دو اہم مسائل

امیرمحمد خان
============

حالیہ اور گزشتہ حکومتوں کا ہمیشہ یہ نعرہ ہوتا ہے کہ ہم دنیا میں پاکستانی پاسپورٹ کی وقعت بڑھائینگے، اسکے لئے وہ محنت بھی کرتے ہونگے مگر اسکی دنیا بھر میں پاسپورٹس کی وقعت میں روز بروز کمی واقع ہورہی ہے۔ہم اپنے نظام کا مقابلہ اور ملک میں کبھی امریکی طرز، کبھی برطانیہ کی طرز، کبھی ترکی اور کبھی مدینہ ریاست کی بات کرتے ہیں ، خواہشات اچھی چیز ہیں کم از کم اس سے محنت کو فروغ ملتا ہے، مگر اپنی خواہشات کو عملی جامعہ پہنانے کیلئے مثبت کوشش کرنا لازمی امر ہے جس پر ہم توجہ نہیں دیتے، مختلف عالمی رپورٹس کے مطابق اس وقت پاکستانی پاسپورٹ دنیا میں 108 نمبر پر ہے، کبھی یہ 88 بھی رہا ہے مگر تنزلی میں اضافے کی طرف گامزن ہے ہم تقابلی جائزے کی طرف جائیں تو امریکہ، برطانیہ، وغیرہ کو بھول کر فی الحال ان ممالک میں چلے جائیں جہاں سے مقابلہ فی الحال بنتا ہے، یعنی ہندوستان، اور بنگلہ دیش وغیرہ توانڈیکس بتاتی ہے کہ بھارت کا پاسپورٹ 83 نمبرپر اور اسے 60 ممالک میں ویزہ کی ضرورت نہیں ہے، بنگلہ دیش 104 نمبر پر ہے اور اسے 104 ممالک میں ویزہ درکار نہیں ہوتا جبکہ پاکستانی پاسپورٹ پر 38 ممالک میں ویزہ درکار نہیں اس تنزلی کی وجوہات کی طرف اگر ایماندآنہ نظر ڈالیں تو اس بے توقیری میں 90فیصدہاتھ تارکین وطن کا اپنا ہے باقی 10فیصدآپ ملک کے نظام، کرپشن،اور حکومتی رٹ پر ڈال سکتے ہیں، اس میں کسی ایک سیاسی جماعت کا مسئلہ نہیں بلکہ اس حمام میں سب ۔۔۔۔ہیں،ہمارے سفارت خانے، قونصل خانے بھی اسکے ذمہ دار ہیں،بہت سے ممالک بالخصوص یورپ سیکنڈے نیوین جیسے ممالک امریکہ کینڈا برطانیہ اسڑیلیا اور مختلف طریقوں سے ملک کو بدنام کر کے سیاسی پناہ حاصل کرتے ہیں، بہت سے پاکستانی اپنے آپ کو قادیانی ظاہر کرکے سیاسی پناہ حاصل کرتے ہیں، سیاسی بنیادوں پر ایک کثیر تعداد ہے جو سیاسی پناہ لیتی ہے، ملک کی پچھتر سالہ تاریخ میں ملکی تاریخ کا نصف حصہ فوجی آمریت کا شکار رہا جس بناء پر سیاسی پناہ حاصل کرنا آسان بن جاتا ہے، سیاسی پناہ دینے والے ممالک ہمارے دوست نماء دشمن ممالک ایسے افراد کی پشت پناہی کرتے ہیں الطاف حسین، بلوچ رہنماؤں کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ہزاروں کی تعداد میں ایسے لوگ ہیں جنہوں نے پاکستان میں اپنے خلاف جھوٹی ایف آئی آر سیاسی بنیادوں پربنوائی اور اس بنیاد پر سیاسی پناہ حاصل کی، 1978 میں پاکستان تحریک آزادی صحافت کے دوران بھی کچھ لوگوں سے واقف ہوں جنہوں اس صحافتی تحریک کی ایف آئی آر کے حوالے سے جرمنی اور دیگر ممالک میں اپنے آپ کو غیر محفوظ کہہ کر سیاسی پناہ حاصل کی، ہمارے سفارت خانوں اور ملک کے اندر پاسپورٹ ڈپارٹمنٹ نے افغانیوں، بنگالیوں، سری لنکن، برمیوں کیلئے پاسپورٹ لینا آسان کردیا اور بھاری رقوم کے تحت پاسپورٹ اور شناختی کارڈ جاری کئے، افغانیوں نے افغان مہاجر کا روپ دھارا کسی نے قبائلی علاقے میں ظلم کی داستانیں سنائیں کسی نے فوج کو بدنام کر کہ ہمارے رشتہ دار پاکستان کی ایجنیسوں نے غائب کردئے ہمیں بھی خطرہ ہے اس بنیاد پر سیاسی پناہ حاصل کی، یہاں تک سیاسی پناہ حاصل کرنے والوں نے اپنے مذہب بھی تبدیل کیئے، جن ملکوں میٰں اجتماعی زیادتیاں سر عام ہوتی ہیں وہاں جاکر اپنے اوپر اجتماعی ذایادتی کا رونا رویا،اور سیاسی پناہ حاصل کی۔