آج کی ڈراما انڈسٹری میں پروفیشنل ازم کی کمی ہے،چینلز اور لکھنے والے زیادہ اور مقابلہ سخت ہے۔-معروف ڈراما نگار صائمہ اکرم چوہدری کی گفتگو


انٹرویو: یاسمین طہٰ
—————–
آج کی ڈراما انڈسٹری میں پروفیشنل ازم کی کمی ہے،چینلز اور لکھنے والے زیادہ اور مقابلہ سخت ہے۔
پی ٹی وی کے دور میں کوئی مقابلہ نہیں تھا۔واحد چینل تھا اسی چینل کو دیکھنا ہماری مجبوری تھی
پی ٹی وی معیار کے لحاظ سے آج بھی وہیں کھڑا ہے جہاں ہم اسے اپنے بچپن میں چھوڑ آئے تھے
معروف ڈراما نگار صائمہ اکرم چوہدری کی گفتگو
پراؤیٹ ڈراما چینلز کی آمد کے ساتھ ہی پاکستان میں بیشمار ڈرامے بنائے جارہے ہین اور ان ڈراموں پر سب سے ذیادہ اعتراض یہ کیا جارہا ہے کہ یہ یکسانیت کا شکار ہیں۔اور ان کی بہتات ڈراموں کے معیار کو متاثر کررہی ہے۔ایکسٹرا میریٹل افئرز اور دو بہنوں کا ایک ہی لڑکے کو پسند کرنا ڈراما نگاروں کا پسندیدہ موضوع بن گیا ہے اور کامیڈی ڈراموں کے نام پر پھکڑ پن عام ہے۔ایسے میں سنو چندا چپکے چپکے اور عشق جلیبی جیسے کامیڈی سیریلز کی بے پناہ کامیابی خوش آئند ہے کہ ناظرین بہتر اسکرپٹ کو قبول عام کی سند دے رہے ہیں۔ڈراما رائٹرز کی بھیڑ میں ان سیریلز کی رائٹر صائمہ اکرم چوہدری اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہوچکی ہیں۔صائمہ نے بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے میڈیا سائنس میں ماسٹرز کیا 1994 سے اپنے اسکول کے زمانے سے ہی بچوں کیلئے لکھنا شروع کیااور بچوں کے رسالے نونہال تعلیم و تربیت اور ماہنامہ پھول میں ان کی کہانیاں شائع ہوتی رہی اور بچوں کیلئے تحریر پر ایوارڈ بھی حاصل کیے پاکیزہ ڈائجسٹ کی مدیرہ انجم نثار نے افسانہ نگاری کی طرف مائل کیا۔ پاکیزہ میں افسانوں اور ناولوں پر تبصرے لکھتی تھی اور ایک تبصرہ نگار کی حیثیت سے اپنی پہچان بنالی تھی اور انھیں بہترین تبصرہ نگار کا ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔ان کا پہلا افسانہ تتلی راستہ بھول گئی حنا ڈائجسٹ میں شائع ہوا اس کے بعد پاکیزہ شعاع اور خواتین ڈائجسٹ کیلئے افسانے اور ناول لکھنا شروع کیے 2013 میں اپنا پہلا ڈرامہ لکھا۔اوصاف سے ان کے انٹرویو کی تفصیل کچھ اس طرح ہے۔


اوصاف:ڈرامہ لکھنے کا خیال کس طرح آیا
صائمہ اکرم: پروڈیوسر بابر جاوید نے جیو میں ڈائجسٹ نگاروں کو ڈرامہ لکھنے کی دعوت دی میری کچھ ساتھی افسانہ نگار فائزہ افتخار اور رفعت نذیر کو دیکھ کر مجھے خیال آیا کہ مجھے بھی ڈرامہ لکھنا چاہیئے 2013میں میں نے ہم ٹی اور جیو کو اپنے دو ڈراموں کے آئیڈیاز بھیجے اور مجھے ہم ٹی وی کی جانب سے دونوں آئیڈیاز پر ڈرامہ لکھنے کی دعوت دی گئی میرا پہلا ڈرامہ تھا محبت اب نہیں ہوگی جو 2014 میں ہم ٹی وی سے دکھایا گیا اور یہ ڈرامہ کامیاب ہوا
اوصاف:آپ کی پہچان ایک مزاحیہ ڈرامہ نگار کی بن چکی ہے،مزاح لکھنا کب سے شروع کیا
