آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے تحت منعقدہ چودھویں عالمی اردو کانفرنس کے دوسرے روز ‘ساحر لدھیانوی- سوبرس’ پر سیشن کا انعقاد

کراچی ( ) فلمی گیت نگاری کو تین شعرا نے ادبی رخ دیا ہے۔ ساحر لدھیانوی ان میں سے ایک تھے۔ ان کے آدھے گیت رومانوی جب کہ آدھے سیاسی نقطہ نظر پر مبنی تھے ان خیالات کا اظہار ادیب و شعرا نے کراچی آرٹس کونسل کے تحت منعقدہ چودھویں عالمی اردو کانفرنس میں ‘ساحر لدھیانوی -سوبرس’ سیشن میں کیا۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے ادیب و شاعر فراست رضوی نے کہا کہ جتنے ترقی پسند شاعر ہیں ان میں ساحر لدھیانوی کو جتنی مقبولیت ملی وہ قابل زکر ہے۔ ان کی زندگی عجیب و غریب واقعات پر مبنی رہی ، دوران طالب علمی میں تحریر کی گئی ساحر لدھیانوی کی مشہور کتاب تلخیاں انتہائی مقبول ہوئی۔ ساحر لدھیانوی کی مشہور نظم پرچھائیاں ایک عظیم نظم تھی جس کا پہلا حصہ رومانویت پر اور دوسرا گہرا سیاسی پس منظر پر مبنی تھا۔ انہونمں نے مزید کہا کہ فلم نگاری کو تین شاعروں نے ادبی رخ دیا اور ساحر لدھیانوی ان میں سے ایک تھے۔ دوسری جانب ساحر لدھیانوی کی فلمی گیت نگاری پر گفتگو کرتے ہوئے ادیب و شاعر سلطان ارشد نے کہا کہ ساحر کا کلام فلموں میں وسیع پیمانے پر استعمال ہوا ہے۔ ان کے کلام کو فلموں میں استعمال کرنے کے لیے خصوصی جگہ بنائی جاتی تھی۔ انہوں نے سنسکرت میں جو گیت لکھے وہ کافی مقبول ہوئے۔ لیکن جب وہ ادب سے فلموں کی جانب آئے تو عوامی شاعر کی حیثیت حاصل ہوئی۔ ساحر لدھیانوی کی منظر کشی بہت کمال کی تھی۔ساحر لدھیانوی کی زندگی نشیب و فراز کی متحمل رہی لیکن انکا
ایک مطالبہ کہ ریڈیو سے جو گیت نشر ہوتے ہیں ان میں شاعر کا نام شامل کیا جائے، ناقابل فراموش ہے۔

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں منعقدہ چودھویں عالمی اُردو کانفرنس کے دوسرے روز ”تقدیسی ادب کی صورتِ حال“ کے عنوان سے سیشن کا انعقاد

