو سکا ھے


جس کے مطابق پاکستان میں تقربیا دس ھزار سے زائد خواجہ سراوں موجود ھیں سب سے زیادہ خواجہ سرا پنجاب میں موجود ھیں جن کی تعداد چھ ھزار سے زیادہ ھے جو خواجہ سراوں کی کل تعداد کا 64.4 بنتی ھے
۔سندھ میں 2 ہزار پانچ سو ستائیں
کے پی کے میں 913
اور بلوچستان میں 109 خواجہ سرا موجود ھیں
۔قومی ڈیٹا کے مطابق شہری علاقوں میں 7651 اور دیہی علاقوں میں 2767 خواجہ سراوں کی تعداد ھے ۔۔


تاریخ میں پہلی دفعہ حضرت خواجہ غریب نواز نے ہجڑوں کے لیے خواجہ سرا کے الفاظ استعمال کئے تھے تاکہ ان کو بھی معاشرے میں عزت و احترام مل سکے۔۔
لاھور کی سڑکوں اور تقریباً ھر اشارے پر چھ سے سات خواجہ سرائے ( ہیجڑے) رنگ بھرنگ کپڑے پہن کو بھیک مانگتے دیکھتے ہیں جو سارا دن خاص طور پر شام میں مختلف چوک پر کھڑے رہتے ہیں ھر آنے جانے والی گاڑی سوار سے پیسے مانگتے ہیں
مشاہدہ کے مطابق ان میں اکثر دو نمبر خواجہ سرا ھوتے ہیں جن میں ایسے عام بےکار نوجوان کی اکثریت ھے جو خواجہ سراؤں کا روپ ڈھال کر بھیک مانگتے نظر آتے ہیں بلکہ یہ ایک مافیا بن چکا ھے


لہذا حکومت کو چاہئے کہ فوری طور پر خواجہ سراوں کو خصوصی افراد کے برابر قرار دے کر ھر ضلعی سطح پر ان کے لیے الگ سے رھائشی تعلیمی ادارے قائم کرے جہاں پر ان کو عام تعلیم کے ساتھ ساتھ مختلف ہنرز کی فنی و ٹیکنیکل تربیت دی جائے ہوسٹل میں مخیر حضرات کی طرف سے تمام خواجہ سراوں کو روزانہ کی بنیاد پر فری کھانے پینے کا انتظام ھونا چاھیے ۔
خواجہ سراوں کو معاشرہ کا اسپیشل پرسن قرار دے کر وہ تمام سہولیات فراہم کی جائیں جو قانونی طور پر دیگر تمام افراد کو حاصل ہیں
خواجہ سرا بچوں / افراد کے لیے الگ سے تعلیمی اداروں قائم کی جائیں جہاں پر تعلیم کے ساتھ ساتھ عملی اور فنی تربیت کا اہتمام کیا جائے تاکہ ھمارے معاشرے کے یہ ٹھکرائے ھوئے یہ افراد بھی دیگر لوگوں کی طرح ملک و قوم کی خدمت کرنے کے ساتھ ساتھ معاشرہ کے لئے مفید شہری ثابت ھو سکیں۔
سرکاری و نجی سطح پر خواجہ سراوں کو دینی و مذہبی تعلیم دینے کے لیے الگ سے مدرسہ قائم کیے جائیں۔۔۔


سابقہ حکومت نے پناہ گاہ کے نام سے ایک پراجیکٹ بنایا ھے جس کے تحت ھر شہر میں پناہ گاھیں بنائی گئی ھیں وہ عام طور پر خالی پڑی رہتی ھیں ۔ان تمام پناہ گاھوں کو خواجہ سراوں کے لیے مختص کر دیا جائے جہاں پر ایسے لوگ رھیں اور ان کو سرکار یا مخیر افراد کی طرف سے تین وقت کا کھانا فراھم کرنا چاھیے ۔
ٹیوٹا اور پنجاب ووکیشنل ٹریننگ کونسل خواجہ سراؤں کے باقاعدہ ٹریننگ کورسز کا اہتمام کرے


جہاں مختلف ووکیشنل ٹریڈ کی تربیت دی جائے ووکیشنل ٹریننگ کے بعد حکومت کو چاہیے کہ ان خواجہ سراوں کے لیے مناسب روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں۔ان کو مختلف فیکٹریوں میں جاب دی جائیں اس کے علاؤہ اپنا کاروبار شروع کرنے کے لیے اسان قسطوں پر قرضہ دیا جائے تاکہ معاشرے کے یہ لوگ بھی اپنے لیے اور اپنے گھروں کے لیے باعزت روزگار حاصل کر سکیں ۔بھیک اور جسم فروشی جیسی لعنت سے چھٹکارا حاصل کر سکیں ۔
۔ضرورت اس امر کی ھے کہ خواجہ سراوں کی تعلیم و تربیت اور بحالی کے لیے حکومتی لیول پر ٹھوس بنیادوں پر کام کیا جائے ۔صرف کاغذی منصوبے نہ بنائے جائیں۔۔
=============================