رانا ثناء اللہ آزاد کشمیر کے بھی وزیر داخلہ ہیں یا اس کے اثرات

سچ تو یہ ہے،

=================
بشیر سدوزئی،
=======================

عمران خان کی حقیقی آزادی مارچ کو کچلنے کے لئے وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے ریاستی طاقت کا جس بے رحیمی سے استعمال کیا، دنیا کیا پاکستان میں نام نہاد ہی سہی کسی بھی جمہوری حکومت میں اس کی مثال نہیں ملتی، مریم بی بی نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ عمران خان اسلام آباد سھنبل کر آنا اب کے بار وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نہیں رانا ثناءاللہ ہے۔ مریم کے ان الفاظ سے مسلم لیگ سے چوہدری نثار علی خان کی دوری کی وجوہات بھی سمجھ میں آتی ہیں کہ وسیع خاندانی پس منظر کا حامل چوہدری نثار علی خان بچوں سے ڈکٹیشن لینا پسند نہیں کرتا، جب کہ ” جگنو کو دن کے وقت پرکھنے کی ضد کریں ۔۔۔۔۔ بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے” ۔۔ اسی ضد نے نواز شریف کو یہ دن دیکھائے کہ اچھے خاصے وزیر اعظم کو


ڈان لیک نے یہاں تک پہنچایا کہ ” گلی گلی میں شور ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چور ہے کہ میاں دے نعرے وجن لگے۔۔۔ راجن پور کے جنگلات کی چھوٹو گینگ سے ماڈل ٹاون کے قتل عام تک شہرت پانے والوں کو چوہدری نثار علی خان کی رائے پر فوقیت کیا رنگ لائے گی ابھی نتائج آنے باقی ہیں فی الحال پہنجاب کی مختار کل جماعت کو ،” اک زرداری سب سے یاری ” کی قیمت 20 نشتوں کی ادائیگی سے چکانی پڑھے گی، حالاں کہ “جتھیں دی کھوتی اتے کھلوتی” کے مصداق ابھی بھی پاسپورٹ سمیت خود کی واپسی اور نیب مقدمات باقی ہیں وزیراعظم اور وزیر اعلی کو عدالتی نظام کے ابتدائی یونٹ میں حاضر ہو کر ضمانت میں توسیع کرانا پڑھتی ہے کسی دن جج نے تاریخ میں نام لکھوانے کا فیصلہ کر لیا اور ضمانت منسوخ کر دی تو سب سے بڑے صوبے کا وزیر اعلی اور دنیا اسلام کے اکلوتے ایمٹی ملک کا وزیر اعظم اربوں روپے کی کرپشن میں گرفتار ہو کر ورلڈ ریکارڑ کینز بک میں نام درج کرا لے گا ۔


ہاں اس یاری نے اگر کوئی فائدہ دیا تو وہ یہ کہ عمران خان سے اسلام آباد خالی اور بنی گالا اوجاڑ ہو گیا۔ رانا ثناء اللہ نے کچھ کیا ہو یا نہ لیکن عمران خان کو بتا دیا کہ پاکستان کی سیاست اور حکومت کرنا اتنا آسان نہیں جتنا باہر بیٹھ کر نظر آتا ہے ۔۔ 24 سالہ سیاست کاری میں عمران خان صرف آٹھ دن جیل میں رہا جس کا وہ بڑے فخر سے حوالا دیتا ہے ۔۔۔ سیاست میں جیل کاٹنے کا مزا آصف علی زرداری سے معلوم کیا جا سکتا ہے بلکہ ایسے سیاست دان جو نئے نئے سیاست میں آتے ہیں اور جذبات میں انقلاب بھی لاتے ہیں ان کے لیے کلاسز کا اہتمام ہونا چاہیے جہاں زرداری صاحب کا لیکچر رکھا جائے ۔اگر عمران خان بھی کچھ دن لیکچر سن لیں تو کوئی مضائقہ نہیں ۔ اس وقت پاکستان کے سیاسی رہنماؤں میں زرداری صاحب سے زیادہ تجربہ کسی کا نہیں، تعمیرات بذریعہ سیاست، معاشی ترقی بذریعہ حکومت، جیل میں بدترین تشدد برداشت کر کے بھی ملک سے نہ بھاگنا، اور ایوان صدر سے گھسیٹ کر نکالنے والوں کو رسی چھوڑ کر بھگانے اور پیٹ پھاڑ کر قومی دولت نکالنے کا نعرہ لگانے والو کے جواب میں جمہوریت بہترین انتقام ہے کا نعرہ لگانے کا تجربہ جتنا زرداری صاحب کے پاس ہے کسی دوسرے کے پاس نہیں ۔ عمران خان اب میاں صاحب کو بھاگنے کا طعنہ نہیں دے سکتا۔ خود جو بنی گالا سے پشاور بھاگ گیا،