کراچی ( ) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں منعقدہ چودھویں عالمی اُردو کانفرنس کے دوسرے روز ”تقدیسی ادب کی صورتِ حال“ کے عنوان سے سیشن کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت ڈاکٹر عالیہ امام نے کی جبکہ ابوصفہیان اصلاحی نے علی گڑھ بھارت اور کینیڈا سے آن لائن تقی عابد نے ”آزادی کے بعد اردو مراثیہ اور جوش“، طارق ہاشمی نے ”پون صدی میں نعت کا تخلیقی تناظر“، عزیز احسن نے ”آزادی کے بعد نعت کے اہم رجحانات“ اور فراست رضوی نے ”حمد باری عالیٰ: کل اور آج“ پر گفتگو کی، اس موقع پر ابوصفہیان اصلاحی نے صدارتی بیان میں کہاکہ آج یہاں حمد اور تقدیسی ادب کا بار بار ذکر آیا مگر میں سمجھتا ہوں حمد کا جن لوگوں نے آغاز کیا ہے اس میں ایک ایک ممتاز نام اسماعیل میرٹھی ہے، دوسرا یہ کہ قرآن مجید میں حمد کے حوالے سے سورہ اخلاص میں بہت اختصار اور سلیقے کے ساتھ ذکر موجود ہے، طارق ہاشمی صاحب نے بہت سے نکات کو اٹھایا جس پر میں انہیں مبارکباد پیش کرتا ہوں، انہوں نے کہاکہ جو اُردو نعت گو شعراءہیں یا حمدیہ اشعار کہتے ہیں ان کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ جو بنیادی نقطہ ہے اس سے واقفیت ضروری ہے، انہوں نے بتایا کہ یہودونصاریٰ کے جو اہل علم و دانش اربابِ ادب تھے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا بڑا احترام کرتے تھے اور باقاعدہ ان لوگوں سے اپنے صحابہ کرام اور بچوں کو پڑھنے کی ترغیب دیتے تھے انہوں نے کہاکہ اس بات کو پیش نظر رکھا جائے کہ ارباب علم کا کسی بھی قوم یا شعبے سے تعلق ہو تو اس کا احترام ضروری ہے، دیکھا جائے تو اُردو ادب کی ترویج اور ترسیل میں ارتقاءمیں اخفان الصفاءکا گرا ں قدر کردار ہے، ڈاکٹر عالیہ امام نے کہاکہ میرے سامنے علم ودانش کے نئے اور پرانے چراغ روشن ہیں ان کے سامنے لب کشائی کرنا پھولوں پر عطر ملنے کے مترادف ہے، انہوںنے کہاکہ اردو زبان محبوبہ ہے آپ اس سے لاکھ پیچھا چھڑانا چاہیں اس کا رمز و نشانہ آپ کا دامن نہیں چھوڑے گا، ہم آج نہیں تو کل اردو کا پرچم یہاں لہرا کر رہیں گے، جہاں تک تقدیسی ادب کا تعلق ہے اس کی تین سطحیں ہیں جن پر ہمیں غور کرنا چاہیے، پہلی سطح حمد ونعت اور دوسری سطح اقبال ہے جس نے پوری طرح دنیا میں روشناس کرایا ، فراست رضوی نے کہاکہ حمد نگاری نعت نگاری سے زیادہ مشکل فن ہے، یہاں موضوع وہ ہے جس کی کوئی شخصیت نہیں، الفاظ کے محدود پیمانے میں اس کا ظفر سما نہیں سکتا، وہ قادرِ مطلق ہے ،اس کا صفائی وجود ہرفقت چشمِ بشر کے سامنے ہے، کائنات کا ذرہ ذرہ اس کے جمال سے روشن ہے، یہ سب اس کے ہونے کا اعلان کررہے ہیں وہ مقامِ تشبیہ ہے جو حمد نگاروں کا واحد تخلیقی سہارا ہے، اردو کی ابتدائی غزل فارسی تصوف آمیز غزل سے پروان چڑھی، یہ محض خدا سے عشق کی جہت ہے حمد نگاری کی لازمی شرائط میں سے ایک شرط ہے، حمد کو کامل تاریخ میں بیان نہیں کیاجاسکتا، طارق ہاشمی نے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ہمارا پورا کلاسیکل ادب ہے گرچہ اس میں نعت بطور صنف شعر نہیں ملتی، لیکن کوئی بھی ایسا شاعر نہیں ہے کہ جس کا دیوان ان کی غزلیں حمدیہ اشعار سے نہیں ملتیں یا میلاد نامے ہیں ان میں نعتیہ اشعار یا مستعارات جس کو ہم حمد بطور صنف یانعت بطور صنف کہتے ہیں اس کا ظہور نوآبادیاتی عہد میں ہوتا ہے، یہ وہ دور تھا جس میں مسلمانوں کو اپنی شناخت کا اظہار کرنا تھا، انہوں نے کہاکہ ہمیں قرآن کے بیان کردہ تصور عظمت کی جانب جانا ہوگا۔نظامت کے فرائض شکیل خان نے انجام دیے۔

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں عالمی اردو کانفرنس کے دوسرے روز سیشن ”آج کامران خان کے ساتھ “ کا انعقاد