، جعلی شادیاں کیں، جعلی نکاح ناموں اور پاکستان کے اصل پاسپورٹ پر تصاویر تبدیل کرکے، جعلی ویزے لگوا کر پاکستان سے باہر گئے اور گرفتار ہوئے، منشیات کے ساتھ ہوائی اڈوں پر گرفتار ہوئے، افغانی ہونے کے باوجود پاکستانی پاسپورٹ رکھا ، گرفتاری پر بدنام تو پاکستان ہی کو ہونا ہے ،قومی ائرلائنز کا اسٹاف بھی بیشتر موقع پر غیر ممالک میں غائب ہوجاتا ہے، تعلیم کے نام پر ملک سے جاکر وہیں کے ہوگئے تو یہ اسباب ہیں تب ہی تو پاکستانی پاسپورٹ مشکوک ہوگیا ہے اور اسکی وقعت دن بند کم ہوتی جارہی ہے۔ ان اقدامات سے بیرون ملک قانونی طور پر رہنے والے اور ملک کیلئے ذرمبادلہ کمانے والے بھی بدنام ہوتے ہیں چونکہ مندرجہ بالا جرائم تمام دنیا کو معلوم ہیں کہ ہم کیا کیا واردتیں کرتے ہیں کئی ہندوستانی خلیجی ممالک میں گرفتا رہوکر اپنے آپ کو پاکستانی ہونے کا دعوی کرتے ہیں وہاں کے قونصل خانوں، سفارتخانوں میں بیٹھے کرپٹ لوگ انہیں پاسپورٹ بھی کسی ذاتی مفاد کے نتیجے میں دے دیتے ہیں۔ اگر ہماری ایجینساں، سفارت خانے، قونصل خانے ان وارداتوں پر نظر رکھیں کوئی بھی غیر ملک میں جاکر ملک کی بدنامی کا سبب نہ بن سکے گا۔
دوسرا اہم مسئلہ۔۔ پاکستان میں کئی میڈیا ہاؤسز اپنی مالی مشکلات کی وجہ سے بندہورہے ہیں جبکہ سعودی عرب میں خاص طور جدہ میں شوقیہ صحافیوں کا راج ہے ، موبائل خریدنا، تصویر بنانا سیکھنا، جدہ قونصلیٹ کا دورہ کرکے وہاں کسی افسر کے ساتھ تصویر بنانا، قونصلیٹ کی انتظار گاہ میں سعودی عرب اور پاکستا ن کے جھنڈوں کے ساتھ بیٹھ کر تصویر بناکر اسے اپنے فیس بک پر لگانا، اس بنیاد پر اپنے آپ کو سینئر صحافی کہنا، اور قونصلیٹ نے اسے سینئر صحافی کی فہرست میں شامل کرکے ہر موقع پر دعوت دینا شروع کردینا،ایک وقت تھا کہ یہاں صرف تجربہ کار صحافی تھے اور قومی اخبار و چینلز سے منسلک تھے اپنے روزگار کے ساتھ اپنے تجربہ سے فائدہ اٹھا کر پاکستان اور سعودی عرب کے بہترین تعلقات کی تشہیر کرنا انکا مقصد تھا اور ہے، مگر جب سفیر پاکستان، قونصل جنرل یا وزیر اعظم و کسی وزیر کی آمد پر قونصلیٹ کی فہرست کے مطابق صحافیوں کے نام پر جمعہ بازار لگ جائے توہ کوئی تجربہ کار صحافی وہاں وجود بے کار ہی سمجھے گا، اس جانب کئی مرتبہ پاکستان میں وزیر اطلاعات، وزارت اطلاعات کے اعلی افسران، سفیر پاکستان، قونصل جنرل کی توجہ دلائی مگر اب پسند نہ پسند کی بنیا د پر گروپ بن گئے ہیں اور ہر شخص کا دعوی ہے کہ وہ صحافی نہیں بلکہ سینئر صحافی ہے،قونصلیٹ میں پریس کے ذمہ دار کہتے ہیں ہم کسی کو منع نہیں کرسکتے، بھائی اگر منع نہیں کرسکتے تو اللہ نے عقل دی ہے، تجربہ دیا ہے تجربہ کار لوگوں اور موبائل بردار شوقیہ لوگوں میں تو کوئی لکیر کھینچ دو۔ گزشتہ دنوں سفیر پاکستان لیفٹینٹ جنرل (ر) بلال اکبر نے صحافیوں کے اس جمعہ بازار سے ملاقات کی اور سخت مایوسی کا اظہار کیا ، سفیر پاکستان کو تجربہ جس شعبے سے رہا ہے امید ہے کہ وہ اس سلسلے میں کوئی مثبت فیصلہ کرینگے، شنید ہے انکا تبادلہ وقت سے پہلے ہی ہورہا ہے کم از کم جاتے جاتے جاتے وہ اس طرف توجہ دے دیں تو انکے نیک کاموں میں ایک کام کا اضافہ ہوجائے گا، ورنہ نئے سفیر کے ساتھ پھر نئی کہانی شروع ہوگی، اور آنے والے کو بھی مایوس کردیا جائے گا یہ کہہ کر کہ ”صحافیوں میں گروپنگ ہے“ کہنے والے یہ نہیں بتاتے کہ کون نیشنل میڈیا سے ہے، کیا تجربہ رکھتا ہے، گروپنگ ضرور بتاکر اپنی زندگی کا سہل بنانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں وزارت اطلاعات کو پاکستانی میڈیا پر حکومتی تشہیر سے فرصت نہیں ہے وہ بیرون ملک ان معاملات کو کیا دیکھے گی۔