ری بلڈ کراچی کانفرنس

یاسمین طہٰ
==================
متحدہ ایک بار پھر وفاق سے ناراض۔سندھ حکومت اور وفاق آٹے کی قیمتوں پر آمنے سامنے
شہری مسائل پر جماعت اسلامی کی ری بلڈ کراچی کانفرنس
چار دن کی چاندنی،اور پھر۔۔۔۔چند دنوں کی رفاقت کے بعد متحدہ ایک بار پھر وفاق سے ناراض ہوگئی ہے،اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے انتخابی اصلاحات پر اعتماد میں نہ لینے پر وفاقی حکومت سے ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ایم کیو ایم پاکستان نے وفاقی حکومت کی جانب سے مسلسل نظر انداز کیے جانے پر رابطہ کمیٹی کا اجلاس طلب کرنے کا فیصلہ کیا جبکہ تمام اراکین اسمبلی اور سینیٹرز کو فوری کراچی پہنچنے کی ہدایت کردی ہے۔ذرائع کے مطابق ایم کیو ایم نے حکومت کی حالیہ پالیسیوں پر کارکنان کو اعتماد میں لینے کے لیے جنرل ورکرز اجلاس طلب کرنے اور عوام میں جانے کا فیصلہ کیا ہے۔دوسری جانب وزیراعظم عمران خان نے ایم کیو ایم کے شکوے کو جائز قرار دیتے ہوئے انتخابی اصلاحات پر اعتماد میں لینے کی یقین دہانی کرائی ہے۔واضع رہے کہ متحدہ قومی موومنٹ کے وفد نے گذشتہ دنوں وزیر اعظم سے ملاقات کی تھی اور اس موقع پر شرکاء نے اتفاق کیاتھا کہ کہا کہ حکومت اور اتحادی جماعتیں مل کر سندھ اور بالخصوص کراچی کی ترقی کیلئے موثر کردار ادا کر رہی ہیں۔ادھر سندھ حکومت کو پریشر میں لانے کے لئے متحدہ رہنما وسیم اختر نے ایک بار پھر نئے صوبے کا مطالبہ کردیا ہے۔یہ مطالبہ انھوں نے حیدرآباد میں منعقدہ ایک پریس کانفرنس میں کیا ان کا کہنا تھا کہ مذید صوبوں کے قیام سے ملک ترقی کرے گا انھوں نے سندھ حکومت پر40 لاکھ جعلی ڈومیسائل بنوانے کا الزام بھی لگایا جس کے تحت اندرون سندھ سے شہریوں کو کراچی اور حیدرآباد تعینات کیا گیا ہے ۔ شنید ہے کہ پاکستان تحریک انصاف سندھ میں غوث علی شاہ کو پارٹی کا سربراہ بنانے جارہی ہے اور انھیں ارباب غلام رحیم کے ساتھ مل کر صوبے میں پی پی پی کے ناراض رہنماؤٓں کو پارٹی میں شامل کرنے ٹاسک دیا گیا ہے۔سندھ حکومت اور آئی جی سندھ میں ایک بار پھر نیا تنازع سامنے آگیا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ تنازع وزیر اعلیٰ کے پی ایس او فرخ بشیر کی ترقی نہ ہونے پر ہوا،اور مراد علی شاہ کو یہ بتایا گیا ہے کہ فرخ بشیر کی ترقی نہ ہونے کے ذمے دار آئی جی سندھ ہیں۔یاد رہے کہ اس سے قبل بھی چار آئی جی سے سندھ حکومت کے تنازعات شروع ہوئے اوران چاروں کے تبادلے ہوگئے۔صوبائی وزیر برائے محکمہ آبپاشی جام خان شورو کی ہدایات پر محکمہ آبپاشی سندھ کے سیکریٹری سہیل احمد قریشی نے چیئرمین ارسا کو 30 ستمبرکو منعقد کیے جانے والے ایڈوائزری کمیٹی کے اجلاس کے حوالے سے خط ارسال کرکے انہیں اعتراضات سے آگاہ کیا ہے۔ خط میں کہا گیا کہ وفاقی حکومت کوارسا کو پانی معاہدہ 1991 پر سختی سے عملدرآمد کروانے کیلئے موثر اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ معاہدہ کے مطابق پنجاب 48.92 فیصد، سندھ 42.7 فیصد، بلوچستان 3.38 فیصد اور کے پی کے5.05 فیصد حصے کا پانی انڈس واٹر سے لے رہے ہیں، 42.7فیصد کا پانی حصہ رکھنے والے صوبہ سندھ کو اس کے جائز حصے سے الگ نہیں رکھا جاسکتا۔ ارسا کو ان حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے صوبہ سندھ اور دیگرصوبوں کے مابین ہم آہنگی پیدا کرنے کیلئے پانی ایشوز پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔سندھ حکومت وفاق سے پانی کے مسئلے پر مستقل ناراض ہے تو وفاق کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت گندم کی ذخیرہ اندوزی میں ملوث ہے جس کی وجہ سے سندھ مین دیگر صوبوں کی نسبت آٹے کی قیمت بڑھ رہی ہے ۔گورنرسندھ عمران اسماعیل نے کہا ہے کہ یہ پروپیگنڈہ کیا جارہاہے کہ عمران خان مہنگائی بڑھارہے ہیں، جب کہ پنجاب میں 55روپے کلوآٹا اور سندھ میں 74روپے کلو مل رہاہے۔ انہوں نے کہا کہ آٹے کی مہنگی فراہمی کی ذمہ دارسندھ حکومت ہے۔ دوسری جانب صوبائی وزیر سندھ مکیش چاؤلہ نے گورنر سندھ کے بیان کو انکی لاعلمی قرار دیا۔انھوں نے کہا کہ سندھ حکومت ہرسال 15اکتوبر کو ہی گندم ریلیز کرتی ہے۔انھوں نے امید ظاہر کی کہ گندم کے ریلیز ہوتے ہی سندھ میں آٹے کی قیمتوں میں نمایاں کمی آئیگی۔وفاق کے بس منصوبوں کے بعد وزیر ٹرانسپورٹ سندھ اویس قادر شاہ نے کراچی میں انٹرا سٹی بس منصوبہ جلد شروع کرنے کا اعلان کیا ہے، محکمہ ٹرانسپورٹ پہلے مرحلے میں کراچی کے سات روٹس پر بسیں چلائے گا۔اور 250 ڈیزل ہائبرڈ بسوں کی خریداری کے لئے تمام مراحل مکمل کرلئے گئے ہیں جو آئندہ 4 ماہ میں پہنچ جائیں گی۔جماعت اسلامی کے تحت کراچی میں پانی،بجلی،ٹرانسپورٹ سمیت دیگر شہری مسائل اور ا ن کے حل کے حوالے سے ری بلڈ کراچی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔جس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ ماہرین نے کراچی کے مسائل کے حل کے حوالے سے اظہار خیال کیا۔حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ ری بلڈ کراچی کانفرنس کا مقصد یہی ہے کہ کہ آئینی طور پر کراچی میں بااختیار شہری حکومت قائم کی جائے،اور فوری طور پر بلدیاتی انتخابات کروائے جائیں،جب جعلی مردم شماری پر قومی وصوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوسکتے ہیں تو بلدیاتی انتخابات کیوں نہیں کروائے جاتے؟