پاکستانی عوام جیت گئے،اللہ پاکستان پر رحم کرے،شہبازشریف


آج جھوٹ، فریب اور الزامات کی سیاست دفن ہو چکی ہے، آئین کی بالادستی کے لیے حمایت اور مہم چلانے والوں کا شکریہ۔ صدر ن لیگ کا ردعمل

پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستانی عوام جیت گئے،اللہ پاکستان پر رحم کرے، آج جھوٹ، فریب اور الزامات کی سیاست دفن ہو چکی ہے، آئین کی بالادستی کے لیے حمایت اور مہم چلانے والوں کا شکریہ۔ انہوں نے ٹویٹر پر اپنے ٹویٹ میں کہا کہ آئین کی بالادستی کے لیے حمایت اور مہم چلانے والوں کا شکریہ، آج جھوٹ، فریب اور الزامات کی سیاست دفن ہو چکی ہے، پاکستانی عوام جیت گئے،اللہ پاکستان پر رحم کرے۔


اسی طرح مرکزی نائب صدر ن لیگ مریم نواز’’وزیرِاعظم شہبازشریف‘‘ کا نعرہ لگا دیا۔ انہوں نے ٹویٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ شکر الحمدُ للّٰہ ربّ العالمین، قوم کو آئین کی سر بلندی بہت بہت مبارک۔ آئین توڑنے والوں کا کام ہمیشہ کے لیے تمام ہوا۔

اللّہ پاکستان کو چمکتا دمکتا رکھے۔ انہوں نے کہا کہ وزیرِاعظم شہبازشریف انشاءاللّہ، پاکستان کو عوام دشمن، نالائق ترین، نا اہل ترین اور ناکام ترین حکومت سے نجات بھی بہت بہت مبارک۔

یاد رہے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے ڈپٹی اسپیکر رولنگ کیس پر ازخود نوٹس اور متعدد فریقین کی درخواستوں پر مسلسل پانچویں روز بھی سماعت کی، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل بھی بینچ میں شامل تھے۔ سماعت کے بعد لارجر بنچ نے فیصلہ محفوظ کیا، فیصلہ سنانے سے قبل چیف جسٹس سپریم کورٹ عمر عطاء بندیال نے چیف ایکشن کمشنر کو انتخابات اور حلقہ بندیوں کے بارے جاننے کیلئے طلب کیا۔


چیف جسٹس نے کہا کہ چیف الیکشن کمشنر سے درخواست کریں گے کہ الیکشن کرانے کی صلاحیت سے آگاہ کریں، چیف جسٹس سپریم کورٹ نے الیکشن کمشنر استفسار کیا کہ بتائیں کہ الیکشن کمیشن کی گنجائش ہے کہ وہ الیکشن کرا سکے؟جس پر چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ الیکشن کمیشن پر وقت الیکشن کرانے کیلئے تیار ہے، لیکن ابھی حلقہ بندیاں باقی ہیں، وزیراعظم کو اس حوالے سے 16خطوط لکھے ہیں کہ مردم شماری کے بعد حلقہ بندیاں ہوں گی، حلقہ بندیوں پر کام شروع کردیا تھا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا پورے ملک کی حلقہ بندیاں کرنی ہیں یا کچھ علاقوں کی؟ جس پر الیکشن کمشنر نے کہا کہ پورے ملک کی حلقہ بندیاں ہونی ہیں، 6سے 7مہینے الیکشن کیلئے چاہیے ہیں۔ بعد ازاں تقریباً ساڑھے 8 بجے سپریم کورٹ آف پاکستان نے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ پر ازخود نوٹس کیس کا فیصلہ سنایا، فیصلے میں 5 رکنی لارجر بنچ نے قومی اسمبلی کو بحال کردیا ہے، چیف جسٹس عطاء عمر بندیال نے فیصلہ پڑھ کر سنایا کہ ہمارا فیصلہ متفقہ رائے سے ہے، تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کریں گے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ ڈپٹی اسپیکر کی 3 اپریل کی رولنگ آئین کے منافی ہے، قومی اسمبلی توڑنا بھی خلاف قانون تھا، سپریم کورٹ نے قومی اسمبلی کا اجلاس غیرمعینہ مدت تک ملتوی کرنا بھی غیرآئینی قرار دیا۔ جن لوگوں نے ریکوزیشن دی تھی انہیں نوٹس دیئے، تحریک عدم اعتماد زیرالتوا رہے گی، اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے تحریک عدم اعتماد پرووٹنگ کیلئے 9 اپریل کو دن ساڑھے 10 بجے قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا جائے گا۔
قومی اسمبلی اجلاس میں ارکان عدم اعتماد پر ووٹ کاسٹ کرسکیں گے، تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کی صورت نئے وزیراعظم کا انتخاب کیا جائے۔ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کو غیرآئینی اور کالعدم قرار دے دیا ہے، عدالت نے اسمبلی کی تحلیل کو بھی غیرآئینی قراردیا، قومی اسمبلی پرانی پوزیشن پر بحال ہوگی، جس کے ساتھ وفاقی کابینہ بھی اپنے عہدوں پر بحال ہوگی۔


نگران حکومت کے قیام کیلئے تمام اقدامات کالعدم قرار دیے گئے ہیں۔ قومی اسمبلی اجلاس میں تمام ارکان اپنی مرضی کے مطابق عدم اعتماد پر ووٹ کاسٹ کرسکیں گے، تاہم آرٹیکل63 کے نفاذ پر عدالتی فیصلہ اثرانداز نہ ہوگا۔ اس سے قبل آج 7 اپریل جمعرات کو سماعت کے آغاز میں پنجاب کی صورتحال کا تذکرہ ہوا ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس نے روسٹرم پر آکر عدالت کو بتایا کہ رات کو نجی ہوٹل میں تمام اراکین صوبائی اسمبلی نے حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ بنا دیا، سابق گورنر چوہدری سرور حمزہ شہباز سے باغ جناح میں حلف لیں گے۔
ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ حمزہ شہباز نے بیوروکریٹس کی میٹنگ بھی بلا لی ہے، آئین ان لوگوں کے لیے انتہائی معمولی سی بات ہے اس پر چیف جسٹس عمرعطا بندیال سے کہا کہ پنجاب کے حوالے سے کوئی حکم نہیں دیں گے، پنجاب کا معاملہ ہائی کورٹ میں لے کر جائیں، قومی اسمبلی کے کیس سے توجہ نہیں ہٹانا چاہتے۔ جسٹس مظہرعالم میاں خیل نے کہا کہ گزشتہ روز پنجاب اسمبلی کے دروازے سیل کر دیے گئے تھے، کیا اسمبلی کو اس طرح سیل کیا جا سکتا ہی بعدازاں چیف جسٹس نے مسلم لیگ (ن) کے وکیل اعظم نذیر تارڑ اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو روسٹرم سے ہٹادیا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا وزیراعظم پوری قوم کے نمائندے نہیں ہیں صدر مملکت کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ وزیراعظم بلاشبہ عوام کے نمائندے ہیں۔ جسٹس مظہر عالم خیل نے کہا کہ کیا پارلیمنٹ میں آئین کی خلاف ورزی ہوتی رہے اسے تحفظ ہوگا کیا عدالت آئین کی محافظ نہیں ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ پارلیمنٹ کی کارروائی سے کوئی متاثر ہو تو دادرسی کیسے ہوگی کیا دادرسی نہ ہو تو عدالت خاموش بیٹھی رہے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ آئین کا تحفظ بھی آئین کے مطابق ہی ہو سکتا ہے، حکومت کی تشکیل اور اسمبلی کی تحلیل کا عدالت جائزہ لے سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہوجاتی تو معلوم ہوتا کہ وزیراعظم کون ہوگا ۔بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ وزیراعظم کے الیکشن اور عدم اعتماد دونوں کا جائزہ عدالت نہیں لے سکتی، پارلیمان ناکام ہو جائے تو معاملہ عوام کے پاس ہی جاتا ہے، آئین کے تحفظ کیلئے اس کے ہر آرٹیکل کو مدنظر رکھنا ہوتا ہے۔
نیوز ایجنسی کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ اگر زیادتی کسی ایک رکن کے بجائے پورے ایوان سے ہو تو کیا ہوگا۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اگر ججز کے آپس میں اختلاف ہو تو کیا پارلیمنٹ مداخلت کر سکتی ہی جیسے پارلیمنٹ مداخلت نہیں کرسکتی ویسے عدلیہ بھی نہیں کرسکتی۔چیف جسٹس نے کہا کہ کیا وفاقی حکومت کی تشکیل کا عمل پارلیمان کا اندرونی معاملہ ہی اس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ وزیراعظم کا الیکشن اور تحریک عدم اعتماد کا معاملہ پارلیمنٹ کا اختیار ہے، نیشنل اسمبلی بنتی ہی اس لیے ہے اس نے اپنا اسپیکر اور پرائم منسٹر منتخب کرنا ہے۔


چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ علی ظفر صاحب آپ نے جس فیصلے کا حوالہ دیا ہے وہ حلف سے متعلق ہے، یہاں معاملہ حلف لینے کا نہیں رولنگ کا ہے، کہیں تو لائین کھینچنا پڑیگی۔ صدر مملکت کے وکیل علی ظفر نے جونیجو کیس فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ محمد خان جونیجو کی حکومت کو ختم کیا گیا، عدالت نے جونیجو کی حکومت کے خاتمہ کو غیر آئینی قرار دیا، عدالت نے اسمبلی کے خاتمہ کے بعد اقدامات کو نہیں چھیڑا۔
جسٹس مظہر عالم میاں خلیل نے کہا کہ ہمارے سامنے معاملہ عدم اعتماد کا ہے، عدم اعتماد کے بعد رولنگ آئی، اس ایشو کو ایڈریس کریں۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کیوں نہیں بتاتے کہ کیا آئینی بحران ہی سب کچھ آئین کے مطابق ہو رہا ہے تو آئینی بحران کہاں ہی وزیراعظم آئین کے مطابق کام جاری رکھے ہوئے ہیں، نگران وزیراعظم کا تقرر کا عمل بھی جاری ہے، اس سب میں بحران کہاں ہی سب کچھ آئین کے مطابق ہو رہا ہے، ملک میں کہیں اور بحران ہو سکتا ہے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ میری بھی یہی گزارش ہے کہ ملک میں کوئی آئینی بحران نہیں۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ بظاہر آرٹیکل 95 کی خلاف ورزی ہوئی، اگر کسی دوسرے کے پاس اکثریت ہے تو حکومت الیکشن کا اعلان کردے، الیکشن کرانے پر قوم کے اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں، ہر بار الیکشن سے قوم کا اربوں کا نقصان ہوگا، یہ قومی مفاد ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر اسپیکر کی رولنگ حکومت اور وزیراعظم کی مدت کی توسیع کیلئے ہوتی تو بہت غلط ہوتا، موجودہ صورتحال میں وزیراعظم کی ایڈوائس پر قومی اسمبلی تحلیل کر دی گئی۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ یہاں بھی اسمبلی تحلیل کر کے انتخابات کا اعلان کردیا گیا، الیکشن کا اعلان ظاہر کرتا ہے کہ حکومتی اقدام بدنیتی نہیں تھا۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اسمبلی کی اکثریت تحلیل نہ چاہے تو کیا وزیراعظم صدر کو سفارش کر سکتے ہیں ۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ منحرف اراکین کے باوجود تحریک انصاف اکثریت جماعت ہے، اگر اکثریتی جماعت سسٹم سے آؤٹ ہو جائے تو کیا ہوگا ۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ صدر مملکت کے وکیل کی حیثیت سے سیاسی معاملے کا نہیں دے سکتا ساتھ ہی ان کے دلائل مکمل ہوگئے۔وزیر اعظم عمران خان کے وکیل امتیاز صدیقی نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے ماضی میں بھی پارلیمان کی کارروائی میں مداخلت نہیں کی، عدالت کے سامنے معاملہ ایوان کی کارروائی کا ہے، ایوان کی کاروائی عدلیہ کے اختیار سے باہر ہے، عدالت پارلیمان کو اپنا گند خود صاف کرنے کا کہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ انتخابات کی کال دیکر 90 دن کیلئے ملک کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا جاتا ہے، وزیراعظم صدر کی ہدایات پر کام کر رہے ہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اگر مخلوط حکومت بنتی ہے تو کیا ممکن ہے کہ سب سے بڑی جماعت کو دیوار سے لگا دیا جائے۔امتیاز صدیقی نے کہا کہ اپوزیشن نے ڈپٹی اسپیکر کی صدارت پر اعتراض نہیں کیا تھا، ڈپٹی اسپیکر نے اپنے ذہن کے مطابق جو بہتر سمجھا وہ فیصلہ کیا، پارلیمان کے اجلاس میں ڈپٹی اسپیکر نے جو فیصلہ دیا اس پر وہ عدالت کو جوابدہ نہیں ہیں۔


امتیاز صدیقی نے کہا کہ سپریم کورٹ آرٹیکل 69 کے تحت پارلیمنٹ کی کارروائی میں مداخلت نہیں کر سکتی۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ جن فیصلوں کا حوالہ دیا گیا ان میں آبزرویشنز ہیں، عدالت فیصلوں میں دی گئی آبزرویشنز کی پابند نہیں۔امتیاز صدیقی نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے نیشنل سیکیورٹی کمیٹی پر انحصار کیا، نیشنل سیکیورٹی کمیٹی پر کوئی اثرانداز نہیں ہو سکتا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ڈپٹی اسپیکر کے سامنے قومی سلامتی کمیٹی کے منٹس کب رکھے گئی جس پر امتیاز صدیقی نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر کے معاملے پر مجھے نہیں معلوم، چیف جسٹس نے کہا کہ جو آپ کو نہیں معلوم اس پر بات نا کریں۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے مطابق ڈپٹی اسپیکر کے پاس ووٹنگ کے دن مواد موجود تھا جس پر رولنگ دی گئی، وزیراعظم نے آرٹیکل 58 کی حدود کو توڑا اس کے کیا نتائج ہوں گی ڈپٹی اسپیکر کو 28 مارچ کو ووٹنگ پر کوئی مسئلہ نہیں تھا، ووٹنگ کے دن رولنگ آئی، اسپیکر نے تحریک عدم اعتماد 28 مارچ کو کیوں مسترد نہیں کی ۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اسمبلی تحلیل نہ ہوتی تو ایوان ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ ختم کر سکتا تھا، وزیراعظم نے صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسمبلی تحلیل کی۔وکیل وزیر اعظم نے کہا کہ اگر آئین کو نقصان پہنچانا ہوتا تو ڈپٹی اسپیکر منحرف اراکین کی رکنیت معطل کرسکتا تھا، وزیراعظم نے بدنیتی کا مظاہرہ نہیں کی، وزیراعظم نے کہا انتخابات پر اربوں روپے لگیں گے ان کے خلاف عوام میں جا رہا ہوں جنہوں نے کئی سال حکومتیں کیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ وزیر اعظم نے خود سے منصوبہ بنایا، اسپیکر نے 28 مارچ کو رولنگ کیوں نہیں دی ۔امتیاز صدیقی نے کہا کہ عدم اعتماد کی تحریک کو مسترد کرنے کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں تھی، ہم نے خود اپنی حکومت تحلیل کی۔امتیاز صدیقی کے دلائل مکمل ہونے کے بعد اسپیکر کی پیروی کرنے والے نعیم بخاری نے کہا کہ سوال ہوا تھا کہ پوائنٹ آف آرڈر تحریک عدم اعتماد میں نہیں لیا جا سکتا،کیا پوائنٹ آف آرڈر ہر کسی بھی وقت بات ہوسکتی ہے اس پر دلائل دوں گا، پوائنٹ آف آرڈر تحریک عدم اعتماد سمیت ہر موقع پر لیا جا سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پوائنٹ آف آرڈر وزیر قانون نے ہٹایا تھا، کیا آپ کے پاس وزیر قانون کے پوائنٹ آف آرڈر کا متن ہی جسٹس مظہر عالم نے استفسار کیا کہ کیا سپیکر کو کوئی مواد پیش کیا گیا جسٹس جمال خان مندوخیل نے دریافت کیا کہ رولنگ آئینی تھی یا غیر آئینی تھی، اگر رولنگ غیر آئینی تھی تو کیا سپریم کورٹ جائزہ لے سکتی ہے۔نعیم بخاری نے کہا کہ رولنگ کے دوران کیا طریقہ کار کی غلطی کی گئی ماضی میں سپریم کورٹ نے مداخلت سے گریز کیا تھا اگر اسپیکر فواد چوہدری کا پوائنٹ آف آرڈر مسترد کردیتا تو کیا سپریم کورٹ سے رجوع کیا جاسکتا تھا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا اسپیکر کا عدم اعتماد پر ووٹنگ نہ کرانا آئین کی خلاف ورزی ہی ۔نعیم بخاری نے کہا کہ اگر اسپیکر پوائنٹ آف آرڈر مسترد کر دیتا کیا عدالت تب بھی مداخلت کرتی پوائنٹ آف آرڈر پر سپیکر تحریک عدم اعتماد مسترد کر سکتا ہے، پہلے کبھی ایسا ہوا نہیں لیکن اسپیکر کا اختیار ضرور ہے۔انہوں نے کہا کہ ماضی میں جب اسمبلی توڑی گئی تو اسے غلط قرار دینے کے باوجود بھی الیکشن کے عمل کو نہیں روکا گیا۔
نعیم بخاری نے کہا کہ اسمبلی کی کارروائی شروع ہوتے ہی فواد چوہدری نے پوائنٹ آف آرڈر مانگ لیا، تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ شروع ہوجاتی تو پوائنٹ آف آرڈر نہیں لیا جا سکتا تھا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ موشن اور تحریک کے لفظ میں کیا فرق ہی جس پر نعیم بخاری نے بتایا کہ موشن اور تحریک کے الفاظ ایک ہی اصطلاح میں استعمال ہوتے ہیں۔


اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے وکیل نعیم بخاری نے پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کے منٹس عدالت میں پیش کردئیے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اسپیکر کی تحریک مسترد کرنے کا اختیار قانون میں کہاں لکھا ہے، ہم پوائنٹ آف آرڈر کی تعریف سمجھنا چاہتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ جب عدم اعتماد کی تحریک آجائے تو کیا نیا پوائنٹ آف آرڈر اٹھایا جاسکتا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا اٹھایا گیا پوائنٹ آف آرڈر ایجنڈے میں شامل تھا ۔نعیم بخاری نے عدالت جواب دیا کہ پوائنٹ آف آرڈر پر کسی بھی وقت بات ہوسکتی ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ آئینی تقاضا ہے، کیا ووٹنگ کے آئینی حقوق کو رولز کے زریعے غیر مؤثر کیا جاسکتا ہی ۔نعیم بخاری نے 28 مارچ کے قومی اسمبلی اجلاس میں وقفہ سوالات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ تمام اپوزیشن اراکین نے کہا سوال نہیں پوچھنے صرف ووٹنگ کرائیں، اس شور شرابے میں ڈپٹی اسپیکر نے اجلاس ملتوی کر دیا۔
انہوں نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کو خط پر بریفننگ دی گئی، کمیٹی کو بتایا گیا کہ عدم اعتماد ناکام ہوئی تو نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق پارلیمانی کمیٹی قومی سلامتی میں 11 لوگ شریک ہوئے تھے، پارلیمانی کمیٹی کو بریفننگ دینے والوں کے نام میٹنگ منٹس میں شامل نہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی کو بریفننگ کس نے دی تھی ۔
جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ پارلیمنٹ کی کارروائی بڑی مشکل سے 2 یا تین منٹ کی تھی۔چیف جسٹس نے کہا کہ کیا پوائنٹ آف ارڈر پر اپوزیشن کو موقع نہیں ملنا چاہیے تھا جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ رولنگ ڈپٹی اسپیکر نے دی جبکہ رولنگ پر دستخط اسپیکر کے ہے، ڈپٹی اسپیکر کے دستخط کدھر ہیں جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی میٹنگ کے منٹس میں ڈپٹی اسپیکر کی موجودگی ظاہر نہیں ہوتی، کیا ڈپٹی اسپیکر اجلاس میں موجود تھے۔
نعیم بخاری نے کہا کہ جو دستاویز پیش کی ہے وہ شاید اصلی والی نہیں ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا وزیر خارجہ پارلیمانی کمیٹی اجلاس میں موجود تھی وزیر خارجہ کے دستخط میٹنگ منٹس میں نظر نہیں آ رہے، کیا وزیر خارجہ کو اجلاس میں نہیں ہونا چاہیے تھا ۔عدالت نے کہا کہ وزیر خارجہ کو پارلیمانی کمیٹی اجلاس میں ہونا چاہیے تھا، مشیر قومی سلامتی معید یوسف کا نام بھی میٹنگ منٹس میں نظر نہیں آ رہا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی قومی سلامتی اجلاس میں 57 ارکان موجود تھے، اراکین اسمبلی کے نوٹس میں خط کے مندرجات آ گئے تھے، کیا پوائنٹ آف آرڈر پر رولنگ کی بجائے اپوزیشن سے جواب نہیں لینا چاہیے تھا ۔نعیم بخاری نے عدالت میں فواد چوہدری کا پوائنٹ آف آرڈر پیش کرتے ہوئے کہا کہ پوائنٹ آف آرڈر پر بحث نہیں ہوتی۔اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ نیشنل سیکیورٹی کمیٹی اجلاس کی تفصیل کھلی عدالت میں نہیں دے سکوں گا، عدالت کسی کی وفاداری پر سوال اٹھائے بغیر بھی فیصلہ کرسکتی ہے۔


انہوںنے کہاکہ وزیراعظم سب سے بڑے اسٹیک ہولڈر ہیں اس لیے اسمبلی توڑنے کا اختیار بھی انہی کے پاس ہے، اسمبلی تحلیل کرنے کے لیے وزیراعظم کو وجوہات بتانا ضروری نہیں۔انہوں نے کہا کہ صدر سفارش پر فیصلہ نہ کریں تو 48 گھنٹے بعد اسمبلی ازخود تحلیل ہوجائے گی، تحریک عدم اعتماد پر ووٹ ڈالنا کسی رکن کا بنیادی حق نہیں تھا بلکہ ووٹ ڈالنے کا حق آئین اور اسمبلی رولز سے مشروط ہے، اسپیکر کسی رکن کو معطل کرے تو وہ بحالی کے لیے عدالت نہیں آ سکتا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کہنا چاہتے ہیں تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ رولز سے مشروط ہی . اٹارنی جنرل نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد سمیت تمام کارروائی رولز کے مطابق ہی ہوتی ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارلیمانی کارروائی کو مکمل ایسا استثنیٰ نہیں سمجھتا کہ کوئی آگ کی دیوار ہے، پارلیمانی کارروائی کا کس حد تک جائزہ لیا جا سکتا ہے عدالت فیصلہ کریگی۔
انہوں نے کہا کہ اگر اسپیکر کم ووٹ لینے والے کے وزیراعظم بننے کا اعلان کرے تو عدالت مداخلت کر سکتی ہے۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اسپیکر ایوان کا نگران ہے، اسپیکر صرف اپنی ذاتی تسکین کیلئے نہیں بیٹھتا، اسپیکر ایسا تو نہیں کر سکتا کہ اپنی رائے دے باقی ممبران کو گڈ بائے کہہ دے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارلیمانی نظام حکومت میں سیاسی جماعتوں کا اہم کردار ہوتا ہے، رکن اسمبلی کی معیاد نہیں ہوتی بلکہ اسمبلی کی معیاد ہوتی ہے، ایک فرد کو اسمبلی تحلیل کرنے کا حق حاصل ہے۔
انہوںنے کہاکہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک 28 مارچ کو ہی ختم ہوگئی تھی، عدم اعتماد کی تحریک کی منظوری ایوان نے دینی ہوتی ہے۔نجی ٹی وی کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ وزیراعظم کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک کا حق آئین نے دیا ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ تحریک پیش کرنے کی منظوری کیلئے 20 فیصد یعنی 68 ارکان کا ہونا ضروری نہیں، اگر 68 ارکان تحریک منظور اور اس سے زیادہ مسترد کریں تو کیا ہوگا ۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر 172 ارکان تحریک پیش کرنے کی منظوری دیں تو وزیراعظم فارغ ہوجائیگا۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ اسمبلی میں کورم پورا کرنے کیلئے 86 ارکان کی ضرورت ہوتی ہے، تحریک پیش کرنے کی منظوری کے وقت اکثریت ثابت کرنا ضروری ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد پر لیو گوانٹ کرتے ہوئے کوئی بنیاد بتانا ہوتی ہی ۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کی کوئی بنیاد بتانا ضروری نہیں، تحریک پیش کرتے وقت تمام 172 لوگ سامنے آجائیں گے، تحریک پیش کرنے اور ووٹنگ میں تین سے سات روز کا فرق بغیر وجہ نہیں، سات روز میں وزیراعظم اپنے ناراض ارکان کو منا سکتا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ 20 فیصد اراکین نے جب تحریک پیش کر دی تو بحث کرانا چاہیے تھی، وزیر اعظم کو سب پتا ہوتا ہے وہ جاتے ارکان سے پوچھتے وہ کیا چاہتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ فواد چوہدری 28 مارچ کو اعتراض کرتے تو کیا تحریک پیش کرنے سے پہلے مسترد ہوسکتی تھی جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ تحریک پیش ہونے کے وقت بھی مسترد ہو سکتی تھی، تحریک عدم اعتماد قانونی طور پر پیش کرنے کی منظوری نہیں ہوئی۔


جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ اسپیکر نے قرار دیدیا کہ تحریک منظور ہوگئی آپ کیسے چیلنج کر سکتے ہیں اٹارنی جنرل نے کہا کہ اسپیکر کی رولنگ چیلنج نہیں ہوسکتی تو کیس ہی ختم ہو گیا۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ جہاں آئین پاکستان نے خود سے انتخابات کا ذکر کرایا ہے اس آئینی اختیار کو کیسے ختم کیا جاسکتا ہی اٹارنی جنرل نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ عدلیہ کو پارلیمان کی کارروائی کو جانچنے کا کس حد تک اختیار حاصل ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اسپیکر پارلیمان کا محافظ ہوتا ہے، کیا اسپیکر کو آئینی تقاضوں کے برخلاف جانے کا اختیار حاصل ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ جب عدم اعتماد کی تحریک پیش ہونے کیلئے منظور ہوئی تو اس وقت 169 اراکین تھے۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر آپ کی بات مان لی جائے تو 172 اراکین پارلیمان میں موجود تھے، اس حساب سے تو وزیراعظم فارغ ہوگئے، اسمبلی سے عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کی منظوری لینا آئینی تقاضا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ فرض کریں عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کیلئے 68 اراکین کی ضرورت ہے، اراکین 67 ہوتے ہیں اسپیکر 68 شمار کرلیتا ہے، پھر وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ ہوتی وزیراعظم فارغ ہوجاتا ہے ایسے صورتحال میں کیا ہوگا۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ میرا اصل مقدمہ ہی یہی ہے کہ تحریک عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کی منظوری نہیں ہوئی۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ووٹنگ کیلئے 172 ارکان ہونے چاہیے، لیو گرانٹ اسٹیج پر 172 ارکان کی ضرورت نہیں، آرٹیکل 55 کے تحت ایوان میں فیصلے اکثریت سے ہوتے ہیں۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر لیو گرانٹ کے وقت 172 ارکان چاہیئے تو پھر تو بات ہی ختم ہو گئی۔چیف جسٹس نے کہا کہ اسمبلی کی تحلیل اصل مسئلہ ہے اس پر آپ کو سننا چاہتے ہیں، دیکھنا ہے اسمبلی تحلیل اور اسپیکر رولنگ میں کتنے ٹائم کا فرق ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد نمٹانے کے بعد ہی اسمبلی تحلیل ہوئی۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ عدالت نے حالات و نتائج کو دیکھ کر فیصلہ نہیں کرنا، عدالت نے آئین کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کرنا ہے، کل کو کوئی اسپیکر آئے گا وہ اپنی مرضی کرے گا، عدالت نے نہیں دیکھنا کون آئے گا کون نہیں، نتائج میں نہیں جائیں گے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں رولنگ کا دفاع نہیں کر رہا، میرامدعا نئے انتخابات کا ہے۔
نجی ٹی ووی کے مطابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم نے قومی مفاد کو بھی ہم نے دیکھنا ہے، ایک بات تو نظر آ رہی ہے رولنگ غلط ہے، دیکھنا ہے اب اس سے آگے کیا ہوگا۔چیف جسٹس نے کہا کہ یہ بات تو بالکل واضح ہے رولنگ غلط دی گئی، سوال یہ ہے کہ اب آگے کیا کرنا ہے، اب اٹارنی جنرل اور مسلم لیگ (ن) کے وکیل بتائیں آگے کیسے چلنا ہے، ہم نے ملکی مفاد کو دیکھنا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ عدالت کو حالات و نتائج دیکھ کر فیصلہ نہیں کرنا،عدالت کو آئین کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کرنا ہے، کل کو کوئی اسپیکر آئے گا وہ اپنی مرضی کرے گا، عدالت کو نہیں دیکھنا کون آئے گا کون نہیں، نتائج میں نہیں جائیں گے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت نے برطرف ملازمین کی نظرثانی مسترد کرکے بھی بحالی کا راستہ نکالا تھا۔انہوں نے کہا کہ اپوزیشن لیڈر بھی موجود ہیں اپوزیشن سے تجاویز بھی لے لیں، موجودہ مینڈیٹ 2018 کی اسمبلی کا ہے، آج اگر کوئی حکومت بنائے گا تو کتنی مستحکم ہو گی۔



عدالت نے اپوزیشن لیڈر کو روسٹرم پر بلا لیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ سری لنکا میں بجلی اور دیگر سہولیات کے لیے بھی پیسہ نہیں بچا، آج روپے کی قدر کم ہوگئی، ڈالر 190 تک پہنچ چکا ہے، ہمیں مضبوط حکومت درکار ہے، اپوزیشن لیڈر کیلئے یہ بہت مشکل ٹاسک ہوگا۔روسٹرم پر آکر شہباز شریف نے کہا کہ عام آدمی ہوں قانونی بات نہیں کروں گا، عدالت کے سامنے پیش ہونا میرے لئے اعزاز ہے، رولنگ ختم ہونے پر تحریک عدم اعتماد بحال ہو جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ میری ایک ہی درخواست قومی اسمبلی کو بحال کیا جائے، ہماری تاریخ میں آئین کئی مرتبہ پامال ہوا، جو بلنڈر ہوئے ان کی توثیق اور سزا نہ دیے جانے کی وجہ سے یہ حال ہوا۔شہباز شریف نے کہا کہ عدالت اللہ اور پاکستان کے نام پر پارلیمنٹ کو بحال کرے، پارلیمنٹ کو عدم اعتماد پر ووٹ کرنے دیا جائے، بطور اپوزیشن لیڈر چارٹر آف اکنامکس کی پیش کش کی، سال 2018 میں ڈالر 125 روپے کا تھا، اب ڈالر 190 تک پہنچ چکا ہے، پارلیمنٹ کو اس کا کام کرنا چاہیے۔
شہباز شریف نے کہا کہ پی ٹی آئی نے بھی اتحادیوں کے ساتھ مل کر حکومت بنائی تھی، اپنی پہلی تقریر میں چارٹر آف اکانومی کی بات کی تھی، عوام بھوکی ہو تو ملک کو قائد کا پاکستان کیسے کہیں گے، مطمئن ضمیر کے ساتھ قبر میں جائوں گا، سیاسی الزام تراشی نہیں کروں گا، آج بھی کہتا ہوں چارٹر آف اکانومی پر دستخط کریں۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اپوزیشن پہلے دن سے الیکشن کرانا چاہتی تھی جس پر شہباز شریف نے کہا کہ مسئلہ آئین توڑنے کا ہے، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آئین کی مرمت ہم کر دیں گے۔
مسلم لیگ (ن)کے وکیل مخدوم علی خان نے عدالت میں کہا کہ کون کس کو نہیں چھوڑے گا، کس کو سرپرائز دے گا یہ نہیں کہنا چاہیے، وزیراعظم نے سرپرائز دینے کا اعلان کیا تھا۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیشہ نئے الیکشن کا مطالبہ کرتے تھے آج کیوں نہیں مان رہے، س
رپرائز پر اپنا فیصلہ واضح کر چکے ہیں۔شہباز شریف نے کہا کہ اپنی اپوزیشن سے ملکر انتخابی اصلاحات کریں گے تاکہ شفاف الیکشن ہو سکے، عام آدمی تباہ ہوگیا اس کے لیے ریلیف پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ سب چاہتے ہیں اراکین اسمبلی کے نہیں عوام کے منتخب وزیراعظم بنیں، جنہوں نے عمران خان کو پلٹا ہے وہ شہباز شریف کو بخشیں گی اپوزیشن کا الیکشن کا مطالبہ پورا ہو رہا ہے تو ہونے دیں۔وکیل مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ اٹارنی جنرل کی آخری باتیں دھمکی آمیز تھیں، اسٹاک مارکیٹ کریش کر گئی، ڈالر مہنگا اور روپے کی قدر کم ہو گئی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ تمام معاشی مسائل ہیں، مخدوم علی خان نے کہا کہ یہ معاشی مسائل کس نے پیدا کیے ہیں چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے نہیں لگتا ہم سوالات کے جواب دینے بیٹھے ہیں۔مخدوم علی خان نے کہا کہ سیاست روز تبدیل ہوتی ہے، منحرف ارکان کے سوا اپوزیشن کے پاس 177 ارکان ہیں۔چیف جسٹس کے کہنے پر مخدوم علی خان نے عدالت کو اپوزیشن ارکان کی پارٹی وائز تفصیلات بتائیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آئین کی دفعہ آرٹیکل 184 (3) کے تحت کیس سن رہے ہیں، عوامی حقوق کا تحفظ کریں گے۔مخدوم علی خان نے کہا کہ مجھے اندازہ تھا حکومت بلآخر انتخابات کی طرف جائے گی، جانتا تھا کہ اسپیکر کی رولنگ کا دفاع کرنا ممکن نہیں۔مخدوم علی خان نے کہا کہ حاجی سیف اللہ کیس امتیازی کیس ہے، یہ نہیں ہو سکتا کہ رولنگ ختم ہو اسمبلی بحال نہ ہو۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اس نقطہ پر لگتا ہے تیاری کرکے آئے ہیں مخدوم علی خان نے کہا کہ مجھے پتا تھا یہ اس طرف آئیں گے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آئین سے 58(2B) جمہوری انداز میں نکالا گیا تھا۔مخدوم علی خان نے کہا کہ اس رولنگ کے بعد اقدامات کی توثیق کی تو ایک پیغام جائیگا کہ پلگ نکال دو تاکہ دوسرا نہ آسکے۔وکیل مسلم لیگ (ن)نے کہا کہ تین اسمبلیوں میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے، صوبائی حکومتیں رکھتے ہوئے انتخابات کیسے شفاف ہوں گی صدر نے اسپیکر کی ملی بھگت سے سمری منظور کی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اپوزیشن پر بہت سنجیدہ الزامات عائد ہیں، سخت الفاظ استعمال کرنے سے گریز کریں، عدالت میرٹ پر جائے گی نہ ہی الزامات پر فیصلہ دے گی۔شہباز شریف نے کہا کہ غداری کے الزام کے ساتھ الیکشن کیسے لڑیں گی ہم اس الزام کے ساتھ گھر والوں کا سامنا نہیں کر سکتے۔چیف جسٹس نے کہا کہ جنہوں نے غداری کا الزام لگایا ہے وہ ثابت کریں۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ رولنگ ختم ہوگئی تو الزام کیسے برقرار رہے گا ۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کا آپس میں تعلق اتنا خراب ہے کہ پتا نہیں ساتھ چل سکتے ہیں یا نہیں، میاں صاحب وہ آپ سے ناراض رہتے ہیں ہاتھ نہیں ملاتے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ میاں صاحب چھوڑ دیں آپ میں سے کسی کو کچھ نہیں کہا گیا۔شہباز شریف نے کہا کہ سازش کے ثبوت لے آئیں عدالت کی ہر سزا قبول کرتے ہوئے سیاست چھوڑ دوں گا۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے بارے میں سوشل میڈیا پر بہت تنقید ہو رہی ہے، سیاست میں سب کا احترام ہے، عدالت کسی کو ڈِس ریسپیکٹ نہیں کرنے دے گی۔
https://www.urdupoint.com/daily/livenews/2022-04-07/news-3094908.html
=================================

