چار روزہ چودہویں عالمی اردو کانفرنس کا افتتاح ۔ وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ نے کیا۔

چار روزہ چودہویں عالمی اردو کانفرنس کا افتتاح ۔ وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ نے کیا۔

12 دسمبر تک آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں ادیبوں شاعروں اور دانشوروں کا میلہ رہے گا۔

بشیر سدوزئی ۔
=============

2008ء سے آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے کے زیر اہتمام سال بہ سال منعقد ہونے والی عالمی اردو کانفرس سے اردو ادب کی مختلف جہتوں میں ترقی کے مینارے و پیڑ بلند ہوئے ۔ اکناف عالم میں اردو کے ادباء و شعراء کے لیے سحرکاری اور شرکاء خاص طور پر نوجوانوں کے لیے دل کشی کے مناظر دیکھے گئے ۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا یہ کانفرنس بھی ترقی کے ساتھ رنگ بدلتی گئی ۔ اسی سبب مختلف معاشروں میں قائم اردو کی ہر بستی کے دانشور اور ملک میں اردو کی سہلیاں دوسری زبانیں بھی ترقی کے اس سفر میں شامل ہوتی گئیں ۔ علاقائی زبانوں کے صاحب الرائے خواتین و حضرات جوک در جوک اس سے جڑھتے گئے اور پاکستان کی اکائیوں کا ملاپ بھی مضبوط ہوتا گیا ۔ آج یہ اردو کانفرنس پاکستان کی فیڈریشن کی مضبوطی کی علامت بن چکی ۔ مختلف سوچ کے خواتین و حضرات ایک صفحہ پر آئے اور خوشی، خوشی اعلان کرنے لگے کہ اردو ہماری زبان ہے، سندھی، پنجابی ،پشتو بلوچی، سرائیکی اور ملک میں بولی جانے والی دیگر زبانیں اور بولیاں ہم سب کی زبانیں ہیں۔ 2008ء میں تنگ دستی کی حالت میں محض محبت اردو میں لگایا گیا یہ پودا تناور درخت بن چکا ۔ آج جب اس کانفرنس کو ٹین ایجرز میں داخل ہوئے چوتھا برس اور چودہویں کانفرنس شروع ہو چکی تو سماجی ذرائع ابلاغ‘ کے انقلاب نے دنیا بھر میں اس کی اور اس کے خالق و بانی احمد شاہ کی شہرت کے ڈنکے بجا دئے۔ ۔ جیسے یہ کانفرنس عالم شباب پر ہو۔ اچھے برے حالات میں بھی اس کانفرس کا تسلسل کے ساتھ انعقاد ہی دراصل اس کی کامیابی اور اہل علم و دانش کے اعتماد کا مظہر ہے ۔ گزرے تیرا برسوں سے تواتر کے ساتھ منعقد ہونے والی عالمی اردو کانفرنس جب تیرویں سال میں پہنچی تو دنیا وباء کے باعث لاک ڈاون میں تھی۔ کانفرنس کے انعقاد کے حوالے سے منتظرین و منتظمین میں اندیشہ و وسوسے جنم دینے لگے۔ اکثریت تو مایوس ہی تھی کہ ایسے حالات میں جب وباء کی دوسری لہر آب و تاب اور  شدت اختیار کر چکی ، عالمی کیا مقامی کانفرنس کا  انعقاد بھی ممکن نہیں۔ شہر میں اس نوعیت کی دوسری کانفرنسز بھی تو منعقد نہیں ہوئی تھی، جو اسی موسم میں منعقد ہوتی رہی ہیں ۔ جیسے آئیڈیاز 2020، عالمی کتب میلہ، کراچی لٹریچر فیسٹیول اور عالمی مشاعرہ وغیرہ۔ اگر انتظامیہ اس کے انعقاد کا انتظام کر بھی لے تو
