شاعر و ادیب پروفیسر شاہد کمال

انٹرویو: طارق رئیس فروغ
اخبار: روزنامہ اوصاف
۱۰ مئی ۲۰۱۷ء

تقسیم کے بعد ہندوستان کے مختلف صوبوں سے ہزارہا افراد دیگر شہروں کے سا تھ ساتھ کراچی بھی آئے۔ اور کراچی آنے والے ان افراد میں ایک بڑی تعداد ادیبوں اور شاعروں کی بھی تھی۔ جو ہندوستان کی مختلف تہذیبوں سے آئے تھے اور اردو میں شاعری اور ادب تخلیق کرتے تھے۔اس لیے آپ کو کراچی کی شاعری اور ادب میں ایسے بڑے لوگ ملیں گے جن کی زبان اردو نہیں تھی، لیکن انھوں نے اردو میں ادب تخلیق کیا ہے۔ اس طرح کراچی میں اردو شاعروں اور ادیبوں کی ایک بڑی تعداد میسر آئی۔ ان ادیبوں اور شاعروں نے کراچی میں ادبی محفلوں کا انعقاد کیا، ان شاعروں اور ادیبوں میں بہت بڑے بڑے نام شامل ہیں۔ اس کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے معروف شاعرو ادیب پروفیسر شاہد کمال نے اس سلسلے میں مضامین کی کتاب ’’ کراچی میں اردو غزل اور نظم ‘‘ شائع کی ہے۔ جس میں کراچی سے تعلق رکھنے والی نامور ادبی شخصیات کا تعارف پیش کیا ہے۔ پروفیسر شاہد کمال جو ایک اچھے شاعر، ادیب ، محقق اور نقاد ہونے کے ساتھ ساتھ پچیس سال سے زائد عرصے سے تعلیم کے شعبے سے وابستہ اور آج کل ایک کالج کے پرنسپل ہیں، ان کی زندگی اور فن سے متعلق کی گئی گفتگو نذ رِ قارئین ہے:
اپنی زندگی اور ادبی شغف سے متعلق کچھ فرمائیے ؟
’’ میں کراچی میں پیدا ہوا اور یہیں میں نے ابتدائی تعلیم سے لے کر ایم اے کی ڈگری تک حاصل کی ۔ میں نے بھی اور دوسروں بے شمار لوگوں کی طرح سرکاری اسکولوں میں ہی تعلیم حاصل کی۔ اس زمانے میں سرکاری اسکولوں کا ایک معیار ہوتا تھا اور سرکاری اسکول میں پڑھنا فخر سمجھا جاتا تھا۔ مگر اب لوگوں نے سرکاری اسکولوں کو بالکل نظر انداز کرنا شروع کردیا ہے۔ اور اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکولوں میں داخل کروانا پسند کرتے ہیں چاہے وہ ایک ڈربے نما اسکول ہی کیوں نہ ہو۔ اور جہاں پر میٹرک پاس ٹیچرز ان کے بچے کا مستقبل تباہ کررہے ہوتے ہیں۔ اب بھی سرکاری اسکولوں کی عمارتیں کشادہ ہیں، بڑے بڑے کمرے ہیں، مکمل لیب ہیں، کھیل کیلیے میدان ہیں، قابل اساتذہ موجود ہیں۔یعنی تمام معقول سہولیات موجود ہیں۔ لیکن ہمارا رجحان بدل گیا ہے۔ میں تو یہ کہتا ہوں کہ اللہ نے آج مجھے جو بھی عزت دی ہے یہ انہی سرکاری اسکولوں کی پڑھائی کی بدولت ہے۔ دراصل ہم اور ہمارے معاشرے نے سرکاری اسکولوں پر اعتبار چھوڑ دیا ہے ۔ جہاں تک ادب سے وابستگی کا تعلق ہے ، میں نے جب آنکھ کھولی تو اپنے گھر میں فنون لطیفہ دیکھا۔ میرے والد ایک کمرشیل آرٹسٹ تھے۔ چونکہ ہمارے خاندان کا تعلق تصوف سے ہے اس لیے ہمارے گھر میں قوالی ہوتی تھی اور قوالی میں شرکت کیلیے بڑے بڑے قوال آتے اور کافی عظیم ہستیاں شریک محفل ہوتی تھیں، جن میں شاعر اور ادیب بھی شامل تھے۔ ‘‘

