جموں و کشمیر۔۔۔ کیسا رہا 2021ء ۔۔ کیسا رہے گا 2022ء۔۔۔؟ بشیر سدوزئی

سچ تو یہ ہے،

جموں و کشمیر۔۔۔ کیسا رہا 2021ء ۔۔ کیسا رہے گا 2022ء۔۔۔؟

بشیر سدوزئی

Jeeveypakistan.com

قابض بھارتی فورسز کے بڑھتے ہوئے تشدد کے اور وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے باعث ، جموں و کشمیر کی 2021ء میں بھی صورت حال انتہائی ابتر رہی۔ عدم تحفظ، غلامی اور سنگینوں کے سائے میں ایک اور سال گزر گیا ۔ محلے، شہر اور گاوں، گاوں، محاصرے، آتنگ بازوں کی تلاشی کے بہانے چادر اور چار دیواری کی پامالی ، بلا اجازت یا قانونی جواز کے بغیر فوجیوں کا گھروں میں گھس کر اہل خانہ کو حراساں اور خانہ بربادی فورسز کا معمول رہا۔ متعصبانہ کارروائیوں، سرکاری ملازمین کی برطرفی ، طلباء ، تاجروں ، صحافیوں ، وکلاء ، دانشوروں، انسانی حقوق اور سیاسی کارکنوں کو گرفتاریوں میں گزشتہ کے مقابلے میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔۔ فسطائی مودی حکومت مختلف بہانوں سے لوگوں کو سیاسی انتقام کا نشانہ بناتی رہی۔ اداروں کو ہندوتوا کے رنگ میں رنگنے کے لیے سرکاری زبان اردو کی جگہ ہندی نافذ کر دی گئی۔ مختلف علاقوں کے پرانے اور تاریخی نام جدید ہندو نام سے بدل کر کشمیر کی تاریخ و ثقافت کو ختم کرنے کا آغاز ہوا۔ گپکار اتحاد کا دلی یاترا اور مودی سے ملاقات بھی اہم واقعہ رہی جہاں مین اسٹریم پارٹیوں کو نئی حلقہ بندیوں کے لیے آمادہ کیا گیا جس کے بعد مقبوضہ کشمیر میں آئندہ ہونے والے انتخابات میں ہندو وزیر اعلی کی راہ ہموار ہو چکی جن کی ریاست میں کل آبادی 33 فیصد سے بھی کم ہے۔ ۔ جیلوں اور سڑکوں پر ماورائے عدالت قتل، نسل کشی ، جبری گرفتاریاں ، ظلم و تشدد ، خواتین کے ساتھ ناروا سلوک ، سیاسی سرگرمیوں اور آزاد صحافت پر سخت قدغن اور تمام بنیادی انسانی حقوق کی پامالی روز کا معمول رہا ۔ چھروں سے چہرے داغ دار کرنے کا عمل اس سال بھی عروج پر رہا۔ کشمیر کے پشتی باشندوں کو آبائی زمین سے بے دخلی اور ہندوتوا کے لیے نئی بستیوں کی تعمیر جاری رہی ۔ میڈیا اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتاریوں میں اس سال تیزی دیکھنے میں آئی ۔ بھاجپا گزرتے دن کے ساتھ ریاست پر قبضہ کو مضبوط اور ریاستی زبان، و کلچر کے ساتھ آبادی کو بھی کم کرنے کی پالیسی میں تیزی لائی ۔ جموں رئیل اسٹیٹ کانفرنس میں بھارت بھر سے سرمایہ داروں کو بلا کر ریاستی زمین کو تشتری میں سجا کر پیش کیا گیا ۔ حسب سابق اس سال بھی مظالم میں کوئی کمی نہیں آئی نہ بین الاقوامی سطح پر کشمیریوں کے حق میں کوئی مضبوط یا مستحکم سفارت کاری کی کوشش کی گئی اور نہ کوئی ایسی توانا آواز اٹھی کہ جس سے لگے کے کشمیریوں کی آواز اب دور تک جائے گی۔ مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی میں مسلمان نمائندوں کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے لئے حد بندی کمیشن کی نئی تجویز بھی اسی سال سامنے آئی۔۔۔۔ ریزسٹنس فرنٹ جموں و کشمیر کے مطابق فرنٹ نے سال 2021 میں مخالف فورسز پر شوپیان، پلوامہ، کولگام، اسلام آباد، بانڈی پورہ، کپواڑہ، بارہمولہ، کشتواڑ اور سانبہ میں 72 حملے کیے، جس میں 21 فوجیوں کو ہلاک اور 63 فوجی زخمی ہوئے ۔ جن میں اعلیٰ افسران، سمیت 11 غیر مقامی سرکاری ملازمین بھی شامل ہیں۔ جب کہ تحریک مخالف 7 کٹھ پتلی سیاسی کارکنوں اور 12 مخبروں کو ہلاک جبکہ 2 زخمی ہوئے۔ دشمن کے جانی نقصان کے علاوہ گاڑیوں، بنکروں، کیمپوں، پولیس اسٹیشنوں اور پنچایت گھر کو بھی بھاری نقصان پہنچا گیا۔