ملکی و غیر ملکی  مہمان فضائی سروس کی بندش اور کورونا پابندیوں کے باعث کیسے شرکت کریں گے ۔ لیکن سچ بات تو یہ ہے کہ احمد شاہ کے شناسہ ان تمام گمانوں کے ساتھ یہ بھی سوچتے تھے کہ ماضی میں کئی برس ایسے بھی رہے جب ہر طرف کشت و خون کا بازار گرم اور کانفرنس جاری رہتی۔ شہر گولیوں کی تڑ تڑاہٹ سے گونج  رہا ہوتا ۔آرٹس کونسل کے اندر امن بھائی چارے، دوستی اور محبت کی باتیں ہوتی اور باہر بلا قصور لائشیں گر رہی ہوتی۔ اس سال بھی کوئی راستہ نکل آئے گا اور کانفرنس منعقد ہو گی ۔ پھر احمد شاہ نے سارے خدشوں اور گمان کا خاتمہ کر دیا جب ایک ویڈیو ریلیز میں اعلان کیا کہ اس برس بھی عالمی اردو کانفرنس منعقد ہو گی۔ کانفرنس منعقد ہوئی لیکن فرق اتنا ہوا کہ ہرسال کانفرنس میں شریک ہونے والے مندوبین نے آن لائن  شرکت کی۔ تمام اجلاسوں کو سوشل میڈیا پر براہ راست دکھایا کیا۔ یہ ایک نئی روایت قائم ہو رہی تھی۔ چودھویں عالمی اردو کانفرنس میں بھی اس سے کچھ فوائد حاصل کئے گئے ۔ جمعرات کی شام آرٹس کے آڈیٹوریم 1 میں چودہویں عالمی اردو کانفرنس کا آغاز ہوا جس کے مہمان خصوصی وزیر اعلی مراد علی شاہ اور صدارت کے فرائض معروف دانشور زیرہ نگاہ نے کی۔ زہرہ نگاہ نے مختصر صدارتی خطاب میں کہا کہ احمد شاہ مجھے کسی نہ کسی طرہ صدارتی کرسی پر یہ کہہ کر بیٹھا دیتے ہیں کہ بس آپ ہی باقی رہ گئی ہیں ۔ جو مر گئے نہ اس میں میرا قصور ہے نہ میرے زندہ رہنے میں میرا کوئی کردار ۔ انہوں نے کہا کہ معاشرے میں مسائل تو پیدا ہو گئے لیکن ناامیدی نہیں ہونا چاہیے ۔ انہوں نے فیض احمد فیض کے اس شعر پر گفتگو ختم کی کہ
“دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے” وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ انتہا پسندی کے ماحول کو ختم کرنے کے لیے ادباءاور شعراءبہترین کردار ادا کرسکتے ہیں ہمیں اپنی نوجوان نسل کو کتابوں کے قریب لانا ہوگا، ہر ضلع میں نئی لائبریریاں قائم کی جائیں گی، ادب اور اُردو زبان کے فروغ کے لیے سندھ حکومت ہر ممکن تعاون کرے گی، شعراءاور ادباءکی کہی ہوئی باتیں دیرپااثر رکھتی ہیں، لہٰذا وہ معاشرے میں موجود بگاڑ کو ختم کرنے کے لیے کردار ادا کریں، اس موقع پر صوبائی وزیر ثقافت و تعلیم سید سردار علی شاہ، مشیر وزیراعلیٰ سندھ اور ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وہاب اور صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے بھی خطاب کیا، وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے اپنے خطاب میں مزید کہاکہ عالمی اُردو کانفرنس کا انعقاد 2008ءمیں کیاگیا تھا اور اسی سال سے پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت بھی صوبے سندھ میں موجود ہے، ادبی محافل کے انعقاد اور شعر و ادب کے فروغ کے لیے ہم ان تمام اداروں کے ساتھ کام کرنے کو تیار ہیں جو انتہا پسندی کے ماحول کو ختم کرنے کے لیے ایسی محافل کا انعقاد کرتے ہیں، انہوں نے کہاکہ سیالکوٹ واقعہ سے ہم سب کا دل دہل کر رہ گیا ہے ہمیں سوچنا ہوگا کہ اس طرح کے واقعات سے ہم اپنے بچوں کے ذہنو ں پر کیا اثر چھوڑ رہے ہیں، انہوں نے کہاکہ ایسے ماحول کے خاتمے کے لیے ہم سب کو مل کر جنگ لڑنا ہوگی، ہم میں سے ہر کوئی انتہا پسندی اور تشدد کے خلاف جاری جنگ میں اپنا اپنا بھرپور کردار ادا کرے، انہوں نے کہاکہ بالخصوص ادیب و دانشور