معروف اسکالر ڈاکٹر طارق رحمان کیساتھ
===========================


کیا گھریلو ماحول میں آپ کی شعری تربیت ہوئی ؟
’’جی ہاں۔دادا کو پڑھنے لکھنے کا شوق تھا،وہ فارسی اور عربی کے ماہر تھے۔ میں زیادہ تر اپنے دادا کے ہی پاس بیٹھا رہتا تھا۔ اس لیے چھوٹی عمر میں ہی بہت شعر مجھے یاد ہوگئے تھے۔ بات یہ ہے کہ شعر کے وزن کو سمجھنا، زبان کے قواعد کو سمجھنا، خط لکھنا، نثر کو ٹھیک پڑھنا۔ یہ چیزیں کسی قابلیت کا حصہ نہیں تھیں۔ ان کے لیے کسی ڈگری کی ضرورت نہیں تھی۔ جو ہم سے پہلے کی نسل تھی اس میں یہ چیزیں تربیت کا حصہ تھیں۔ تو جو آدمی یا خاتون کبھی اسکول نہیں گئیں، وہ بھی بتا دیتی تھیں کہ بھئی شعر میں سکتہ ہے۔شعر غلط پڑھا گیا ہے۔ اب تو سکتے کا مطلب ہی نہیں سمجھتے۔ اسی طرح اگر غلط محاورہ بول دیا جاتا تو اس پر بھی پکڑ ہوجاتی تھی۔ یہ تمام باتیں تربیت کا حصہ تھیں جو نسل در نسل منتقل ہوجایا کرتی تھیں۔ میری خوش نصیبی یہ رہی کہ میں ایک ایسے خاندان میں پیدا ہوا جہاں علم سے محبت کی جاتی تھی۔ اور یہ تمام باتیں خود بخود میری زندگی میں شامل ہوگئیں۔ اور جیسی میری عادت ہے اردو اور فارسی کے شعر پڑھتے رہنا تو یہ عاد تیں میرے بچوں میں بھی منتقل ہوگئی ہیں۔ اب اسی طرح پتہ نہیں چل سکا کب میں نے شاعری شروع کردی اور کب نثر
جرمن اردو اسکالر ڈاکٹ کرسٹینا کیساتھ
======================

لکھنی شروع کردی۔ کیونکہ تخلیق تو اپنا ایکسپوزر چاہتی ہے ۔ایم اے کرنے کے بعد میں نے شاعری شروع کی۔ اور کیونکہ اندر بہت کچھ جمع ہوچکا تھا تو بہت شاعری کی۔ ایک ایک دن میں چھ چھ غزلیں ہونے لگیں۔اور میرے پاس اتنا زخیرہ ہوگیا کہ ۱۹۹۰ء میں میرا پہلا مجموعہ ’’ رسمِ تکلّم ‘‘ شائع ہوگیا۔ ‘‘
آپ کیا سمجھتے ہیں کہ زندگی گزارنے کیلیے صرف شاعری یا ادب سے وابستگی ہی کافی ہے ؟


’’ جیسا کہ میں نے آپ کو بتایا ہے کہ مجھے بچپن میں ہی دادا سے ڈانٹ پڑگئی تھی کہ پہلے تم اپنی تعلیم مکمل کرو ، اپنا کیرئیر بناؤ اس کے بعد شاعری و ادب دیکھنا۔ اس ڈانٹ سے مجھے بہت فائدہ پہنچا۔ اور یہ بات معلوم ہوگئی کہ معاشرے میں اسٹیٹس کیلیے آپ کا صرف شاعر ہونا ہی کافی نہیں ہے۔ کیونکہ جو صرف شاعری کے بل بوتے پر اپنا اسٹیٹس بنالیتا ہے ان کی تعداد بہت کم ہوتی ہے۔ اس لیے پہلے ہم نے اپنا کیرئیر بنالیا۔ اس لیے صرف شاعری پر تکیہ کرنے والے معاشی بدحالی کا شکار ہیں۔ ‘‘
شاعری اور ادب کے سلسلے میں کیا آپ کسی حلقے سے وابستہ رہے ؟
’’ جی نہیں۔ چونکہ میں روایتی قسم کا شاعر نہیں تھا۔ نہ میرا کسی لابی سے تعلق تھا۔ اس لیے میرا کوئی حلقہ بھی نہیں بنا۔ ‘‘
آپ کس شاعر یا ادیب سے متاثر ہیں ؟