کراچی ( ) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں عالمی اردو کانفرنس کے دوسرے روز آج کامران خان کے ساتھ پروگرام میں ٹیلی ویژن کے معروف نیوز اینکر کامران خان نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہاکہ دنیا کا کوئی بھی صحافی ہو خبر حاصل کرنے کے لیے اس کے اپنے ذرائع ہوتے ہیں، صحافت میں کوئی وحی نہیں اترتی بلکہ اپنے ذرائع استعمال کرکے خبر کی سچائی تک پہنچنا ہوتا ہے، صحافی کو سوال پوچھنے کا فن آنا چاہیے جواب آپ کو خود بخود مل جائے گا،ناظم اویس توحید کے مختلف سوالوں کے جواب میں کامران خان نے کہاکہ کوئی بھی دور رہا ہو میں نے خبر کی سچائی اور حقیقت تک پہنچنے کے لیے بہت ایمانداری کے ساتھ کام اور محنت کی ہے یہاں تک کے بعض مواقوں پر مجھ سے حکومت کرنے والوں نے یہ بھی پوچھا کہ کیا کوئی حکومتی شخص تو مجھ سے ملا ہوا نہیں ہے جو مجھے یہ ساری خبریں پہنچاتا ہے انہوں نے کہاکہ خواب دیکھنا اور تبدیلی کا سوچنا ہر شخص کا حق ہے اور میں نے بھی اسی سوچ کے ساتھ اپنے حق کو استعمال کرتے ہوئے مختلف چینلز پر جانے کا تجربہ کیا ہے انہوں نے کہاکہ میرے ایک چینل پر جانے کے بعد تو دیگر اداروں میں کام کرنے والے صحافیوں کے حالات بھی بہتر ہوگئے تھے، میرا یہ اصول ہے کہ جس کے ساتھ آپ کا تعلق اور اٹھنا بیٹھنا رہا ہو اس کے بارے میں منفی گفتگو سے اجتناب کرنا چاہیے، صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ اور ان کی ٹیم کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں کہ وہ عالمی اُردو کانفرنس کے تسلسل کے ساتھ انعقاد سے ادب کی بڑی خدمت کررہے ہیں ، میری ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ میں خبر کی جستجو میں رہتے ہوئے سچائی اورحقائق سے آگاہ رہوں تاکہ پڑھنے والوں تک درست معلومات کے ساتھ خبر پہنچے، میں نے ڈیلی نیوز اخبار سے اپنی عملی صحافت کا آغاز کیا اور ابتداءمیں کرائم رپورٹنگ کی، سات آٹھ برس کی عمر ہی میں، میں اخبار کو اس طرح سے پڑھتا تھا کہ میرے اس پڑھنے کے عمل کو دوسرے لوگ اخبار کو پی جانا کہتے تھے، جب ہم نے صحافت میں قدم رکھا تو وہ مارشل لاءکا دور تھا اس وقت ہم اپنا پیغام صحافت کے ذریعے ہی دیتے تھے اور اس طریقہ کار پر ریاست کی بھی نظر ہوتی تھی لہٰذا اس وقت صحافت کرنا ایک بہت بڑا چیلنج تھا انہوں نے کہاکہ ۵۸۹۱ئ کے اختتام پر میں نے واشنگٹن پوسٹ کے لیے بھی کام کیا اور اس وقت میری محنت اور کام کا یہ انداز تھا کہ میں بیک وقت ڈیلی ٹائمز، مسلم ، واشنگٹن پوسٹ اور سنڈے ٹائمز کے لیے کام کرتا رہا اور کئی بار ایسا بھی ہوا کہ میری لکھی ہوئی ایک ہی اسٹوری اور ہیڈ لائن ان سب اخباروں میں ایک ساتھ شائع ہوتی تھیں۔

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں منعقدہ چودہویں عالمی اردو کانفرنس کے دوسرے روز سیشن ”ہم سب اُمید سے ہیں“ کا انعقاد

