اقرار

ڈاکٹر توصیف احمد خان
==================

ہمارے سر سے ہاتھ نہیں اٹھا، اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات اچھے ہیں۔ ان کی پالیسیاں20دن نہیں 20سال کے لیے بنتی ہیں۔ عمران خان کہیں نہیں جارہا۔ ‘‘

1973 کے آئین کے تحت قائم ہونے والی منتخب حکومت کے وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کراچی میں گزشتہ ہفتہ ایک پریس کانفرنس میں یہ بیان دے کر اپنی حکومت کے مضبوط ہونے کا سرٹیفکیٹ تو جاری کیا مگر مجھے لگتا ہے کہ اس طرح انھوں نے اپنی حکومت کے سلیکٹڈ ہونے کا اقرار کرلیا۔

ان کے انکشاف نے ملک میں 1953 سے پیدا ہونے والے بحران کو پھر آشکار کردیا۔ پاناما اسکینڈل کی سماعت آخری مراحل میں تھی اور عدالت نے اس اسکینڈل کی تحقیقات کے لیے پہلے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم تشکیل دی تھی اور میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کے خلاف قائم ہونے والی احتساب عدالت کی نگرانی کے احکامات جاری کیے تھے تو ملک میں وکلاء کے سب سے اہم اداروں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور پاکستان بار کونسل نے قانونی اعتراضات اٹھائے تھے۔

ان میں ایک اعتراض یہ تھا کہ جے آئی ٹی میں ایسی ایجنسیوں کو نمایندگی دی گئی جن کا مالیاتی، اکاؤنٹنگ، ملکی اور بین الاقوامی قوانین کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔ پھر جے آئی ٹی کے سامنے میاں نواز شریف کے صاحبزادہ حسن نواز پیش ہوئے۔ ایک اندھیرے کمرہ میں اسٹول اور میز پر بیٹھے حسن نواز کی تصویر اخبارات میں شایع ہوئی۔ قانونی حلقوں میں تشویش پیدا ہوئی کہ یہ تصویر کس طرح کھنچی اور شایع ہوئی۔ احتساب عدالت کے ایک جج کی ایک وڈیو وائرل ہوئی جس میںانھیں اقرار کرتے دکھایا گیا کہ میاں نواز شریف کے خلاف فیصلہ دباؤ کی بناء پر دیا تھا۔

لاہور ہائی کورٹ نے اس جج کو برطرف کر دیا ۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک جج نے اسلام آباد بار ایسوسی ایشن کے اجتماع میں کہا کہ میاں نواز شریف کی اپیل مسترد کرنے کے لیے ان پر ایک ایجنسی کے سربراہ نے دباؤ ڈالا تھا۔ سپریم جوڈیشل کونسل نے اس جج کو بر طرف کردیا۔ پھر امریکا سے ایک وڈیو جاری ہوئی جس میں سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی آواز سنائی دی ۔

گلگت سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس رانا شمیم کا حلف نامہ میڈیا کی زینت بنا۔ 2018 کے انتخابات میں الیکشن کمیشن نے کلوزڈور کیمروں اور RTS کا نظام رائج کیا۔ انتخابات والے دن اندھیرا ہوتے ہی یہ نظام ناکارہ ہوا۔ انتخابات میں تحریک انصاف کامیاب ہوئی اور حکومت بنائی مگر RTS نظام کو کس طاقت نے معطل کیا؟ 2013 کی انتخابی دھاندلیوں کے خلاف بیانیہ ترتیب دینے والی تحریک انصاف کی حکومت نے اس دھاندلی کی تحقیقات نہ کرائی۔ انتخابات کے فوراً بعد بلاول بھٹو زرداری نے نئی حکومت کو سلیکٹڈ حکومت اور منتخب نمایندوں کو سلیکٹڈ کا لقب دیا۔ حزب اختلاف کی تمام جماعتوں نے سلیکٹڈ نمایندوں کا استعارہ استعمال کرنا شروع کیا۔

تحریک انصاف کی حکومت کی اقتصادی پالیسیاں ناکام ہونے لگیں۔ صرف اقتصادی پالیسی ہی نہیں خارجہ پالیسی بھی ناکام ہوئی۔ دو عرب دوست ممالک بھارت کے تجارتی پارٹنر بن گئے۔ ایشیائی مشرق بعید کی اقوام متحدہ کی مالیاتی دہشت گردی کی روک تھام کی ٹاسک فورس نے کمرشل بینکوں، پوسٹ آفس اور اکنامی بورڈ وغیرہ پر پابندیاں عائد کیں جس کے نتیجہ میں ملک کا بینکنگ سسٹم متاثر ہوا۔ ایف اے ٹی ایف کے ہر اجلاس سے پہلے وزراء یہ اعلان کرتے ہیں کہ اب اس اجلاس میں پابندیاں ختم ہوجائیں گی۔ ہر اجلاس میں پاکستان کی کارکردگی کو سراہنے کی پریس ریلیز بھی جاری ہوتی ہے مگر صورتحال تبدیل نہیں ہوئی۔