’’ گھریلو ادبی ماحول کے باعث مجھے یہ پتہ چل گیا تھا کہ اچھا شعر کیا ہوتا ہے۔ میرے اندر کوئی آئیڈیالزم نہیں آیا۔ میں میر کا شعر اس لیے نہیں پڑھتا کہ یہ میر کا شعر ہے، بلکہ میں اسے اس لیے پڑھتا ہوں کہ وہ ایک اچھا شعر ہے۔ میں بغیر نام کے شعر پڑھتا ہوں۔ مجھے اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی کہ یہ شعر کس کا ہے۔ وہ کسی ایسے شاعر کا بھی ہوسکتا ہے جسے کوئی نہ جانتا ہو۔ لیکن میں اسے بار بار پڑھوں گا اور سب کو سناؤں گا۔ مثال کے طور پر یہ شعر سنیے ؛ میں واپسی کے ارادے سے جارہا ہوں مگر سفر سفر ہے مرا انتظار مت کرنا۔ اب مجھے نہیں پتہ کہ یہ شعر کس کا ہے۔ اب اگر کوئی آئیڈیالزم کا شکار ہوجائے تو پھر اس کی کوشش ہوگی کہ ویسا ہی لکھے ۔ اور آئیڈیالزم کا شکار ہونا ہی کسی شاعر یاادیب کی موت ہوتی ہے۔ ‘‘
آپ کی شاعری کی پہلی کتاب ’’ رسمِ تکلّم‘‘ جو ۱۹۹۰ء میں شائع ہوئی ۔ اس کی پذیرائی کیسی رہی ؟
’’ جی ہاں میری کتاب کی بہت پذیرائی ہوئی۔ میری ایک پہچان بن گئی ۔میرے لیے ایک بہت بڑا اعزاز یہ ہوا کہ اختر الایمان صاحب نے میری کتاب کا فلیپ لکھا۔ جو غالب کے بعد کسی کو شاعر ہی نہیں مانتے تھے۔ کہتے تھے کہ غالب کے بعد غزل ختم ہوگئی ہے۔ ان کے علاوہ معروف شخصیات فرمان فتحپوری ، کریم بخش خالد ، شکیل عادل زادہ ، خالد علیگ اور دیگر نے بھی میری شاعری کے متعلق لکھا۔ ‘‘
کیا آپ نے غزلیں زیادہ لکھی ہیں۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ آپ کی غزلوں میں کس کا رنگ ہے ؟
’’ جی میں نے غزلیں زیادہ لکھی ہیں۔ ویسے میں نے نظمیں بھی لکھی ہیں۔جن کی تعدا د کم ہے۔ میری شاعری اس طرح کی روایتی شاعری نہیں ہے جیسی کہ عام طور سے ہوتی ہے۔میں نے اپنی شاعری میں عروضی تجربے بھی کیے، زبان و بیان کے کچھ تجربات لاشعوری طور پر ہوگئے۔ میں اس کو کوئی بُری بات نہیں سمجھتا کہ آدمی اپنی روایات سے ہٹ کر کوئی نئی بات کرنے کی کوشش کرے۔ لیکن اس کی کوئی تُک ہو، بے تکا پن نہ ہو۔‘‘
نثری شاعری کے بارے میں آپ کے کیا خیالات ہیں ؟
’’ پروز پوئٹری بظاہر آسان نظر آتی ہے، لیکن یہ مشکل ترین کام ہے۔ نثری نظم کی ایک پوری تحریک آئی اس میں بے شمار لوگ آئے لیکن سب غائب ہوگئے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کیوں غائب ہوگئے۔ وہ صرف اس لیے غائب نہیں ہوئے کہ یہ عوام کے لیے ایک نامانوس چیز تھی، اس کے علاوہ بھی مسئلہ تھا، نامانوس چیزیں تو بے شمار ہوتی ہیں جو ایک مخصوص حلقے میں زندہ رہتی ہیں۔ جیسے مشکل پسندی شعراء کی شاعری میں ہوتی ہے جو ایک عام آدمی نہیں سمجھتا لیکن مخصوص حلقہ اس کو سمجھتا ہے۔ نثری نظم پر اگر حقیقتاً نگاہ ڈالیں گے تو یہ نہایت مشکل چیز ہے۔ مشکل چیز ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ہماری جو شاعری ہے جس میں غزل ہے نظم ہے ، گیت یا مرثیہ ہے ، یہ پابند شاعری ہے۔ اس کا اپنا عروضی ڈھانچہ ہے، جس کی بنیاد وزن اور موسیقیت پر ہے۔ اس میں ردیف ہے، قافیہ ہے،تو جب آپ غزل یا نظم کا ایک شعر پڑھتے ہیں، تو کئی چیزیں ہوتی ہیں جو اس کو آپ کے لیے قابل قبول بنارہی ہوتی ہیں۔ کہیں آپ اس کی بحر سے لطف لیتے ہیں، کہیں قافیے سے لطف لیتے ہیں، کہیں آپ کو اس کی ردیف اچھی لگتی ہے، یعنی جو خیال شاعر نے پیش کیا ہے تو اس خیال کو آگے بڑھانے میں یہ چیزیں آپ کے لیے مددگار ہوتی ہیں۔ کہیں خیال پیچھے رہ گیا تو قافیے کی داد لے لے گا، کہیں ردیف کی ، تو کہیں بحر کی داد لے لے گا۔ کہیں اپنے پڑھنے کی داد لے لے گا، اور اگر ترنم سے پڑھتا ہے تو ترنم کی داد لے لے گا۔ اب جہاں تک نثری نظم کا تعلق ہے ، اس میں ایسا کوئی سہارا موجود نہیں ہے۔ اب شاعر کو خیال ہی اتنا بڑا پیش کرنا ہے کہ اسی خیال پر ہی داد ملے گی۔یعنی اس کی جیت خیال پر ہوجائے۔ یہی وجہ ہے کہ نثری نظم میں کوئی بڑی آواز نہیں آسکی۔ کچھ لوگ کامیاب بھی ہوئے مگر ان کی بھی مکمل شاعری اچھی نہیں ہے۔ بلکہ ان کے ہاں بھی چند لائنیں ہی ملتی ہیں۔ جیسے مجھے سارہ شگفتہ کی دو لائنیں پسند ہیں’’ میں ہاتھوں سے گری ہوئی دعا ہوں‘‘ ’’ میرے پاس اتنی دھوپ تھی، میں نے اس سے تمھارے کپڑے سکھا دئیے ‘‘۔
آپ نے نثر اور تحقیق میں بہت کام کیا ہے ، اس کے بارے میں کچھ بتائیے ؟
’’ میری شاعری کی کتاب ’’ رسم تکلم ‘‘ کے شائع ہونے تک مجھے معلوم ہوچکا تھا کہ شعر کہنے سے کوئی تہلکہ نہیں مچتاہے نہ کوئی قیامت آتی ہے۔ کوئی شاعری کی کتاب نہیں پڑھتا۔ صرف دو چار شاعروں کی کتابیں ہی بکتی ہیں۔ یہاں تک کہ ان کے گھروں میں بھی کوئی تہلکہ نہیں مچتا۔ اب اگر آپ بہت بڑے شاعر ہیں آپ کو ہر مشاعرے میں بلایا جارہا ہے۔ اب اگر آپ کی ایک غزل ہٹ ہوگئی تو آپ ہر مشاعرے میں وہی غزل سنائے چلے جارہے ہیں۔ کیونکہ اسی سے آپ کو داد ملے گی۔ لیکن جب آپ نثر لکھتے ہیں تو ایک ہی مضمون کو ستّر جگہ نہیں سنا سکتے ۔ اگر آپ ایک سیمینار میں جاتے ہیں ایک پیپر لکھ کر لے جاتے ہیں تو دوسرے سیمینار میں وہ موضو ع نہیں ہوگا۔ پھر آپ کو نئے سرے سے کام کرنا ہوگا۔ اس لیے نثر میں گنجائش بہت ہے۔ چونکہ میرے تو خون میں ہی ادب شامل تھا، تو کچھ صورت ایسی بنی کہ پبلشر نے کہا کہ نثر کی کتاب لکھدیں۔ تو میں نے کہا کہ ضرور لکھ دوں گا پیسے لگیں گے۔ تو میں خوش نصیب آدمی ہوں کہ پبلشر نے میری نثر کی کتاب چھاپنی شروع کر دی۔ اس طرح مجھے منہ مانگے پیسے ملنے لگے۔ میری کتاب بھی چھپنے لگی اور پیسہ بھی ملنے لگا۔ پھر میں باقاعدہ نثر کی طرف آگیا ۔ ‘‘


آپ کی نثر کی کئی کتابیں آچکی ہیں۔ ان کے بارے میں فرمائیے ؟