تحریک عدم اعتماد مسترد ہونے کے بعد سپریم کورٹ کی جانب سے لیے گئے ازخود نوٹس کا فیصلہ سنادیا۔ فیصلے میں ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کو کالعدم قرار دیتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے تحلیل کی گئی اسمبلی کو بحال کردیا۔

سپریم کورٹ نے قومی اسمبلی کے اسپیکر کو ہفتے کی صبح اسمبلی کا اجلاس بلانے اور تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کروانے کا حکم دے دیا ہے۔

چیف جسٹس نے فیصلہ سناتے ہوئے ریمارکس دیے کہ پانچ، صفر سے فیصلہ سنا رہے ہیں، موجودہ معاملات نمٹائے جاتے ہیں۔

فواد چوہدری نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو بد قسمت فیصلہ قرار دے دیا

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ڈپٹی اسپیکر نے 3 اپریل کو رولنگ دی، مارچ کو تحریک عدم اعتماد پر لیو گرانٹ کی گئی، ڈپٹی اسپیکر کی تین اپریل کی رولنگ آئین کے خلاف ہے۔

سپریم کورٹ نے اسمبلی کی تحلیل کے آرڈر کو غیر آئینی قرار دے دیا اور ریمارکس دیے کہ وزیراعظم صدر کو ایڈوائس نہیں کرسکتے تھے، اب تک کے قانونی اقدامات غیر آئینی تھے۔

سپریم کورٹ نے عمران خان کو دوبارہ ان کے عہدے پر بحال کردیا۔

قوم کو آئین کی سر بلندی بہت بہت مبارک، مریم نواز

عدالت عظمیٰ نے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کو غیرآئینی اور غیر قانونی قرار دیا، جبکہ سپریم کورٹ نے قومی اسمبلی بھی کو بحال کردیا۔

سپریم کورٹ نے ہفتے کو صبح 10 بجے اسمبلی اجلاس بلانے کا حکم دیا جبکہ صدر کے نگراں حکومت کے احکامات کالعدم قرار دے دیے گئے۔

عدالت نے قرار دیا کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کی صورت میں نئے وزیراعظم کا انتخاب ہوگا، کسی ممبر کو ووٹ کاسٹ کرنے سے روکا نہیں جائے گا۔

سپریم کورٹ نے یہ بھی قرار دیا کہ موجودہ حکمنامے سے آرٹیکل 63 کی کارروائی متاثر نہیں ہوگی۔


سپریم کورٹ میں تحریکِ عدم اعتماد مسترد ہونے پر لیے گئے ازخود نوٹس کی سماعت مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا گیا تھا۔ یہ اس ازخود نوٹس کی آج مسلسل پانچویں سماعت تھی۔

چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل پر مشتمل 5 رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

سماعت مکمل ہونے پر چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے کہا تھا کہ آج شام ساڑھے 7 بجے فیصلہ سنائیں گے۔

فیصلہ سنانے سے قبل الیکشن کمیشن حکام طلب

سپریم کورٹ نے فیصلہ سنانے سے قبل سیکریٹری الیکشن کمیشن کو طلب کرلیا۔

اس طلبی پر سیکریٹری الیکشن کمیشن سپریم کورٹ پہنچے۔

سپریم کورٹ کے اطراف سیکیورٹی سخت

فیصلہ سنانے سے قبل سپریم کورٹ کی سیکیورٹی سخت کردی گئی تھی جبکہ غیر متعلقہ افراد کو سپریم کورٹ آنے سے روک دیا گیا تھا۔

پولیس اور ایف سی کی بھاری نفری سپریم کورٹ پر تعینات کی گئی تھی۔

فیصلہ سنانے سے قبل جسٹس صاحبان کی مشاورت

ازخود نوٹس کیس کا فیصلہ سنانے سے قبل بینچ میں شامل جسٹس صاحبان نے مشاورت کی۔

ازخود نوٹس کیس کی سماعت

اس سے قبل سپریم کورٹ میں حکومتی مؤقف کو بڑا دھچکا لگا تھا، چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کو غلط قرار دے دیا تھا۔

عدالتِ عظمیٰ میں اس وقت دلچسپ صورتِحال پیدا ہوئی جب اٹارنی جنرل ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کا دفاع کرنے سے دست بردار ہوگئے۔

ایک بات تو نظر آ رہی ہے کہ رولنگ غلط ہے: چیف جسٹس

چیف جسٹس پاکستان نے دورانِ سماعت ریمارکس دیے کہ ایک بات تو ہمیں نظر آ رہی ہے کہ رولنگ غلط ہے، اب اگلا قدم کیا ہوگا؟ آج ہی کیس کا فیصلہ کریں گے، قومی مفاد اور عملی ممکنات دیکھ کر ہی آگے چلیں گے۔


جمہوریت بہترین انتقام ہے ، بلاول بھٹو

بیرسٹر علی ظفر پھر روسٹرم پر

صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر آج پھر روسٹرم پر آگئے اور کہا کہ میں آج 10 منٹ میں دلائل مکمل کرلوں گا۔

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کے روبرو کہا کہ ایک ڈکٹیٹر نے کہا تھا کہ آئین 10 سے 12 صفحوں کی کتاب ہے، اسے کسی بھی وقت پھاڑ سکتا ہوں۔

اس پر چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے انہیں تنبیہ کی کہ تقریر نہ کریں، ہم پنجاب کے مسائل میں نہیں پڑنا چاہتے۔

پنجاب اسمبلی کا چرچہ

جسٹس مظہرعالم نے کہا کہ کل ٹی وی پر بھی دکھایا گیا کہ پنجاب اسمبلی میں خاردار تاریں لگا دی گئی ہیں۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ جب اسمبلی کو تالے لگا دیے گئےہیں توممبرانِ اسمبلی کہاں جائیں؟

چیف جسٹس نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ پنجاب کا معاملہ دیکھے گی، ہم صرف قومی اسمبلی کا معاملہ دیکھ رہے ہیں، خود فریقین آپس میں بیٹھ کر معاملہ حل کریں۔

جسٹس مظہرعالم نے استفسار کیا کہ کیا اسمبلی کو اس طرح سیل کیا جا سکتا ہے؟ پنجاب میں آپ لوگ یہ کیا کر رہے ہیں؟

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی کارروائیوں کو الگ الگ استحقاق حاصل ہے۔

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے استفسار کیا کہ کیا موجودہ کیس میں اسمبلی کارروائی کا اثر باہر نہیں ہوا؟

جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے سوال کیا کہ کیا کوئی بھی غیر آئینی اقدام پارلیمنٹ میں ہوتا رہے اس کو تحفظ حاصل ہے؟ ہم آئین کی حفاظت کے لیے بیٹھے ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے دریافت کیا کہ اگر پارلیمنٹ میں کوئی غیر آئینی حرکت ہو رہی ہے تو اس کا کوئی حل نہیں؟

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ یہ مسئلہ پارلیمنٹ کو حل کرنا ہے اور مسئلے کا حل عوام کے پاس جانا ہے، مجھے آپ کی تشویش کا اندازہ ہے مگر ہمیں وہی کرنا ہے جو آئین کہتا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ اگر پارلیمنٹرین کے ساتھ کچھ غیر آئینی ہو تو ان کے پاس اس کی کوئی داد رسی نہیں ہو سکتی؟