حالات کو سازگار بنانے میں انتہائی اہم کردار ادا کرسکتے ہیں، انہوں نے کہاکہ رات کے اوقات میں ٹی وی ٹاک شوز میں ایسے پروگراموں کو بھی شامل کرنا چاہیے جو شعر وادب کے فروغ کا باعث ہوں اور جنہیں دیکھ کر نوجوان نسل میں کتابوں سے محبت اور رغبت پیدا ہو، سوشل میڈیا پر ہمیں ایسے مواد کو پھیلانا چاہیے جس میں نرم اور گداز انداز میں اچھی اور خوبصورت باتیں موجودہ اور آنے والی نسلوں تک پہنچیں، انہوں نے کہاکہ پرنٹ میڈیا کے ساتھ ساتھ الیکٹرانک میڈیا کے آجانے سے یقینا میڈیا طاقت ور ہوا ہے لیکن انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس جدید دور میں بھی پرنٹ میڈیا کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ چھَپی ہوئی اور پڑھی ہوئی بات لوگوں کے اذہان میں رہ جاتی ہے، انہوں نے کہاکہ ادبی فورمز پر پریشر گروپ بننا چاہئیں تاکہ اچھی اور سچائی پر باتیں عام لوگوں تک بھی پہنچ سکیں، قبل ازیں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صوبائی وزیر تعلیم و ثقافت سید سردار علی شاہ نے کہاکہ عالمی اُردو کانفرنس اُردو زبان سے محبت کرنے والوں کے لیے دنیا کا سب سے بڑا میلہ ہے جس کا سہرا آرٹس کونسل کراچی کے صدر احمد شاہ اور ان کی ٹیم کو جاتا ہے، برصغیر میں بولی جانے والی تمام زبانوں نے مل کر اُردو زبان کو جنم دیا ہے، لہٰذا اُردو کے لیے سب سے بڑی آزمائش یہ ہے کہ جن زبانوں نے اُردو کو جوڑا ہے آج اُردو بھی ان زبانوں سے جڑ جائے، ہم جس تہذیب سے تعلق رکھتے ہیں آج اس کے بنیادی عناصر کے سامنے ہمیں بڑے چیلنجز کا سامنا ہے، انتہا پسندی کے طوفان کو روکنے کے لیے ایسی پالیسیاں وضع کرنا ہوں گی جن سے انتہا پسند واقعات کا تدارک ہو اور لوگوں میں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا جذبہ پیدا ہو، انتہا پسندوں سے ڈائیلاگ کرنے کے بجائے ادیب و شعراءسے ڈائیلاگ کیے جائیں اگر پنجاب کو سیالکوٹ جیسے واقعات سے بچنا ہے تو بابا بلھے شاہ، میاں محمد بخش، وارث شاہ، رحمان بابا و دیگر کی شاعر ی کی طرف لوٹنا پڑے گا، انہوں مزید کہاکہ صوبہ سندھ کا معاشرہ اگر آج امن پر قائم ہے تو اس میں سندھ کی ثقافت، شاعری اور کلچر کا بڑا عمل دخل ہے، ہم آج اگر اپنی ثقافت کو محفوظ کرکے بیٹھے ہوئے ہیں تو اس کے پیچھے سچل سائیں اور شاہ لطیف کی سوچ ہے جنہوں نے عملی طور پرانتہا پسندی کے خلاف امن وآتشی کی بات کی ہے، انہوں نے کہاکہ اُردو زبان کو ایک ماں کا رول ادا کرنا ہوگا اور سب زبانوں کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ وزیراعلیٰ سندھ کے مشیر اور ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وہاب نے کہاکہ زبان اور تہذیب کسی بھی معاشرے کا سب سے اہم حصہ ہوتی ہے ہم نے کچھ اور بننے کی کوشش میں اپنی زبان کو بھی بھلا دیا ہے۔ عالمی اُردو کانفرنس ہمارے خوب صورت ماضی کو دوبارہ سے زندہ کرنے میں مدد گار ثابت ہوگی اور ہماری موجودہ اور آنے والی نسلوں کو زبان کی اہمیت سے روشناس کرائے گی۔ بعض لوگوں نے انگریزی سیکھنے کی کوشش میں کچھ اس طرح کے اقدامات کیے کہ نہ ہی وہ انگریزی سیکھ سکے اور نہ ہی انہیں صحیح طریقے سے اُردو بولنا آئی۔ صدر آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی محمد احمد شاہ نے کہاکہ 14سال پہلے جب عالمی اُردو کانفرنس کا پہلی بار انعقاد کیاگیا تھا تو اس وقت حالات بھی ساز گار نہیں تھے اور کچھ ایسے طبقات بھی موجود تھے جو نہیں چاہتے تھے کہ اس طرح کی کانفرنسز کا انعقاد ہو بلکہ وہ چاہتے تھے کہ ہمارا معاشرہ تہذیب و تمدن سے عاری ہوجائے، لیکن ہم نے ان کے عزائم ناکام بنا دیئے۔انہوں نے کہاکہ ہم اسی طرح ہیں جس طرح ایک سپاہی سرحد پر کھڑا رہتا ہے ہم بغیر تنخواہ اور پنشن کے تہذیب و ثقافت کے سپاہی ہیں، انہوں نے کہاکہ کراچی کے ادبی حلقوں کے لیے عالمی اُردو کانفرنس کسی عید سے کم نہیں ہوتی، پاکستان پیپلزپارٹی کی موجودہ صوبائی حکومت نے ثقافت اور تہذیب کو پروان چڑھانے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے بالخصوص وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اور صوبائی وزیر تعلیم و ثقافت سید سردار علی شاہ نے اپنے ہر طرزِ عمل سے ثابت کیا ہے کہ وہ اس صوبے میں امن و آتشی کے فروغ کے لیے اپنے کلچر اور تہذیب کو فروغ دینے میں سب سے آگے ہیں، انہوں نے کہاکہ آج تک سندھ حکومت نے بھرپور مالی امدادی کے باوجود آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کو کبھی اس بات پر پابند نہیں کیا کہ یہاں کون سے پروگرام ہونے چاہئیں یا کون سے نہیں، انہوں نے کہاکہ عالمی اُردو کانفرنس کے انعقاد کا مقصد ہی یہ ہے کہ اس فورم سے ایسے سوال اٹھائے جائیں کہ جن سے ہم سب کو یہ معلوم ہو کہ ہماری تہذیب اور سماج کے ساتھ کیا ہوا ہے۔ یہ ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے جو انتہا پسند، تہذیب اور ثقافت کے دشمن ہیں اور جو اس ملک کے امن کوتار تار کرنا چاہتے ہیںہم ان کے خلاف اپنے قلم اور اپنی مثبت سوچ سے مقابلہ کریں، ادب اور ثقافت سماج کے آئینہ دار ہوتے ہیں اسی لیے ہم مارچ 2022ءمیں قومی ثقافتی کانفرنس کا انعقاد کریں گے۔کیونکہ ہم اس مٹی کے حامی ہیں اور ہم اس کی حفاظت کا فریضہ بھی نبھائیں گے۔اس موقع پر صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کو تیرہویں عالمی اُردو کانفرنس کی کتاب اور پھول بھی پیش کیے۔ اہل علم و دانش نے کہا ہے کہ اُردوزبان کی آواز اور چاشنی ان سب تک پہنچتی ہے جو دل اور احساس رکھتے ہیں، اُردو زبان زبانوں کا معجزہ ہے، تخلیق کاروں کو جس فضاءکی ضرورت ہوتی ہے وہ مکمل طور پر انہیں دستیاب نہیں مگر وہ کسی حد تک اپنے لیے راہ نکال لیتے ہیں، عالمی اُردو کانفرنس کے افتتاحی اجلاس کی صدارت زہرا نگاہ، اسد محمد خان، کشور ناہید، منیزہ ہاشمی، نور الہدیٰ شاہ، یوسف خشک، منور سعید اور بھارت سے آن لائن گوپی چند نارنگ نے کی جبکہ محقق اور ماہرین تعلیم ڈاکٹر جعفر احمد اور ماہر لسانیات ڈاکٹر طارق رحمن نے کلیدی مقالے پیش کیے، افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بھارت سے آن لائن خطاب کرتے ہوئے گوپی چند نارنگ نے کہاکہ ان کی پیدائش