’’ میری نثر کی پہلی کتاب ’’ کراچی میں اردو غزل اور نظم ‘‘ ۱۹۹۹ ء میں شائع ہوئی۔کراچی کی شاعری کے حوالے سے یہ ایک تنقیدی جائزہ تھا۔ اس کتاب کے سلسلے میں پاکستان ٹیلیویژن نے بھی ایک پروگرام کیا تھا۔ اب قیام پاکستان کے بعد ہجرت سے لیکر سیاست تک اور سیاست سے لے کر معیشت تک بہت تبدیلیاں آئی ہیں۔ شاعری نے اتنا لمبا سفر طے کیا ہے تو اس پر گفتگو ہونی چاہئیے۔ یہ بات میرے ذہن میں تھی کہ یہ خلا ہے۔ اس لیے میں نے اس پر خوب کام کیا۔ میری کتاب ’’ کراچی میں اردو غزل اور نظم ‘‘ کا دوسرا ایڈیشن ہندوستان سے چھپنے والا ہے۔ ایک اور میری کتاب ’’ جائزہ ادبیات اردو‘‘ ۲۰۰۲ء میں شائع ہوئی۔ اس میں تنقیدی اور تحقیقی مضامین ہیں۔ اس کے بعد قواعد پر ایک کتاب ’’جہان قواعد و انشاء ‘‘ ۲۰۰۴ء میں آئی ۔ اس کے بعد ’’ اردو زبان میں جانوروں سے متعلق محاورے اور ضرب الامثال‘‘ چھپنے والی ہے جو وائلڈ لائف والوں کی فرمائش پر لکھی ہے۔ ۲۰۰۵ء میں جدید اردو لغات پر کام شروع کیا جو دس سال میں مکمل ہوا اور اب طباعت کے مراحل میں ہے۔ اس لغت میں میں نے دوسری زبانوں کے وہ تمام الفاظ شامل کیے ہیں جو اب اردو کی طرح ہی بولے جارہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ میرا شاعری کو دوسرا مجموعہ بھی تقریباً تیار ہے۔
آپ نے صرف کراچی پر ہی کیوں فوکس کیا ؟
’’ نہیں ایسا نہیں ہے میں نے ہندوستان میں ایک پیپر پڑھا جس کا عنوان تھا ’’ جدید پاکستانی شاعری کے رجحانات‘‘۔ اسے بہت پسند کیا گیا۔ جو کئی جگہوں پر کوٹ کیا گیا۔ میں نے ذاتی طور پر ہمیشہ یہ کوشش کی کہ ہم لاکھ مائیگریٹڈ لوگ ہیں، لیکن ہم اس مٹی سے جڑے ہوئے لوگ ہیں۔ ۴۷ء کے بعد ہمارا ناطہ اب اس مٹی سے ہے۔ تو اس مٹی سے ہماری ایک ہم آہنگی ہونی چاہئیے۔ یہ ہمارا فرض ہے۔ اگر ہم ایسا نہیں کررہے تو ہم بد دیانتی کررہے ہیں۔ اس لیے میں نے دانستہ یہ کوشش کی کہ میں اپنی کتابوں میں اس طرح کا کوئی اہتمام کروں کہ جس سے کوئی ہم آہنگی کی صورت پیدا ہوسکے۔ یہی وجہ تھی کہ جب میری شاعری کی کتاب رسمِ تکلم آئی، تو میں نے سندھی ادیب جن کا اردو میں کام تھا، کریم بخش خالد صاحب، میں نے ان سے فلیپ لکھوایا۔ اس کے بعد میری کتاب’’ کراچی میں اردو غزل اور نظم ‘‘


کا ایک چیپٹر ان سندھی شاعروں کے بارے میں ہے جو میر ، غالب اور ولی کے زمانے میں اردو شاعری کیا کرتے تھے۔ اگر کوئی ہماری زبان کو اپنارہا ہے تو وہ ہمارے لیے قابل عزت ہونا چاہئیے۔ اور ہمیں اس کا ذکر کرنا چاہئیے۔‘‘
عصرِ حاضر میں کن شخصیات سے آپ متاثر ہیں یا آپ اہم سمجھتے ہیں؟