وزیر اعظم نے یورپ اور امریکا میں ہونے والی کسی سربراہی کانفرنس میں شرکت نہیں کی۔ موجودہ حکومت کے وزراء اور مشیر گزشتہ تین برسوں میں ہفتہ میں اوسطاً ایک اور بعض اوقات دو دفعہ شریف فیملی اور مسلم لیگ(ن) کے رہنماؤں کے مالیاتی اسکینڈل کے انکشافات کرتے ہیں۔ وزیر داخلہ شیخ رشید اور شہزاد اکبر مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کی گرفتاریوں کی پیشگوئیاں کرتے رہتے ہیں۔ نیب کے اہلکار ان رہنماؤں کو گرفتار بھی کرتے ہیں مگر اعلیٰ عدالتوں نے تمام رہنماؤں کو رہا کردیا ہے۔

عدالتیں شاہد خاقان عباسی، شہباز شریف، خواجہ آصف اور خواجہ سعد رفیق وغیرہ کے خلاف بعض مقدمات پر نیب کے قانونی ماہرین کی سرزنش کرتے ہیں۔ گزشتہ مہینہ مسلم لیگی حلقوں نے دعویٰ کرنا شروع کیا کہ میاں نواز شریف جلد واپس آجائیں گے۔ ان کے خلاف مقتدر قوتوں کی پالیسی تبدیل ہوگئی ہے اور سب کو احساس ہو گیا ہے کہ سلیکٹڈ قیادت نے ملک کو بے حال کردیا ہے۔ قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر ایاز صادق نے ایک ٹی وی انٹرویو میں واضح طور پر میاں نواز شریف کی واپسی کے معاملات طے ہونے کا عندیہ دیا۔ ایاز صادق نے کہا کہ جلد کچھ بڑا ہونے والا ہے۔

غیر سیاسی لوگ میاں نواز شریف سے مل رہے ہیں۔ ایاز صادق کا یہ بھی کہنا تھا کہ ممکن ہے کہ میرے لندن جانے سے پہلے میاں صاحب واپس آجائیں۔ سابق صدر آصف زرداری نے ٹنڈو الہٰ یار میں ایک اجتماع میں بہت واضح انداز میں یہ بات بیان کی۔ وفاقی وزراء اور مشیروں نے ایک آواز ہو کر چلانا شروع کیا کہ ایسا ممکن نہیں ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے تو کابینہ کے اجلاس میں فرمایا کہ ایک سزا یافتہ ملزم کو واپس لانے کی سازش ہورہی ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما سابق وزیر داخلہ رحمن ملک نے اس صورتحال پر دلچسپ تبصرہ کیا ہے۔ وزراء کی پریشانیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ کچھ دال میں کالا ہے۔

سابق وزیر خارجہ سرتاج عزیز جو 90 سال کے ہوچکے ہیں اور اب ان کا ایک انٹرویو ایک ٹی وی چینل پر نشر ہوا۔ سرتاج عزیز صاحب نے بیانیہ ترتیب دیا کہ میاں نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے برسر اقتدار آئے تھے۔ انھوں نے 90ء کی دہائی میں سول بالادستی کی جنگ لڑنے کا طے کیا۔

بزرگ سیاست دان نے اس انٹرویو میں یہ بھی فرمایا کہ جب بھی جمہوری تقاضوں سے انحراف کیا گیا تو مسلم لیگ کو نقصان ہوا۔ انھوں نے ملک کی تاریخ کے تجزیہ سے یہ بیانیہ اخذ کیا کہ ملک بننے کے بعد آئین کی تیاری میں تاخیر پہلی غلطی تھی۔ سانحہ مشرقی پاکستان ہمارے جمہوری نظام قائم نہ کرنے کی سب سے بڑی وجہ تھی۔ اٹھارہویں ترمیم متفقہ طور پر منظور ہوئی ہے۔ اس کو چھیڑنے سے نقصان ہوگا۔ 2005 میں جب بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے درمیان لندن میں میثاق جمہوریت پر اتفاق ہوا تھا تو یہ میثاق دراصل ملک میں سول بالادستی کے لیے تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو اسی بیانیہ کی بناء پر شہید کیا گیا۔ 2008 میں قائم ہونے والی پیپلز پارٹی کی حکومت نے سول بالادستی کے لیے خاصا کچھ کیا۔

بھارت اور افغانستان سے دوستی کی کوشش اسی پالیسی کا حصہ تھی۔ جسٹس افتخار چوہدری نے توہین عدالت پر منتخب وزیر اعظم کو نااہل قرار دیا۔ مگر 2010میں آئین میں کی جانے والی 18ویں ترمیم درست سمت میں سفر کا آغاز تھا۔ میاں نواز شریف نے ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگایا جس کا مطلب بھی آئین کی بالادستی ہے۔

ملک میں یہ افواہیں گرم ہیں کہ میاں نواز شریف اور آصف زرداری اسٹیبلشمنٹ سے کچھ معاملات طے کررہے ہیں تاکہ ملک میں تبدیلی آجائے۔ ملک میں تبدیلی اشد ضروری ہے۔ تمام سیاستدانوں کو تاریخ سے یہ سبق حاصل کرنا چاہیے کہ طالع آزما قوتوں کے سائے میں اقتدار میں آنے سے حال موجودہ حکومت جیسا ہوتا ہے مگر یہ تبدیلی کا فائدہ 1973 کے آئین کی بالادستی کی صورت میں ہونا چاہیے۔ ملک کے استحکام کا واحد حل سویلین بالادستی ہے۔

https://www.express.pk/story/2265805/268/