صائمہ اکرم: مزاح نگاری کی جانب میں سنو چندا سیریل سے آئی اس سے قبل سنجیدہ ڈرامے ہی لکھے جن میں میرا درد نہ جانے کوئی، عنایا تمہاری ہوئی،میرے اجنبی،کیسی عورت ہوں میں اور آدھی گواہی شامل ہیں


اوصاف:جن کرداروں کو آپ ڈراموں میں بتاتی ہیں کیا آپ کے ذہن میں اس حوالے سے مخصوص اداکار موجود ہوتا ہے جو یہ کردار ادا کرے۔
صائمہ اکرم:جی ہاں جب ہم ڈرامہ لکھتے ہیں تو ابتدا میں ہی ہمارے ذہن میں کرداروں کے ساتھ اداکار ذہن میں آنے لگتے ہیں اور بار بار لکھتے وقت ان کا چہرہ بھی ذہن میں آتا ہے بعض اوقات ہم یہ مشورہ بھی دیتے ہیں کہ اس کیریکٹر کیلئے اس اداکار کو لیں گے لیکن بعض اوقات وہ اداکار اپنی مصروفیت کے سبب یہ رول ادا نہیں کرپاتے پھر ان کا متبادل لے کر ڈرامہ بنایا جاتا ہے جب میں نے چپکے چپکے سیریل لکھا تھا تو میرے ذہن میں ہیروئن کیلئے سجل علی کا نام تھا کیونکہ یہ ایک کم عمر لڑکی کا رول تھا لیکن سجل ان دنوں بہت بزی تھی اس لیئے یہ رول آئزہ خان نے کیا۔
اوصاف:ایک اچھے ڈرامے کی کامیابی کا کریڈیٹ پروڈیوسر کو ملنا چاہیء یا ڈرامہ نگار کو
صائمہ اکرم:کوئی بھی سیریل ہٹ ہوتا ہے تو اس کے پیچھے پورا ٹیم ورک ہوتا ہے اگر آپ نے بہت اچھا اسکرپٹ لکھا ہے اور ڈائریکٹر نے اس کے ساتھ انصاف نہیں کیا تو وہ ڈرامہ برباد ہوجائے گا اسی طرح کمزور اسکرپٹ کو بھی اچھا ڈائریکٹر نہیں سنبھال سکتا کہانی اداکار اور ہدایت کار مل کر کسی بھی سیریل کو کامیاب بناتے ہیں
اوصاف:آپ کے ساتھ ایسا ہوا ہے کہ ااپ کا بہت اچھا اسکرپٹ کسی ڈائریکٹر نے برباد کردیا ہو
صائمہ اکرم:جی ہاں بالکل ہوا ہے لیکن میں پروڈیوسر کا نام نہیں بتاؤں گی دوتین اسکرپٹ میرے دل کے قریب تھے جن کی کاسٹنگ غلط کی گئی اور ڈرامہ برباد ہوگیا ہمارے ہاں مسئلہ یہ ہے کہ ڈائریکٹر اسکرپٹ نہیں پڑھتے وہ اپنے اسسٹنٹ کو اسکرپٹ تھمادیتے ہیں۔جب تک ڈائریکٹر اسکرپٹ اچھی طرح نہیں پڑھے گا وہ سین کو اچھی طرح نہیں کرپائے گا اس طرح کے مسائل ہمارے ڈراموں کو کمزور کر رہے ہیں
اوصاف:کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے ہاں پروفیشنلا زم کی کمی ہے سنا ہے کہ اکثر اوقات چھوٹے چھوٹے سین کی ریکارڈنگ پورے دن جاری رہتی ہے
صائمہ اکرم:اس کا اصل سبب یہ ہے کہ ہماری اسٹار کاسٹ تھوڑا سا مسئلہ پیدا کرتی ہے کیونکہ اسٹار کاسٹ ہی دیر سے آئے گی تو چھوٹا موٹا کردار ادا کرنے والا تو اس کے انتظار میں بیٹھا ہی ہوگا ہمارے ہاں پروفیشنل ازم کی کمی ہے اس سے سپورٹنگ کاسٹ کو بہت مسئلے ہوتے ہیں کیونکہ بعض اوقات بڑے اداکار یا اداکارہ دیر سے آکر شوٹنگ نہ کرنے کا بھی کہہ دیتے ہیں جس سے جو سپورٹنگ کاسٹ جو صبح سے ان کے انتظار میں بیٹھی ہوتی ہے وہ سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہے
اوصاف:آج کل ہر چینل سے بے تحاشہ ڈرامہ دکھایا جارہا ہے کیا ڈراموں کی بہتات کوالٹی کو متاثر کر رہی ہے