کراچی ) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں عالمی اردو کانفرنس کے دوسرے سیشن ”ہم سب اُمید سے ہیں“ سے خطاب کرتے ہوئے مقبول ترین مزاح نگار ڈاکٹر یونس بٹ نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہاکہ دوسروں کو ہنسانا اور ان کے لبوں پر مسکراہٹ لانا لکھنے والے کی ذمہ داری ہوتی ہے ناکہ کامیڈین اداکار کی، اگر لکھنے والا مزاح لکھتے وقت دوسروں کو ہنسا نہیں سکتا تو میری نظر میں وہ ایک ناکام رائٹر ہے، مزاح ایک ایسی صنف ہے کہ جس کے بارے میں لکھا جاتا ہے وہ تو مسکراتا ہی ہے مگر اس کا مخالف نہ صرف مسکراتا ہے بلکہ خوب ہنستا بھی ہے، آپ کی کامیابی آپ کے دوستوں کی ناکامی کبھی نہیں ہوتی، زندگی نام ہی بیلنس کا ہے، اگر آپ خود کو بیلنس نہیں کریں گے تو گر جائیں گے، ناظم کاشف گرامی کی جانب سے پوچھے گئے مختلف سوالوں کا جواب دیتے ہوئے ڈاکٹر محمد یونس بٹ نے کہاکہ لاہور میں رہتے ہوئے جن دوستوں سے کئی کئی دن اور کئی کئی ماہ تک ملاقات نہیں ہوتی تھی احمد شاہ کے توسط سے اس عالمی اردو کانفرنس میں ان سب سے ملاقات ہوجاتی ہے، انہوں نے کہاکہ میری پیدائش گجرانولہ کی ہے اور یہ ایک ایسا شہر ہے جہاں بندہ ایک بار پیدا ہوجائے تو پھر اسے پہلوان بننے سے کوئی نہیں روک سکتا، میں بھی پہلوان بننا چاہتا تھا مگر مجھے دیکھ کر میرے استاد پہلوان نے مجھ سے ایک دن کہا کہ تمہارے لیے یہی کافی ہے کہ تم روزانہ دو کشتیاں دیکھ لیا کرو، انہوں نے کہاکہ میں نے اس مشورے کے بعد پہلوانی کا کام اپنے قلم سے شروع کردیا اب تک ۰۳ سے زائد کتابیں آچکی ہیں انہوں نے بتایا کہ میں نے خود اپنے لیے لکھنا شروع کیا میں جب کسی پر ظلم اور زیادتی دیکھتا تھا تو میں رونے کے بجائے اسے لکھنا شروع کردیتا تھا اور پڑھ کر اس صفحے کو پہاڑ دیا کرتا تھا یہی میرے رونے کا انداز تھا، پھر میں نے ایک دن سوچا کہ میں خود بہت رو لیا اب دوسروں کوہنسانے کا کام شروع کرنا چاہیے، انہوں نے بتایا کہ ایک بار ایک تقریب میں اپنی لکھی ہوئی ایک سنجیدہ تحریر لے گیا جو میں نے ”درد“ کے موضوع پر تحریر کی تھی لیکن جب میں نے اسے پڑھا تو لوگ ہنسنے لگے اور مجھے مشورہ دینے لگے کہ میں مزاح پر لکھوںکیونکہ میں مزاح بہتر لکھ سکتا ہوں، انہوں نے کہاکہ میں نے ڈاکٹری اس لیے پڑھی ہے کہ اس کے بغیر شادی نہیں ہورہی تھی جب کہ میں نے سرجری میں ہاﺅس جاب بھی کیا ہے ، انہوں نے بتایا کہ میں نے پہلے لکھنا شروع کیا اور پھر پڑھنا شروع کیا جب میری دو کتابیں شائع ہوکر آگئیں تو لوگوں نے مجھے کہا کہ پہلے میں کچھ پڑھ بھی لوں، ڈاکٹری کرنے کے زمانے میں مریض بھی مجھ سے یہ کہا کرتے تھے کہ ہم آ پ کی دوا سے ٹھیک ہوں یا نہ ہوں آپ کی باتوں سے ٹھیک ہوجاتے ہیں، انہوں نے بتایا کہ ٹی وی کا مقبول ترین پروگرام ”ہم سب اُمید سے ہیں“ الیکشن کے موقع پر شروع کیا گیا تھا مگر عوام نے اسے اتنا زیادہ پسند کیا کہ یہ پروگرام پندرہ سال تک چلا، انہوں نے بتایا کہ بھارت میں بھی مجھ سے مزاح پر لکھوایا گیا ہے، ”ہم سب امید سے ہیں“ جب نشر ہوا کرتا تھا تو بعض سیاست دان مجھ سے اپنے ردِ عمل کا بھی اظہار کرتے تھے مگر جب سیاست دان کو یہ یقین ہوجائے کہ آپ کسی مخصوص ایجنڈے پر کام نہیں کررہے ہیں تو پھر وہ بُرا نہیں مانتے۔

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی جانب سے چودھویں عالمی اردو کانفرنس کے دوسرے روز ”شیخ ایاز “پر سیشن کا انعقاد

