نثار بلوچ کو خراجِ عقیدت ڈاکٹر توصیف احمد خان

کراچی کو جدید شہر کا درجہ تو انگریز حکومت نے دیا مگر تالپور دور سے سمندری بندرگاہ کی بنا پر آبادی بڑھنا شروع ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ لیاری ندی کے دونوں اطراف جنگلات تھے،پرندوں کے جھرمٹ نظر آتے تھے، چشموں کا پانی موجود تھا۔

کہا جاتا ہے کہ انگریزوں نے جب کراچی پر قبضہ کیا تو لیاری کے اطراف موجودہ اورنگی اور موجودہ پیر الٰہی بخش کالونی تک ندی کے کنارے تک کھیت تھے۔ ناظم آباد، پاک کالونی اور لیاقت آباد وغیرہ جہاں آباد ہوئے وہ کھیت تھے۔ انگریزوں نے سندھ فتح کرنے کے صلہ میں سر چارلس نیپیئر کو فروری 1843میں سندھ کا گورنر مقرر کیا، وہ اکتوبر 1847 تک اس عہدہ پر فائز رہا۔


بشیر سدوزئی نے اپنی کتاب بلدیہ کراچی میں لکھا ہے کہ چارلس نیپیئر کراچی کا اصل معمار ہے۔ اس کے دور میں سندھ کے دارالحکومت کو کراچی منتقل کیا گیا۔ چارلس نیپیئر نے نئے شہر کی آبادکاری کے لیے اپنی صلاحیتوں کو استعمال کیا۔ کراچی کے شہریوں کو ملیر ندی سے پانی کی فراہمی کے لیے منصوبہ بندی شروع ہوئی۔
انگریز حکومت نے کراچی میں میونسپل کمیٹی کے قانون کو نافذ کیا۔ 1853 میں کراچی شہری حدود کا بھی تعین ہوا جو چالیس ایکڑ رقبہ پر مشتمل تھی،جب کہ مضافات بھی اتنے ہی رقبہ پر پھیلے ہوئے تھے۔ سدوزئی نے لکھا ہے کہ 1855 میں شہر میں صفائی کے نظام کو بہتر بنانے کا کام شروع ہوا۔ وہ لکھتے ہیں کہ 1857میں کراچی میں سیوریج کے جدید نظام کی تنصیب شروع کی۔ اس سے قبل گندا پانی گھروں سے باہر گلی کوچوں میں جمع ہوجاتا، دھوپ یا ہوا سے خشک ہوتا تھا۔ 1857 میں گٹر باغیچہ سیوریج فارم اور محمود آباد سیوریج فارم کی تعمیر شروع ہوئی۔

گٹر باغیچہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ درختوں کے جھنڈ گٹر باغیچہ کی زمین پر نظر آتے تھے۔ بلدیہ کراچی نے گٹر باغیچہ کو ایک خاندان کو لیز کیا تھا۔ گٹر باغیچہ کے درختوں سے حاصل ہونے والے پھل نیلام ہوتے تھے جس پر کراچی میونسپلٹی کو معمولی آمدنی ہوتی تھی۔ گٹر باغیچہ کی بنا پر لیاری اور ٹرانس لیاری کے ماحولیات پر خوشگوار اثرات مرتب ہوتے تھے۔

گٹر باغیچہ کا کل رقبہ ایک ہزار ایکڑ تھا۔ اس میں لگائے گئے ٹریٹمنٹ پلانٹ سے سیوریج پانی صاف ہو کر بحیرہ عرب میں گرتا تھا جس کا ایک بڑا فائدہ سمندر ی مخلوق کے تحفظ کے صورت میں تھا۔ دوسرے گٹر باغیچہ میں پیدا ہونے والی تازہ سبزیاں اور پھل اور پھول کراچی کے شہریوں کو ملتے تھے۔ پاکستان کے قیام کے بعد سے گٹر باغیچہ کی قیمتی زمین پر اعلیٰ افسروں اور صنعتکاروں نے قبضہ کرنا شروع کردیا تھا اور 90ء کی دہائی کے آغاز تک صرف 400 ایکڑ قطعہ نجی تھی۔

مختلف ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے نام پر اس زمین کو حاصل کرنے کی ترکیبیں شروع ہوئیں۔ 1993 میں مجاز اتھارٹی (وزیر اعلیٰ)نے ایک سوسائٹی کو 200 ایکڑ زمین الاٹ کردی تھی۔ یکم دسمبر 2006کو انٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کے چیئرمین کو ایک درخواست میں اس جانب توجہ مبذول کرائی گئی کہ ٹرانس لیاری کے سروے نمبر 108/10/-K28 کے تحت کے ایم سی گٹر باغیچہ کے سیورج کے فارم 20ایکڑ زمین غیر قانونی طور پر ہاؤسنگ سوسائٹی کو الاٹ کی گئی۔