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ہاؤس آف کامن میں ایک ممبر کو حلف لینے نہیں دیا گیا، عدالت نے قرار دیا کہ مداخلت نہیں کر سکتے۔

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے استفسار کیا کہ اگر یہ پارلیمنٹ کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہو تو پھر کیا کریں؟

بیرسٹر علی ظفر نے دلیل دیتے ہوئے کہا کہ اگر ججز کے آپس میں اختلافات ہوں تو کیا پارلیمنٹ مداخلت کر سکتی ہے؟ جیسے پارلیمنٹ مداخلت نہیں کر سکتی ویسے ہی عدلیہ بھی مداخلت نہیں کر سکتی۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا وفاقی حکومت کی تشکیل پارلیمنٹ کی چار دیواری کے اندر کا معاملہ ہے؟ کسی اقدام کے نتائج کا اثر پارلیمنٹ سے باہر ہو تو عدالت مداخلت کر سکتی ہے۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ وزیرِ اعظم کا انتخاب یا تحریکِ عدم اعتماد پارلیمنٹ کا اندرونی معاملہ ہے۔

چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ وزیرِ اعظم کا انتخاب پارلیمنٹ کا اندرونی معاملہ ہے؟

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پارلیمان ناکام ہو جائے تو معاملہ عوام کے پاس ہی جاتا ہے، آئین کے تحفظ کے لیے اس کے ہر آرٹیکل کو مدِ نظر رکھنا ہوتا ہے، اگر ججز میں تفریق ہو، وہ ایک دوسرے کو سن نہ رہے ہوں تو کیا پارلیمنٹ کچھ کر سکتی ہے؟ اس کا جواب ہے نہیں، عدالت کو خود معاملہ نمٹانا ہے، پرائم منسٹر کا الیکشن اور تحریکِ عدم اعتماد کا معاملہ پارلیمنٹ کا اختیار ہے، قومی اسمبلی بنتی ہی اس لیے ہے، اس کو اپنا اسپیکر اور پرائم منسٹر منتخب کرنا ہے، وفاقی حکومت کی تشکیل اور اسمبلی توڑنے کا عدالت جائزہ لے سکتی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدم اعتماد پر اگر ووٹنگ ہو جاتی تو معلوم ہوتا کہ وزیرِ اعظم کون ہو گا۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ وزیرِ اعظم کے الیکشن اور عدم اعتماد دونوں کا جائزہ عدالت نہیں لے سکتی، عدالت یہ کہے کہ اب معاملہ پاکستان کے عوام پر چھوڑا جائے، عدالت کو قرار دینا چاہیے کہ غیر قانونی حرکت ہوئی بھی ہے تو فیصلہ عوام پر چھوڑ دیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پارلیمان کی ذمے داری ہے کہ قانون سازی کرے، اگر پارلیمان قانون سازی نہ کرے تو کیا ہو گا؟

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ قانون سازی نہ ہو تو پرانے قوانین ہی برقرار رہیں گے، جمہوریت اور الیکشن کو الگ نہیں کیا جا سکتا، ووٹرز سب سے زیادہ بااختیار ہیں، جونیجو حکومت کا خاتمہ عدالت نے آئین سے منافی قرار دیا تھا، جونیجو کیس میں عدالت نے کہا کہ معاملہ الیکشن میں جا رہا ہے اس لیے فیصلہ عوام ہی کریں گے۔

جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہا کہ ہمارے سامنے معاملہ عدم اعتماد کا ہے، عدم اعتماد کے بعد رولنگ آئی، اس ایشو کو ایڈریس کریں۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ یہاں بھی اسمبلی تحلیل کر کے الیکشن کا اعلان کر دیا گیا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کیوں نہیں بتاتے کہ کیا آئینی بحران ہے؟ سب کچھ آئین کے مطابق ہو رہا ہے تو آئینی بحران کہاں ہے؟ ملک میں کوئی آئینی بحران نہیں ہے۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ مانتا ہوں کہ کوئی آئینی بحران نہیں ہے۔

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ اسپیکر رولنگ بظاہر آرٹیکل 95 کی خلاف ورزی ہے، اگر کوئی بھی ناکام ہو رہا ہو تو ایسے رولنگ لا کر نئے الیکشن کرا لے؟ انتخابات پر اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں، انتخابات کی کال دے کر 90 دن کے لیے ملک کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا جاتا ہے، یہ قومی مفاد کا معاملہ ہے۔

صدرِ مملکت کے وکیل علی ظفر کے دلائل مکمل

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ جہاں تک صدر کی بات ہے وہ وزیرِ اعظم کی ایڈوائس پر عمل کرتے ہیں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ پی ٹی آئی اب بھی سب سے زیادہ اکثریت رکھنے والی جماعت ہے، مخلوط حکومت بنتی ہے تو کیا ممکن ہے کہ سب سے بڑی جماعت کو دیوار سے لگا دیا جائے؟

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ کیس کے سیاسی محرکات میں نہیں جانا چاہتا، عدالت کو سیاسی بحث میں نہیں پڑنا چاہیے، بس آئین پر بات کرنی چاہیے۔

اس کے ساتھ ہی صدرِ مملکت کے وکیل علی ظفر کے دلائل مکمل ہو گئے۔

’’جب وزیرِ اعظم کیخلاف عدم اعتماد ہو تو وہ اسمبلی تحلیل نہیں کر سکتا‘‘
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ جب وزیرِ اعظم کے خلاف عدم اعتماد ہو تو وہ اسمبلی تحلیل نہیں کر سکتا، اسپیکر کی رولنگ نے اسمبلی توڑنے کا راستہ ہموار کیا، ہم نے کل بھی کہا تھا کہ اس اقدام کی وجہ اور نیت کو دیکھیں گے، اسپیکر کی رولنگ بظاہر آئین کے آرٹیکل 95 کے برخلاف ہے، دیکھنا ہے کہ یہ کوئی آئین کے مینڈیٹ کو شکست دینے کا گریٹر ڈیزائن تو نہیں، یہ سب صورتِ حال قومی مفاد میں نہیں ہے، یہ قومی مفاد کا معاملہ ہے۔

وزیرِ اعظم عمران خان کے وکیل کے دلائل

وزیرِ اعظم عمران خان کے وکیل امتیاز رشید صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت ماضی میں اسمبلی کارروائی میں مداخلت سے احتراز برتتی رہی ہے، چوہدری فضل الہٰی کیس میں اراکین کو ووٹ دینے سے روکا اور تشدد کیا گیا تھا، عدالت نے اس صورتِ حال میں بھی پارلیمانی کارروائی میں مداخلت نہیں کی تھی، ایوان کی کارروائی میں مداخلت عدلیہ کے دائرہ اختیار سے باہر ہے، عدالت پارلیمنٹ کو اپنا گند خود صاف کرنے کا کہے، یہ ایوان کی اندرونی کارروائی ہے۔

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ درخواست گزاروں کی جانب سے کہا گیا کہ لیو گرانٹ ہونے کے بعد رولنگ نہیں آ سکتی، درخواست گزاروں کا مؤقف ہے کہ 28 مارچ کو تحریکِ عدم اعتماد پیش ہونے سے پہلے رولنگ آ سکتی تھی، اس معاملے پر آپ کیا کہیں گے؟

وزیرِ اعظم کے وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ اسپیکر کو معلوم ہو کہ بیرونی فنڈنگ ہوئی یا ملکی سالمیت کو خطرہ ہے تو قانون سے ہٹ کر بھی ملک کو بچائے گا، اسپیکر نے اپنے حلف کے مطابق بہتر فیصلہ کیا، اسپیکر کا فیصلہ پارلیمنٹ کا اندرونی معاملہ ہے، اپوزیشن نے ڈپٹی اسپیکر کی صدارت پر اعتراض نہیں کیا تھا، تحریکِ عدم اعتماد پارلیمنٹ کا اندرونی معاملہ ہے۔

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ پارلیمنٹ کا استحقاق اور اس کی حدود کا تعین عدالت کو کرنا ہے۔

امتیاز صدیقی نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے اپنے ذہن کے مطابق جو بہتر سمجھا وہ فیصلہ کیا، پارلیمنٹ کے اجلاس میں ڈپٹی اسپیکر نے جو فیصلہ دیا اس پر وہ عدالت کو جوابدہ نہیں، سپریم کورٹ آرٹیکل 69 کے تحت پارلیمنٹ کی کارروائی میں مداخلت نہیں کر سکتی۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ جن فیصلوں کا حوالہ دیا گیا سپریم کورٹ ان پر عمل کرنے کی پابند نہیں۔