کراچی( )شیخ ایاز بیس ویں صدی میں صرف سندھی زبان کے بڑے شاعر نہیں بلکہ عالمی سطح پر شمار ہونے والے بڑے شعراءمیں سے ایک ہیں ان خیالات کا اظہار آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی جانب سے چودھویں عالمی اردو کانفرنس کے دوسرے روز شیخ ایاز سے متعلق منعقدہ سیشن سے ادیبوں نے کیا،سیشن سے مہتاب اکبر راشدی، حارث خلیق اور جامی چانڈیونے خطاب کیا جبکہ میزبان ڈاکٹر قاسم بگھیو تھے، مہتاب اکبر راشدی نے کہاکہ بظاہر شیخ ایاز کی شخصیت انتہائی پرسکون نظر آتی تھی لیکن ان کی شاعری میں بہت بڑی جرا¿ت اور بہادری تھی، ون یونٹ میں جب سندھی زبان پر پابندی لگی تو شیخ ایاز نے ہم سب کو جگایا انہوں نے کہاکہ شیخ ایازکی جی ایم سید اور شیخ مجیب الرحمن دونوں کے جلسوں میں شاعری لوگ گاتے تھے تو لوگ شیخ ایاز کو ایجنٹ کہتے تھے لیکن دراصل ایاز کی شاعری عوام کی ترجمانی کرتی تھی ، انہوں نے کہاکہ شیخ ایاز نے سندھ یونیورسٹی میں حمایت علی شاعر اور عالیہ امام سمیت اُردو ادیبوں کو بھی بہت عز ت دی کیونکہ شیخ ایاز خود بھی اردو کے بہت بڑے شاعر تھے، انہوں نے کہاکہ سندھی زبان بولنے والوں نے اردو کو بہت بڑھا ہے، میں سمجھتی ہوں کہ شیخ ایاز صرف بیس ویں صدی کے ہی نہیں بلکہ اکیسویں صدی کے بڑے شاعر ہیں، کیونکہ شیخ ایاز نے خود اپنی ایک ایک سطر کے ساتھ جوڑ رکھا ہے، شیخ ایاز نے سندھ کو کمال کا حوصلہ دیا اور اس کا ایک ایک لفظ بامقصد تھا، جامی چانڈیو نے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ دنیا میں جو بھی تخلیقی جینئس ہوتا تھا اس کے پاس اپنا ادراک بھی ہوتا ہے وہ اس کے ذات کی انا نہیں ہوتی بلکہ ان کی تخلیق کا ادراک ہوتا ہے، شیخ ایاز سے قبل بھی سندھ میں ترقی پسند ادب کا جدید دور موجود تھا لیکن شیخ ایاز نے اس ترقی پسند ادب کو اپنا چہرہ دیا اور اپنی شناخت دی، شیخ ایاز کی شاعری میں جمالیات کا عروج ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ترقی پسندیت کا نیا اسلوب شامل ہے، انہوں نے کہاکہ لوگ سمجھتے ہیں کہ اردو زبان سندھیوں کے لیے اجنبی زبان ہے لیکن سچل سرمست، مزا قلیچ بیگ اور شیخ ایاز اردو کے بڑے شاعر تھے اور اردو اس خطے میں قیام پاکستان کے قبل بھی موجود تھیں اور سندھی کے بڑے شعراءنے اردو میں بھی شاعری کی ہے انہوں نے کہاکہ شیخ ایاز کا تعلق شکار پور سے تھا اور شکارپور کا برصغیر کے علم و ادب میں بہت بڑا کردار ہے اتنا بڑا کردار ہے کال ماکس نے اپنی کتاب میں تین بار شکار پور کا ذکر کیا، شیخ ایاز کے متعلق خطاب کرتے ہوئے حارث خلیق نے کہاکہ ون یونٹ کے بعد شیخ ایاز نے اردو میں لکھنا چھوڑ دیا تھا جو اردو ادب کے لیے بہت بڑے نقصان کے مترادف ہے، شیخ ایاز صرف سندھی زبان ہی نہیں بلکہ اردو زبان کے بڑے شاعر تھے، اردو کے نقادوں نے شیخ ایاز کے ساتھ بہت بڑی زیادتی کی ہے انہوں نے کہاکہ بڑے تخلیق کاروں کی جڑیں اپنی دھرتی کے اندر مضبوط ہوتی ہیں کیونکہ وہ خود بڑے تناور درخت ہوتے ہیں جن کا سایہ پوری دنیا میں پھیلتا ہے، شیخ ایاز پوری دنیا کے بڑے تخلیق کار تھے وہ بیسویں صدی میں پیدا ضرور ہوئے لیکن تخلیق کاروں کا سفر صدیوں تک محیط ہوتی ہے، شاعروںاور تخلیق کاروں اور ایک دوسرے کے ساتھ مشابہت دینا بہت مشکل کام ہے۔