اس درخواست میں مزید کہا گیا کہ وزیر اعلیٰ سندھ نے اس قطعہ اراضی کی منتقلی کی اجازت دیتے ہوئے چیف سیکریٹری سندھ کے اس اعتراض کو نظرانداز کیا جس میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ قیمتی زمین کو انتہائی کم اراضی قیمتوں پر سوسائٹی کو منتقل کرنا قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اس دوران ماحولیات کے تحفظ اور غیر قانونی تعمیرات کے خلاف سرگرداں تنظیم شہری کے ساتھ عبدالستار ایدھی کالم نگار آدریش کاؤس جی رونلڈا ڈی سوزا نے عدالت عالیہ میں ایک عرضداشت دائر کی۔

لیاری کے نوجوانوں اور بزرگوں نے لیاری بچاؤ تحریک کو منظم کیا۔ نوجوان نثار بلوچ اس تحریک میں نمایاں کارکن تھے۔ معمر مزدور رہنما عثمان بلوچ اور یوسف مستی خان ودیگر لیاری بچاؤ تحریک میں متحرک کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ عثمان بلوچ کہتے ہیں کہ ہمارا عزم تھا اور آج بھی ہے کہ گٹر باغیچہ کو ماحولیات کو بچانے کے لیے جدید پارک میں تبدیل کیا جائے۔ نثار بلوچ ایک جذباتی نوجوان تھے۔ روزانہ مظاہرہ کے لیے نوجوانوں کو فعال کرتے، جلوس نکالتے اور کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے۔ گٹر باغیچہ کے سامنے بینر لے کر کھڑے ہوجاتے۔

نثار بلوچ وکیلوں کے ساتھ سٹی کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ کی غلام گردشوں اور زینوں پر نظر آتے۔ اس وقت مسلم لیگ ق کے ارباب رحیم وزیر اعلیٰ تھے،ایم کیو ایم اس حکومت کی اتحادی تھی۔ بلدیات کی وزارت ایم کیو ایم کی نگرانی میں تھی۔

اس وقت تمام سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام وغیرہ لیاری بچاؤ تحریک کی حمایت کررہی تھیں۔ نامعلوم افراد نے دن کی روشن میں نثار بلوچ کو شہید کردیا۔ نثار بلوچ کے قتل کی پورے سندھ میں مذمت ہوئی تھی۔ پولیس حسب روایت قاتلوں کو گرفتار نہ کرسکی۔ گزشتہ ہفتہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس گلزار حمد نے جب شہری تنظیم کی عرضداشت کی سماعت کی تو انھوں نے رولنگ دی کہ رفاحی پلاٹ کو کسی صورت کمرشل منصوبہ میں تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔

عثمان بلوچ نے اس پوری صورتحال پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ 2006 میں مرتضیٰ وہاب کی والدہ فوزیہ وہاب گٹر باغیچہ کو بچانے کی مہم میں شامل تھیں۔ عثمان کہتے ہیں کہ چیف جسٹس نے بالکل درست فیصلہ کیا۔ عثمان بلوچ کہتے ہیں کہ ہم 2000 میں یہ مطالبہ کررہے تھے کہ گٹر باغیچہ کو ایک جدید پارک میں تبدیل ہونا چاہیے۔

عثمان بلوچ نے امریکا اور یورپ کے کئی شہروں کو دیکھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ماحولیات کی تبدیلیوں سے ہونے والے نقصان کو روکنے کے لیے شہری جنگل بسانے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔ انھوں نے یاد دلایا کہ کئی سال پہلے کراچی میں آنے والے ہیٹ ویو میںتقریبا دو ہزار افراد جاں بحق ہوئے تھے، ایسی صورتحال پھر رونما ہوسکتی ہے، اگر گٹر باغیچہ کو شہری جنگل میں تبدیل کیا گیا تو سپر ہائی وے اور ناردرن بائی پاس سے لے کر لیاری کراچی سینٹرل کراچی اور ویسٹ وغیرہ کے علاقوں میں ماحولیات کے منفی اثرات کم ہونگے۔ صحت مند فضا سے مہلک بیماریوں پر فرق پڑے گا۔

انھوں نے واضح طور پر کہا کہ جسٹس گلزار کا مؤقف بالکل درست ہے۔ جسٹس گلزار نے رفاحی پلاٹوں پر تجاوزات کو مکمل طور پر غیر قانونی قرار دینے کا فیصلہ کر کے شہر کو تجاوزات سے بچانے کے لیے بنیادی کام کردیا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ سیاستدان، علماء، بیوروکریٹس اپنے مفادات کے حصول کے لیے قانون کو پامال کرنے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ جسٹس گلزار نے گٹر باغیچہ کے بارے میں درست فیصلہ کر کے ایک طرح سے نثار بلوچ کی قربانی کو خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔

https://www.express.pk/story/2268573/268/