کشمیریوں نے احتجاج سے سال کو الوداع، ہڑتال سے خوش آمدید کہا ۔ بشیر سدوزئی،

سچ تو یہ ہے،

کشمیریوں نے احتجاج سے سال کو الوداع، ہڑتال سے خوش آمدید کہا ۔

بشیر سدوزئی،

دنیا بھر کے اربوں افراد نے سال نو کا استقبال اور گزشتہ کو الوداع کرنے کے لیے اربوں ڈالر کی آتش بازی کر کے جشن منایا ، مقبوضہ کشمیر کے عوام نے ہڑتال سے 2022 کو خوش آمدید اور احتجاجی مظاہروں سے گزرے سال کو آلوداع کہا۔ 31 دسمبر کو دنیا کے ہر خطہ کے عوام سال کی الوداعی تیاریوں اور رات 12 بجتے ہی آتش بازی میں مصروف ہو گئے ۔ مقبوضہ کشمیر واحد خطہ ہے جہاں بھارتی فورسز نے عوام کی خوشی اور غمی سب چھین رکھی ہے وہاں کے عوام نئے سال سمیت کوئی بھی تہوار نہیں منا سکتے،۔ اس بد ترین تشدد اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر دنیا کے بے حس حکمرانوں کی توجہ ہی اس طرف نہیں جاتی کہ دو الفاظ مذمت کے ہی بول دیں ۔، اللہ تعالی نے ایسے ہی لوگوں کے لیے فرمایا،” وَ مَثَلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا كَمَثَلِ الَّذِیْ یَنْعِقُ بِمَا لَا یَسْمَعُ اِلَّا دُعَآءً وَّ نِدَآءًؕ-صُمٌّۢ بُكْمٌ عُمْیٌ فَهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ ” “اور کافروں کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو کسی ایسے کو پکارے جو خالی چیخ و پکار کے سوا کچھ نہیں سنتا۔ (یہ کفار) بہرے، گونگے، اندھے ہیں تو یہ سمجھتے نہیں” 31، دسمبر بروز جمعہ سرینگر پنتھا چوک میں 03 نوجوانوں کو بے دردی سے ماورائے عدالت قتل کیا گیا اس سے ایک روز قبل 30 دسمبر کو اسلام آباد کول گام کے علاقے میں جعلی مقابلے میں چھ افراد کو ہلاک کیا گیا۔۔ اسی دوران اطلاع آئی کہ تہاڑ جیل میں چھ قیدی ہلاک ہو گئے جو مختلف بیماریوں میں مبتلاع تھے۔ جب کہ ان کی بیماری کی اطلاع ان کے اہل خانہ کو نہیں دی گئی ۔خدشہ ہے کہ یہ جیل میں ماورائے عدالت قتل کئے گئے ہیں ۔ گویا سال 2021ء کے آخری 48 گھنٹوں کے دوران مقبوضہ وادی کے 15 نوجوانوں کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا جب کہ درجنوں گرفتار بھی ہوئے۔ 28 دسمبر کو جموں میں منعقد رائیل اسٹیٹ کانفرنس کے نام پر بھاجپا گورنمنٹ نے بھارت بھر سے ہندو سرمایہ داروں کو جمع کیا جہاں کئی یاداشتوں پر دستخط اور وائس آف امریکہ کے مطابق 60 ہزار ارب کی سرمایہ کاری کا اعلانات کئے گئے۔ اب حکومت نئے ڈومیسائل قانون کے تحت ہندوں کو جموں و کشمیر کی مزید اراضی منتقلی کرے گی۔ اس طرح سیکڑوں ہندوں خاندانوں کو مقبوضہ کشمیر میں آباد کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ نئی حلقہ بندیاں اور ہندوتوا کے حمایت یافتہ ان بھارتی تاجروں کو مقبوضہ علاقے میں زمینیں الاٹ کرنے کا مقصد آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنا ہے۔ دریں اثناء 31 دسمبر کو سری نگر میں غیر اعلانیہ سخت کرفیو رہا۔ جامع مسجد سرینگر کی طرف مارچ کو روکنے کے لیے شہر کے ڈاﺅن ٹاﺅن علاقے میں سخت پابندیاں نافذ کر دیں گئیں تھیں ۔جامع مسجد کی طرف مارچ کی کال کل جماعتی حریت کانفرنس کے نظربند چیئرمین مسرت عالم بٹ نے دی تھی جو ایک سال سے جامع مسجد میں نماز جمعہ کی ادائیگی کی اجازت نہ دینے اور مقبوضہ جموں و کشمیر کی زمین غیر مقامی افراد کو فروخت کرنے کے منصوبے کے خلاف احتجاج ریکارڈ کرانا تھا۔ مارچ کو روکنے اور احتجاج کو ثبوتاز کرنے کے لیے حکام نے شہر کے ڈاﺅن علاقے میں بڑی تعداد میں فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کو تعینات کر کے تاریخی مسجد کی طرف جانے والی تمام سڑکوں کو سیل کئے رکھا، اور مسلسل 21 ویں ہفتے بھی نماز جمعہ ادا کرنے کی اجازت نہیں دی گئی ۔۔۔ اسی دوران اطلاعات آئیں کہ ہریانہ ہائی کورٹ نے، 10 جنوری 2018ء کٹھوعہ میں اجتماعی آبروریزی اور قتل کا نشانہ بننے والی آٹھ سالہ خانہ بدوش بچی آصفہ کے قاتل مجرموں میں سے دو کو ضمانت پر رہا کیا ہے۔ جن میں سابق سب انسپکٹر آنند دتہ اور ہیڈ کانسٹیبل تلک راج شامل ہیں ۔۔ جب کہ بچی کے ورثاء کی جانب سے مجرموں کی سزا میں اضافے کی اپیل ابھی تک زیر التوا ہے۔ واضع رہے کہ آصفہ بی بی کو گھوڑوں کی پہرے داری کے دوران جنگل سے اغواء کیا گیا تھا۔ اس کا والد اورچند پڑوسی اسے جنگل میں ڈھونڈنے کے بعد 12 جنوری کو اس کا والد گمشدگی کی رپورٹ درج کروانے گیا تو تھانے دار نے کہا ’’وہ کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہوگی‘‘۔ 17 جنوری کو آصفہ کی لاش جنگل کی جھاڑیوں سے ملی تھی جسے مندر کی تہہ خانے میں کئی روز تک ریپ کے بعد تشدد سے ہلاک کیا گیا تھا۔ اس پر بھی ظلم یہ کہ بچی کی میت کو ہندو انتہا پسندوں نے آبائی قبرستان میں دفن بھی نہیں کرنے دیا۔ تو 7 میل دور جنگل کے ویرانے میں سپرد خاک کیا گیا۔ 23 جنوری 2018ء کو وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے تفتیش کرائم برانچ کے سپرد کی رپورٹ میں معلوم ہوا کہ 60 سالہ ریٹائرڈ تحصیلدارسنجی رام نے بکروال برادری کو کٹھوعہ سے بھگانے کے لیے یہ سب منصوبہ بندی کی کیونکہ بکروال برادری نے جنگل سے شہر آکرکچھ زمینیں خرید لی تھیں جہاں وہ اپنے مردے دفن کرتے تھے اور کچھ گھر بھی تعمیر کر رہے تھے۔ سنجی رام کی مدد چند پولیس افسران سریندر ورما، آنند دتا، تلک راج اورکھجوریا نے کی جبکہ سنجی رام کا بیٹا وشال، اس کا دوست پرویش کمار اورچھوٹی عمرکا بھانجا بھی اس سارے قصے میں شریک تھے۔ بچی کو ایک قریبی مندرلے جایا گیا جہاں اسے نشہ آور ادویات دے کر 4 دن تک زیادتی کی گئی۔ بعد ازاں تشدد اور گلا گھونٹ کرقتل کردیا گیا۔۔۔۔ حد بندی کمیشن کی امتیازی تجاویز، کشمیر کی سرزمین غیر کشمیریوں کو منتقل کرنے جیلوں اور سڑکوں پر نوجوانوں کا ماورائے عدالت قتل اور کشمیریوں کی نسل کشی کے خلاف سال نو کا ہڑتال سے استقبال کیا گیا ۔ انہی زیادتیوں کے خلاف یکم جنوری 2022ء کو مقبوضہ کشمیر میں دنیا اور بھارتی حکومت کو واضح پیغام دینے کے لیے ہڑتال کی گئی کہ وہ حق خودارادیت چاہتے ہیں اور جموں و کشمیر پر بھارت کے غیرقانونی قبضے کو مسترد کرتے ہیں۔ اس ہڑتال کے لیے تحریک جموں و کشمیر بچاؤ کی جانب سے چسپاں کیے گئے پوسٹر میں لکھا گیا کہ کشمیری اپنے حق خودارادیت کا مطالبہ کر رہے ہیں جس کی انہیں اقوام متحدہ نے ضمانت دے رکھی ہے۔ اس کے باوجود مقبوضہ کشمیر کے عوام کے حوصلے ہارے نہیں بلکہ 2022 کو آزادی کا سال قرار دیا ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ اس سال جموں و کشمیر کے عوام کو آزادی ضرور ملے گی ۔۔ یکم جنوری کو آخری خبریں آنے تک حیدر پورہ جعلی مقابلے میں شہید ہونے والے چار کشمیریوں میں شامل عامر ماگرے کے والد نے اپنے بیٹے کی میت کی واپسی کیلئے کشمیر ہائی کورٹ میں عرضداشت دائر کی ہے ۔ بھارتی فوجیوں نے 15 نومبر کو سرینگر کے علاقے حیدر پورہ میں چار شہریوں محمد الطاف بٹ، ڈاکٹر مدثر گل، عامر ماگرے اور ایک اور کشمیری نوجوان کو جعلی مقابلے میں شہید کر دیا تھا۔