حزب المجاھدین کے ترجمان سلیم ہاشمی کی جانب سے جاری پریس ریلیز کے مطابق 2021ء کے دوران مجاہدین اور قابض فوج کے درمیان معرکوں میں حزب المجاھدین کے 25 سمیت 193 مجاہدین شہید ہوئے۔ ان جڑپوں میں ایک جے سی او سمیت 135 بھارتی فوجی ہلاک،182 زخمی ہوئے جن میں پانچ میجر بھی شامل ہیں۔بھارتی فوج نے 67 رہائشی مکانوں کو تباہ کیا جبکہ درجنوں مکانوں کو نذر آتش کر کے اربوں مالیت کا عوامی نقصان کیا۔ سرچ آپریشن کے دوران عوام اور فوج کے درمیان جھڑپوں اور عوامی مظاہروں پر فوج کی فائرنگ سے 210 عام شہری شہید ہوئے جن میں پانچ خواتین اور پانچ کم سن بچے بھی شامل ہیں ۔ جب کہ مختلف علاقوں سے 113 لاشیں ملیں۔فائرنگ اور پیلٹ شلنگ سے 487 نوجوان زخمی ہوئے۔بھارتی فوج نے کریک ڈاؤن اور تلاشی و چھاپوں کے دوران انسانی حقوق کی کارکن خرم پرویز سمیت 2716 نوجوانوں کو گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال دیا۔ اس دوران 19 نوجوان لاپتہ ہوئے، ورثاء کو یقین ہے کہ فورسز نے غائب کیا ہے جن کے زندہ بچنے کی توقع نہیں ہے۔ 2021ء میں مجاہدین نے بھارتی فوج سے 3 اے کے 47 رائفلیں چھینیں ۔ 65 افراد کو فورسز نے گرفتار کر کے رشتہ داروں کے سامنے گولیاں مار کر ہلاک کیا۔ 16 کشمیری خواتین بیوہ اور 44 بچے یتیم ہوئے جبکہ ابھی تک موصول رپورٹ کے مطابق گزشہ برس باوردی بھارتی فوجی اہلکاروں نے گھروں میں گھس کر 13 خواتین کے ساتھ بدسلوکی یا بےحرمتی کی۔مسلمانوں کو ان کے بنیادی مذہبی حق محرم کے جلوسوں اور عید میلاد النبی ؑﷺ کے اجتماعات کی اجازت نہیں دی گئی ۔ سری نگر کی تاریخی جامع مسجد میں 45 ہفتوں سے نماز جمعہ ادا کرنے پر پابندی برقرار رہی۔۔ تحریک آزادی کے ہردل عزیز رہنما اور آئی کون سید علی گیلانی مسلسل نظر بندی کے دوران اسی سال انتقال کر گئے۔ آخری ایام میں ان کو ادویات مہیا ہونا بھی مشکل بنا دیا گیا تھا۔حکام نے بزرگ رہنما کی میت کو قبضہ میں لے کر اہل خانہ کو ہراساں کیا اور نماز جنازہ بھی ادا کرنے کی اجازت نہیں دی گی۔ جب کہ تحریک حریت جموں وکشمیر کے چیئرمین محمد اشرف صحرائی کا بھی بھارتی پولیس کی حراست میں انتقال ہوا۔ دونوں رہنمائوں کے اہل خانہ کے خلاف مقدمات درج، صاحبزادوں اور رشتہ داروں کو گرفتار کیا گیا ۔ کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین مسرت عالم بٹ، محمد یاسین ملک، شبیر احمد شاہ، نعیم احمد خان، آسیہ اندرابی، فہمیدہ صوفی، ناہیدہ نسرین، الطاف احمد شاہ، ایاز محمد اکبر، پیر سیف اللہ، راجہ معراج الدین کلوال، شاہد الاسلام اور فاروق احمد ڈار بدستور جعلی مقدمات میں تہاڑ جیل میں قید ہیں۔ امیر حمزہ، محمد یوسف میر، محمد یوسف فلاحی، محمد رفیق گنائی، ڈاکٹر محمد قاسم فکتو، غلام قادر بٹ، ڈاکٹر شفیع شریعتی، مجاہد صحرائی، راشد صحرائی ، ظہور احمد بٹ، شوکت حکیم، اسد اللہ پرے، معراج الدین نندا، حیات احمد بٹ، فیروز احمد ڈار، محمد اسلم وانی، شاہد یوسف، شکیل یوسف، فیروز احمد، غلام محمد بٹ، خورشید احمد بٹ، جنید احمد لون، تاجر، ظہور وٹالی، صحافی آصف سلطان اور پی ایچ ڈی کے طالب علم الطاف احمد خان، خرم پرویز سمیت چار ہزار سے زائد کشمیری کالے قوانین پبلک سیفٹی اور (یو اے پی اے) کے تحت مقبوضہ جموں و کشمیر اور بھارت کی مختلف ٹارچر سیلوں میں بند ہیں ۔ صرف دسمبر کے دوران تہاڑ جیل میں قید پانچ افراد شہید ہوئے۔ یہ بات غیر جانبدار مبصرین نے بھی محسوس کی کہ 2021 میں دس لاکھ فوج بھی مجاہدین پر قابو پانے میں ناکام اور گوریلا جنگ سے تنگ آچکی۔ پونچھ کے واقعہ نے فوج کا مورال گرا دیا ۔ مقابلے میں کئی فوجی افسر و جوان ہلاک ہوئے تھے ۔ پونچھ جنگلات میں ایک ماہ کے محاصرے کے دوران مردہ یا زندہ گرفتار عمل میں نہیں آئی۔ اس جیسے واقعات سے فوج تناؤ کا شکار ہے اور 42 اہلکاروں نے خود کشی کی۔ 2022ء بھی کشمیریوں کے لیے اطمینان بخش سال نہیں رہے گا۔ گزشتہ صورت حال کے تناظر میں دیکھا جائے تو بھارت اس سال ہندوتوا کے غنڈوں کی کشمیر میں آباد کاری تیز کرے گا ۔رائیل اسٹیٹ کانفرنس میں کئے گئے 60 ارب سرمایہ کاری کا اعلان اور معائدے اسرائیل کی طرز پر آبادیوں کی تعمیر پر خرچ ہوں گے جہاں غیر کشمیری ہندوتوا انتہاء پسندوں، فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کی آبادی کاری کا منصوبہ ہے ۔ کشمیر کے جنگلات اور گیھتوں پر جبری قبضہ ہو گا۔ ہندوں کی آبادی کو 33 فیصد سے بڑا کر 45 فیصد کرنے کی کوشش جاری رہے گی ۔ نیشنل کانفرنس پرانی تنخواہ پر بحال ہو جائے گی مگر اس مرتبہ اس کا کوٹہ کم ہو گا۔ گپکار اتحاد ٹوٹے گا یا ڈاھیلا ڈھالا رہ جائے گا ۔ آل پارٹیز حریت کانفرنس کی قیادت اور کارکن جیلوں میں رہنے کے باعث تحریک کی سیاسی شعبہ کمزور ہی رہے گا ۔ ماورائے عدالت قتل میں اضافہ ہو گا لیکن انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی رپورٹس باہر نہ جانے سے بین الاقوامی برادری کی توجہ کم رہے گی ۔ مذاحمت میں اضافہ سے ہلاکتوں میں اضافے کا امکان ہے ۔ اس سال بھی کشمیری ناقص سفارت کاری اور کمزور وکالت پر خاموش ہی رہیں گے ۔ وادی میں بھاجپا کو مضبوط کرنے کی کوشش ہو گی ۔متعدد نام نہاد لیڈر بھاجپا کے پلیٹ فارم سے حکومت میں شامل اور ہندو وزیر اعلی کی راہ ہموار کرنے میں مدد فراہم کریں گے لیکن ان کو اس سال بھی مذاحمت کا سامنا رہے گا ۔ اس سب کے باوجود تحریک میں شدت اور وادی چناب اور پیر پنجال میں بھی زور پکڑنے گی توقع ہے جس سے سال گزشتہ کے مقابلے میں اس سال ہر دونوں جانب زیادہ مالی اور جانی نقصان کا اندیشہ ہے۔ کشمیر قوم پرست ہندو اور سکھ مودی کی پالیسیوں کی کھل کر مذمت اور غیر کشمیریوں کی آباد کاری کی مخالفت کریں گے ۔گویا 2022، بھی مقبوضہ کشمیر میں افراتفری، تشددد ظلم قتل عام اور عدم تحفظ جانی اور مالی نقصان میں اضافہ اور آزاد کشمیر میں گل چھرے اوڑائے جائیں گے ۔ بدقسمتی سے کشمیری اس سال بھی سیکڑوں قربانیاں تو دیں گے لیکن بین الاقوامی برادری تک اپنی تکلف پہنچانے میں گزشتہ 75سال کی طرح کوتاہی جاری رکھیں گے ۔۔۔