پاکستان کی ہے اور ان کی زبان بلوچی اور سرائیکی ہے جبکہ انہیں پشتو بھی آتی ہے، انہوں نے کہاکہ مجھے اُردو کا جادو اورجامع مسجد دہلی کی سڑھیوں کا فیضان بعد میں نصیب ہوا مگر اُردو میرے ڈی این اے میں شامل ہے، انہوں نے کہاکہ اردو زبان میرے لیے راز وں بھرا بستہ ہے اور یہ زبان میرے وجود کا حصہ بنتی چلی گئی ہے، انہوں نے کہاکہ یہ خطہ زبان کے معاملے میں بہت زرخیز ہے اتنی زیادہ زبانیں کہیں اور نہیں بولی جاتیں جو اس خطے میں بولی جاتی ہےں، انہوں نے کہاکہ اردو جیسی زبان اور شیرینی جس میں عربی اور فارسی کی لطافت اور شائستگی کے ساتھ ساتھ ہماری مٹی کی خوشبو بھی موجود ہے اُردو زبان میں ہماری دھرتی کی آوازیں سنائی دیتی ہیں، عربی اور فارسی کے لفظ اُردو زبان میں جس طرح سے گھل مل گئے ہیں اس سے اُردو زبان کی خوبصورتی مزید بڑھ گئی ہے، ماہر تعلیم اور محقق ڈاکٹر جعفر احمد نے کہاکہ اُردو اور تہذیب کے باہمی تعلق کی صورت حال نے ادب کی پرورش کی ہے اور اس سے ہمار اکلچر بھی بہتر ہوا ہے، انہوں نے کہاکہ اس وقت کلچر کی وسعت کم ہو رہی ہے، ہم اپنے کلچر کا جشن ایسے حالات میں منا رہے ہیں جو ہمارے لیے موافق نہیں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہم ان وجوہات پر بھی نظر رکھیں کہ جن کیاریوں میں ادب کے پھول کھلتے ہیں اس میں عدم برداشت کا زہریلا پانی کس تیزی سے چھوڑا جارہا ہے، انہوں نے کہاکہ ادب کی دنیا میں تنقید کے معیار بدلتے رہتے ہیں ہمارے ہاں مختلف مکاتب فکر ہر دور میں موجود رہے ہیں جو ادب کے کاررواں کو آگے بڑھانے کا ذریعے بنے ہیں، کلچر کی کشادگی ادب کے لیے ناگزیر ہے، انہوں نے کہاکہ افکار کی کوئی سرحد نہیں ہوتی کسی بھی دفتر میں ادب کی شرائط طے نہیں ہوسکتیں بلکہ یہ ادیب کے دل کی بارگاہ میں رجسٹرڈ ہوتی ہیں، ڈاکٹر طارق رحمن نے کہاکہ اُردو ہماری قومی زبان ہے لیکن ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ دیگر علاقائی زبانوں کو بھی قومی زبان کا درجہ دیا جائے، انہوں نے کہاکہ اردو زبان کبھی کبھی غلبے والی زبان کی طرح بھی ہوتی ہے مگر جب دیگر زبانوں کی بات کی جاتی ہے کہ اردو غلبے والی زبان ہی کہلاتی ہے، انہوں نے کہاکہ اردو زبان کی وسعت اور کشادگی اپنی جگہ مگر دیگر مقامی زبانوں کو بھی اہمیت دیتے ہوئے ہمیں اپنے ساتھ آگے لے کر چلنے اور انہیں فروغ دینے کی ضرورت ہے تاکہ وہ بھی اُردو زبان کی طرح قومی زبان کا درجہ حاصل کریں، صدر نشیں زہرا نگاہ نے اس امید کا اظہار کیا کہ اگر آج حالات شعر وسخن اور تہذیب و تمدن کے لیے سازگار نہیں ہیں تو اس طرح کی کانفرنسز اور اہل قلم کی جانب سے کی جانے والی کوششوں کی بدولت وہ وقت بھی آئے گا کہ جب معاشرہ بدلے گا ،سماج کروٹ لے گا اور ہم دیکھیں گے کہ عدم برداشت کی جگہ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے جذبات پیدا ہوچکے ہوں گے اس موقع پر سیکریٹری آرٹس کونسل پروفیسر اعجاز احمد فاروقی نے اظہارِ تشکر کیا جبکہ افتتاحی اجلاس کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر ہما میر نے انجام دیے۔