کیا ہوتا زیادہ سے زیادہ گرفتار ہوتی، رانا ثناء اللہ کو بھی تو گرفتار کیا گیا تھا۔ خان صاحب کو اگر سیاست کرنی ہے تو زرداری اور نواز شریف سے سیاست کے کچھ پیچ و خم سیکھنے پڑیں گے ۔اب چوری، ڈگیتی، کرپشن اور ملک لوٹنے کا بیانیہ چلتا بھی ہے یا نہیں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ خان صاحب نے خود ہی قوم کو بتا دیا کہ قومی خزانہ لوٹنے کو کوئی برا نہیں سمجھتا ، لوٹنے والے بھی اور جو محافظ ہیں وہ بھی ۔ اسی لیے دن دھاڑے نیب کا یہ حشر کر دیا گیا کہ افسران انکوئری کے نام سے خوف زدہ ہو کر بھاگیں گے اگر کسی کی تعیناتی ہو بھی گئی تو رشوت دے کر تبادلہ کرائے گا ،خواہ بیگم کے مہر کا زیور ہی بیچنا پڑھے، لیکن قومی دولت لوٹنے والے کے خلاف انکوائری نہیں کرے گا۔ ان لوگوں کے خلاف انکوئری کرنے کا مقصد یہ ہوا کہ اس نے جیل جانے کا خود ہی فیصلہ کر لیا۔ وجوہات کچھ بھی ہوں ملک میں آج جو کچھ ہو رہا ہے اس میں خان صاحب کی ناکامی کا


خاصا عمل دخل ہے۔ چوہدری پرویز الہی نے یہ صاف صاف بتا بھی دیا کہ ۔ آحسان فراموشی کی سزا تو ملتی ہے۔ اس جرم کی معافی کب ملتی ہے خان صاحب کے مزاج کو سمجھنے والے اس کے بارے میں کوئی پیشن گوئی نہیں کر سکتے، تب ہی مریم اورنگ زیب نے کہا کہ چھ دن کیا چھ صدیاں بھی اسلام آباد آنے کا نہیں سوچ سکتے۔ جب تک رانا ثناء اللہ وزیر داخلہ ہے اسلام آباد آنے کا سوچنے سے پہلے عمر ایوب سے مشورہ کرنا لازم ہے۔ حقیقی آزادی مارچ کے دوران ملک کے اول اور آخر فیلڈ مارشل کی روح ضرور تڑپی ہوئی ہو گی جب اس کے پوتے کی سیاست کے چودہ طبق روشن ہوئے بلکہ گوہر ایوب نے بھی سیاست سے توبہ کی ہو گی۔ یہ فن رانا ثناء اللہ ہی جانتا ہے جس نے بڑے میاں صاحب کو یقین دلایا تھا کہ ” تیس شہباز شریف نوں سمجاو وچ ٹنک نہ اڑائے باقی اینا نو میں ویکھ لیاں گا”۔ رانا ثناء اللہ پاکستان کے وزیر داخلہ ہیں لیکن آزاد کشمیر دائرہ اختیار میں نہ ہونے کے باوجود راولاکوٹ میں اس کے اثرات پائے جاتے ہیں ۔ آئندہ بجٹ میں عالاقائی سڑک کے لیے رقم مختص کرنے کا مطالبہ لے کر راولاکوٹ میں بھوک ہڑتال کرنے والوں کو انتظامیہ نے رات کے اندھیرے میں اٹھا کر عین اس مقام پر لا کر چھوڑا جہاں سے سڑک شروع ہوتی ہے ۔ راولاکوٹ انتظامیہ کا یہ ایکشن رانا ثناء اللہ جیسا ہی ہے، کہ ڈاکٹر یاسمین راشد اور زرتاج گل وزیر کو گرفتار کر کے دور اتارا گیا کہ اب پیدل چل کر آو یا دوپ میں کھڑی رہو جب تک کوئی گاڑی ملتی، اور بیان جاری ہوا کہ یہ خواتین زبردستی پولیس گاڑی میں بیٹھی تھی ۔ ہڑتالی نوجوانوں کو بھی شاید اس لیے یہاں چھوڑا ہو کہ آباواجدا کی سنت بحال کرو وہ یہاں سے پیدل آیا جایا کرتے تھے


تم سڑکیں مانگتے ہو۔ یہ لوگ کھائیگلہ تا عباس پور سڑک کی پختگی کا مطالبہ کر رہے ہیں جو 1970 میں نکالی گئی تھی، اس کے بعد اس سڑک پر کچھ کام نہیں ہوا۔ لوگوں کا سفر دشوار ہے لیکن کوئی نمائندہ، کوئی کمیونٹی لیڈر مظفرآباد میں انتظامیہ کو یاد دلائے اور بار بار یاد دلائے تو حکومت کیوں نہیں عوام مطالبہ مانے گی نہ معلوم اس علاقے کے عوام مایوس ہو کر آخری اقدام تک کیسے پہنچے، وزیر اعظم کا ترجمان بھی اسی علاقے کا ہے ۔ اب آزاد کشمیر کا ترقیاتی بجٹ 50 ارب سے بھی زائد کا ہے ایک دو ارب روپے اس سڑک کے لیے رکھنا کیا مسئلہ ہے ۔ رانا ثناء اللہ تو گلو بٹ طرز کی سیاست کا عادی ہے راولاکوٹ میں گلو بٹ طرز کی سیاست کہاں چلتی ہے ۔۔اعلی سطح کے حکام اس پر توجہ دیں یہ بہت ضروری منصوبہ ہے یہ صرف کہوکوٹ کے عوام کا مسئلہ ہی نہیں عباس پور کے عوام کا مسئلہ بھی ہے جس پر عبدالقیوم خان نیازی توجہ نہ دے کر غفلت کا شکار ہوئے یہ سوال ان کو پیچھا کرتے رہے گا مجھے یقین ہے کہ سردار تنویر الیاس اس مسئلے پر ذاتی توجہ دے گا ۔’
==========================================