صائمہ اکرم:جی ہاں بہت زیادہ متاثر کر رہی ہے جب ایک سیریل ہٹ ہوجاتا ہے تو باقی تمام چینل اس سے ملتے جلتے سیریل بناتے ہیں جب میرا سیریل سنو چندا بہت ہٹ ہوتا تو دو برس تک مجھ سے اسی طرح کا سیریل لکھنے کی فرمائش کی گئی بلکہ ایک چینل تو سنو چندا کی پوری نقل بناکر پیش کی۔
اوصاف:ڈراموں میں یکسانیت بڑھتی جارہی ہے دو بہنوں کا ایک لڑکے کے پیچھے جانا اور شادی شدہ عورتوں کے افیئرز دکھائے جارہے ہیں جس پر لوگوں کو تحفظات ہیں جب عوام کو اس طرح کے ٹاپک پر اعتراض ہیں تو اس طرح کے ڈرامے کیوں بنائے جارہے ہیں
صائمہ اکرم:ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جو ڈرامہ ہٹ ہوتا ہے اس کو عوام ہی تو کامیابی سے ہمکنار کرتی ہے جب ایک غلط ٹاپک پر بنا ڈرامہ ہٹ ہوجاتا ہے اور آپ اس کو ریٹنگ دیتے ہیں تو پھر آپ پروڈکشن ہاؤس کی اس کی طرف مائل کر رہے ہں کہ ایسے سیریل بنائے جائیں جب تک ہماری عوام اس طرح کے سیریل کو دیکھنا نہیں چھوڑے کی یہ مسئلہ چلتا رہے گا
اوصاف:گزشتہ دنوں انور مقصود نے موجودہ ڈرامہ رائٹرز کے حوالے سے ایک بیان دیا ہے کہ آج کل کے ڈرامے پستی کا شکار ہیں اس پر آپ کی کیا رائے ہے۔
صائمہ اکرم:انور مقصود صاحب کی میں بہت بڑی فین ہوں وہ ایک بہترین رائٹر ہیں جب بہت زیادہ ڈرامے بن رہے ہوتے ہیں تو ان میں مقابلہ ہوتا ہے اور لوگوں کو معلوم ہوتا ہے کہ کونسا ڈرامہ اچھا ہے اور کونسا برا۔پی ٹی وی کے دور میں کوئی مقابلہ نہیں ہوتا تھا کیونکہ وہ واحد چینل تھا ہماری مجبوری تھی کہ ہمیں اسی چینل کو دیکھنا ہوتا تھا اس دور میں اگر کچھ چینل ہوتے تو یہ ضروری نہیں تھا کہ پی ٹی وی کے ڈراموں کو بھی وہ پذیرائی ملتی اس وقت بھی پی ٹی وی موجود ہے وہ ایسے ڈرامے کیوں نہیں بناتا جو ماضی میں اس کی پہچان تھے،آج کل لوگ پی ٹی وی کیوں نہیں دیکھتے
اوصاف:پی ٹی وی کے ناظرین کی کمی کی کیا وجوہات ہیں
صائمہ اکرم:دراصل پی ٹی وی کو دیکھ کر اب بھی ایسا لگتا ہے کہ ہم 1980 کا پی ٹی وی دیکھ رہے ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے اب تک اپنے آپ کو زمانے کے لحاظ سے نہیں ڈھالا ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پی ٹی وی اب بھی وہیں کھڑا ہے جہاں ہم اسے اپنے بچپن میں چھوڑ آئے تھے۔ جب سینئر رائٹرز آج کل کے رائٹرز پر تنقید کرتے ہیں تو میں معذرت کے ساتھ یہ کہوں گی کہ اس دور میں اگر چینلز ہوتے اور بہت رائیٹرز کو لکھنے کا موقع ملتا تو پھر حالات مختلف ہوتے اور منظر نامہ مختلف ہوتا آج کل چینلز بھی زیادہ ہیں لکھنے والے بھی زیادہ اور مقابلہ بھی سخت ہے۔
ہائی لائٹ
جب ایک نامناسب موضوع پر بنا ڈرامہ ہٹ ہوجاتا ہے اور ناظرین اس کو ریٹنگ دیتے ہیں تو پھر آپ پروڈکشن ہاؤس کی اس کی طرف مائل کر رہے ہں کہ ایسے سیریل بنائے جائیں جب تک ہماری عوام اس طرح کے سیریل کو دیکھنا نہیں چھوڑے کی یہ مسئلہ چلتا رہے گا