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ پارلیمانی کارروائی کے استحقاق کا فیصلہ عدالت کرے گی، عدالت جائزہ لے گی کہ کس حد تک کارروائی کو استحقاق حاصل ہے، کیا ڈپٹی اسپیکر کے پاس کوئی مواد دستیاب تھا جس کی بنیاد پر رولنگ دی؟ کیا ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ نیک نیتی پر مبنی تھی؟

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ عدالت فیصلوں میں دی گئی آبزرویشنز کی پابند نہیں۔

وزیرِ اعظم کے وکیل نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے نیشنل سیکیورٹی کمیٹی پر انحصار کیا، قومی سلامتی کمیٹی کی کارروائی پر فردِ واحد اثر انداز نہیں ہو سکتا۔

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے استفسار کیا کہ ڈپٹی اسپیکر کے سامنے قومی سلامتی کمیٹی کے منٹس کب رکھے گئے؟

وکیل امتیاز صدیقی نے جواب دیا کہ ڈپٹی اسپیکر کے معاملے پر مجھے نہیں معلوم۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جو آپ کو نہیں معلوم اس پر بات نہ کریں، آپ کے مطابق ڈپٹی اسپیکر کے پاس ووٹنگ کے دن مواد موجود تھا جس پر رولنگ دی؟ وزیرِ اعظم نے آرٹیکل 58 کی حدود کو توڑا اس کے کیا نتائج ہوں گے؟ ڈپٹی اسپیکر کو 28 مارچ کو ووٹنگ پر کوئی مسئلہ نہیں تھا، ووٹنگ کے دن رولنگ آئی۔

وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ وزیرِ اعظم نے کہا کہ اگر بدنیت ہوتا تو اپنی ہی حکومت تحلیل نہ کرتا، انہوں نے کہا کہ معلوم ہے کہ نئے انتخابات پر اربوں روپے لگیں گے، وزیرِ اعظم نے یہ بھی کہا کہ وہ ان کے خلاف عوام میں جا رہے ہیں جنہوں نے کئی سال حکومتیں کیں۔

اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر کے وکیل نعیم بخاری کے دلائل

اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کے وکیل نعیم بخاری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میں بیرسٹر علی ظفر کے دلائل اپناتا ہوں، عدالت کا زیادہ وقت نہیں لوں گا، سوال ہوا تھا کہ پوائنٹ آف آرڈر تحریکِ عدم اعتماد میں نہیں لیا جا سکتا؟ پوائنٹ آف آرڈر تحریکِ عدم اعتماد سمیت ہر موقع پر لیا جا سکتا ہے، اتنے دنوں سے آپ نے صبر کا مظاہرہ کیا ہے، ہر سوال کا جواب دوں گا۔

جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے نعیم بخاری سےکہا کہ ہم بھی آپ کو سننے کے لیے بیتاب ہیں۔

وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ آرٹیکل 95 کی حد اور اس میں دیے گئے مقررہ وقت سے آگاہ ہوں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا اسپیکر کا عدم اعتماد پر ووٹنگ نہ کرانا آئین کی خلاف ورزی ہے؟

نعیم بخاری نے جواب دیا کہ پوائنٹ آف آرڈر تحریکِ عدم اعتماد سمیت ہر موقع پر لیا جا سکتا ہے، اگر اسپیکر پوائنٹ آف آرڈر مسترد کر دیتا کیا عدالت تب بھی مداخلت کرتی؟

جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیا کہ کیا زیرِ التواء تحریکِ عدم اعتماد پوائنٹ آف آرڈر پر مسترد ہو سکتی ہے؟

وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ پوائنٹ آف آرڈر پر اسپیکر تحریکِ عدم اعتماد مسترد کر سکتا ہے، پوائنٹ آف آرڈر پر تحریک مسترد ہونے کا واقعہ کبھی ہوا نہیں، پوائنٹ آف آرڈر پر تحریک مسترد کرنے کا اسپیکر کو اختیار ضرور ہے، نئے انتخابات کا اعلان ہو چکا، اب معاملہ عوام کے پاس ہے، سپریم کورٹ کو اب یہ معاملہ نہیں دیکھنا چاہیے۔

عدالت نے کیس کی سماعت میں 15 منٹ کا وقفہ کر دیا، تاہم وقفے کے بعد دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو نعیم بخاری نے دوبارہ دلائل کا آغاز کیا۔

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے استفسار کیا کہ کیا تحریک پیش ہونے کے لیے لیو گرانٹ کا کوئی آرڈر ہوتا ہے؟

نعیم بخاری نے جواب دیا کہ تحریکِ عدم اعتماد پیش ہونے کی منظوری کا یہ مطلب نہیں کہ مسترد نہیں ہو سکتی، عدالتیں بھی درخواستیں سماعت کے لیے منظور کرنے کے بعد خارج کرتی ہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال کیا کہ موشن اور تحریک کے لفظ میں کیا فرق ہے؟

نعیم بخاری نے جواب دیا کہ موشن اور تحریک کے الفاظ ایک ہی اصطلاح میں استعمال ہوتے ہیں، اسمبلی اجلاس شروع ہوتے ہی وزیرِ قانون فواد چوہدری نے پوائنٹ آف آرڈر مانگ لیا، تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ شروع ہو جاتی تو پوائنٹ آف آرڈر نہیں لیا جا سکتا تھا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا ایجنڈے میں تحریکِ عدم اعتماد شامل ہونے کا مطلب ووٹنگ کے لیے پیش ہونا نہیں؟ تحریکِ عدم اعتماد کے علاوہ پارلیمان کی کسی بھی دوسری کارروائی کا طریقہ آئین میں درج نہیں، کیا اسمبلی رولز کا سہارا لے کر آئینی عمل کو روکا جا سکتا ہے؟ کیا اسپیکر آئینی عمل سے انحراف کر سکتا ہے؟ کیا آئینی عمل سے انحراف پر اسپیکر کے خلاف کوئی کارروائی ہو سکتی ہے؟

وکیل نعیم بخاری نے جواب دیا کہ آئین بہت سے معاملات پر خاموش ہے، جہاں آئین خاموش ہوتا ہے وہاں رولز بنائے جاتے ہیں۔

پارلیمانی قومی سلامتی کمیٹی اجلاس کے مندرجات پیش

اس موقع پر نعیم بخاری نے پارلیمانی قومی سلامتی کمیٹی اجلاس کے مندرجات عدالت کے سامنے پیش کر دیے۔

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے استفسار کیا کہ پارلیمانی کمیٹی کے منٹس تو ہیں پر اس میں شرکاء کون کون تھے؟ پارلیمانی قومی سلامتی کمیٹی میں بریفنگ کس نے دی؟

وکیل نعیم بخاری نے جواب دیا کہ مشیرِ قومی سلامتی نے کمیٹی میں بریفنگ دی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ وزیرِ خارجہ پارلیمانی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں موجود تھے یا نہیں؟

نعیم بخاری نے جواب دیا کہ بظاہر لگ رہا ہے کہ وزیرِ خارجہ اجلاس میں موجود نہیں تھے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ملک کا وزیرِ خارجہ ہے اور اہم اجلاس میں موجود نہیں۔

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ اجلاس کے منٹس میں معید یوسف کا نام بھی نہیں۔

نعیم بخاری نے تحریکِ عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد اسمبلی میں وقفۂ سوالات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ تمام اپوزیشن اراکین نے کہا کہ کوئی سوال نہیں پوچھنے، صرف ووٹنگ کرائیں، اس شور شرابے میں ڈپٹی اسپیکر نے اجلاس ملتوی کر دیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق پارلیمانی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں 11 لوگ شریک ہوئے تھے، پارلیمانی کمیٹی کو بریفنگ دینے والوں کے نام میٹنگ کے منٹس میں شامل نہیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اسپیکر نے رولنگ کے بعد ووٹنگ کیوں نہیں کرائی؟ رولنگ میں تحریکِ عدم اعتماد مسترد کرنا شاید اسپیکر کا اختیار نہیں تھا، یہ بھی ممکن تھا کہ کچھ ارکان اسپیکر کی رولنگ سے مطمئن ہوتے، کچھ نہ ہوتے، تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ آئین کا تقاضہ ہے۔

جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ ڈپٹی اسپیکر کو لکھا ہوا ملا کہ یہ پڑھ دو، ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ کے آخر میں اسپیکر اسد قیصر کا نام بھی لیا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا عوامی نمائندوں کی منشا کے خلاف رولنگ دینا پارلیمانی کارروائی سے باہر نہیں آتا؟

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ وفاقی وزیر کا پوائنٹ آف آرڈر پر سوال ہو سکتا ہے، اسپیکر پوائنٹ آف آرڈر پر رولنگ بھی دے سکتا ہے، یہاں تک تو رولنگ کی بات درست ہے، رولنگ کا یہ حصہ کہ تحریکِ عدم اعتماد کو مسترد کرنا خلافِ آئین ہے، آئین کا حکم ہے کہ عدم اعتماد پر ووٹنگ ہونا لازم ہے۔

وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ پارلیمان کے اندر جو بھی ہو اسے آئینی تحفظ حاصل ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیا کہ کیا ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ میں اٹھائے گئے نکات پارلیمانی کارروائی سے باہر نہیں تھے؟

نعیم بخاری نے جواب دیا کہ حتمی فیصلہ عدالت کا ہو گا، ہمارا مؤقف ہے کہ رولنگ کا جائزہ نہیں لیا جا سکتا، ایوان کے پاس رولنگ پاس کرنے کا اختیار تھا مگر انہوں نے نہیں کی۔

چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ آپ کیسے کہہ رہے ہیں کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کو اسپیکر کے سامنے چیلنج کیا جا سکتا ہے؟ آپ کے مطابق اراکین کو ڈپٹی اسپیکر کے خلاف اسپیکر کے پاس جانا چاہیے تھا؟ آسمان اس وقت گرا جب اسمبلی تحلیل کر دی گئی۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اسمبلی تحلیل نہ ہوتی تو متاثرہ ارکان کے پاس داد رسی کا طریقہ کار کیا تھا؟

جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا ارکان نئی تحریکِ عدم اعتماد لا سکتے تھے؟

وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ اسپیکر نے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کی توثیق کی ہے۔

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ رولز کے مطابق پوائنٹ آف آرڈر پر دوسری طرف کو بات کرنے کا موقع دیا جا سکتا ہے، آپشن کے باوجود دوسری طرف کو سننے کا موقع نہیں دیا گیا۔

وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ عدالت اسمبلی کی تحلیل کا جائزہ لے سکتی ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیا کہ جس رولنگ کی بنیاد پر اسمبلی تحلیل ہوئی اسے چھوڑ کر باقی چیزوں کا جائزہ کیسے لیا جا سکتا ہے؟

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ رول 28 کے تحت اسپیکر ڈپٹی اسپیکر کے ساتھ کیا لفظ موجود ہے؟

وکیل نعیم بخاری نے جواب دیا کہ آرٹیکل 69 میں اسپیکر کے ساتھ ڈپٹی اسپیکر کا ذکر ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا ایک آفیسر آف کورٹ کے طور پر نہیں سمجھتے کہ آرٹیکل 95 مکمل ضابطہ نہیں؟ کیا آپ نہیں سمجھتے کے آرٹیکل 95 کی خلاف ورزی آئین کی خلاف ورزی ہے؟

نعیم بخاری نے کہا کہ عدالت کو فیصلہ کرنا ہے کہ کس حد تک پارلیمانی کارروائی میں مداخلت کرے گی۔

اس کے ساتھ ہی اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے وکیل نعیم بخاری کے دلائل مکمل ہو گئے۔

اٹارنی جنرل کے دلائل شروع


نعیم بخاری کے بعد اٹارنی جنرل بیرسٹر خالد جاوید خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت کسی معاملے پر کوئی ڈیڈ لاک نہیں کیونکہ کیس زیرِ سماعت ہے، 28 مارچ کو تحریکِ عدم اعتماد پر لیو گرانٹ ہوئی۔

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے سوال کیا کہ لیو کون گرانٹ کرتا ہے؟

اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے جواب دیا کہ ہاؤس لیو گرانٹ کرتا ہے، قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں عسکری قیادت بھی شریک ہوئی، کھلی عدالت میں قومی سلامتی کمیٹی کے مندرجات پر دلائل نہیں دے سکتا، قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں انتہائی حساس معاملات پر بریفنگ دی گئی، قومی سلامتی کمیٹی پر اِن کیمرہ سماعت میں بریفنگ دینے کے لیے تیار ہوں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب! کیا یہ آپ کا آخری کیس ہے؟

اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ اگر آپ کی خواہش ہے تو مجھے منظور ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ پوری بات تو سن لیں، ہم چاہتے ہیں کہ آپ اگلے کیس میں بھی دلائل دیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کسی کی ملکی وفاداری پر سوال اٹھائے بغیر بھی فیصلہ کر سکتی ہے، عدم اعتماد کے لیے 172 ارکان ہونا چاہئیں، 28 مارچ کو جب لیو گرانٹ ہوئی 161 ارکان ایوان میں موجود تھے، 28 مارچ کو ہی وزیرِ اعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد ختم ہو چکی تھی، آرٹیکل 17 کسی کو بھی کسی جماعت میں شمولیت اور انتخابات لڑنے کا حق دیتا ہے، وزیرِ اعظم ارکانِ اسمبلی کی طرح اسمبلی کی موجودگی تک عہدے پر رہتا ہے، وزیرِ اعظم عمران خان اسمبلی تحلیل کرنے والے آخری شخص ہوتے اگر یہ ناگزیر نہ ہو گیا ہوتا، وزیرِ اعظم سب سے بڑے اسٹیک ہولڈر ہیں اس لیے اسمبلی توڑنے کا اختیار ان کے پاس ہے۔


اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ اسمبلی توڑنے کے لیے وزیرِ اعظم کو وجوہات بتانا ضروری نہیں ہوتیں، صدر سفارش پر فیصلہ نہ کریں تو 48 گھنٹے بعد اسمبلی خود تحلیل ہو جاتی ہے، صرف تحریکِ عدم اعتماد پر دلائل دوں گا، تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹ ڈالنا کسی رکن کا بنیادی حق نہیں تھا، ووٹ ڈالنے کا حق آئین اور اسمبلی رولز سے مشروط ہے، کسی دوسرے ملک میں ممبران اسمبلی کے ووٹ ضائع کرنے میں عدالتیں مداخلت نہیں کرتیں۔

چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ آرٹیکل 95 کے اندر حق رولز سے مشروط ہے؟

اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ حکومت کی تشکیل ایوان میں کی جاتی ہے، آئین ارکان کی نہیں ایوان کی 5 سالہ میعاد کی بات کرتا ہے، برطانیہ میں اسمبلی توڑنے کے وزیرِ اعظم کے اختیار کا آپشن ختم کر دیا گیا ہے، ہمارے آئین میں وزیرِ اعظم کا اسمبلی توڑنےکے اختیار کا آپشن موجود ہے، اسپیکر کسی رکن کو معطل کرے تو وہ بحالی کیلئے عدالت نہیں آسکتا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ تحریک پیش کرتے وقت تمام 172 لوگ سامنے آ جائیں گے، تحریک پیش کرنے اور ووٹنگ میں 3 سے 7 دن کا فرق بغیر وجہ نہیں، 7 دن میں وزیرِ اعظم اپنے ناراض ارکان کو منا سکتا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ 20 فیصد ممبران نے جب تحریک پیش کر دی تو بحث کرانا چاہیے تھی، وزیرِ اعظم کو سب پتہ ہوتا ہے، جاتے ہوئے ممبران سے پوچھتے کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا تحریکِ عدم اعتماد پر لیو گرانٹ کرتے ہوئے کوئی بنیاد بتانا ہوتی ہے؟

اٹارنی جنرل خالد جاوید نے کہا کہ تحریکِ عدم اعتماد پیش ہونے کی کوئی بنیاد بتانا ضروری نہیں۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ فواد چوہدری 28 مارچ کو اعتراض کرتے تو تحریک پیش کرنے سے پہلے مسترد ہو سکتی تھی؟

اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ تحریک پیش ہونے کے وقت بھی مسترد ہو سکتی تھی، تحریکِ عدم اعتماد قانونی طور پر پیش کرنے کی منظوری نہیں ہوئی تھی۔


جسٹس مظہر عالم نے استفسار کیا کہ اسپیکر نے قرار دے دیا کہ تحریک منظور ہو گئی تو آپ کیسے چیلنج کر سکتے ہیں؟

اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ اسپیکر کی رولنگ چیلنج نہیں ہو سکتی تو کیس ہی ختم ہو گیا، تحریک پیش ہونے کے لیے بھی 172 اراکین پورے ہونے چاہئیں، تحریک پیش کرنے کے لیے 68 ارکان کی موجودگی چاہیے تھی، اس دن 168 آئے، 100 نے مخالفت کی، ڈپٹی اسپیکر اس طرح تحریک پیش کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے تھے، آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ اکثریت مخالفت کرے تو تحریک مسترد ہو گی، تحریک پیش کرنے کی منظوری کا ذکر اسمبلی رولز میں ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 55 کے مطابق اسمبلی میں تمام فیصلے ہاؤس میں موجود اراکین کی اکثریت سے ہوں گے، ایک بات تو ہمیں نظر آ رہی ہے اور وہ یہ کہ رولنگ غلط ہے، اپوزیشن بھی مہنگائی پر شکایت کرتی ہے وہ بھی یہی چاہتے ہوں گے، ایک بات تو نظر آ رہی ہے کہ رولنگ غلط ہے، بتائیں اگلا مرحلہ کیا ہو گا۔
https://jang.com.pk/news/1071506
===========================