’’ ہندوستان میں شمس الرحمان فاروقی صاحب، شمیم حنفی صاحب، نثر نگاری کے حوالے سے وارث علوی ایک بہت بڑا نام ہے۔ پاکستان میں ڈاکٹر انور سدید صاحب، وزیر آغا، عبد الوحید قریشی صاحب، جمیل جالبی صاحب، ابو اللیث صدیقی صاحب، ڈاکٹر اسلم فرخی صاحب، ڈاکٹر معین الدین عقیل صاحب۔ڈاکٹر روؤف پاریکھ، اور میں اس عہد کا سب سے بڑا نام لوں ڈاکٹر مصطفی خاں صاحب، ان لوگوں نے کام کیا ہے اور کررہے ہیں۔ یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ ہم ان کے عہد میں پیدا ہوئے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ معاشرہ سہل پسندی کا شکار ہے۔ کوئی پڑھنے لکھنے کو تیار نہیں۔ وہ تو خیریت ہوگئی کہ تاریخ میں دو واقعات ہوگئے، ایک سرسید کا پیدا ہونا اور ایک انگریز کا فورٹ ولیم کالج قائم کردینا۔ ورنہ تو ہم صرف شاعری میں ہی الجھے رہتے۔ یہ ایک بہت بڑی حقیقت ہے جسے ہم جھٹلا رہے ہیں۔میں تو یہاں تک کہتا ہوں کہ اس خطے میں انگریزوں کا آنا اور سرسید کا پیدا ہونا برکت کی بات ہے۔جتنی تعلیم آپ کو نظر آرہی ہے یہ سب سرسید کی مرہونِ منت ہے۔
آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے کہ ادب معاشرے کو متاثر کرتا ہے ؟
’’ میں آپ کی بات کو مزید بڑھاتا ہوں کہ فنون لطیفہ معاشرے کو متاثر کرتا ہے۔ جس میں موسیقی، ڈرامہ، رقص، شاعری، مصوری ، مجسمہ سازی آتے ہیں۔ فنون لطیفہ آدمی کو سوچنے اور محسوس کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ اب یہ بات تخلیق کار میں عام آدمی کی بہ نسبت زیادہ ہوتی ہے۔ فائن آرٹ سے متعلق شخص جو کچھ سوچتا اور محسوس کرتا ہے وہ اپنے میڈیم کے ذریعہ معاشرے واپس کردیتا ہے۔ اس طرح سوچنے اور محسوس کرنے کی فضا تشکیل پاتی ہے۔ اور جب آپ چیزوں کو محسوس کرنا شروع کردیتے ہیں تو پھر زندگی کو اتنا آسان سمجھنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک آدمی نے پھول دیکھا جو اسے بہت خوبصورت لگ رہا ہے، وہ گیا اور اس نے اسے توڑلیا۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ نے پھول کی موت کردی۔ لیکن اگر اس کے اندر محسوس کرنے کا جذبہ موجود ہو، تو وہ پھول نہیں توڑے گا۔ درخت میں بیٹھی ہوئی چڑیا کو نہیں اڑائے گا۔ آدمی کو ماردینا تو بہت دور کی بات ہے۔اس طرح پورا فنون لطیفہ ایک حساس معاشرے کی تشکیل کرتا ہے۔ اور وہ تشکیل بتاتی ہے کہ یہ معاشرہ کتنا زندہ ہے۔ ہمارے معاشرے کی بے حسی کی وجہ یہی ہے کہ ہمارے معاشرے سے فنون لطیفہ ختم ہوکر رہ گیا ہے۔ فنون لطیفہ آپ کے اندر گداز پیدا کرتا ہے۔ ‘‘
کسی سے تری منزل کا پتہ پایا نہیں جاتا
تصور سے بھی اب اس دل کو بہلایا نہیں جاتا
چلے آتے ہیں وہ خود ہی مری بزم تصور میں
یہ ان کا گھر ہے گھر والوں کو بلوایا نہیں جاتا
کھڑا ہوں درمیاں کب سے اطاعت اور بغاوت کے
ادھر آیا نہیں جاتا اُدھر جایا نہیں جاتا
تصوف اک مابعدالطبیعاتی غلطی ہے
کہ جو کچھ دیکھتے ہیں اس کو دکھلایا نہیں جاتا

Shahid Kamal
Abrar Bakhtiar
====================================