دل” ہمارے لئے کتنااہم ہے

کالم:ثناء اللہ گھمن

“دل “اپناہویادوسروں کا،دونوں کاہی خیال رکھناچاہیے،پاکستان سمیت دنیابھر میں ہرسال 29ستمبرکو”ورلڈ ہارٹ ڈے”سے منسوب کیاجاتاہے،جوہمیں اس بات کی یاد دلاتاہے کہ” دل” ہمارے لئے کتنااہم ہے،جس طرح کسی بھی ملک کے لئے صحت مند قوم اس کی بنیادتصور کیے جاتے ہیں،اسی طرح “صحت منددل “کے بنازندگی ممکن نہیں،لہذا اپنے اوراپنوں کے دل کاخاص خیال رکھیں،تاکہ پرسکون زندگی بسر ہوسکے،لیکن افسوس سے کہناپڑتاہے کہ عام افراددل،اس سے جڑی بیماریوں اوراس کی وجہ بننے والے عوامل سے کافی حدتک لاعلم ہیں،جن سے متعلق اداروں کے ساتھ حکومتی سطح پر آگہی کی اشدضرورت ہے،یہ فریضہ پاکستان نیشنل ہارٹ ایسوسی ایشن (پناہ) گزشتہ 37سال سے سرانجام دے رہاہے تاکہ دل کی حفاظت اعلی بنیادوں پرکی جاسکے۔
صحت انسان کابنیادی حق اورکسی بھی حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہوتاہے،صحت مند زندگی کے لیے سادہ و متوازن غذا،چہل قدمی اورورزش کاانتخاب نہایت ضروری ہے،صحت قدرت کابیش قیمت عطیہ ہے،جس کی قدرکرکے ہم اس نعمت کاشکربجالاسکتے ہیں،اوراگرقدرنہیں کرینگے،توخود کوبیماریوں کی طرف دھکیل دینگے۔
ورلڈ ہارٹ ڈے کاتاریخی پس منظرکااگرجائزہ لیاجائے تویہ دن ہر سال 29 ستمبر کو منایا جاتا ہے، جس کا مقصد دل کی بیماریوں کے بارے میں آگاہی دینااوراس کے منفی اثرات پر قابو پانا ہے،1999 میں ورلڈ ہارٹ فیڈریشن کے صدر انتونی بایس ڈی لونا(Antoni Bayés de Luna)نے اس کا تصور پیش کیا،اس کی پہلی تقریب 24 ستمبر 2000منعقدہوئی اوراس طرح سے طے پایاکہ ورلڈ ہارٹ ڈے ہرسال ستمبر کے آخری اتوار کو منایا جائے گا،لیکن پاکستان نیشنل ہارٹ ایسوسی ایشن (پناہ) یہ کام 1984سے سرانجام دے رہی ہے۔
لیکن فقط ورلڈ ہارٹ ڈے منانے سے کچھ نہیں ہوتا،اس موقع پرجومعلومات فراہم کی جاتی ہیں اگران پرعمل نہ کیاجائے تومان لیں کہ آپ نے خود کوبیمارکرنے کی ٹھان لی ہے،26جنوری2021میں آغاخان یونیورسٹی میں سالانہ قلبی کانفرنس منعقد ہوئی،جس میں بتایاگیاکہ پاکستان میں درمیانی عمر کے چار میں سے ایک بالغ فرد دل کی بیماریوں میں مبتلا ہے جو کہ ملک میں اموات کی سب سے بڑی وجہ ہے، مرد اور عورتیں دل کی بیماریوں کی نشوونما کے لیے یکساں طور پر حساس ہیں،دل کی بیماریاں صرف مردوں کوہی نہیں،بلکہ خواتین کوبھی یکساں طور پرمتاثرکرتی ہیں، دل کی بیماری کی وجہ سے مرنے یا شدید بیمار ہونے کا خطرہ زیادہ تر خواتین میں ہوتاہے،جس کی بنیادی وجہ بروقت تشخیص یاعلاج کانہ ہوناہے،، ذیابیطس میں مبتلا خواتین ذیابیطس والے مردوں کے مقابلے میں قلبی امراض سے مرنے کا زیادہ امکان رکھتی ہیں،دل کے امراض سے متعلق بتائے جانے والے اعدادوشمارپریشان کن ہیں ،اورسب سے بڑی پریشانی کی بات یہ ہے کہ آج پاکستان میں ہر دوسرے منٹ میں ایک آدمی کوہارٹ اٹیک ہورہاہے،50فیصد اموات 40سے 50سال کی عمر میں ہوتی ہیں،جوایک پروڈکٹیوعمر کہلاتی ہے،اگران پر بروقت قابونہ پایاگیا،تودل سے جڑے امراض میں نہ صرف اضافہ ہوگا،بلکہ معاشی ومعاشرتی مسائل بھی بڑھیں گے۔
پاکستان میں امراض قلب کی ماہرخواتین ڈاکٹرز کی بھی کمی ہے،پاکستان میں صرف 60 خواتین ڈاکٹرزماہرامراض قلب میں شمار کی جاتی ہیں،صحت کی دیکھ بھال کے نظام کی مختلف سطحوں پر خواتین میں دل کی بیماریوں کے بارے میں آگاہی کا فقدان اور خواتین ماہرین کی کمی کے ساتھ بروقت دیکھ بھال کے خواہاں مریضوں کے لیے نقصان دہ ہے،جس پرسوچ بچار کی نہایت ضرورت ہے۔
11 جون 2021کوعالمی ادارہ صحت(ڈبلیوایچ او)نے قلبی امراض کو عالمی سطح پر اموات کی سب سے بڑی وجہ قراردیا،ایک اندازے کے مطابق 2019 میں دل کے امراض سے 17.9 ملین افراد ہلاک ہوئے جو کہ تمام عالمی اموات کا 32 فیصد ہے۔ ان میں سے 85 فیصد اموات دل کے دورے اور فالج کی وجہ سے ہوئیں،دل کے امراض کی وجہ سے تین چوتھائی سے زائد اموات کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں ہوتی ہیں،اگرتمباکو کا استعمال، غیر صحت بخش غذا،میٹھے مشروبات(ایس ایس بی)کواپنی زندگی سے ترک کردیاجائے،تودل،فالج،موٹاپاسمیت متعدد خطرناک امراض کاشکارہونے سے کافی حد تک بچا جا سکتا ہے۔
بڑوں کے ساتھ بچے بھی دل کے امراض میں مبتلاہیں،پاکستان چلڈرن ہارٹ فاؤنڈیشن کے مطابق پاکستان میں ہر سال تقریبا 60 ہزار بچے دل کے امراض کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں، اور ان بچوں کی ایک بڑی تعداد معاشی وسائل کی کمی کے باعث علاج ومعالجہ کی سہولیات سے قاصرہیں۔
دل کے امراض اوران کاعلاج اپنی جگہ،لیکن دل کے امراض کی وجہ بننے والے عوامل کی اگربروقت روک تھام کرلی جائے،توہم دل کے ہاتھوں اپنے پیاروں کوموت کے منہ میں جانے سے روک سکتے ہیں۔پناہ کاپیغام ہے کہ متوازن غذا کااستعمال کریں،مناسب ورزش کریں،سگریٹ نوشی اورمیٹھے مشروبات (ایس ایس بی) سے پرہیزکریں،تاکہ ذہنی تناؤسے دور رہیں اورآپ کادل توانارہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